وجود

... loading ...

وجود

کتابیں کیا بولتی ہیں؟

بدھ 11 جنوری 2017 کتابیں کیا بولتی ہیں؟

لاہورمیں بہت سی بری چیزوں کے ساتھ ایک اچھی بات بھی ہوئی ہے وہ یہ کہ شہر کے سب سے مہنگے ترین علاقے ، مین بلیوارڈ گلبرگ، پر کتابوں کی ایک غیر معمولی کتاب کا ظہور ہوا ہے ۔ ریڈنگز نامی اس کتب فروش کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہاں پر کتاب کے مصنف کا تعارف ، پیش لفظ پڑھ کر کتاب کو ’چکھنے ‘ کی سہولت بھی دستیاب ہے۔ یعنی اگر آپ کسی کتاب کو’اچھی طرح‘ دیکھ بھال کر خریدنا چاہتے ہیں تو آپ کو کتابوں کی شلیف کے پاس ہی کرسی اور قالین کی ’سہولت ‘دستیاب ہے، بشرطیکہ آپ کتابوں کی الماریوں کے درمیان سے گزرنے والی اپنی طرح کی دیگر مخلوق کی راہ میں حائل نہ ہوں ۔
کتابوں کی اس بہت بڑی دُکان کے اندر چائے خانہ بھی موجود ہے جہاں سے آپ چائے یا کافی کے کپ سے اپنے جسم میں کم ہوتی کیفین یا شوگر کالیول بھی پورا کر سکتے ہیں۔ اس ہفتے کچھ گھنٹے وہاں پر صرف کرنے کا اتفاق ہوا۔ ادب اور فکشن کو چھوڑیں ، حالاتِ حاضرہ کے موضوع پر لکھی گئی ،تازہ ترین کتب کی ورق گردانی کا ’’غیر آئینی‘‘ حق ہم نے خوب خوب استعمال کیا۔ کوئی ڈیڑھ درجن بھر کتب کی ورق گردانی کے بعد ایک بات خوفناک جھماکے سے ہمارے ذہن میں کوندگئی۔
حالاتِ حاضرہ کی جتنی بھی تازہ ترین کتابیں بیرونِ ملک سے چھپ کر یہاں تک پہنچی یا پہنچائی گئی تھیں، اُن میں ایک بات مشترک تھی اور وہ یہ کہ ’’پاکستان ایک ناکام ریاست ہے، اس کے تمام ادارے باہم دست و گریبان ہیں، نظام نام کی کوئی چیز نہیں، اقتصادی اشاریے تباہی وبربادی کے مظہرہیں،کوئی دن جاتا ہے کہ یہ ملک دھڑام سے گرجائے گا‘‘ (خاکم بدہن) ۔ اس طرح کی بیشتر کتب چٹی چمڑی والے گورے مصنفین نے لکھ رکھی تھیں۔
ایک گوری چمڑی والے صحافی کا قصہ سن لیں ، باقی بھی کم و بیش ایسے ہی تھے ۔ موصوف رائٹرز نیوز ایجنسی کے نئی دہلی کے بیوروچیف رہے اور واپس جا کر اُنہوںنے پاکستان کے سیاسی ،معاشرتی اور معاشی معاملات پر یہ کتاب لکھ ماری۔ اس پوری کتاب میں وہی بیانیہ تھا جو بھارتی مصنفین اور صحافی چباتے نظر آتے ہیں۔ ہم کلامی کا دورہ پڑ گیااور خود سے مکالمہ شروع کیا۔ کسی بھی معاشرے پر قلم اٹھانے سے پہلے، اور اس کے معاشرتی اختلاف پر سیر حاصل گفتگو کرکے ان سے نتائج اخذ کرنے کے لئے آپ کو اس معاشرے کے تمام طبقات کے نمائندہ لوگوں سے سیر حاصل گفتگو کرنا ہوتی ہے، ان کے درمیان رہنا ہوتا ہے، ان کو محسوس کرنا ہوتا ہے۔ چند سو الفاظ کی لکھی ہوئی روز کی ایک آدھ خبر کو نئی دہلی میں بیٹھ کر ایڈٹ کرنا ،اور خود کو اسلام آباد کے معاملات کا طرم خان سمجھ لینا ،کہاں کی عقل مندی یا پیشہ ورانہ دیانت ہے؟
اس گورے نے ’’پاکستان ایک شکست خوردہ ریاست ‘‘پر کتاب لکھ ماری ، اس نے کتاب کے آغاز میں ہی یہ بتانا ضروری خیال کیا کہ وہ کوئی دودرجن مرتبہ ہی پاکستان کے ’دورے‘ پر گیا تھا اور بھی اپنے پیشہ ورانہ دورے پر یا پھر کسی اسائمنٹ پر۔اتنے مختصر دوروں میں وہ میرے ملک اور اس کے لوگوں کا کتنا ایک مطالعہ کر پایا ہوگا؟ کتاب کے صفحات گنے اور پھر اس شخص کے (اسکے اپنے بیان کے مطابق) نئی دہلی قیام کے دن گنے، اس ناطے اگر وہ روزانہ اٹھارہ پیج لکھے، کوئی چھٹی نہ کرے ، کوئی ناغہ نہ کرے تو پھر اس کتاب کی تحریر ممکن تھی، دھت تیرے کی ۔ لیکن گورے کو شرم نہیں آئی ۔کیا کریںدنیا بھر میں ایسے ہی چلتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ سرحد کے دونوں اطراف خفیہ ادارے ایک ہی طرح رو بہ عمل ہیں۔ ہمارے ہاں اسلام آباد کے ایک نڈر اور بے باک صحافی کو امریکیوں کی ایبٹ آباد میں سرجیکل اسٹرائیک کے فوراً بعد ایک کتاب نما کتابچے کا ہیضہ ہوا تھا۔ شاید کسی نے یہ انگریزی مسودہ تھما دیا ہو؟ اس کا موضوع تھا ’’ایبٹ آباد آپریشن‘‘۔ مختصر سی کتاب ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالی، پوری کتاب میں سے بس ایک ہی نکتہ سمجھ میں آیا جو شاید مصنف سے ثابت بھی کروایا گیا کہ الشیخ اسامہ بن لادن کی امریکیوں کو جاسوسی کرنے والے پاک فوج کے دو نہیں بلکہ ایک کرنل رینک کا (ریٹائرڈ) ا فسر تھا ، جس نے یہ خفیہ اطلاعات اسلام آباد میں نہیں بلکہ دبئی میں امریکیوں کو فراہم کی تھیں جس کے بدلے اُسے اور اس کے پورے خاندان کو خصوصی طور پر فوراً ہی امریکی شہریت سے نواز دیا گیا(اور شاید موصوف اس کے بعد پاک سرزمین پر واپس نہیں لوٹے) ۔ پوری کتاب کاایک ہی مطلب تھا کہ ہم سے یہ مطالبہ بھی نہ کیا جائے کہ ادارے کے نظم و ضبط کی دھجیاں بکھیرنے ، اور اس کے راز دشمن کو فراہم کرنے (یعنی غداری کرنے) کے باوجود اس افسر کی واپسی اور کورٹ مارشل کیا جائے۔ کیوں کہ اگرجرم کا ارتکاب پاکستان کی سرزمین پر ہونا ثابت ہو جاتا تو پھر اس کو واپس لا کر اس کے کورٹ مارشل کا مطالبہ ہو سکتا تھا ۔
اس کے علاوہ ’’بازارِ حسن سے سیاست تک‘‘ نامی کتاب جو ہمارے سیاستدانوں کی کردار کشی کے لیے لکھوا کر ایک صحافی کے نام سے چھپوائی گئی، وہ بھی اسی طرح کی ایک کارروائی تھی۔ میاں نوازشریف کے اثاثوں کے بارے میں ایک کتاب بھی ہمارے لاہور کے ایک صحافی دوست نے انہی ذرائع پر انحصار کرکے لکھی اور کتاب اس قدر ’معتبر ‘ تھی کہ جب پاناما کیس میں ثبو ت کے طور پر عدالتِ عظمیٰ میں جمع کروائی گئی تو عدالت نے طوطے مینا کی کہانی کہہ کر اس کے صفحات پر پکوڑے رکھ کر بیچنے کا مشورہ دے دیا۔
لیکن وہ کیا ہے کہ ہمارے اداروں کا سارا زور ہمیں دبانے ، تمام تر حرکتوں اور جرائم میں شریکِ جرم ہونے کے باوجود خود کو ریاست کے تمام معاملات سے مبرا اور ماورا ثابت کرنے پر صرف ہوتا ہے۔جب کہ ہمسایہ ملک کے ادارے اپنے ملک کی پالیسی کو اپنی پالیسی سمجھتے ہوئے اسے بڑھاوادینے میں مصروف رہتے ہیں۔یہ وہ جوہری فرق ہے جو ہمیں ہر جگہ پر نظر آتا ہے۔
عائشہ صدیقہ کو ملٹری ان کارپوریٹڈ لکھنے کے لئے ایک سال کا وظیفہ اور امریکا میں بیٹھ کر تحقیق کرنے کی سہولتوں کی فراہمی امریکیوں نے کی، اور پھر محترمہ عائشہ صدیقہ صاحبہ کی کتاب سامنے آ گئی۔ ہمارے جرنیلوں کی کرتوتوں کے بارے میںہمارے خیالات عالیہ سے آپ بخوبی آگاہ ہیں (ان کی مہربانی ہے کہ وہ برداشت بھی کرتے ہیں) لیکن اپنی فوج پر تنقید میرا حق ہے، میں یہ اپنا حق خود استعمال کرنا چاہوں گا، اگر میں اس کام کے کسی سے پیسے پکڑ لوں تو پھر تو مجھے خواہ نہ خواہ پیسے دینے والے کی خواہش کا احترام کرنا پڑے گا۔پتہ نہیں کیوں مجھے یہ اچھا نہیں لگا کہ پاک فوج کی انڈسٹریل ایمپائر پرامریکی تعاون سے کتاب لکھی گئی۔ اس کا یہ مطلب قطعاً نہ لیا جائے کہ خاکسار فوج کے مالیاتی معاملا ت میں دھماچوکڑی کا حامی ہے۔بلکہ میں اسے پاکستانی معاشرے کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتاہوں۔
میں اپنے ان خیالات سے اس وقت چونکا جب ایک ’’کسی جین‘‘میں ملبوس خاتون نے پاس سے کندھا مارکے گزرنا ضروری خیا ل کیا۔ اس جیسی مخلوق کی اس کتابوں کی دُکان میں اکثریت تھی، اس نسل کو اردو نہیں آتی اس میں ان کا کوئی قصور نہیں کہ ا سٹیٹس کے مارے ان کے والدین نے ان کو اپنی زبان سے نابلد رکھا۔لیکن اصل جرم یہ ہے کہ طبقہ اشرافیہ کے یہ برائلر اکثر ان کتابوں کے حوالے ایسے دیتے ہیں جیسے چوزے آج کل دھڑادھڑ نشوونما پاتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے ارد گرد رو بہ عمل (جیسے تیسے ) نظام کی موجودگی سے انکاری ہوتے ہیں اور اپنے معاشرے کوان کتابوں میں بیان کردہ بیانیوں کی عینک کے ذریعے دیکھتے ہیں اور عام لوگوں کے (جن سے ان کا ربط ضبط خال خال ہی ہوتا ہے) سامنے انہی بدیسی بیانیوں کے داعی رہتے ہیں۔ اس پر مزید یہ ظلم کہ کسی نہ کسی طور ہمارے سرکاری و غیر سرکاری معاملات کوچلانے میں یہ لوگ کسی نہ کسی طور پر خوامخواہ دخیل ہوجاتے ہیں۔ تو پھر وہ ویسی ہی باتیں کرتے پائے جاتے ہیں جیسی آج کل بلاول بھٹو زرداری کرتے پائے جاتے ہیں۔
میںیہ سوچتے ہوئے واپس مڑا ، میرے دونوں بچوں نے کاونٹر پراپنی پسند کی کتابوں کے ڈھیر لگا رکھے تھے، جن میں بہرحال کچھ کتابیں ایسی تھیں جن کو پڑھنے کا مجھ میں جگرا نہیں تھا، بل کے لئے اپنا کریڈٹ کارڈ کاونٹر کی طرف بیٹھے سیلزمین کودیتے ہوئے اس بات کا بہرحال دکھ تھا کہ اردو ادب، فکشن اور شاعری کی کوئی ایک کتاب، سستی ہونے کے باوجود ، ان کے چناؤ میں جگہ نہیں پاسکی تھی۔ میں نے خود سے منہ چھپا کر پتہ نہیں کن بوجھل قدموں سے گاڑی تک کا سفر طے کیا اور ڈرائیونگ سیٹ پر ڈھیر ہو گیا۔
٭٭


متعلقہ خبریں


کتاب شناسی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک فن وجود - هفته 17 دسمبر 2016

’’حافظ شیرازی کا یہ مصرعہ ؎فراغتے وکتابے وگوشہ چمنے‘‘ہر اس شخص کے حافظے کا جز ہے جسے کتابوں سے تعلق ہے، مشہورعربی شاعر متنبی کے شعر کا مصرعہ ہے:’’وخیر جلیس فی الزمان کتاب‘‘ یعنی زمانے میں سب سے بہتر ہم نشیں کتاب ہے۔ قلم اور کتاب کی اہمیت یہ ہے کہ قرآن مجید میں قلم اور کتاب کی ق...

کتاب شناسی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک فن

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر