... loading ...
ڈش انٹینا اور اس کا متعلقہ سامان لائے کئی دن گزر چکے تھے۔ ہم چاروں روز سوچتے تھے کہ آج ضرور ڈش انٹینا لگالیں گے لیکن کالج سے آنے کے بعد کھانا پکانے اور کھانے کے بعد اتنا وقت ہی نہیں بچتا تھا کہ چھت پر جائیں اور ڈش انٹٰینا کی تنصیب کا کام مکمل کریں۔ پھر طے پایا کہ یہ کام جمعے کو ہی سرانجام دیا جائے۔ اگلے جمعے نماز جمعہ پڑھنے کے بعد ہم چاروں سارے سامان کے ساتھ ڈش انٹٰینا لگانے کے لیے چھت پر چڑھ گئے۔ سعودی عرب میں گھروں کی چھتوں پر اونچی چار دیواری بنی ہوتی ہے، لوگ عام طور پر چھتوں پر نہیں آتے اور کوئی کسی کام سے آئے بھی تو کسی کو نظر نہیں آتا۔ ہمارے ولا کی چھت پر بہت سارے ڈش لگے ہوئے تھے، اونچی دیواروں کے باعث ڈش چھت کے درمیان میں لگائے گئے تھے۔ ہمارے ڈش کے لیے چھت پر کوئی مناسب جگہ نہیں بن رہی تھی۔ ایک جگہ کونے میں ڈش لگ سکتا تھا لیکن وہاں سے تار نیچے لے کر جانا ذرا مشکل تھا۔ ہم نے طے کیا کہ چھت پر بنے دو کمروں کی چھت پر ڈش لگا دیا جائے۔ وہا کوئی ڈش نہیں لگا تھا اس لیے وہ پوری چھت خالی پڑی تھی۔ اس روز بھی منیب اور واجد نے اپنے عزیزوں کی طرف جانے کی کوشش کی لیکن ہم نے اور علی نے انہیں سختی کے ساتھ روک لیا۔ ویسے چھت پر ڈش کی تنصیب کے دوران ان کی موجودگی بہت ضروری تو نہیں تھی لیکن کیونکہ وہ ہمارے روم میٹ تھے اس لیے ڈش کی تنصیب کے عمل میں ان کو شامل رکھنا ضروری تھا۔ تیز دھوپ اور سخت گرمی میں ڈش لگانا خاصا صبر آزما اور مشکل ثابت ہو رہا تھا ۔ایسے میں منیب اور واجد کا ہونا اچھا ہی ثابت ہوا ،وہ ٹھنڈا پانی لانے اور ہمارا ہاتھ بٹانے میں لگے رہے۔ کئی گھنٹے کی محنت کے بعد ڈش سیٹ ہوا، ہم نے ٹی وی اوپر چھت پر رکھ کر ڈش کو سیٹ کیا، پی ٹی وی کے ساتھ صرف دو تین اور پاکستانی چینل آرہے تھے باقی سب انڈین چینلز تھے، ہماری دلچسپی پاکستانی چینلز دیکھنے میں تھی اس لیے ڈش کو ایسے رخ پر سیٹ کیا جہاں زیادہ سے زیادہ پاکستانی چینل آ سکیں لیکن یہ تعداد تین سے آگے نہ بڑھی ۔اس دور میں پاکستان کے بہت کم سیٹلائٹ چینلز آن ائر تھے۔ نیوز چینلز کی جو بھرمار آج نظر آتی ہے ان میں سے کسی کی ابتدا ابھی نہیں ہوئی تھی۔ ڈش پر چینلز سیٹ کر کے تار لگا کر ہم نیچے اترے، اب مرحلہ تھا تار کو اپنے کمرے تک پہنچانے کا۔ خیر سے یہ مرحلہ بھی انجام کو پہنچ گیا لیکن تار ہمارے کمرے کی کھڑکی تک ہی پہنچ سکا، ٹی وی کمرے کے دوسرے کونے میں تھا یعنی کم از کم پانچ میٹر تار کم پڑ گیا تھا۔ ہم نے ولا کی چھت سے تار کی پیمائش کی تھی اس لیے اپنے حساب سے تو ہم تار ٹھیک لائے تھے لیکن کیونکہ ڈش ہم نے ولا کی چھت پر بنے ہوئے کمروں کی چھت پر رکھ دی تھی اس لیے تار کم پڑنا ہی تھا۔
ڈش لگ جانے کے باوجود ہم لوگ اپنے ملک کے چینل نہیں دیکھ سکتے تھے کم از کم اس دن تو ایسا ممکن نہیں تھا، کیونکہ ہم سب ہی تھک چکے تھے اور باہر کسی دکان میں جا کر تار لانیکی ہمت کسی میں بھی نہیں تھی ،یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ وہاں کہیں قریب میں تار ملتا بھی یا نہیں۔ اس لیے ہم چاروں ہی آرام کرنے لگے۔ ہم نے کھانے کی تیاری بھی کرنی تھی ،اس لیے کچھ دیر بعد اٹھنا ہی پڑا۔ منیب اورعلی کچن میں جا کرکھانے کی تیاری کرنے لگے جبکہ ہم واجد کے ساتھ روٹیاں اور کچھ سامان لینے نکل گئے۔ واپس آکر ہم دوبارہ چھت پر پہنچ گئے ہمارا خیال تھا کہ اتنے سارے ڈش جو لگے ہیں تو یقینا کچھ تار اضافی بھی ہوں گے جو کسی کے استعمال میں نہیں ہوں گے یا کوئی تار ضرورت سے زیادہ بڑا ہوگا جسے کاٹ کر ہم اپنے کام میں لا سکیں گے۔ ہماری تلاش رنگ لائی اور ہمیں ایسا ایک تار مل ہی گیا جس کا دوسرا سرا چھت سے نیچے لٹکا ہوا تھا ،یہ تار اتنا بڑا نہیں تھا کہ کسی کمرے میں جا سکے لیکن ہمارا کام اس سے چل سکتا تھا۔ ہم نے نیچے جاکر علی کو بتایا اور اس کو ساتھ لیکر واپس چھت پر پہنچے، ہم نے تار کا یہ ٹکڑا ڈش سے علیحدہ کیا پھر اسے چیک کیا کہ کہیں سے بریک نہ ہو ،مطمئن ہو کر ہم یہ تار اپنے کمرے میں لے آئے۔ منیب نے کھانا لگا لیا تھا۔ لیکن ہم نے کہا اب تار کو ٹی وی سے جوڑ کر ہی کھانا کھائیں گے۔ محنت رنگ لے آئی تھی ہم نے پی ٹی وی لگایا اور کھانا کھانے بیٹھ گئے۔ ۔۔ جاری ہے
٭٭
سیمی خوش مزاج آدمی تھا اس کے ساتھ کام کرنا اچھا تجربہ ثابت ہوا تھا اس کے مقابلے میں یہ نیا انچارج شنکر کمار بہت بد دماغ اور بداخلاق واقع ہوا تھا۔ ہماری پہلے ہی دن سے اس سے ٹھن گئی ، مشکل یہ تھی کہ وہ نیا تھا اور ابھی اسے کام سمجھنا تھا اس لئے وہ ہم سے زیادہ بدتمیزی نہیں کرسکتا تھ...
سیمی کو گئے کئی مہینے ہو گئے تھے اس کی واپسی کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا، اس کا کام بھی ہمارے زمے ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے کام کی تھکن بڑھتی جا رہی تھی۔ کئی بار کام کی زیادتی کی وجہ سے ہمیں دیر تک رکنا پڑتا تھا۔ ہمیں سیمی کا بھی کام کرنے کی وجہ سے کوئی مالی فائدہ بھی نہیں مل رہا تھا...
اگلے روز یعنی جمعے کو ہم عزیزیہ کے ایک پاکستانی ہوٹل میں ناشتہ کرنے کے بعد مکہ شریف کے لیے روانہ ہوئے، جدہ حدود حرم سے باہرحِل کی حدود میں ہے۔ حرم شریف اور میقات کے درمیان کے علاقے کو حِل کہا جاتا ہے اس علاقے میں خود سے اگے درخت کو کاٹنا اور جانور کا شکار کرنا حلال ہے جبکہ اس علا...
ہمارے دوست اظہار عالم کافی عرصے سے جدہ میں مقیم تھے ہم نے عمرہ پر روانگی سے پہلے انہیں فون کرکے اپنی ا?مد کی اطلاع دیدی تھی، طے ہوا تھا کہ وہ جمعرات کو صبح دس بجے باب فہد کے سامنے ایک بینک کے پاس پہچیں گے۔ ہم ساڑھے نو بجے جا کر اس بینک کے سامنے جا کر کھڑے ہوگئے۔ وہاں کافی لوگ موج...
