... loading ...
نسیم ولا میں دن اچھے گزر رہے تھے۔ ایک دن باتوں کے دوران ہم نے کہا لگتا ہے ریاض میں کوئی گھومنے کی جگہ نہیں ہے ،ہوتی تو ہم لوگ وہاں کا چکر لگا آتے، نسیم کے علاقے میں جہاں ہمارا ولا تھا وہاں ہمیں نہ تو کوئی پارک نظر آیا تھا نہ کوئی اور ایسی جگہ جہاں آپ تفریح کے لیے جا سکیں۔ سنیما گھر تو پورے سعودی عرب میں ایک بھی نہیں ہے۔ کہیں کہیں فٹ بال کا گراؤنڈ نظر آجاتا ہے جہاں اچھے موسم میں وطنی نوجوان فٹ بال کھیلتے نظر آتے ہیں لیکن اجنبیوں یعنی غیر ملکیوں کا داخلہ وہاں ممنوع ہوتا ہے، خیر بات کہیں تفریح کے لیے جانے کی ہو رہی تھی۔ علی نے بتایا کہ ریاض کے قریب ایک جگہ ہے جہاں ہزاروں سال پہلے شہاب ثاقب گرنے کی وجہ سے ایک گہرا گڑھا پڑ گیا ہے لوگ وہ دیکھنے کے لیے جاتے ہیں ہمیں بھی وہاں جانا چاہیے۔ شہاب ثاقب آسمان سے گرنے والے چھوٹے بڑے پتھر ہوتے ہیں جو زمین کی فضائی حدود میں داخل ہوتے ہیں تو ان میں آگ لگ جاتی ہے۔ زمین سے یہ منظر بڑا دلفریب لگتا ہے، لوگوں کو ٹوٹے ہوئے تارے دیکھنا اچھا لگتا ہے۔ ہر رات ہزاروں شہاب ثاقب زمین کی فضائی حدود میں داخل ہوتے ہیں، ان میں سے 99.99فیصد راستے ہی میں جل کر راکھ بن جاتے ہیں اور زمین کی سطح سے نہیں ٹکراتے۔ لیکن ان شہاب ثاقب کی جو اعشاریہ ایک فیصد تعداد زمین پر گرتی ہے وہ بڑے نقصان پہنچانے کے لیے کافی ہے۔ آج سے کروڑوں سال قبل اس دنیا پر دیو ہیکل جانوروں کی حکمرانی تھی اور ڈائنو سار جیسے جانور جنگلوں اور میدانوں پر اپنا رعب جما کر رکھتے تھے لیکن پھر ان ڈائنوسارز کی نسل ایسی ختم ہوئی کہ ان کا نام و نشاں بھی نہ رہا۔ سائنس دان اس کی وجہ جاننے کے لیے کوشاں ہیں اور اب ایک نئی تحقیق میں ان کا دعوی ہے کہ ڈائینوسارز کی نسل آسمان سے گرنے والے بہت بڑے شہاب ثاقب کی وجہ سے ختم ہوئی تھی۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ میکسیکو کے جنگل میں موجود انتہائی بڑا قدیم گڑھا 6 کروڑ سال قبل بہت بڑے شہاب ثاقب کے گرنے سے پڑا تھا اور اس کے ٹکرانے سے اس وقت اس خطے پر موجود ڈائنو سار اور دیگر مخلوق ہلاک ہوگئی، سوال یہ ہے کہ کیا واقعی شہاب ثاقب زمین سے ٹکرانے سے اتنا بڑا دھماکا ہو سکتا ہے جس سے دو براعظموں پر موجود تمام مخلوق ختم ہوجائے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس شہاب ثاقب کے گرنے کا اثرہیرو شیما پر گرانے جانے والے ایٹم بم سے بھی کئی لاکھ گنا زیادہ تھا جس نے پوری زمین کو گرد اور مٹی کی چادر میں لپیٹ دیا جس سے زمین پر گھومنے والے بڑے جانور جیسے ڈائنو سار کی نسل ختم ہوگئی جبکہ اس نے زمین کی ساخت اوراس کے ماحول پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔
