... loading ...
رات کے نو بج رہے تھے ہمیں پی ٹی وی سے خبر نامے کا انتظار تھا لیکن خبریں شروع نہیں ہوئیں، ہم نے علی سے کہا نو بج گئے خبرنامہ شروع نہیں ہو رہا پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے، علی بولا نو ہماری گھڑی میں بجے ہیں وہاں پاکستان میں رات کے گیارہ بج رہے ہیں ہمیں احساس ہوا کہ سعودی عرب میں ہم پاکستان سے دو گھنٹے پیچھے ہیں اس لیے جب یہاں سات بجیں گے تو پاکستان میں نو بجیں گے۔ یعنی خبرنامہ دیکھنے کے لیے ہمیں اب کل تک انتظار کرنا تھا۔ ویسے خوشی کی بات یہ تھی کہ ہم اپنے وطن کے چینلز دیکھ پا رہے تھے۔ خیر رات خاصی بیت چکی تھی اس لیے ہم نے سونے میں عافیت جانی۔ اگلے روز کالج سے واپسی پر ہمارا زیادہ تر وقت ٹی وی کے سامنے ہی گزرا۔ ہم نے سات بجے پی ٹی وی کا خبرنامہ بھی دیکھا۔ ملک کے حالات بالکل نہیں بدلے تھے اور خبریں بھی تبدیل نہیں ہوئی تھیں۔ حکمرانوں کی خبریں وزیروں کی خبریں، پی ٹی وی کی خبروں میں تو راوی یوں بھی چین ہی چین لکھتا ہے۔ ویسے اس چین کے معاملے میں خلیجی ممالک کا میڈیا پی ٹی وی سے کافی آگے نظر آتا ہے۔ یہاں امریکا کی جاپان کی ایشیا، یورپ، آسٹریلیا کی،ہر ملک کی خبر مل جاتی ہے، نہیں ملتی تو اپنے ملک کی خبر نہیں ملتی۔ ایک دن ہم لوگ کالج سے واپس آکر کھانا کھا رہے تھے کہ کسی نے زور زور سے ہمارے کمرے کا دروازہ کھٹ کھٹایا، باہر ولا کے دو تین لوگ کھڑے تھے، انہوں نے بتایا کہ آپ لوگوں نے مروا دیا، اب پتہ نہیں کون کون بھگتے گا۔ ہم نے کہا کیا معاملہ ہے تو پتہ چلا متواع پولیس آئی ہے اور ڈش انٹینا لگانے پر اعتراض کر رہی ہے۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ آپ لوگوں نے کمرے کی چھت پر اپنا ڈش لگایا تھا جو دور سے نظر آرہا تھا اس لیے متواع پولیس والے آگئے ہیں۔ ہم ان لوگوں کے ساتھ چھت پر پہنچے جہاں دو وطنی باشندے موجود تھے فرق یہ تھا کہ ان دونوں نے اپنے سروں پر جو رومال رکھے ہوئے تھے ان کو کسی چیز سے باندھا نہیں گیا تھا۔ یعنی وہ جو عربوں کے سر پر موجود رومال پر ایک سیاہ دائرہ ہوتا ہے وہ موجود نہیں تھا۔ انہوں نے پوچھا یہ اوپر کس کا ڈش ہے ہم نے کہا ہمارا ہے، انہوں نے کہا ہذا شئے حرام، یعنی یہ حرام چیز ہے آپ لوگوں نے کیوں لگائی ہے۔ ہم نے انہیں سارے علاقے کے گھروں پر لگے تین تین چار چار ڈشوں کی طرف متوجہ کیا اور کہا شوف ہذا موجود علی کل منزل وطنی، یعنی یہ دیکھو ڈش تو تمام وطنیوں کے گھروں پر لگے ہوئے ہیں، ہمارے لیے حرام کیوں ہو گئے۔ جس پر متواع بولے سمجھانا ہمارا فرض ہے ہمارا کام ہی یہ ہے کہ لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور برائی سے روکیں، ہم نے کہا تو پہلے اپنے ہم وطنوں کو روکیں ہم تو فوراً ہی رک جائیں گے۔ ہماری کیا مجال کہ کہیں کسی گھر پر ڈش نہ ہو اور ہم اپنی چھت پر ڈش لگا لیں۔ متواع کہنے لگے کس کس کو سمجھائیں کوئی سنتا ہی نہیں امید ہے آپ لوگ سن لیں گے آپ کا ڈش دور سے نظر آرہا ہے اس کو اتار کر نیچے والی چھت پر لگا لیں تاکہ نظر تو نہ آئے۔ ہماری نوکریاں کیوں مشکل میں ڈالتے ہو۔
یہاں متواع یا مذہبی پولیس کے بارے میں کچھ بتاتے چلیں۔ متواع پولیس دراصل ادارہ برائے امر بالمعروف و النہی عن المنکر کے ارکان کو کہا جاتاہے، یہ معاشرے میں برائی کو روکنے اور نیکی کا درس دینے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ عام طور پر مملکت میں لوگوں کو متواع کے حوالے سے شکایات رہی ہیں، سمجھا جاتا ہے کہ یہ لوگ زبردستی لوگوں پر دین لاگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ گھر سے نماز پڑھ کر نکلے اور کسی دوسری مسجد کے قریب سے گزرے جہاں نماز ہو رہی تھی اور باہر متواع موجود تھے تو آپ کو نماز نہ پڑھنے کے الزام میں دھر لیا جائے گا۔ شک ہونے پر یہ لوگ تعاقب کرکے بھی لوگوں کو گرفتار کر لیتے تھے تاہم اپریل2016سے سعودی عرب میں حکام نے ملک کی مذہبی پولیس یعنی متواع کے اختیارات میں کمی لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب سعودی عرب کے ادارہ برائے امر بالمعروف و النہی عن المنکر کے ارکان کو مشتبہ افراد کا تعاقب کرنے یا انھیں حراست میں لینے کی اجازت نہیں ہو گی۔ نئے احکامات کے مطابق مذہبی پولیس مشتبہ افراد کے بارے میں معلومات سکیورٹی فورسز کو دے گی۔ نئے قوانین کے تحت مذہبی پولیس مرد اور عورتوں کو گھلنے ملنے سے روکے گی، الکوحل پر پابندی کو نافذ کرے گی، خواتین پر ڈرائیونگ کرنے کی پابندی اور دیگر سماجی پابندیاں نافذ کرتی رہے گی۔ تاہم نئے قوانین میں کہا گیا ہے کہ وہ ان پابندیوں کا اطلاق نرم اور ہمدردانہ طریقے سے کریں گے۔ نئے قوانین میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ متواع پولیس والے واضح طور پر اپنی شناخت کروائیں گے جس میں ان کا نام، عہدہ وغیرہ شامل ہو گا۔ متواع کے کہنے پر ہم نے اپنا ڈش اتار کر وہیں لگا لیا جہاں دیگر ڈش لگے ہوئے تھے۔ وہاں موجود لوگوں نے کہا بڑی بات ہے انہوں نے تم لوگوں کی جان اتنی آسانی سے چھوڑ دی۔ ہم نے کہا بھائی اصل میں یہ سچے لوگ تھے وطنیوں کے ڈش نہیں اتروا سکتے تھے اس لیے ہمیں بھی کچھ نہیں کہا۔۔۔۔۔ جاری ہے
سیمی خوش مزاج آدمی تھا اس کے ساتھ کام کرنا اچھا تجربہ ثابت ہوا تھا اس کے مقابلے میں یہ نیا انچارج شنکر کمار بہت بد دماغ اور بداخلاق واقع ہوا تھا۔ ہماری پہلے ہی دن سے اس سے ٹھن گئی ، مشکل یہ تھی کہ وہ نیا تھا اور ابھی اسے کام سمجھنا تھا اس لئے وہ ہم سے زیادہ بدتمیزی نہیں کرسکتا تھ...
سیمی کو گئے کئی مہینے ہو گئے تھے اس کی واپسی کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا، اس کا کام بھی ہمارے زمے ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے کام کی تھکن بڑھتی جا رہی تھی۔ کئی بار کام کی زیادتی کی وجہ سے ہمیں دیر تک رکنا پڑتا تھا۔ ہمیں سیمی کا بھی کام کرنے کی وجہ سے کوئی مالی فائدہ بھی نہیں مل رہا تھا...
اگلے روز یعنی جمعے کو ہم عزیزیہ کے ایک پاکستانی ہوٹل میں ناشتہ کرنے کے بعد مکہ شریف کے لیے روانہ ہوئے، جدہ حدود حرم سے باہرحِل کی حدود میں ہے۔ حرم شریف اور میقات کے درمیان کے علاقے کو حِل کہا جاتا ہے اس علاقے میں خود سے اگے درخت کو کاٹنا اور جانور کا شکار کرنا حلال ہے جبکہ اس علا...
ہمارے دوست اظہار عالم کافی عرصے سے جدہ میں مقیم تھے ہم نے عمرہ پر روانگی سے پہلے انہیں فون کرکے اپنی ا?مد کی اطلاع دیدی تھی، طے ہوا تھا کہ وہ جمعرات کو صبح دس بجے باب فہد کے سامنے ایک بینک کے پاس پہچیں گے۔ ہم ساڑھے نو بجے جا کر اس بینک کے سامنے جا کر کھڑے ہوگئے۔ وہاں کافی لوگ موج...
مکہ المکرمہ سے مدینہ شریف کا فاصلہ تقریبا ساڑھے چار سو کلومیٹر ہے، راستے بھر مشہور نعت مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ ذہن میں گونجتی رہی، ہماری آنکھیں سارے راستے پُر نم رہیں۔ مدینے کا راستہ محبت کی معراج کا وہ راستہ ہے جس پر بڑے بڑے صحابہ ، علما، صوفیہ اور بزرگان دین نے...
صبح فجر سے پہلے ہماری بس مکہ مکرمہ کے ہوٹل پہنچ گئی، دل میں عجب سی ہلچل مچی ہوئی تھی، کعبہ شریف کے اس قدر قریب ہونیکا احساس جیسے دل کو الٹ پلٹ کر رہا تھا ، کوشش تھی کہ فوری طور پر حرم شریف پہنچیں اور اللہ کے گھر کا دیدار کریں۔ اللہ کا گھردنیا میں وہ پہلی عبادت گاہ ہے جو انسانوں ک...
نسیم ولا اور کالج میں شب و روز اپنی مخصوص چال سے گزر رہے تھے۔ روز صبح کو شام کرنا اور شام کو صبح کا قالب بدلتے دیکھنا اور اس کے ساتھ لگی بندھی روٹین کو فالو کرنا یہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت بن چکی تھی۔ ایک بے قراری تھی، ایک بے کلٰی تھی جو دل میں بسنے لگی تھی۔ ہم لوگ روٹین کے ایس...
نسیم ولا میں دن اچھے گزر رہے تھے۔ ایک دن باتوں کے دوران ہم نے کہا لگتا ہے ریاض میں کوئی گھومنے کی جگہ نہیں ہے ،ہوتی تو ہم لوگ وہاں کا چکر لگا آتے، نسیم کے علاقے میں جہاں ہمارا ولا تھا وہاں ہمیں نہ تو کوئی پارک نظر آیا تھا نہ کوئی اور ایسی جگہ جہاں آپ تفریح کے لیے جا سکیں۔ سنیم...
ڈش انٹینا اور اس کا متعلقہ سامان لائے کئی دن گزر چکے تھے۔ ہم چاروں روز سوچتے تھے کہ آج ضرور ڈش انٹینا لگالیں گے لیکن کالج سے آنے کے بعد کھانا پکانے اور کھانے کے بعد اتنا وقت ہی نہیں بچتا تھا کہ چھت پر جائیں اور ڈش انٹٰینا کی تنصیب کا کام مکمل کریں۔ پھر طے پایا کہ یہ کام جمعے کو...
ہم ڈش انٹینا کا سامان اٹھائے بطحہ کے مرکزی چوک پہنچے تو ایک عجیب منظر ہماری آنکھوں کے سامنے تھا۔ وہاں کچھ ٹیکسیاں اور کاریں کھڑی تھیں جن کے ڈرائیور کاروں کے باہر کھڑے مسافروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے آوازیں لگا رہے تھے۔ خمسہ ریال، خمسہ ریال۔ منظر عجیب اس لیے تھا کہ آوازی...
ولا میں دوسرا مہینہ گزر رہا تھا، ہم نے اپنے کمرے کے لیے ٹی وی خرید لیا تھا لیکن اس پر صرف سعودی عرب کے دو لوکل چینل آتے تھے۔ ولا کی چھت پر کئی ڈش انٹینا لگے ہوئے تھے لیکن وہ بھارتیوں یا سری لنکنز نے لگائے ہوئے تھے اس لیے کسی پر پاکستانی ٹی وی چینلز نہیں آتے تھے۔ اس وقت سعودی عرب ...
ہم کھانے کے لیے بیٹھ چکے تھے، صورتحال یہ تھی کہ سب کے حصے میں ایک ایک روٹی اور ایک ایک کباب آیا تھا، ہمارے حصے میں صرف ایک روٹی آئی تھی پھر منیب کو شائد ہماری حالت پر رحم آگیا اور اس نے ہمیں کچن میں جا کر مزید ایک کباب تلنے کی اجازت دیدی۔ ہم جلدی جلدی میں کباب تل کر واپس لوٹے تو ...