مکہ المکرمہ سے مدینہ شریف کا فاصلہ تقریبا ساڑھے چار سو کلومیٹر ہے، راستے بھر مشہور نعت مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ ذہن میں گونجتی رہی، ہماری آنکھیں سارے راستے پُر نم رہیں۔ مدینے کا راستہ محبت کی معراج کا وہ راستہ ہے جس پر بڑے بڑے صحابہ ، علما، صوفیہ اور بزرگان دین نے...
صبح فجر سے پہلے ہماری بس مکہ مکرمہ کے ہوٹل پہنچ گئی، دل میں عجب سی ہلچل مچی ہوئی تھی، کعبہ شریف کے اس قدر قریب ہونیکا احساس جیسے دل کو الٹ پلٹ کر رہا تھا ، کوشش تھی کہ فوری طور پر حرم شریف پہنچیں اور اللہ کے گھر کا دیدار کریں۔ اللہ کا گھردنیا میں وہ پہلی عبادت گاہ ہے جو انسانوں ک...
نسیم ولا اور کالج میں شب و روز اپنی مخصوص چال سے گزر رہے تھے۔ روز صبح کو شام کرنا اور شام کو صبح کا قالب بدلتے دیکھنا اور اس کے ساتھ لگی بندھی روٹین کو فالو کرنا یہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت بن چکی تھی۔ ایک بے قراری تھی، ایک بے کلٰی تھی جو دل میں بسنے لگی تھی۔ ہم لوگ روٹین کے ایس...
نسیم ولا میں دن اچھے گزر رہے تھے۔ ایک دن باتوں کے دوران ہم نے کہا لگتا ہے ریاض میں کوئی گھومنے کی جگہ نہیں ہے ،ہوتی تو ہم لوگ وہاں کا چکر لگا آتے، نسیم کے علاقے میں جہاں ہمارا ولا تھا وہاں ہمیں نہ تو کوئی پارک نظر آیا تھا نہ کوئی اور ایسی جگہ جہاں آپ تفریح کے لیے جا سکیں۔ سنیم...
رات کے نو بج رہے تھے ہمیں پی ٹی وی سے خبر نامے کا انتظار تھا لیکن خبریں شروع نہیں ہوئیں، ہم نے علی سے کہا نو بج گئے خبرنامہ شروع نہیں ہو رہا پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے، علی بولا نو ہماری گھڑی میں بجے ہیں وہاں پاکستان میں رات کے گیارہ بج رہے ہیں ہمیں احساس ہوا کہ سعودی عرب میں ہم پاکست...
ہم ڈش انٹینا کا سامان اٹھائے بطحہ کے مرکزی چوک پہنچے تو ایک عجیب منظر ہماری آنکھوں کے سامنے تھا۔ وہاں کچھ ٹیکسیاں اور کاریں کھڑی تھیں جن کے ڈرائیور کاروں کے باہر کھڑے مسافروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے آوازیں لگا رہے تھے۔ خمسہ ریال، خمسہ ریال۔ منظر عجیب اس لیے تھا کہ آوازی...
ولا میں دوسرا مہینہ گزر رہا تھا، ہم نے اپنے کمرے کے لیے ٹی وی خرید لیا تھا لیکن اس پر صرف سعودی عرب کے دو لوکل چینل آتے تھے۔ ولا کی چھت پر کئی ڈش انٹینا لگے ہوئے تھے لیکن وہ بھارتیوں یا سری لنکنز نے لگائے ہوئے تھے اس لیے کسی پر پاکستانی ٹی وی چینلز نہیں آتے تھے۔ اس وقت سعودی عرب ...
ہم کھانے کے لیے بیٹھ چکے تھے، صورتحال یہ تھی کہ سب کے حصے میں ایک ایک روٹی اور ایک ایک کباب آیا تھا، ہمارے حصے میں صرف ایک روٹی آئی تھی پھر منیب کو شائد ہماری حالت پر رحم آگیا اور اس نے ہمیں کچن میں جا کر مزید ایک کباب تلنے کی اجازت دیدی۔ ہم جلدی جلدی میں کباب تل کر واپس لوٹے تو ...