آٹھ فروری2016کو بھارتی ریاست تامل ناڈو میں کالج کیمپس کی بس پر شہاب ثاقب گرنے سے ایک شخص ہلاک اور تین زخمی ہوگئے۔شدید نوعیت کے دھماکے سے وہاں ایک گڑھا بھی پڑ گیا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق بھارت میں پچھلے دو سو سالوں میں پہلی بار اس نوعیت کا کوئی واقعہ پیش آیا ۔ ریاض شہرکے قریب کسی شہاب ثاقب سے بنے گڑھے کی موجودگی یقینا دلچسپ بات تھی اور ہمارا وہاں جانا بنتا تھا ،تفریح کی تفریح ہو جاتی اور ایک مطالعاتی دورہ مفت میں ہو جاتا۔ اگلے جمعے علی کا ایک دوست گاڑی لے آیا اور ہم چاروں نماز کے بعد اس کے ساتھ الخرج کے لیے روانہ ہو گئے۔ الخرج ریاض سے جنوب میں77کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔الخرج میں ہم لوگ اس جگہ پہنچے جہاں کسی زمانے میں شہاب ثاقب گرنے سے گہرا گڑھا پڑ گیا تھا ،یہ بہت بڑے کنویں جیسا گڑھا تھا جس کی گہرائی میں پانی بھی نظر آرہا تھا،مقامی طور پر اس جگہ کو عیون السیح کہا جاتا ہے۔ یہاں قدیم زمانے کے کھنڈرات بھی موجود تھے۔ اس گہرے گڑھے سے پانی نکالنے کے لیے انتظام رہا ہوگا ،اس کی باقیات بھی موجود تھیں۔ ایک غار نما راستے سے اس جگہ پہنچا جا سکتا تھا جہاں سے اس گڑھے میں جھانکا جا سکتا تھا لیکن یہ بہت دل گردے کا کام تھا اور ہم میں سے کسی کی ہمت کنارے سے جا کر نیچے جھانکنے کی نہیں ہوئی۔۔ کچھ دیر وہاں گزار کر ہم لوگ الخرج شہر پہنچے جہاں سے کھانا کھانے کے بعد ریاض واپسی کی راہ لی۔۔۔۔ جاری ہے
٭٭
سیمی خوش مزاج آدمی تھا اس کے ساتھ کام کرنا اچھا تجربہ ثابت ہوا تھا اس کے مقابلے میں یہ نیا انچارج شنکر کمار بہت بد دماغ اور بداخلاق واقع ہوا تھا۔ ہماری پہلے ہی دن سے اس سے ٹھن گئی ، مشکل یہ تھی کہ وہ نیا تھا اور ابھی اسے کام سمجھنا تھا اس لئے وہ ہم سے زیادہ بدتمیزی نہیں کرسکتا تھ...
سیمی کو گئے کئی مہینے ہو گئے تھے اس کی واپسی کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا، اس کا کام بھی ہمارے زمے ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے کام کی تھکن بڑھتی جا رہی تھی۔ کئی بار کام کی زیادتی کی وجہ سے ہمیں دیر تک رکنا پڑتا تھا۔ ہمیں سیمی کا بھی کام کرنے کی وجہ سے کوئی مالی فائدہ بھی نہیں مل رہا تھا...
اگلے روز یعنی جمعے کو ہم عزیزیہ کے ایک پاکستانی ہوٹل میں ناشتہ کرنے کے بعد مکہ شریف کے لیے روانہ ہوئے، جدہ حدود حرم سے باہرحِل کی حدود میں ہے۔ حرم شریف اور میقات کے درمیان کے علاقے کو حِل کہا جاتا ہے اس علاقے میں خود سے اگے درخت کو کاٹنا اور جانور کا شکار کرنا حلال ہے جبکہ اس علا...
ہمارے دوست اظہار عالم کافی عرصے سے جدہ میں مقیم تھے ہم نے عمرہ پر روانگی سے پہلے انہیں فون کرکے اپنی ا?مد کی اطلاع دیدی تھی، طے ہوا تھا کہ وہ جمعرات کو صبح دس بجے باب فہد کے سامنے ایک بینک کے پاس پہچیں گے۔ ہم ساڑھے نو بجے جا کر اس بینک کے سامنے جا کر کھڑے ہوگئے۔ وہاں کافی لوگ موج...
