وجود

... loading ...

وجود

فقر اور حضرت اقبالؒ کے افکار

هفته 14 جنوری 2017 فقر اور حضرت اقبالؒ کے افکار

چیست فقر اے بندگان آب وگل
یک نگاہ راہ بیں، یک زندہ دل
(اے دنیا کے غلامو جانتے ہو کہ فقر کیا ہے۔ ایک نگاہ جو صحیح راستہ دیکھ لے۔ ایک دل جو اللہ کی محبت سے زندہ ہو)
فقر ذوق و شوق و تسلیم و رضا ست
ما امینیم ایں متا ع مصطفیٰﷺ است
( فقر ذوق و شوق اور تسلیم و رضا کی کیفیت ہے۔صرف ہماری ہی نہیں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی متاع بھی یہی ہے)
بے پراں را ذوق پروازے دہد
پشہ راہ تمکین شہبازے دہد
( فقر پروں سے عاری ( بے عمل ) لوگوں میں پرواز کا ذوق پیدا کر دیتا۔ ہے، اور مچھر کو شہباز کا سا وقار اور زور عطا کر تا ہے۔)
با سلاطیں در فتد مردِ فقیر
از شکوہِ بوریا لرزد سریر
( فقیر، سلطانوں کے مقابلے میں کھڑا ہو جاتا ہے۔ بوریے کی عظمت اور دبدبہ سے تو تخت لرز جاتا ہے۔)
اسلام کا قلعہ ۔۔۔اور اِس میں بسنے والوں کی حالت۔ حلال و حرام کی تمیز ختم، ہوس کی دوڑ ایسی کہ رُکنے کا نام نہیں لے پا رہی، جو کچھ بالائی طبقہ کرتا ہے وہ کچھ پھر معاشرے کا نچلا طبقہ کرنا شروع کر دیتا ہے ۔ گویا حکمرانوں کی نقالی عوام اپنے اوپر فرض کر لیتی ہے ۔زنا ،شراب ،جوا عروج پر ۔ بدیانتی اتنی کہ جس جس کی جو ذمہ داری ہے و ہ اُسے پورا نہیں کر رہا۔حتیٰ کہ گدھے کا گوشت کتے کا گوشت تک کھلایا جارہا ہے۔ جب رشوت عام ہوگی، سفارش کے بغیر کوئی کام نہیں ہوگا تو پھر حالات نے تو ایسا ہی ہونا ہے۔ کہ ہر شعبے میں لوٹ سیل لگی ہوئی ہے، بوڑھوں کے لیے اولڈہوم کھل گئے ہیں۔ طلاقوں کی شرح اتنی زیادہ کہ خدا کی پناہ۔۔۔کیااِس لیے لاکھوں جانیں قربان ہوئیں ؟ اِس لیے بچے ییتم ہوئے ،اِس لیے عصمتیں لُٹیں؟نبی پاکﷺ کے حکم پر بننے والے اسلام کے قلعے کا حلیہ ایسا بنا دیا گیا ہے کہ ہر طرف شر ہی شر۔دیانت شرافت، ایمان غائب۔ قتل وغارت عروج پر۔گلی محلے میں پھرنے والے آوارہ کتے جن کا کام صرف بھونکنا ہی ہوتا ہے لیکن وہ بھی اُس شخص کا خیال رکھتے ہیں جواُن کو پیار سے چمکارتا ہے جو کچھ کھانے کے لیے کبھی کبھار پھینک دیتا ہے۔مگر ہائے انسان !! غربت میں اپنوں کے بھی مزاج بدل جاتے ہیں ،رشتے تو وہی ہوتے ہیں مگر رواج بدل جاتے ہیں۔شب ، شب ظلمت کا روپ دھار لیتی ہے، سحر بے نور ہوجاتی ہے، وفاء کے کھیل میں جب دولت آجائے تو پھر وفا اور جفا کے انداز بدل جاتے ہیں۔ عشق کے رستے پہ چلنا دشوار لگتا ہے، دوستی کے معیار بدل جاتے ہیں،دولت کا جادو اتنا سر چڑھ کے بولتا ہے کہ بس۔اے میرے رب تمام خطا کاروں کی یہ التجا سن لے۔
جفا کے اندھیروں میں
وفا کے دیپ جلانا ہے
خاکستر ہونا اور پھرخود کو مٹانا ہے
روح کی تازگی کھوئی ہے مدتوں سے
چارہ گر کو یہ دکھ بتانا ہے
آوارگی نے جو مزاج بدلا ہے
اُسے راہِ سخن پہ لانا ہے
شنوائی کا امتحان بڑا صبر آزما ہے
خود بھی رونا اور اُسے بھی رُلانا ہے ۔
درد سے آشنائی کچھ پا کر نہیں، کچھ کھو کر ہوتی ہے۔ جسے ہم کھونا سمجھتے ہیں وہ پانا ہوتا ہے، جسے پا کر ہم نہا ل ہورہے ہوتے ہیں ،وہی تو سب کچھ کھونا ہوتا ہے۔درد لالچ، بے سکونی کی موت اور بے نیازی کی دولت کا نام ہے کہ بندہ بھی اپنے خالق کی طرح بے نیاز ہو جاتا ہے۔وہ مادیت سے دور اور روحانیت سے قریب ہو جاتا ہے۔ انسانی مزاج بھی بہت حد تک متنوع ہے۔ اِس میں جہاں شگفتگی کی انتہاء دکھائی دیتی ہے۔قربانی اور اخلاص کا عظیم پہاڑ بن جاتا ہے۔ اپنے خون کا ایک ایک قطرہ محبت و آگاہی کے در پہ نچوڑ کے رکھ دیتا ہے اور زندگی کی ہر رفعت کو محبوب کی عظمت کے سامنے ہیچ گردانتا ہے۔لیکن جب اِسی مزاج کے برہم ہونے کی باری آتی ہے تو سارے تصوراتی محل زمین بوس ہوجاتے ہیں، اور زندگی جہنم سے بھی بدتر محسوس ہوتی ہے۔انسانی جبلت میں خالق نے یہ شے رکھ چھوڑی ہے کہ دُشمن جان وقت کے ساتھ غم گسار بن جاتے ہیں اور غم گسار جانی دُشمن کا روپ دھار لیتے ہیں۔اِس انسانی رویے کے پیچھے جو عامل کار فرما ہے وہ یہ کہ انسان کو اپنی حقیقت سے آگاہی نہیں ہو پاتی۔ جو انسان خود کو پہچان لیتا ہے تو اُس کو اپنے اردگرد میں ہونے والی تمام تر حرکات و سکنات کا ادراک رہتا ہے۔اور اپنے سے متعلق افراد کے رویوں کے سلوک کا اعتدال کے ساتھ سامنا کرتا ہے۔ اگر تو انسان کو اپنی اصل کی سمجھ آجاتی ہے تو پھر اُسے یہ ادراک ہو جاتا ہے کہ ہر لمحہ اُسکے پائوں کے نیچے زندگی کی ساعتیں کم کرتا جارہا ہے اور یہ زندگی دل لگانے والی جگہ نہیں ہے یہ تو بس ایک پڑاؤ ہے ۔خواہ اِسے صحرا تصور کر لیا جائے اور بے شک اِس زندگی کو نخلستان سمجھا جائے۔انسانی ادراک انسان کو اُس کی معراج پہ پہنچا تا ہے۔ اِسی ادراک کی بنا پر اویس قرنیؓ بنا جاتا ہے۔ بلال حبشیؓ کا اعزاز ملتا ہے اور اِس ادراک کے پیچھے فیضان کارفرما ہوتا ہے۔ اور اِسی لیے تو خالق فرماتا ہے کہ ہدایت اُس کے لیے ہی ہے صرف جسے خالق نوازتا ہے۔امکانات کی دُنیا ہے یہ ،جو جو ہو رہا ہوتا ہے وہ وہ اپنا راستہ بنائے جارہا ہے۔اِس لیے ہونا ہی درحقیقت رد عمل کی ابتداء ہے ۔اِسی سے تعمیر اور تخریب دونوں کا ظہور ہوتا ہے۔اِسی طرح محبت جفا اور وفا کے جذبوں کو اِیسی تمازت سے نوازتی ہے کہ من کی دنیا اور تن کی دنیا ایک جیسی ہوجانے کا رد عمل شروع ہوجاتا ہے۔ہر ہر امکانی صورت کے پیچھے ایسی ہی سرگرمی ہوتی ہے جس سے راستے منفی اور مثبت دونوں میں کسی رُخ پہ گامزن ہو جاتے ہیں۔ روح کی تشنگی کی حدت نے یہ فیصلہ کروانا ہوتا ہے کہ عشق کی آگ میں ڈوبنا ہے یا عقل کی راہوں کا مسافر بننا ہے۔راہی کی منزل کا پتہ اُس کے طور اطوار دے ر ہے ہوتے ہیں۔جس طرح ماں کو اِس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ اُس کا بیٹا اُس کو چاہتا ہے یا نہیں، اُس نے تو صرف چاہنا ہوتا ہے یہ سب کچھ تو اُس کی جبلت میں ہے۔ماں نے محبتیں شمار نہیں کرنا ہوتیں۔ محبتیں شمار تو وہ کرے جسکو کوئی طمع ہو۔ خالق بھی نوازتا چلا جاتا ہے ،اُسے بھی جو خالق کو اپنا رب مانتا ہے اور اُسے بھی جو خالق کو نہیں مانتا۔ خالق کی محبت ماں کی محبت سے ستر گُنا سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن خالق کی عطا سے فیض یاب ہونے کے لیے ایسے راستے کا تعین کرنا پڑتا ہے جس کی منزل عشق ہو،خالی عقل کسی کام کی نہیں۔ خالق نے تو کائنات کی تخلیق بھی صر ف اپنے محبوب بندے نبی پاکﷺ کی خاطر کی۔ خالق اپنے ہی تخلیق کردہ پیغمبر اعظم و نبیِ آخرﷺ کا محب ہے۔امام عالی مقام حضرت امام حسین ؓ کا پنا سرکٹوانا، بلا ل حبشیؓ کا ریت پر جلنا، اویس قرنیؓ کا اپنے دانت مبارک خود اپنے ہاتھو ں سے شھید کرنا۔غازی علم دین،ؒ غازی ممتاز قادری کا پھانسی پہ جھول جانا۔من کی دولت سارے امکانات کو اپنے تابع لے جاتی ہے، جب جب عشق کی لو کی تمازتیں اپنی حدت سے ـ”میں” کو میں نہیں رہنے دیتی،پھر سب تُو ہی تُو ہوجاتا ہے۔
٭٭


متعلقہ خبریں


پاکستان کا پہلا قومی ترانہ اور حافظِ اقبال ؒ انوار حسین حقی - جمعرات 10 نومبر 2016

یومِ اقبال ؒ کے موقع پر آدھے پاکستان میں تعطیل تھی اور آدھے پاکستان میں کارِ سرکارکی انجام دہی کا سلسلہ جاری رہا ۔معاملہ چھُٹی کا نہیں وابستگی اور دلبستگی کا ہے ۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار نے ’’ یومِ اقبال ‘‘ کی چھٹی کے لیے اپنے حضور پیش کی جانے والی سمری مسترد کردی تھی ۔ گزشتہ سال ...

پاکستان کا پہلا قومی ترانہ اور حافظِ اقبال ؒ

دیدہ ور وجود - بدھ 09 نومبر 2016

تحریر:ڈاکٹر نبی بخش بلوچ ان کی آنکھ بینا تھی‘ ذہن بیدار تھا اور فکر عالمگیر تھی۔ علامہ اقبال اپنے وسیع مطالعے‘ فکری تجربے اور ذہنی مشاہدے سے صحیح معنوں میں ’دیدہ ور‘ کی منزل پر پہنچ چکے تھے۔ وہ اس حقیقت سے آشنا تھے کہ اس مختصر کُروی زندگی کی آموزش گاہ میں فیضیاب ہوکر’دیدہ ور‘ ...

دیدہ ور

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر