... loading ...
بھارت کی عدالت عظمیٰ نے1996 کے ہندوتوا کیس میں داخل متعدد درخواستوں پر سماعت کے بعد ایک انتہائی اہم فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں سیاسی پارٹیاں مذہب کے نام پر ووٹ نہیں مانگ سکتیں۔ قانون میں اس کی اجازت نہیں ہے اور اگر کوئی مذہب، عقیدہ، ذات پات، نسل اور زبان کے نام پر ووٹ مانگے گا تو اس کا انتخاب کالعدم قرار دیا جائے گا۔عنقریب سبکدوش ہونے والے عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بنچ نے کیس کے حوالے سے فریقین کے وکلا کے دلائل کی سماعت کے بعد یہ فیصلہ سنایا۔ تین ججوں نے چیف جسٹس کے موقف کی حمایت کی اور تین نے اختلاف رائے کیا۔عدالت عظمیٰ نے 1996 میں اپنے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ ہندوتواکوئی مذہب نہیں بلکہ طرززندگی ہے۔ تازہ فیصلے کے بعد اگر کوئی امیدوار یا اس کا مخالف مذہب کی بنیاد پر ووٹ مانگے گا تو اس کے خلاف عوامی نمائندگی ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ ایک شخص اور خدا کے مابین رشتہ شخصی آزادی پر مبنی ہے۔ اور مملکت کو مذہبی سرگرمیوں سے روکا گیا ہے۔
بظاہر بھارتی عدالت عظمیٰ کا یہ فیصلہ بہت ہی خوشکن ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اس فیصلے پر عملدرآمد کون کرائے گا ،کیونکہ بھارتی معاشرے میں مذہب، عقیدہ، ذات پات، نسل اور زبان کے نام پر ووٹ مانگنے اور ہر منفی کام کاالزام اقلیتوں پر دھر دینے کا رواج عام ہوچکاہے ،اگر انتخابی مہم کے دوران کوئی امیدوار اپنے مخالف امیدوار پر اپنی بیٹی کی شادی پر گائے ذبح کرکے کھلانے کا الزام عاید کردے تو اسے کون روک سکتاہے، یا اگر کوئی امیدوار اپنے مخالف امیدوار پر کسی نچلی ذات کے ہندو کے ساتھ مراسم کو اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کے لیے باعث تضحیک قرار دے دے تو کون اس کی زبان روکے گا ، اوراس طرح کے حربے اختیار کرکے انتخاب جیت جانے کے بعد اسے کون نااہل قرار دلوانے کی جرات کرسکے گا؟
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اس فیصلے کا عنقریب اترپردیش میں ہونے والے اسمبلی انتخابات پر گہرا اثر پڑے گا۔ معروف قانون دان اور رکن پارلیمنٹ ماجد میمن کے مطابق اس سے بی جے پی کو نقصان ہوگا۔ کیونکہ وہ الیکشن میں رام مندر کا ایشو اٹھانے کی تیاری کر رہی تھی۔لیکن بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ سبرامنیم سوامی کے خیال میں اس فیصلے کا بی جے پی سے کوئی تعلق نہیں۔ کیونکہ بقول ان کے اس نے کبھی بھی مذہب کی بنیاد پر ووٹ نہیں مانگا۔یاد رہے کہ 1990 کے اواخر میں بی جے پی کے رہنما لال کشن ایڈوانی نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کے لیے پوریبھارتمیں رتھ یاترا نکالی تھی جس کے بعد پورے ملک میں بی جے پی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ 1984 کے انتخاب میں بی جے پی 545 کی لوک سبھا میں صرف 2 نشستیں جیت پائی جبکہ 1991 میں اسے 120 نشستوں پر کامیابی ملی جو 1996 میں 161 ہو گئی۔ادھر ایک سینئر تجزیہ کار این کے سنگھ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں فیصلے کا الیکشن پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ کیونکہ یہ امتیاز کرنا مشکل ہوگا کہ کون سی اپیل مذہبی ہے کون سی نہیں۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کے قوانین موجود ہیں اس کے باوجود سیاسی پارٹیاں 70 برسوں سے یہی سب کرتی آئی ہیں۔ اس بارے میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی کوئی ضرورت نہیں،الیکشن کمیشن کے قوانین ہی کافی تھے۔جماعت اسلامی ہند نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ جماعت کے سکریٹری جنرل محمد سلیم انجینئر نے ایک بیان میں کہا کہ یہ کوئی نیا فیصلہ نہیں ہے۔ پھر بھی اس پر حقیقی معنوں میں عمل درآمد ہونا چاہیے۔جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے بھی فیصلے کی ستائش کی اور کہا کہ اس سے فرقہ پرست قوتوں پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ انھوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ اس فیصلے پر عمل د رآمد کرائے۔ہندو احیا پسند جماعت وشو ہندو پریشد نے بھی فیصلے کا یہ کہتے ہوئے خیر مقدم کیا کہ مذہب کی سیاست ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔ بھارت کی عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے سیاست دانوں کی طرف سے انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کے لیے مذہب اور ذات پات کے استعمال پر پابندی عائد کر دی ہے۔اس حوالے سے روزنامہ ’دی ہندو‘ کے سابق مدیر اور تجزیہ کار سدہارت وردراجن کا کہنا تھا کہ اس قانون سے وہ غلط فہمی یا الجھاؤ ختم ہوا ہے جو خود عدالت عظمیٰ کے 1996 کے ایک حکم کے نتیجے میں پیدا ہو گیا تھا۔ان کے بقول اب سیاستدانوں کی اس بات میں زیادہ وزن نہیں رہے گا کہ چونکہ مذہب ایک طریقۂ حیات ہے اس لیے سیاست میں اس کے ذکر سے یہ مطلب لینا درست نہیں کہ وہ مذہب کے نام پر سیاست کر رہے ہیں۔
بھارت میں ذات پات کا نظام کیا ہے؟
بھارت میں موجود ذات پات پر مبنی نظام دنیا بھر میں سماجی سطح پر طبقاتی تقسیم کی سب سے پرانی صورت ہے۔تین ہزار سال سے زائد عرصے سے رائج اس نظام کے تحت ہندوئوں کو ان کے کرما (کام) اور دھرما (فرض) کی بنیاد پر مختلف سماجی گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
ذات پات کا تصور کیسے سامنے آیا؟
تین ہزار سال پرانی کتاب مانوسمرتی جسے ہندو قوانین کا سب سے اہم ماخذ سمجھا جاتا ہے، میں ذات پات کے نظام کو سوسائٹی میں تنظیم اور ترتیب کی بنیاد پر تسلیم کیا گیا اور اس کے حق میں دلائل دیئے گئے ہیں۔ ذات پات کا نظام ہندوئوں کو برہمن، شتری، ویش اور شودر کے نام سے چار کٹیگری میں تقسیم کرتا ہے۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ اس تقسیم کا ماخد تخلیق سے متعلقہ ہندو دیوتا براہما ہے۔اس طبقاتی تقسیم میں سب سے اوپر برہمن آتے ہیں جن کا کام تعلیم تربیت اور دماغی کاموں کی انجام دہی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ برہما کے سر سے وجود میں آئے ہیں۔اس کے بعد شتریوں کا درجہ آتا ہے جو پیشہ کے لحاظ سے حکمران اور سپاہ گری سے متعلق ہیں اور وہ برہما کے بازوئوں سے وجود میں آئے ہیں۔تیسرے نمبر پر ویش ہیں جو تجارت پیشہ ہیں اور برہما کی رانوں سے وجود میں آئے ہیں۔سب سے آخر میں شودروں کا نمبر آتا ہے جو برہما کے پیروں سے بنے ہیں اور وہ ہاتھوں سے کرنے والے کام اختیار کرتے ہیں۔ان ذاتوں کو تین ہزار مزید ذاتوں اور ثانوی ذاتوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جس کی بنیاد مخصوص پیشوں پر ہوتی ہے۔اچھوتوں یا دلتوں کا شمار ہندو ذات پات کے نظام سے باہر سمجھا جاتا ہے۔
ذات پات کا نظام کیسے کام کرتا ہے؟
صدیوں تک ذات پات ہی ہندو مذہب اور سماجی زندگی کے ہر پہلو کی بنیاد رہی ہے اور اس پیچیدہ نظام میں ہر گروپ کی اپنی مخصوص جگہ برقرار رہی ہے۔دیہی آبادی کی ترتیب خاص طور پر ذات پات کی بنیاد پر ہوتی رہی ہے اور اونچی اور نچلی ذاتوں کے لوگ بالکل علیحدہ دائروں میں زندگیاں بسر کرتے رہے ہیں۔ ان کے پانی کے کنوئیں علیحدہ رہے ہیں۔ برہمن شودروں کے ساتھ نہ کھانا کھا سکتے تھے نہ پانی پی سکتے تھے اور بچوں کی شادیاں بھی اپنی ذات کے اندر ہی کی جاتی رہی ہیں۔روایتی طور پر اونچی ذات کے ہندوؤں کو بہت سے صوابدیدی اختیار حاصل رہے ہیں جبکہ نچلی ذات کے ہندوؤں پر طرح طرح کی پابندیاں کا سامنا رہا ہے۔
ذات پات پر مبنی تقسیم پربھارتی آئین کیا کہتا ہے؟
آزادی کے بعد سے ڈاکٹر امبیدکر کے لکھے بھارت کے آئین میں ذات پات کی بنیاد پر تفریق پر پابندی ہے۔ تاریخی لحاظ سے ہونے والی ناانصافیوں کے ازالے کے لیے شیڈیول ذاتوں اور قبائل کے لیے 1950 میں حکومتی نوکریوں اور تعلیمی اداروں میں داخلوں میں کوٹے کو متعارف کرایا گیا۔ 1989 میں او بی سیز یا دیگر پسماندہ کلاسوں کو بھی اس کوٹے میں شامل کر دیا گیا تاکہ اونچی ذاتوں کے مقابلے میں ان کی پسماندگی کو ختم کرنے میں مدد ملے۔حالیہ دہائیوں میں سیکولر تعلیم کے فروغ اور شہری زندگی میں ترقی کے باعث ذات پات کے اثر میں کسی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ اس میں شہروں میں رہنے والی آبادی خاص طور پر قابلِ ذکر ہے کیوںکہ شہروں میں مختلف ذاتوں سے تعلق رکھنے والے ہندو ساتھ ساتھ رہتے ہیں اور ایک ذات کے نوجوانوں کی دوسرے ذات میں شادیاں عام ہیں۔کئی جنوبی ریاستوں اور بہار میں سماجی اصلاح کی تحریکوں کے اثر میں ذات پات کی نشاندہی کرنے والے ناموں کا استعمال بند کر دیا ہے۔لیکن ان تبدیلیوں کے باوجود ذات پات کی بنیاد پر شناخت ابھی بھی مضبوط ہے اور خاندانی نام ہمیشہ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ کوئی شخص کس ذات سے تعلق رکھتا ہے۔
سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ قوم اپنی توجہ 24 نومبر کے احتجاج پر رکھے۔سعودی عرب ہر مشکل مرحلے میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ بشریٰ بی بی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔عمران خان نے اڈیالہ جیل سے جاری اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ، آئین ک...
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دیرپاامن واستحکام کے لئے فوج قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی، پاک فوج ...
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ بھائی بن کرمدد کی، سعودی عرب سے متعلق بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے ، سعودی عرب کے خلاف زہر اگلا جائے تو ہمارا بھائی کیا کہے گا؟، ان کو اندازہ نہیں اس بیان سے پاکستان کا خدانخوستہ کتنا نقصان ہوگا۔وزیراعظم نے تونس...
آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی 2025 کے شیڈول کے اعلان میں مزید تاخیر کا امکان بڑھنے لگا۔میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اگلے 24گھنٹے میں میگا ایونٹ کے شیڈول کا اعلان مشکل ہے تاہم اسٹیک ہولڈرز نے لچک دکھائی تو پھر 1، 2 روز میں شیڈول منظر عام پرآسکتا ہے ۔دورہ پاکستان سے بھارتی ا...
خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 3خواتین اور بچے سمیت 38 افراد کو قتل کردیا جب کہ حملے میں 29 زخمی ہوگئے ۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا کہ نامعلوم مسلح افراد نے کرم کے علاقے لوئر کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے...
اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتجاج کے تناظر میں بنے نئے قانون کی خلاف ورزی میں احتجاج، ریلی یا دھرنے کی اجازت نہ دینے کا حکم دے دیا، ہائی کورٹ نے وزیر داخلہ کو پی ٹی آئی کے ساتھ پُرامن اور آئین کے مطابق احتجاج کے لیے مذاکرات کی ہدایت کردی اور ہدایت دی کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں تو وزیر...
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور کے ساتھ مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ، ہم سمجھتے ہیں ملک میں بالکل استحکام آنا چاہیے ، اس وقت لا اینڈ آرڈر کے چیلنجز کا سامنا ہے ۔صوابی میں میڈیا سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ 24 نومبر کے احتجاج کے لئے ہم نے حکمتِ...
وزیر اعظم کی ہدایت کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)نے غیر رجسٹرڈ امیر افراد بشمول نان فائلرز اور نیل فائلرز کے خلاف کارروائی کے لیے ایک انفورسمنٹ پلان کو حتمی شکل دے دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے فیلڈ فارمیشن کی سطح پر انفورسمنٹ پلان پر عمل درآمد کے لیے اپنا ہوم ورک ...
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ انشاء اللہ بانی چیئرمین کو رہا کرا کر دم لیں گے ۔پشاور میں میڈیا سے گفتگو میں علی امین گنڈاپور نے کہا کہ انشاء اللہ بانی چیئرمین کو رہا اور اپنے مطالبات منوا کر ہی دم لیں گے ۔انہوں نے کہا کہ ہم سب کے لیے تحریک انصاف کا نعرہ’ ا...
دریں اثناء پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 24 نومبر کو احتجاج کے تمام امور پر نظر رکھنے کے لیے مانیٹرنگ یونٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ پنجاب سے قافلوں کے لیے 10 رکنی مانیٹرنگ کمیٹی بنا دی۔تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کا مانیٹرنگ یونٹ قیادت کو تمام قافلوں کی تفصیلات فراہم...
ایڈیشنل سیکریٹری جنرل پی ٹی آئی فردوس شمیم نقوی نے کمیٹیوں کی تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے ۔جڑواں شہروں کیلئے 12 رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے جس میں اسلام آباد اور راولپنڈی سے 6، 6 پی ٹی آئی رہنماؤں کو شامل کیا گیا ہے ۔کمیٹی میں اسلام آباد سے عامر مغل، شیر افضل مروت، شعیب ...
اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ ٹو کیس میں دس دس لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض بانی پی ٹی آئی کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ہائیکورٹ میں توشہ خانہ ٹو کیس میں بانی پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری پر سماعت ہوئی۔ایف آئی اے پر...