مکہ المکرمہ سے مدینہ شریف کا فاصلہ تقریبا ساڑھے چار سو کلومیٹر ہے، راستے بھر مشہور نعت مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ ذہن میں گونجتی رہی، ہماری آنکھیں سارے راستے پُر نم رہیں۔ مدینے کا راستہ محبت کی معراج کا وہ راستہ ہے جس پر بڑے بڑے صحابہ ، علما، صوفیہ اور بزرگان دین نے...
صبح فجر سے پہلے ہماری بس مکہ مکرمہ کے ہوٹل پہنچ گئی، دل میں عجب سی ہلچل مچی ہوئی تھی، کعبہ شریف کے اس قدر قریب ہونیکا احساس جیسے دل کو الٹ پلٹ کر رہا تھا ، کوشش تھی کہ فوری طور پر حرم شریف پہنچیں اور اللہ کے گھر کا دیدار کریں۔ اللہ کا گھردنیا میں وہ پہلی عبادت گاہ ہے جو انسانوں ک...
نسیم ولا اور کالج میں شب و روز اپنی مخصوص چال سے گزر رہے تھے۔ روز صبح کو شام کرنا اور شام کو صبح کا قالب بدلتے دیکھنا اور اس کے ساتھ لگی بندھی روٹین کو فالو کرنا یہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت بن چکی تھی۔ ایک بے قراری تھی، ایک بے کلٰی تھی جو دل میں بسنے لگی تھی۔ ہم لوگ روٹین کے ایس...
رات کے نو بج رہے تھے ہمیں پی ٹی وی سے خبر نامے کا انتظار تھا لیکن خبریں شروع نہیں ہوئیں، ہم نے علی سے کہا نو بج گئے خبرنامہ شروع نہیں ہو رہا پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے، علی بولا نو ہماری گھڑی میں بجے ہیں وہاں پاکستان میں رات کے گیارہ بج رہے ہیں ہمیں احساس ہوا کہ سعودی عرب میں ہم پاکست...
ڈش انٹینا اور اس کا متعلقہ سامان لائے کئی دن گزر چکے تھے۔ ہم چاروں روز سوچتے تھے کہ آج ضرور ڈش انٹینا لگالیں گے لیکن کالج سے آنے کے بعد کھانا پکانے اور کھانے کے بعد اتنا وقت ہی نہیں بچتا تھا کہ چھت پر جائیں اور ڈش انٹٰینا کی تنصیب کا کام مکمل کریں۔ پھر طے پایا کہ یہ کام جمعے کو...
ہم ڈش انٹینا کا سامان اٹھائے بطحہ کے مرکزی چوک پہنچے تو ایک عجیب منظر ہماری آنکھوں کے سامنے تھا۔ وہاں کچھ ٹیکسیاں اور کاریں کھڑی تھیں جن کے ڈرائیور کاروں کے باہر کھڑے مسافروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے آوازیں لگا رہے تھے۔ خمسہ ریال، خمسہ ریال۔ منظر عجیب اس لیے تھا کہ آوازی...
ولا میں دوسرا مہینہ گزر رہا تھا، ہم نے اپنے کمرے کے لیے ٹی وی خرید لیا تھا لیکن اس پر صرف سعودی عرب کے دو لوکل چینل آتے تھے۔ ولا کی چھت پر کئی ڈش انٹینا لگے ہوئے تھے لیکن وہ بھارتیوں یا سری لنکنز نے لگائے ہوئے تھے اس لیے کسی پر پاکستانی ٹی وی چینلز نہیں آتے تھے۔ اس وقت سعودی عرب ...
ہم کھانے کے لیے بیٹھ چکے تھے، صورتحال یہ تھی کہ سب کے حصے میں ایک ایک روٹی اور ایک ایک کباب آیا تھا، ہمارے حصے میں صرف ایک روٹی آئی تھی پھر منیب کو شائد ہماری حالت پر رحم آگیا اور اس نے ہمیں کچن میں جا کر مزید ایک کباب تلنے کی اجازت دیدی۔ ہم جلدی جلدی میں کباب تل کر واپس لوٹے تو ...