وجود

... loading ...

وجود

بھئی احتساب لازم ہے ۔۔۔۔۔۔

پیر 09 جنوری 2017 بھئی احتساب لازم ہے ۔۔۔۔۔۔

قومی احتساب بیورو نے مشتاق رئیسانی کو بھاری رقم کے ساتھ حراست میں لیا تو اس پر ملک بھر میں نیب کی داد و تحسین ہونے لگی۔ بلوچستان میں حکومت مخالف جماعتیں مسرت سے کھل اُٹھیں کیونکہ انہیں صوبائی حکومت یا نیشنل پارٹی کے خلاف بولنے کا سنہرا موقع ملا ۔ ایک زبردست بحث ذرائع ابلاغ پر بھی شروع ہوئی ۔بلا شبہ نیشنل پارٹی دفاعی پوزیشن میں چلی گئی ، نواز شریف کے مخالفین نے اس بڑی بد عنوانی کو ان کی حکومت کے خلاف پروپیگنڈہ کے ہتھیار کے طور پراستعمال کیا ۔ کیونکہ صوبے کا وزیر اعلیٰ مسلم لیگ نواز سے ہے۔ پھر جب 21دسمبر 2016ء کو نیب کے ایگزیکٹو بورڈ نے مشتاق رئیسانی اور سہیل مجید کی پلی بارگین کی درخواست منظور کر لی تو ان حلقوں نے اپنی توپوں کا رُخ نیب کی طرف کر لیا۔ اعتراضات و الزامات کی بوچھاڑ کر دی گئی ۔ نیب پر بھی بد عنوانی کے الزامات عائد کیے گئے۔گویا ہر جانب سے اُنگلیاں اُٹھائی جانے لگیں۔حتیٰ کہ بڑی قومی جماعتوں کے سربراہان تک نے اس موضوع پر تلخ الفاظ سے تبصرہ کیا۔حالانکہ نیب نے سرے سے کوئی کام خلاف قانون کیا ہی نہیں ہے جو کچھ بھی کیا مروجہ قانون کے مطابق حاصل اختیارات کے تحت کیا۔
اس تناظر میں ذرائع ابلاغ کو بھی داد دینی چاہئے کیونکہ سنیئر نمائندوں اور بڑے نامور لکھاریوں اور ٹی وی پروگراموں کے میزبانوں نے بھی جہاں سے جو کچھ سنا بلا تحقیق و تصدیق اُسے آگے بڑھایا۔یعنی اب تک چالیس ارب کی بد عنوانی کا گمراہ کن واویلا ہو رہا ہے کہ کیسے ہڑپ کی گئی اتنی بڑی رقم میں دو یا تین ارب کی پلی بارگین کی گئی ۔دیکھا جائے تو روز اول سے نیب کی جانب سے اس کیس میں چالیس ارب یا چھ ارب کے خرد برد کا دعویٰ نہیں کیا گیا ۔خود نیب بلوچستان کے ڈی جی ،طارق محمود ملک کئی بار ذرائع ابلاغ پر اصل صورتحال رکھ چکے ہیں مگر اس کے باوجود ہنوز سنی سنائی باتوں پر کان دھرے جا رہے ہیں ۔سو ان حضرات کے عقل و فہم کا ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ صورت احوال یہ ہے کہ 2015/16کے بجٹ میں 726بلدیاتی اداروں کو شہری سہولیات کی فراہمی کیلئے چھ ارب روپے مختص کئے گئے تھے ۔جس میںدوارب اکتیس کروڑ روپے فقط ’’مچھ‘‘ اور’’ خالق آباد‘‘ کیلئے جاری کرائے گئے ۔ چنانچہ دو ارب چوبیس کروڑ کی بد عنوانی ہوئی ہے اور اس بنیاد پر نیب نے پہلے پہل مشتاق رئیسانی کے گھر پر چھاپہ مارا اور وہاں سے 65کروڑ روپے سے زائد کی رقم اور سونا برآمد کر لیا۔رفتہ رفتہ مزید گرفتاریاں ہوئیں یہاں تک کہ سابق مشیر خزانہ میر خالد لانگو بھی پیش ہو گئے ۔مشتاق رئیسانی اور ٹھیکیدار سہیل مجید نے جرم تسلیم کر لیا اور پلی بارگین کی درخواست دے دی ۔یہ کہ وہ دو ارب روپے سرکار کے حوالے کریں گے۔گیارہ جائیدادیں جو نیب کے قبضے میں ہیں کی قیمت خرید ایک ارب پچیس کروڑ کے لگ بھگ ہے ۔دو قیمتی گاڑیاں الگ ہیں۔سہیل مجید بھی ایک ارب روپے نیب کو حوالے کریں گے۔ سہیل مجید کی کچھ وراثتی جائیدادیں ہیں اور کچھ انہوں نے خود بنائی ہیں۔لہذا جو خود بنائی ہیں وہ جائیدادیں بھی ضبط کر دی جائیں گی۔شنید ہے کہ اب تک ان دونوں افراد سے دو ارب روپے سے زائد کی رقم وصول کی جا چکی ہے اور یہ وصولی مزید تین ارب یا اس سے زائد تک ہو جائے گی۔سوال یہ ہے کہ کیا یہ وصولی اور کارروائی غیر معمولی ہے ؟اور مشتاق رئیسانی دوبارہ اپنے عہدے پر بھی نہیں رہیں گے ۔دس سال تک سرکاری ملازمت کے لئے نا اہل ہو چکے ہیں۔کوئی بھی مجرم اتنا ہی عرصہ انتخابات میں حصہ لینے کا اہل نہیں ہو گا۔اور نہ ہی اسٹیٹ بینک کے تحت کسی بھی بینک سے قرضہ حاصل کر سکے گا ۔غرض میر خالد لانگو سمیت باقی ملزمان کا کیس عدالت کے سپرد ہو گا ۔اگر ہم بلوچستان کی حد تک بات کریں تو اب تک نیب کئی سیاستدانوں اور سرکاری افسروں کو دھر چکی ہے۔ ان سے بڑی بڑی رقمیں وصول کر کے ملکی خزانے میں جمع کرا چکی ہے ۔اور کئیوں کو جیل بھی جانا پڑا ۔در اصل قومی احتساب بیورو سیاستدانوں کے سروں پر لٹکتی ہوئی تلوار ثابت ہوا ہے۔اور سیاستدان اس ادارے سے مستقل گلو خلاصی کی تاڑ میں ہیں۔یہ امر ہمارے مشاہدے میں ہے کہ مختلف ادوار میں وزراء اور اراکین اسمبلی نیب کے زیر عتاب رہے ہیں۔اورانہیں اس بات کا اندیشہ لاحق رہتا ہے کہ کسی بھی لمحے ان پر نیب کی گرفت ہو سکتی ہے ۔یہ پہلو بھی مد نظر رہے کہ سیاستدان ہی در حقیقت محکموں اور اداروں کو زیر دست بنانے کے خواہشمند ہوتے ہیں اور انہیں اس ذیل میں کامیابی بھی ملی ہے ۔بلوچستان میں آج بھی ایک معمولی سی تعیناتی اور تبادلہ وزراء کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں۔ صوبے بھر کے کمشنروں کو غلام نہیں بلکہ لونڈیا ں بنا چکے ہیں۔کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ بلوچستان کے تمام اضلاع میں ڈپٹی کمشنروں کی تعیناتی ضابطے اور قاعدے کے مطابق ہوتی ہے ۔ ڈپٹی کمشنرز کو قومی و صوبائی اسمبلیوں کے نمائندوں کی مرضی کے بغیر پوسٹنگ نہیں ملتی۔ اس ذیل میں ایک تازہ مثال ڈپٹی کمشنر’’واشک ‘‘ کی ہے کہ جن کا تبادلہ وفاقی وزیر جنرل عبدالقادر بلوچ نے محض اس بناء پر کرایا کہ ڈی سی نے انہیں ضلع آمد پر پروٹوکول نہیںدیا۔ڈی سی صاحب راندہ درگاہ کر دئیے گئے اور اُن کو بھنک تک نہ پڑی۔گویا سیاستدان نیب کے شکنجے سے بچنے کیلئے نیب ہی کو شکنجے میں کسنے کی تدبیریں کر رہے ہیں۔اعتراض اگر پلی بارگین کے مروجہ طریقہ کار پر ہے تو اس میں تبدیلی کی گنجائش موجود ہے ۔ظاہر ہے کہ نیب خود قانون نہیں بناتی قانون سازی کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہے جہاں عوامی نمائندے بیٹھے ہوئے ہیں۔لہذا وہ قانون میں تبدیلی لے آئیں تاکہ اُس کے مطابق احتساب کا عمل آگے بڑھایا جائے ۔ اور یقینا نیب قانون کا پابند ہے اور اگر کہیں بد عنوانی کی بات ہوتی ہے تو یقینا نیب کے ملازمین بھی قانون سے بالاتر نہیں۔پلی بارگین کے طریقہ کار پردنیا کے مختلف ممالک میں عمل درآمد کیا جاتا ہے امریکا ،برطانیہ،کینیڈا ،آسٹریلیا، جرمنی ،بھارت ،ہانگ کانگ اور سنگا پور میں غبن کی ہوئی رقم پلی بارگین کے تحت وصول کر لی جاتی ہے ۔ امریکا میں پلی بارگین ’’کرمنل جسٹس سسٹم ‘‘ کا حصہ ہے اور نوے فیصد مقدمات پلی بارگین کے ذریعے ہی حل کیے جاتے ہیں۔یعنی ان ممالک میں مروجہ قوانین کے تحت رقم وصول کی جاتی ہے اور سزا کا تعین کیاجاتا ہے ۔ چنانچہ سات جنوری کو وزیراعظم نے نیب آرڈیننس میں ترمیم کی منظوری دیدی ہے اس سلسلے میں نیب ٓرڈیننس کی شق25۔ Aکو تبدیل کیا جارہا ہے ۔سرکاری خزانے میں لوٹی گئی رقم کی رضا کارانہ واپسی پر ایک ہی سزا کا طریقہ کار اپنایا جائے گا۔چیئرمین نیب کا صوابدیدی اختیار ختم کردیا گیا جو رقم کی رضا کارانہ واپسی سے متعلق تھا ۔رقم کی رضا کارانہ واپسی کے عمل کیلئے بھی احتساب عدالت کی منظوری ضروری ہوگی۔ سزائوں کو مزید سخت کردیا گیا ہے ۔چونکہ اس سلسلے میں بل پاس کیا جانا ہے تو اس میں تاخیر کو مد نظر رکھتے ہوئے آرڈیننس لانے کا فیصلہ کیا گیا۔ پارلیمانی کمیٹی نیب قانون میں ترمیم کرے گی ۔گویا بد عنوانی میں ملوث افراد تاحیات سرکاری ملازمت اور عوامی عہدے کیلئے نا اہل ہوجائیں گے ۔تاہم اس آرڈیننس کا اطلاق ماضی کے مقدمات پر نہیں ہوگا۔ تو بھئی قومی احتساب بیورو کی موجودگی لازم ہے ۔یقینااس ادارے میں مزید بہتری لانے کی مساعی ہو نی چا ہیے ۔


متعلقہ خبریں


حکومت سندھ کا نیب زدہ افسران کو ہٹانے سے انکار الیاس احمد - جمعه 01 ستمبر 2017

حکومت سندھ نے نیب کے قوانین سندھ سے ختم کردیے مگر سندھ ہائی کورٹ نے نیب کو اپنا کام جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے جس کے بعد حکومت سندھ کے تمام خواب چکنا چور ہونا شروع ہوگئے کیونکہ حکومت سندھ نے جن کرپٹ افراد کو بچانے کے لیے نیب کے قوانین ختم کرنے کی قانون سازی کی تھی اس میں کامیاب نہ...

حکومت سندھ کا نیب زدہ افسران کو ہٹانے سے انکار

سندھ میں اندھیر نگری چوپٹ راج, نیب زدہ افسر کو گریڈ 21 مل گیا۔ احمد جنید میمن کی چاندی ہوگئی الیاس احمد - اتوار 27 اگست 2017

اگر ملک کی تاریخ میں کرپشن بے قاعدگیوں اور قانون کی دھجیاں اڑانے کی بات کی جائے تو یقیناحکومت سندھ اس معاملے میں صدی کا سب سے بڑا انعام حاصل کرے گی ۔ یہاں ایسی اندھیر نگری مچی ہے کہ جس کی مثالیں تاریخ میں نہیں ملتیں ۔ سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ میں سینکڑوں ایسے مقدمات چل رہے ہ...

سندھ میں اندھیر نگری چوپٹ راج, نیب زدہ افسر کو گریڈ 21 مل گیا۔ احمد جنید میمن کی چاندی ہوگئی

عدالتی حکم پر سندھ حکومت بدحال، نیب پھر فعال الیاس احمد - جمعرات 24 اگست 2017

سندھ ہائی کورٹ نے سندھ اسمبلی کی اپوزیشن جماعتوں کی درخواست پر نیب کو سندھ میں کام کرنے کی اجازت دے دی ہے اور نیب کو ہدایت کی ہے کہ فوری طور پر جو مقدمات اور انکوائریز زیر التوا ء ہیں ان کی تحقیقات مکمل کی جائے تاکہ اس میں کوئی دوسرا اثر انداز نہ ہوسکے۔ عدالتی حکم سے ایسالگتا ہے ...

عدالتی حکم پر سندھ حکومت بدحال، نیب پھر فعال

پسماندہ صوبہ بلوچستان میں احساسِ محرومی نیا نہیں !! وجود - جمعه 11 اگست 2017

پاکستان کے 44 فیصد رقبے اور صرف 7 فیصد آبادی کے ساتھ صوبہ بلوچستان بہت سے حوالوں سے سرخیوں کا موضوع رہا ہے۔تیل، گیس، تانبے اور سونے جیسے قدرتی وسائل سے مالا مال اس خطے کا محل وقوع انتہائی حساس اور اہم ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود بلوچستان ملک کے سب سے غریب اور پسما...

پسماندہ صوبہ بلوچستان میں احساسِ محرومی نیا نہیں !!

نئی اینٹی کرپشن ایجنسی کا قیام، محکمہ اینٹی کرپشن حکام لاعلم الیاس احمد - جمعرات 03 اگست 2017

حکومت سندھ نے ان دنوں ایسے فیصلے کیے ہیں جو آگے چل کر اس کے گلے پڑیں گے لیکن فی الحال وفاقی سطح پر آنے والے بحران کا حکومت سندھ نے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے اس لیے پچھلے نو سالوں سے حکومت سندھ کو نیب اور دیگر قوانین اچھے لگ رہے تھے اور اب نو سال کے بعد حکومت سندھ کو محسوس ہوا کہ ن...

نئی اینٹی کرپشن ایجنسی کا قیام، محکمہ اینٹی کرپشن حکام لاعلم

نیب سندھ حکومت کے لیے درردِ سر کیوں؟ الیاس احمد - جمعرات 13 جولائی 2017

دس سے زائد وزراء اور 50 سے زائد سرکاری افسران پر کھربوں روپے کی لوٹ مار کے مقدمات احتساب عدالت میں زیر سماعت ہیں شرجیل میمن ایک اسٹیٹ ایجنٹ تھے وہ مخدوم امین فہیم اور ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے ذریعہ آصف زرداری اور فریال تالپر تک پہنچے قیام پاکستان سے لے کر آج تک سندھ میں جتنی بھ...

نیب سندھ حکومت کے لیے درردِ سر کیوں؟

گھناؤنے کھیل کا نیا بندوبست جلال نورزئی - هفته 01 جولائی 2017

بلوچستان کے ساحلی علاقے جیوانی میں ایک حملے میں پاک بحریہ کے دو اہلکار خلیل اور حسن جاں بحق ہوگئے۔ یہ حملہ20جون کو اس وقت کیا گیا جب اہلکار افطاری لینے گئے تھے۔ اس سانحہ پر ملک کے سیکورٹی اداروں اور اہل دانش کے اندر بڑی تشویش پائی گئی۔ اگرچہ اس نوعیت کے بڑے سنگین واقعات نہ صرف اس...

گھناؤنے کھیل کا نیا بندوبست

ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے بعد اب آغا سراج درانی کی باری؟ الیاس احمد - هفته 27 مئی 2017

سیاسی حلقوں میں یہ بات عام ہے کہ آصف علی زرداری یاروں کا یار ہے لیکن واقفان حال کا کہنا ہے کہ وہ دشمنوں کے لیے خطرناک دشمن ہیں۔ آصف علی زرداری کے دوستوں کی طویل فہرست ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے اب دو یا تین دوست ایسے رہ گئے ہیں جو دوستی نبھاپا رہے ہیں باقی تو ایسے انتقام ...

ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے بعد اب آغا سراج درانی کی باری؟

بلوچستان کی ترقی :انتخابی نعرے یاکچھ حقیقت بھی۔۔۔!! ایچ اے نقوی - اتوار 09 اپریل 2017

[caption id="attachment_44044" align="aligncenter" width="784"] بلوچ نوجوانوں کو حقیقی معنوں میں روزگار کے بہتر مواقع فراہم کرنا ہیں تو پہلے ان کی تعلیم اور ان کو ہنر سکھانے پر توجہ دینا ہوگی ورنہ سڑکیں اور صنعتیں صوبے کو ترقی نہیں دے سکتیں،ناقدین بلوچستان میں تعلیم کی زبوں حالی ...

بلوچستان کی ترقی :انتخابی نعرے یاکچھ حقیقت بھی۔۔۔!!

ریکوڈک کیس ورلڈ بینک نے پاکستان کے ساتھ ہاتھ کردیا؟ ایچ اے نقوی - منگل 28 مارچ 2017

ورلڈ بینک کے ثالثی ٹریبونل نے ریکوڈک پروجیکٹ کے حوالے سے دائر کردہ مقدمے میں پاکستان کے خلاف فیصلہ دے دیا۔چلی کی مائننگ کمپنی اینٹوفاگاستا کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ورلڈ بینک کے انٹرنیشنل سینٹر برائے سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس (آئی سی ایس آئی ڈی) کی جانب سے قائم کر...

ریکوڈک کیس ورلڈ بینک نے پاکستان کے ساتھ ہاتھ کردیا؟

بلوچستان :قیام امن کے لیے بنیادی سہولتوںکی فراہمی ضروری ایچ اے نقوی - اتوار 12 مارچ 2017

بلوچستان کا دارالحکومت کوئٹہ طویل عرصے سے ملک کے دیگر علاقوں کے لوگوں کے لیے ممنوعہ علاقہ تصور کیاجاتا رہا ہے۔فرقہ وارانہ گروپوں اور علیحدگی پسند عسکریت پسندوںکی خونریز کارروائیوں کی وجہ سے ملک کے دیگر علاقوں سے کوئٹہ آنے کا تصور کرنا ہی مشکل ہوگیاتھا ۔ فرقہ وارانہ تنظیموں کے خو...

بلوچستان :قیام امن کے لیے بنیادی سہولتوںکی فراہمی ضروری

سندھ و بلوچستان پولیس نے سرجوڑ لیے وجود - بدھ 01 مارچ 2017

سندھ میں جب بھی دہشت گردی ہوئی تو اس کو شہری علاقوں خصوصاً کراچی اور حیدرآباد تک محدود رکھا گیا۔ لیکن پچھلے ڈیڑھ سال کے دوران جیکب آباد‘ شکارپور ‘خان پور اور اب سیہون کو ملا کر پانچ واقعات ہوچکے ہیں جن میں 200 سے زائد افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ پہلے ڈاکٹر ابراہیم جتوئی کے قافلے...

سندھ و بلوچستان پولیس نے سرجوڑ لیے

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر