وجود

... loading ...

وجود

اور یہ ’’متوازی عدالتیں‘‘ ۔۔۔!!!

اتوار 08 جنوری 2017 اور یہ ’’متوازی عدالتیں‘‘ ۔۔۔!!!

ویسے تو یہ معمول کا حصہ ہے مگر جب سے پاناما لیکس میں وزیراعظم نوازشریف کے بچوں کا نام آیا ہے، بالخصوص سپریم کورٹ میں سماعت کا آغازہوا ہے،تو عدالت سے باہر سڑکوں پر اور ٹی وی چینلز پر اپنی اپنی عدالتیں سج گئیں ہیں اور ان عدالتوں سے ایسے ایسے ’’فیصلے ‘‘منظر عام پر آرہے ہیں کہ ملک بھر کے عوام کنفیوژن کا شکار ہوکر رہ گئے ہیں ، اس ذہنی الجھاؤ کی صورتحال کی جانب ایک انگریزی روزنامے کے ایڈیٹر برادرم سلیم بخاری نے توجہ دلائی جس پر ایسے جوابی دلائل سامنے آئے کہ جن میں ہٹ دھرمی تو نمایاں ہے مگر ’’معقولیت‘‘کے پہلو تلاش کرنے پڑیں گے ۔ لفافہ دیکھ کر مضمون سمجھ آجانے کے مصداق ،جس طرح بعض کالم نگاروں کے نام سے ہی کالم میں مچلتے مفہوم کو جان لیا جاتا ہے اسی طرح بعض اینکرز کے اسکرین پر جلوہ گر ہوتے ہی سمجھ میں آجاتا ہے کہ کیا ’’گوہرافشانی ‘‘ ہوگی ، کس کی پگڑی اچھالی جائے گی اور کس کے غلط کو درست ثابت کرنے کی جادو گری دکھائی جائے گی، اس کے لیے یہ جواز تراشا جاتا ہے کہ معاملات یا صورتحال سے آگاہی عوام کا حق ہے ، اور ہم نے خود کو اس فرض کی ادائیگی کا پابند کرلیا ہے۔ بلا شبہ صحافی کا تعلق پرنٹ میڈیا سے ہو یا الیکٹرانک میڈیا سے عوام کو باخبر رکھنا اس کا پیشہ ورانہ فریضہ بنتا ہے ، تاہم اس کے لیے غیر جانبداری اور انصاف شرط اول ہے لیکن اگر کسی مخصوص لیڈر ، نقطہ نظر ، سیاسی جماعت اور نظریے کو پروان چڑھانا مقصد ہو یا کسی نظریے یا سیاسی جماعت اور لیڈر کو عوام کی نظروں سے گرانے کے لیے ’’ہنرکاری‘‘مقصود ہو تو یہ صحافتی اقدار و روایات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ لہذا خود احتسابی بھی لازم ہے کہ صحافی عام لوگوں کی نظروں میں صحافی ہی گردانا جائے اس پر کسی سیاسی جماعت یا لیڈر کا آلہ کار ہونے کا ٹھپا نہ لگ سکے ۔
ٹاک شوز کے نام پر بعض ٹی وی چینلز پر جو ہو رہا ہے ،سلیم بخاری نے بجا طور پر اسے تماشہ قرار دیا ہے۔ بعض ٹی سی اینکرز تو صاحب کشف ہیں مثلا ایک’’ صحافتی بقراط‘‘ نے تو یہ انکشاف کردیا کہ چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ جو فیصلہ سنائے گی اس سے کرپشن اور لوٹ مار کرنے والے سزا پائیں گے اور بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر وزیراعظم نوازشریف ان کے بچے نشانہ ہیں جن پر پاناما لیکس کے حوالے سے ایک کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے ،عدالت عظمی نے وزیراعظم نوازشریف کے حوالے سے یہ تفصیلات طلب کیں کہ وہ کن کن عہدوں پر براجمان رہے ہیں تو اسے ایسے معنے پہنائے گئے کہ عدالت نے یہ تفصیلات طلب نہیں کیں بلکہ شریف فیملی کے خلاف فیصلہ سنادیا ہے حالانکہ عدالتی بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ہدایت دی ہے کہ پریس کانفرنسوں کے لیے نہ تو عدالتی احاطوں کو استعمال کیا جائے نہ ہی ججوں کے ریمارکس کو اپنے مطلب کے معنی پہنائے جائیں ۔میں نے اپنے ساتھی حافظ جاوید اقبال سے سوال کیا کہ بعض چینلز آنے والے عدالتی فیصلے کے حوالے سے جو ذہنی فضا بنا رہے ہیں اگر فیصلہ اس کے برعکس آگیا تو کیا ہوگا ،انہوں نے بہت پتے کی بات کی کہ عدالت اور ججوں کو تو براہ راست کچھ نہیں کہا جائے گا البتہ عدالتی نظام کے بخئیے ادھیڑنے کی کوشش کی جائے گی اور ایسے ایسے نکتے نکالے جائیں گے جن سے یہ تاثر پیدا ہو کہ فیصلہ کسی خاص ’’پس منظر‘‘ میں کیا گیا ہے ۔
ایک اینکر پرسن نے جن کے بارے میں میرا گمان تھا کہ یہ صاحب اپنے دیگر دو ساتھیون کے مقابلے میں معقولیت کا جامہ پہنے ہوئے ہیں انہوں نے ایسی خطر ناک بات کی کہ میں ہل کر رہ گیا ،وزیر اعظم نوازشریف کی مخالفت کرنا یا ان کے اقتدار کے خاتمے کی خواہش کا اسیر ہونا کسی طور غلط نہیں ہے، ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس کی چاہے سیاسی حمایت اور مخالفت کرے لیکن مخالفت میں حد سے نہ گزرنا چاہیے ،نہ حمایت میں انصاف کا دامن چھوڑنا چاہیے ،اس اینکر نے جو کہا اس کا مفہوم یہ ہے کہ آج تک پنجاب کے کسی حکمران یا بڑے آدمی کے خلاف فیصلہ نہیں آیا اور اعتزاز احسن کو بھی یہ خدشہ ہے، اعتزاز احسن کی حد تک تو بات سمجھ آتی ہے کہ آصف زرداری اور ان سے بہت گہری قربت رکھنے والوں کے سروں پر احتساب کی جو تلوار لٹک رہی ہے وہ اس حوالے سے مختلف اندازمیں دھول اڑانے کی کوشش کریں گے تاکہ کسی بھی کارروائی کو ایک ’’غیر پنجابی ‘‘ کے ساتھ ناانصافی کا رنگ دیا جاسکے لیکن ایک اینکر پرسن کا یہ کہنا’’ آج تک کسی پنجابی حکمران یا برے آدمی کے خلاف فیصلہ نہیں آیا ‘‘ جس چیز کی نشاندہی ہے وہ صوبائی منافرت پھیلانے کی شعوری یا لاشعوری کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ جو اپنی بات یا لکھی تحریر کے فوری اور دوررس مضمرات اور نتائج کا ادراک نہ کرسکے وہ دانشور ’’سقراط،بقراط ‘‘کچھ بھی ہوسکتا ہے صاحب نظر صحافی نہیں ہے ،نہ ایسا تاثر پھیلانا حب الوطنی ہے ۔ وزیر اعظم اور ان کے بچوں کے خلاف جو مقدمہ زیر سماعت ہے اس کی لفظ بہ لفظ رپورٹنگ کی جاسکتی ہے وکلا کے دلائل، معزز ججوں کے ریمارکس خبر کی صورت میں شائع کرنا یا ٹی اسکرین پر دکھانا صحافتی عمل ہے لیکن رنگ آمیز تبصروں اور تجزیوں کے ذریعے خاص ذہنی فضا بنانے کی کوشش مسلمہ صحافتی اقدار سے مطابقت نہیں رکھتی ۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مقدمے میں میں کورٹ روم میں موجود ہوتا تھا پاکستان ٹائم کے مقبول شریف ، اے پی پی کے فاروق نثار ، ڈان کے محمود زمان ، پی پی آئی کے مصبح الحق ، نوائے وقت کے سعید آسی ، مشرق کے ممتاز احمد ، جنگ کے فاروق شاہ اور روزنامہ مغربی پاکستان سے یہ کالم نگا رمقدمے کی رپورٹنگ کرتے، اخبارات کی فائلیں اٹھا کردیکھ لی جائیں سماعت کے دوران جو کچھ ہوتا وہی خبر کی صورت اخبارات میں جلوہ گر ہوتا ۔اس دور میں ذوالفقار علی بھٹو کے پرجوش حامی صحافی بھی تھے اور ان سے سیاسی اختلاف رکھنے والے بھی ۔مگر مقدمے کے پہلے دن سے فیصلے کی گھڑی تک متوازی عدالتیں لگتی تھیں نہ مرضی کے فیصلے سنائے جاتے ،نہ کسی کو یہ کشف ہوتا کہ عدالت کیا فیصلہ کرے گی ۔صحافت کا وہ انداز صحافتی روایات کے مطابق تھا یا آج کی صحافت( مستثنیات کے ساتھ )زیادہ بہتر اندا ز رکھتی ہے، یہ فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں ۔

اسرار بخاری


متعلقہ خبریں


رجوع کا وقت رضوان رضی - منگل 08 نومبر 2016

اگر بارِ خاطر گراں نہ گزرے اور جان کی امان عطا ہو تو عرض بس اتنا ساکرنا تھا کہ جن لوگوں نے بہت بڑے بڑے منہ کھول کر وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف ، ان کے بچوں ، رشتے داروں اور دیگر ساتھیوں کے مالی معاملات کے عدلیہ کے پاس جانے پر بغلیں بجائی تھیں اور اسے اپنی فتح پر محمول کیا تھا ،...

رجوع کا وقت

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر