... loading ...
کراچی میں غیر ملکی قرضوں سے شروع کیے جانے والے ترقیاتی پروجیکٹس کی تاریخ بہت اچھی نہیں رہی ہے، عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ کسی بھی ملک سے کسی بھی منصوبے کیلئے قرضوں کے حصول کے مذاکرات کے بعد اولین فرصت میں شہر کے کسی متمول علاقے میں ایک شاندار دفتر حاصل کیاجاتاہے، اس کی تزئین وآرائش پر لاکھوں روپے آنکھ بند کرکے خرچ کردیے جاتے ہیں ۔قیمتی فرنیچر خریدا جاتاہے، اور اس کام سے فارغ ہونے کے بعد ممکنہ افسران کیلئے لگژری کاریں خریدی جاتی ہیں، اس کے بعد زیادہ سے زیادہ معاوضے پر متعلقہ منصوبے پر ریسرچ کیلئے ملکی اور غیر ملکی مشیر اور کنسلٹنٹس کا تقرر کیاجاتا ہے تاکہ پراجیکٹ کا منصوبہ تیار کرنے کے ساتھ ہی پراجیکٹ کی تکمیل کے لیے ،جو عام طورپر سماجی و اقتصادی اہمیت کاحامل ہوتاہے، طریقہ کار طے کیاجاتاہے۔
کراچی کے ترقیاتی منصوبوں کیلئے جن مشیروں یا کنسلٹنٹس کا انتخاب کیاجاتاہے وہ عام طورپرتکنیکی اعتبار سے بہت زیادہ اہل اور قابل ہوتے ہیں لیکن بسا اوقات وہ اپنی تمام تر قابلیت کے باوجود جو منصوبے تیار کرتے ہیں اور ان پر عملدرآمد کے لیے جو لائحہ عمل یا طریقہ کار طے کرتے ہیں وہ بار آور ثابت نہیں ہوتے، ان کے تیار کردہ منصوبوں کی اس ناکامی کا سبب یہ نہیں ہوتا کہ ان منصوبوں کے بارے میں ان کی معلومات ناقص ہوتی ہیں بلکہ ان منصوبوں کی ناکامی کا بنیادی سبب یہ ہوتاہے کہ ان مشیروں یا کنسلٹنٹس کی تمام تر قابلیت کتابی ہوتی ہے ،اور عام طورپر اس مقصد کیلئے مقرر کیے جانے والے مشیروں اور کنسلٹنٹس کی کراچی کے بارے میں معلومات نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں انہیں اس شہر کے لوگوں کے رہن سہن اور عادات کے بارے میں کوئی علم نہیں ہوتا،یہی نہیں بلکہ ان میں سے بہت سوں کو کراچی جیسے گنجان آباد کنکریٹ کے جنگل میں جہاں بھانت بھانت کے لوگ آبادہیں، رہنے کا بھی کوئی تجربہ نہیں ہوتا۔
کراچی کی ہیئت یہاں رہنے والوں کی متنوع ضروریات اور عادات سے ناواقفیت اور مسئلے کی سنگینی سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے یہ مشیر اپنے کتابی علم کے مطابق منصوبے بناکر اعلیٰ حکام کو پیش کردیتے ہیں اور اعلیٰ حکام بھی جن کی اکثریت نے یہ شہر زندگی میں پہلی مرتبہ ہی دیکھاہوتا ہے ،محض مشیروں اور کنسلٹنٹس کی ملکی اور غیر ملکی ڈگریوں سے مرعوب ہوکر ان کی منظوری دے دیتے ہیں ،لیکن چونکہ یہ منصوبے صرف کتابی علم کی بنیاد پر تیار کیے جاتے ہیں اس لئے تکمیل کے مراحل ہی میں دشواری اورمشکلات کاشکار ہوجاتے ہیں اورعام طورپر انفرااسٹرکچر اور مشینری کی خریداری تک ہی محدود ہوکر رہ جاتے ہیں۔ اس طرح غیر ملکی قرضوں کی مدت پوری ہوجانے کے بعد اس مقصد کے لیے قائم کیاجانے والا دفتر بند کردیاجاتاہے۔ اس کیلئے مختلف شعبوں اور محکموں سے حاصل کیے جانے والے افسران اور دیگر عملے کی خدمات ان کے محکموں کو واپس کردی جاتی ہیں ، اس مقصد کیلئے خریدی گئی گاڑیاں من پسند افسران اور لوگوں میں تقسیم کردی جاتی ہیں،دفتر کیلئے خریدا گیا قیمتی فرنیچر بھی کسی من پسند افسر کے ڈرائنگ روم کی زینت بڑھانے کیلئے اس کے سپر د کردیاجا تا ہے ،اور اس مقصد کیلئے مقرر کیے جانے والے کنسلٹنٹس کسی اور پرکشش ٹھیکے کی تلاش شروع کردیتے ہیں۔کچھ دنوں بعد شہری ان منصوبوںکو بھول جاتے ہیں جبکہ اس طرح کے منصوبوں کے لیے حاصل کیے گئے قرض کی رقم اور اس پر سود کی ادائی کا بار صوبائی حکومت کو برداشت کرنا پڑتاہے جس کی وجہ سے اس شہر کے لوگوں کو بنیادی سہولتوں اور خدمات کی فراہمی کیلئے مختص رقوم میںکٹوتی کردی جاتی ہے۔ اس طرح شہریوں کو سہولتوں کی فراہمی کے سنہرے خواب دکھا کر شروع کیے گئے منصوبے اس شہر کے لوگوں کو پہلے سے دستیاب سہولتوں میں کٹوتی کا سبب بن کر شہریوں کے مسائل اور مصائب میں اضافے کا ذریعے بن جاتے ہیں۔اس دوران اگرکوئی این جی او یا اپوزیشن کا کوئی رہنما شہریوں کے مسائل پر بات کرنے کی کوشش کرتاہے تو مختلف تاویلات اور جھوٹی کہانیاں سنا کر ان کی آواز کو خاموش کردیا جاتاہے۔
اس صورتحال کا اندازہ اس شہر کے لوگوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور گندے پانی کی نکاسی اورکچی آبادیوں کی مستقلی کیلئے غیر ملکی قرضوں کی مدد سے شروع کیے جانے والے منصوبوں کے حشر سے بخوبی لگایاجاسکتاہے۔مذکورہ مسائل حل کرنے کی منصوبہ بندی پر کروڑوں روپے خرچ کیے جاچکے ہیں لیکن اب تک ان میں سے کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہوسکا،اس شہر کی بیشترگنجان آباد علاقوں کے لوگ آج بھی بوند بوند پانی کو ترس رہے ہیں، کچی آبادیوں کے مکین آج بھی چھت کو ترس رہے ہیں، اور گندے پانی کی نکاسی کیلئے تیار کی جانے والی لیفٹ بینک اوررائٹ بینک آئوٹ فال ڈرینز کی وجہ سے ماحول کو شدید نقصان پہنچ رہاہے اور ان کی وجہ سے جس کمیونٹی کو بیدخل کیاگیا ان کو ادا کی جانے والی رقوم اندازے کی تمام حدیں عبور کرچکی ہیں۔
اس صورتحال کی پوری ذمہ داری غیرملکی اداروں اور ایجنسیوں پر نہیں ڈالی جاسکتی ،بلکہ اس صورتحال کا بنیادی سبب سندھ کا وہ سیاسی کلچر اور تضادات ہیں ،اگر حکومت سندھ اس شہر کے مسائل حل کرنے کی منصوبہ بندی اور ان منصوبوں پر عملدرآمد میں اس شہر کے رہنے والے ماہرین سے خواہ ان کا تعلق صوبے کے کسی بھی علاقے سے ہو کو شریک کرنا شروع کردے اور ہر کام صرف پارٹی اور پارٹی کے بعض من پسند لوگوں کونوازنے تک محدود نہ رکھاجائے تو شاید غیر ملکی قرضوں سے شروع کیے جانے والے ترقیاتی منصوبے اپنی موت آپ مرنے سے بچائے جاسکتے ہیں۔
ڈھائی کروڑ کی آبادی والے شہرِ کراچی کے عوام گزشتہ 8سال سے بلدیاتی سہولتوں سے محروم چلے آرہے ہیں۔ سرکاری سطح پر ملک بھر کی چاروں صوبائی حکومتیں8 سال تک بلدیاتی اداروں کو منتخب نمائندوں سے دور رکھنے کی کوشش میں کامیاب رہیں۔ حالانکہ بلدیاتی انتخابات بنیادی جمہوریت کی روح گردانے جا...
کراچی میں بارش نے شہر قائد کوجل تھل کردیا ۔بارش کی ابتدا میں لوگوں نے بارش کو خوب انجوائے کیا مگردو دن کی باران رحمت کوانتظامیہ کی غفلت نے زحمت بنا دیا۔شہر قائد میں دو دن کی موسلا دھار بارش کے بعد مختلف علاقے تالاب اور سڑکیں ندی نالوں کا منظر پیش کرنے لگی ہیں۔کراچی میں موسم بدستو...
کراچی میں بارش ہو گئی مبارک ہو۔ بارشوں سے عام طور پر سڑکیں دْھل جاتی ہیں لیکن کراچی میں سڑکیں ڈوب اور شہری رْل جاتے ہیں۔ سڑکوں پر صرف پانی جمع ہو تو ذرا احتیاط سے گاڑی چلاتے ہوئے گزرا جا سکتا ہے لیکن بارش کے بعد کراچی کی سڑکوں پر صرف پانی ہی نہیں اس میں تیرتا ٹنوں کچرا بھی مسائل...
بہت کم لوگوں کومعلوم ہوگا کہ سندھ حکومت سے اختیارات کی بھیک مانگنے والے دنیا کے ساتویں سب سے بڑے شہر کراچی کے میئر کے زیر انتظام بلدیہ کراچی ،ڈی ایم سیز اور یونین کونسلوں کو اس شہر کی ایک تہائی زمین پر بھی دسترس حاصل نہیں ۔ اس شہر کی باقی دوتہائی سے زیادہ زمینیں مختلف سرکاری ادار...
کراچی پولیس نے مردم شماری میں نفری فراہم کرنے کیلئے اہم شخصیات کو دی جانے والی سیکورٹی ایک ماہ کیلئے واپس کرنے کی درخواست کردی۔اس ضمن میں پولیس کی جانب سے شہر کی اہم شخصیات کو خطوط ارسال کردیے گئے جس میں پولیس نے اہم شخصیات کو ایک ماہ کے لیے اپنی سیکورٹی پر پرائیویٹ گارڈ رکھنے کا...
کراچی میں پانی سے محروم علاقوں کو پانی کی فراہمی کے لئے قائم واٹر بورڈ کے 26ہائیڈرنٹس کو پیپلزپارٹی کی اعلیٰ شخصیات کے کارندوں پر مشتمل بااثر مافیا کو نوازنے کے لئے بند کیا گیاتھا۔ سرکاری خزانے کو 30کروڑ روپے کا چونا لگانے والی مافیا سرکاری طور پر بند ظاہر کیے گئے تمام ہائیڈرینٹس...
چوری اور چھینے گئے موبائل فونز کے ای ایم آئی نمبر تبدیل کرکے ان موبائل فونز کو قابل استعمال بنانے والے گروہ کے دو ملزمان کو اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ نے گرفتار کرکے ان کے قبضے سے آٹھ موبائل فونز اور سات ان لاکنگ ڈیوائس برآمد کر لی ہیں، ملزمان اب تک سینکڑوں چوری اور چھینے گئے موبائ...
دنیا کے تمام ممالک اپنی رہائش اور ملازمت کے مقام کا انتخاب ٹرانسپورٹ کی دستیابی کی صورتحال دیکھ کر کرتے ہیں، دنیا کے دیگر ممالک کی طرح کراچی میں بھی لوگوں کو ٹرانسپورٹ کی بہتر سہولتوں کی فراہمی کے لیے مختلف ادوار میں مختلف تجربات کیے جاتے رہے ہیں اور گزشتہ برسوں کے دوران اس مقصد ...
دانش کی ماں کے نوحے سے ہر ذی حس کا جگر پھٹ سکتا ہے ۔روتے روتے تھکی تسلیمہ اپنے پندرہ سالہ بیٹے کا نام لیکر نوحہ کرتی ہے ’’دانش ‘‘میرے دولہے ،اب کتنا عرصہ قبر میں گزار و گے۔تم مجھے اس طرح چھوڑ کے نہیں جاسکتے،میرے بچے آجا،خدارا اب واپس آجا،تومیرے لیے سب کچھ تھادانش ،پہلے مجھے جان...
رینجرز اور پولیس نے دوماہ میں جتنی بھاری مقدار میں گولہ باروداوراسلحہ برآمد کیا اس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی،مالیت کروڑوں روپے میں ہے ،ذرائعکراچی میں گزشتہ دو ماہ کے عرصے کے دوران رینجرز اور پولیس نے کارروائیوں کے دوران جتنی بھاری تعداد میں اسلحہ اور گولہ بارود برآمد...
جاں بحق ہونے والوں میں 5سالہ 2 جڑواں بچیاں سکینہ اور زاراسمیت ایک ہی گھر کے 4افراد بھی شامل ہیں،حادثے میں 11بچے بھی زخمی ہوئے وزیر ریلوے سعد رفیق نے 10روز میں تحقیقات مکمل کرنے کا حکم دے دیا ،تحقیقات فیڈرل انسپکٹر آف ریلوے کرے گا کراچی میں لانڈھی کے علاقے قذافی ٹاؤن کے قریب فری...