... loading ...
صدر مملکت ممنون حسین نے گزشتہ روز ایک آرڈی ننس کے ذریعے نیب کے سربراہ کے اختیارات میں کٹوتی کرتے ہوئے پلی بارگین کے صوابدیدی اختیارات اُن سے واپس لے لیے ہیں یعنی اب وہ کرپشن کے کسی بھی ملزم سے جوڑ توڑ کرکے لوٹی ہوئی رقم یا اس کا کچھ حصہ قومی خزانے میں جمع کراکر اسے دوبارہ کرپشن شروع کرکے اپنے گھاٹا یانقصان پورا کرنے کا موقع نہیں دے سکیں گے، اس آرڈی ننس کے نافذ العمل ہونے کے بعد اب کرپشن کے کسی ملزم کو لوٹی ہوئی دولت قومی خزانے میں جمع کرانے کے بعد دوبارہ اپنے عہدے پر فائز رہنے کا حق بھی حاصل نہیں رہے گا اور وہ تاحیات کسی عوامی عہدے کیلئے الیکشن لڑنے کے حق سے بھی محروم ہوجائے گا۔
صدر مملکت کاجاری کردہ آرڈی ننس بلاشبہ وقت کی ضرورت کے عین مطابق ہے لیکن صدر مملکت نے یہ آرڈی ننس برضا ورغبت جاری نہیں کیا بلکہ سپریم کورٹ کی جانب سے نیب کے سربراہ کو حاصل ان صوابدیدی اختیارات اور ان کی وجہ سے قومی خزانے اورمجموعی طورپر پوری قوم کو ہونے والے نقصانات کا سختی سے نوٹس لیے جانے کے بعدحکومت کو صدر مملکت کے ذریعے یہ آرڈر جاری کروانے پر مجبور ہونا پڑا تاکہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے طلبی اور جواب طلبی کی وجہ سے ہونے والی سبکی سے بچاجاسکے ۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ حکومت اس طرح کا قانون پہلے ہی بنادیتی اور کرپشن میں ملوث اعلیٰ افسران کو لوٹی ہوئی رقم کامعمولی سا حصہ ادا کرکے دوبارہ لوٹ مار کا موقع نہ دیاجاتا۔
نیب کے سربراہ کو پلی بارگین کے حوالے سے حاصل اختیارات شروع ہی سے متنازع رہے ہیں اور سیاسی حلقوں کے ساتھ ہی اخبارات میں بھی اس پر کھل کر تنقید کی جاتی رہی ہے جبکہ نیب کے سربراہ لوگوں سے لوٹی ہوئی دولت نکلوانے کیلئے ان کو کسی حد تک چھوٹ دینے کی حمایت کرتے رہے ہیں غالباً ان کی جانب سے ان اختیارات کی حمایت کاایک بنیادی مقصد یہ تھا کہ پلی بارگین کاسلسلہ جاری رکھا جائے تاکہ ملزمان کی جانب سے سرکاری خزانے میں جمع کرائی جانے والی رقم کا ایک حصہ نیب کے سربراہ اور دیگر متعلقہ حکام کو بطور انعام یا کمیشن ملتارہے اس طرح سرکاری خزانے کی لوٹ مار میں سے ان کو بھی حصہ ملتارہے۔ وہ تو نیب کے سربراہ سے ایک غلطی یہ ہوگئی کہ انھوںنے سستی شہرت حاصل کرنے کیلئے بلوچستان کے سیکریٹری خزانہ کے معاملے کو میڈیا میں بہت زیادہ اچھالا اور اس کوشش میں سرکاری خزانے کی لوٹ مار کے ذریعے ان کی اور ان کے ساتھی ٹھیکیدار یاٹھیکیداروں کی جمع کردہ اصل رقم بھی میڈیا کو بتادی ،اب ظاہر کہ جب یہ بات میڈیا میں آگئی کہ بلوچستان کے سابق سیکریٹری خزانہ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر سرکاری خزانے کو 40 ارب روپے کا نقصان پہنچایا ہے اور پھر ان کو صرف 2ارب روپے کی ادائی پر کلین چٹ دینے کااعلان کیا گیا تو اس پر شور مچنا قدرتی امرتھا اور یہ معاملہ میڈیا میں آجانے اور ہر طرف سے اس بارگین پر شدید تنقید کی وجہ سے عدالت عظمیٰ کو بھی اس کا نوٹس لینے پر مجبور ہونا پڑااور سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے نیب کے چیئرمین کے ان اختیارات کومعطل کردیاتھاجبکہ ماہ رواں کی 2 تاریخ کو نیب کے حوالے سے عدالت عظمیٰ کے از خود نوٹس کے مقدمے کی سماعت کے دوران متعلقہ بینچ کے فاضل جج جسٹس عظمت سعید شیخ نے تو یہاں تک کہہ دیاتھا کہ پلی بارگین قانون کے ذریعہ نیب بدعنوان عناصر کاسہولت کار بناہواہے۔فاضل جج نے عدالت میں موجود نیب کے وکیل کومخاطب کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیاتھا کہ آپ کاادارہ اخبارات میں کرپشن کرلو اور کرپشن کرالو کے اشتہارات کیوں شائع نہیں کراتا،اس مقدمے کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے یہ اعتراف کیاتھا کہ نیب کاادارہ پلی بارگین سے متعلق اپنے اختیارات کاغلط استعمال کررہاہے۔جس پر نیب کے وکیل نے یہ موقف اختیار کیاتھا کہ نیب کے سربراہ نے یہ قانون خود نہیں بنایا بلکہ پارلیمنٹ نے یہ قانون بنا کردیا ہے اور اس پر عمل کیاجارہاہے، اور قانون جیسا بھی ہے، اسی پر عمل کیاجائے گا، جس پر بنچ کے سربراہ امیر ہانی مسلم نے یہ ریمارکس دئے تھے کہ یہ صحیح ہے کہ نیب نے یہ قانون خود نہیں بنایا لیکن وہ اس کا غلط استعمال ضرور کررہاہے ،اس کے بعد عدالت نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی تھی کہ وہ ایک ہفتے کے اندر نیب کی پلی بارگین سے متعلق شق 25 کے حوالے سے چیئر مین نیب کے اختیارا ت کے وضاحت پر مبنی وفاق کا موقف عدالت کے سامنے پیش کریں ،ظاہرہے عدالت کے اس واضح حکم کے بعد حکومت کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ اس متنازع شق کو ہی نیب کے قانون سے حذف کرتے ہوئے نیب کے چیئرمین کے صوابدیدی اختیارات کے حوالے سے وفاق کاموقف عدالت کے سامنے پیش کریں ،ظاہر ہے کہ عدالت عظمیٰ کے اس حکم کے بعد حکومت کے پاس صدر مملکت سے اس طرح کا آرڈی ننس جاری کرواکر عدالت کاسامنا کرنے سے بچنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں تھا۔
صدر مملکت کے جاری کردہ اس آرڈی ننس کے تحت اب چیئرمین نیب کو کسی بھی ملزم سے پلی بارگین کیلئے عدالت سے منظوری لینا لازمی ہوگا یعنی قومی خزانے کی لوٹ مار کرنے والوں کو بند کمرے میں چیئرمین نیب کو راضی یامطمئن کرکے کھلی فضا میں سانس لینے کاموقع نہیں ملے گا۔اس طرح یہ آرڈی ننس اس حد تک قابل تعریف ہے کہ اس سے قومی خزانہ لوٹنے والوں کوکھلی چھوٹ دینے کا اختیار اب کسی فرد واحد کے پاس نہیں رہا ،اور جب معاملہ عدالت میں آئے گا تو میڈیا کے ذریعے عام آدمی کو بھی یہ پتہ چل جائے گا کہ قوم کے کس نمائندے یا قوم کی خدمت پر مامور کیے جانے والے کس افسر نے قومی خزانے کو کتنا نقصان پہنچایا اور اب وہ لوٹی ہوئی دولت کاکتنے فیصد حصہ دے کر بری الذمہ ہورہاہے ۔
لیکن میرے خیال میں قوم کی دولت لوٹنے والوں کے احتساب کیلئے صرف یہ کافی نہیں ہے کہ ان سے لوٹی ہوئی دولت یااس کاکچھ حصہ واپس لیاجائے بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طر ح کا قانون بنایا جائے کہ قومی دولت کی لوٹ مار میں ملوث پائے جانے والے افسران ، عہدیداروں اور منتخب نمائندوں سے نہ صرف یہ کہ ان کی تمام دولت واپس لی جائے بلکہ دوران ملازمت ان کی اپنے اور اپنے اہل خانہ کے نام خریدی گئی تمام املاک بھی ضبط کی جائیں،ان پر بھاری جرمانے کیے جائیں،ان کی پنشن اور دیگر مراعات ضبط کرلی جائیں اور لوٹ مار میں ملوث افراد کو لازماً قانون کے مطابق جیل بھیجا جائے جہاں انھیں اے بی کلاس میں رکھ کر شاہانہ انداز میں سزا پوری کرنے کا موقع دینے کے بجائے سی کلاس میں عام قیدیوں کے ساتھ رکھ کر ان کے ساتھ عام قیدیوں جیسا ہی سلوک کیا جائے تاکہ انھیں دیکھ کر دوسرے بھی عبرت پکڑ سکیں۔ جب تک ایسا نہیں کیاجائے گا، ملک سے لوٹ مار کاکلچر ختم کرنا ممکن نہیں ہوسکے گا۔
٭٭
لے کے رشوت پھنس گیا ہے……دے کے رشوت چھوٹ جا کچھ عرصے سے پاکستان کے سرکاری اداروں میں بڑے پیمانے پر کرپشن کی گونج سنائی دے رہی ہے اور اب ہر خاص وعام کی زبان پر سرکاری اداروں خاص طورپر حکومت کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز شخصیات پر کرپشن کے الزامات نہ صرف لگائے جارہے ہیں بلکہ پاناما پ...