... loading ...
فوربز کے سب سے زیادہ کمانے والے 20 اداکاروں کی فہرست میں شامل شاہ رخ خان نے کہا ہے کہ “لوگ پہلے پیسے کمائیں ، پھر فلسفی بنیں۔ ” جاوید ہاشمی اْلٹ کر بیٹھے، پہلے فلسفی بن گئے اب پیسے کمانے کی فکر میں ہیں۔اداکار نے یہ بھی کہا کہ غربت میں کوئی رومانویت نہیں۔ زندگی کے تعلق سے جو بات غربت کے بارے میں کہی جاتی ہے وہ سیاست کے تعلق سے سچ کے بارے میں کہی جاسکتی ہے۔ سیاست میں سچائی کو کوئی رومانوی حیثیت حاصل نہیں۔ مگر جاوید ہاشمی اسی میں رومانویت پیدا کرنے کے چکروں میں پڑ گئے ہیں۔
آج کل حملہ کوئی بھی ہو، خود کش کہلانے لگتا ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ اس طرح آدمی تحقیقات کی جھنجھٹ سے بچ جاتا ہے۔ یوں حملہ آور بھی مر جاتا ہے اور اْس کے ساتھ تحقیقات بھی مرنے لگتی ہے۔ مگر سیاست کا خودکش حملہ آور زندہ تورہتا ہے مگر مْردوں سے بدتر زندگی جیتا ہے۔ یقین نہ آئے تو جاوید ہاشمی کو دیکھ لیجئے،یقین کرنا پڑتا ہے کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہے۔جاوید ہاشمی کسی جگہ جانے سے پہلے وہاں سے باہر آنے کا منصوبہ بناتے ہیں۔ یار لوگ اِسے پرانے زمانے کے کالج کی لڑائیوں کا اسٹائل کہتے ہیں جس میں طلبہ کا ایک گروہ دوسرے پر حملہ آور ہونے سے پہلے یہ سوچا کرتا تھا کہ جوابی حملے کی صورت میں بھاگنا کہاں سے ہے؟جاوید ہاشمی بھی کچھ ایسے ہی “بہادر”ثابت ہوئے ہیں ، وہ جس سیاسی جماعت میں جاتے ہیں وہاں سے بھاگنے کی تیاری پہلے کر لیتے ہیں۔چنانچہ اْنہیں دیکھ کر اب سوال یہ نہیں ہوتا کہ کب آئے؟ بلکہ یہ پوچھا جاتا ہے کہ جائیں گے کب اور کہاں؟ اب اس سوال کا سامنا اْنہیں سماجی زندگی میں بھی ہے۔جس کے اثرات خود اْن کی اپنی زندگی پر بھی پڑ رہے ہیں۔
جاوید ہاشمی اپنے آپ کو باغی اور تحریک انصاف کے رہنما اْنہیں داغی کہتے ہیں۔ اشتہار میں جس صابن سے داغ دْھلتے ہیں وہ سیاسی لباس پرکام نہیں دکھاتا۔ اس لیے جاوید ہاشمی صابن اور داغ دونوں کی ہی پروا نہیں کرتے۔ اس بے پروائی میں وہ جو کچھ کرتے ہیں اْسے وہ باغی کی کارروائی کہتے ہیں۔ یہ کارروائی بھی پولیس کی کارروائی کی طرح ہے۔ جس پر کسی اور کو تو کیا خود پولیس کو بھی بھروسا نہیں ہوتا۔کبھی روایت سے ہٹ کر کام کرنے والا انقلابی کہلاتا تھا اب باغی کہلاتا ہے۔ اس سے اندازا لگا یا جاسکتا ہے کہ کام کیسا ہوتا ہوگا کہ اْسے بیان کرنے کے لیے لفظ بھی بغاوت کرنے لگا۔
جاوید ہاشمی مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کے حوالے سے جو شکایتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں اْس سے روسی کہاوت کی عورت یاد آتی ہے جس نے کہا تھاکہ ” میں جب بہو تھی تو مجھے ساس اچھی نہیں ملی اور جب ساس بنی تو بہو اچھی نہیں ملی”۔ روسی کہاوت کی “عورت” چھوڑیئے جاوید ہاشمی نے سیاست مردانہ وار کی ہے۔ یہ الگ بات کہ بعض مردوں میں شکایتیں کرتے ہوئے تھوڑا سا “زنانہ پن” بھی جھلکنے لگتا ہے۔ اس سے قطع نظر جاوید ہاشمی کا معاملہ بیچارے دو بیویوں کے شوہر والاہے۔ یعنی دونوں جگہوں سے” بھوکا “رہتا ہے۔ پہلے والی سمجھ رہی ہوتی ہے کہ دوسری کے گھر سے کھا لے گا۔ اور دوسری سمجھتی ہے کہ پہلی کے گھر سے کھا لے گا۔ اب جاوید ہاشمی بھی تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون کے درمیان اسی طرح پھنس کر رہ گئے ہیں کہ “کھانا ” کہیں سے نہیں مل رہا۔ ایک دوسری اور دوسری اْنہیں پہلی کا اسیر سمجھتی ہے اور اْن سے وہی سلوک کر رہی ہیں جو دو بیویاں اکلوتے شوہر کے ساتھ کرتی ہیں۔ مسلم لیگ نون اْن کی پہلی بیوی تھی۔ یہ خاصی مرد مار قسم کی بیوی نکلی اور بیچارے جاوید ہاشمی خاصے “بیچارے” شوہر نکلے۔ اْنہیں تحریک انصاف کے بیاہ سے روکنے اور مسلم لیگ نون کو طلاق سے روکنے کے لیے خود خاتون ِ اول یعنی محترمہ کلثوم نواز خواجہ سعد رفیق کے گھر آئی تھیں جہاں موصوف نوبیاہتا تحریک انصاف کے پاس جانے سے پہلے کچھ دیر کے لیے قیام کرنے رْکے تھے۔تب سمجھا یہ جارہا تھا کہ اس نئی شادی کے شہ بالا خواجہ سعد رفیق ہیں۔ مگر وہ اپنی پہلی شادی پر قانع اور تازہ گناہ کے لیے اپنی نوائے آتشیں کے حلقہ بہ حلقہ جسم میں اْٹھنے پر خو دکو سنبھالتے رہے۔ جب سے آج تک وہ مسلم لیگ نون میں تازہ دم ،تازہ گناہ کیساتھ خو د کو سنبھال نہیں پارہے۔ مگر جاوید ہاشمی کا معاملہ مختلف نکلا۔ وہی، نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم والا معاملہ!!!
جاوید ہاشمی اب کہتے ہیں کہ عمران خان نے کہاتھا کہ وہ خود جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور کوئی بھی تبدیلی فوج کے ذریعینہیں بلکہ عدالت عظمیٰ سے آئے گی۔ کیس عدالت جائے گا اور پھر وہاں جو بھی منصف ہوگا۔ وہ اپنا”انصاف” کر گزرے گا۔ کر لیا جائے گا۔ پاکستان کاسب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں خبروں سے زیادہ افواہوں پر یقین کیا جاتا ہے۔ اس لیے لوگ خبروں سے زیادہ افواہوں کو پھیلانے پر یقین رکھتے ہیں۔ جاوید ہاشمی نے جن محترم منصف کے متعلق یہ باتیں کی ہیں اْنہوں نے عملاً سارے فیصلے اْن کے بیان کے برخلاف کیے۔مگر جاوید ہاشمی کی بات پھر بھی منہ سینکل کر کوٹھوں چڑھ رہی ہے۔ عمران خان نے اس پر ردِ عمل دیتے ہوئے کہا کہ بھئی اْن کا دماغ خراب ہے۔ اس پر جاوید ہاشمی نے دماغ کے بجائے جسم کے کسی اور حصے کو نشانہ بنا یا اور کہا کہ میرا اور اْن کا ڈوپ ٹیسٹ کر الیا جائے۔ جاوید ہاشمی کے اس ردِ عمل سے پہلی دفعہ ہمیں بھی لگا کہ عمران خان شاید صحیح کہہ رہے ہیں۔
٭٭