وجود

... loading ...

وجود

سفر یاد۔۔۔ قسط39

جمعرات 05 جنوری 2017 سفر یاد۔۔۔ 		قسط39

ہم ڈش انٹینا کا سامان اٹھائے بطحہ کے مرکزی چوک پہنچے تو ایک عجیب منظر ہماری آنکھوں کے سامنے تھا۔ وہاں کچھ ٹیکسیاں اور کاریں کھڑی تھیں جن کے ڈرائیور کاروں کے باہر کھڑے مسافروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے آوازیں لگا رہے تھے۔ خمسہ ریال، خمسہ ریال۔ منظر عجیب اس لیے تھا کہ آوازیں لگانے والوں میں مقامی باشندے بھی تھے جو اپنے سفید چوغے اور سر پر غترے کے باعث الگ ہی پہچانے جاتے ہیں۔ ہم نے کہا یا خدا یہ کیسا منظر ہے، ان بیچارے وطنیوں پر کیا مشکل آن پڑی جو اس طرح سواریاں ڈھو رہے ہیں۔ رات کا وقت ہونے کی وجہ سے لوگوں کا رش تو نہیں تھا لیکن جمعہ ہونے کی وجہ سے کافی لوگ اس وقت بھی بطحہ میں موجود تھے اور اب اپنی اپنی منزلوں کی جانب لوٹ رہے تھے۔ وطنی بھی دیگر گاڑیوں کے ڈرائیوروں کی طرح نسیم خمسہ ریال ، مطار (ایئرپورٹ) خمسہ ریال وغیرہ کی آوازیں لگا رہے تھے۔ یعنی نسیم یا مطار یعنی ایئرپورٹ کے پانچ ریال۔۔ لوگ گاڑیوں میں بیٹھ رہے تھے، سواریاں پوری ہو جاتیں تو ڈرائیور اپنی منزل کی جانب روانہ ہو جاتے۔ علی نے ایک وطنی ڈرائیور سے معاملہ کیا، پانچ پانچ ریال ہم دونوں کے اور پانچ ریال سامان کے یعنی کل پندرہ ریال میں معاملہ طے ہو گیا، وطنی نے ہمارا سامان ڈگی میں رکھا اور ہم گاڑی میں بیٹھ گئے، ہم ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گئے ہمارا ارادہ اس سے گپ شپ کرنے اور یہ جاننے کا تھا کہ وطنی ہو کر وہ کیوں یہ کام کر رہا ہے۔ سواریاں پوری ہو گئیں تو گاڑی نسیم کی جانب فراٹے بھرنے لگی۔ ہم نے وطنی سے سلام دعا شروع کی، سلام علیکم یا اخی۔ اس نے سلام کا جواب دیا اور پھر ٹوٹی پھوٹی عربی، کچھ اردو اور انگریزی میں بات چیت شروع ہو گئی۔ ہم نے پوچھا یہاں تو سارے چھوٹے موٹے کاموں کے لیے غیر ملکی رکھے جاتے ہیں، وطنی تو کفیل ہوتے مدیر (منیجر) ہوتے ہیں پھر آپ کیوں اس طرح پانچ پانچ ریال میں سواریاں اٹھا رہے ہیں۔ وطنی نے جواب دیا ، مہنگائی بہت زیادہ ہو گئی ہے گزارہ نہیں ہوتا، اس لیے میں اپنے کام سے چھٹی کے بعد گھر جاتے ہوئے بطحہ سے چار،پانچ سواریاں اٹھا لیتا ہوں، میرے گھر کا رات کے کھانے کا خرچہ نکل آتا ہے۔ آج چھٹی تھی میں کسی کام سے بطحہ آیا تھا اب واپسی پرخالی جانے سے بہتر تھا سواریاں اٹھا لوں کچھ پیسے ہی بن جائیں گے۔
تیل کی دولت سے مالامال سعودی عرب دنیا کے ا میر ترین ملکوں میں سے ایک ہے۔اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ وہاں عوام بھی بہت امیرہیں،لیکن امیرترین ملک ہونے کے باوجود وہاں بھی لاکھوں لوگ غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ غریب ملکوں کی طرح وہاں بھی کچی آبادیاں اور چھوٹے چھوٹے مکانات ہیں۔
ہم ڈش انٹینا کا سامان اٹھائے بطحہ کے مرکزی چوک پہنچے تو ایک عجیب منظر ہماری آنکھوں کے سامنے تھا۔ وہاں کچھ ٹیکسیاں اور کاریں کھڑی تھیں جن کے ڈرائیور کاروں کے باہر کھڑے مسافروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے آوازیں لگا رہے تھے۔ خمسہ ریال، خمسہ ریال۔ منظر عجیب اس لیے تھا کہ آوازیں لگانے والوں میں مقامی باشندے بھی تھے جو اپنے سفید چوغے اور سر پر غترے کے باعث الگ ہی پہچانے جاتے ہیں۔ ہم نے کہا یا خدا یہ کیسا منظر ہے، ان بیچارے وطنیوں پر کیا مشکل آن پڑی جو اس طرح سواریاں ڈھو رہے ہیں۔ رات کا وقت ہونے کی وجہ سے لوگوں کا رش تو نہیں تھا لیکن جمعہ ہونے کی وجہ سے کافی لوگ اس وقت بھی بطحہ میں موجود تھے اور اب اپنی اپنی منزلوں کی جانب لوٹ رہے تھے۔ وطنی بھی دیگر گاڑیوں کے ڈرائیوروں کی طرح نسیم خمسہ ریال ، مطار (ایئرپورٹ) خمسہ ریال وغیرہ کی آوازیں لگا رہے تھے۔ یعنی نسیم یا مطار یعنی ایئرپورٹ کے پانچ ریال۔۔ لوگ گاڑیوں میں بیٹھ رہے تھے، سواریاں پوری ہو جاتیں تو ڈرائیور اپنی منزل کی جانب روانہ ہو جاتے۔ علی نے ایک وطنی ڈرائیور سے معاملہ کیا، پانچ پانچ ریال ہم دونوں کے اور پانچ ریال سامان کے یعنی کل پندرہ ریال میں معاملہ طے ہو گیا، وطنی نے ہمارا سامان ڈگی میں رکھا اور ہم گاڑی میں بیٹھ گئے، ہم ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گئے ہمارا ارادہ اس سے گپ شپ کرنے اور یہ جاننے کا تھا کہ وطنی ہو کر وہ کیوں یہ کام کر رہا ہے۔ سواریاں پوری ہو گئیں تو گاڑی نسیم کی جانب فراٹے بھرنے لگی۔ ہم نے وطنی سے سلام دعا شروع کی، سلام علیکم یا اخی۔ اس نے سلام کا جواب دیا اور پھر ٹوٹی پھوٹی عربی، کچھ اردو اور انگریزی میں بات چیت شروع ہو گئی۔ ہم نے پوچھا یہاں تو سارے چھوٹے موٹے کاموں کے لیے غیر ملکی رکھے جاتے ہیں، وطنی تو کفیل ہوتے مدیر (منیجر) ہوتے ہیں پھر آپ کیوں اس طرح پانچ پانچ ریال میں سواریاں اٹھا رہے ہیں۔ وطنی نے جواب دیا ، مہنگائی بہت زیادہ ہو گئی ہے گزارہ نہیں ہوتا، اس لیے میں اپنے کام سے چھٹی کے بعد گھر جاتے ہوئے بطحہ سے چار،پانچ سواریاں اٹھا لیتا ہوں، میرے گھر کا رات کے کھانے کا خرچہ نکل آتا ہے۔ آج چھٹی تھی میں کسی کام سے بطحہ آیا تھا اب واپسی پرخالی جانے سے بہتر تھا سواریاں اٹھا لوں کچھ پیسے ہی بن جائیں گے۔
تیل کی دولت سے مالامال سعودی عرب دنیا کے ا میر ترین ملکوں میں سے ایک ہے۔اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ وہاں عوام بھی بہت امیرہیں،لیکن امیرترین ملک ہونے کے باوجود وہاں بھی لاکھوں لوگ غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ غریب ملکوں کی طرح وہاں بھی کچی آبادیاں اور چھوٹے چھوٹے مکانات ہیں۔
سعودی عرب کے مقررکردہ معیار کے مطابق جو افراد ساڑھے چار سو ڈالر مہینہ سے کم پر گزارہ کررہے ہیں ، وہ خط غربت سے نیچے کی زندگی گزارنے والوں میں شمار ہوتے ہیں۔ سعودی ادارے نیشنل اسٹرٹیجی ٹو کومبیٹ پاورٹی کے مطابق ملک کی کل آبادی کے1.63 فیصد افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ امدادی کارکنوں اور فلاح عامہ کے کام کرنے والے اداروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی حقیقی تعداد سرکاری اعداد وشمار سے کہیں زیادہ ہے اور ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری، افراط زر ،کرایوں میں اضافے اور تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث اس میں مزید اضافہ ہورہاہے۔ سعودی حکومت نے بیروزگاری میں کمی کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔ تعلیمی اصلاحات اور فنی تربیت کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی گئی ہے اور ساتھ ہی ’’سب سے پہلے سعودی عرب‘‘ یعنی ’’سعودائزیشن‘‘کی پالیسی تشکیل دی ہے۔اس پالیسی کے تحت ایسے آجروں کو سزا دی جاتی ہے جنہوں نے ایک خاص شرح سے زیادہ غیرملکی کارکنوں کو ملازمت دے رکھی ہو۔اس پالیسی کا مقصد ملک میں غیرملکی کارکنوں کی تعداد میں کمی کرنا اور وطنیوں کے لیے ملازمتوں کے مواقع بڑھانا ہے۔ ہم ڈرائیور سے بات چیت میں لگے ہوئے تھے او ر گاڑی نسیم کے علاقے میں داخل ہو چکی تھی کہ ایک مسافر نے کہا ، انزل ہنا ، یعنی یہاں اتار دو۔ کچھ آگے چلے تو دوسرا مسافر اتر گیا ، اب گاڑی شارع نخیل پر دوڑ رہی تھی ہم نے اپنے ولا کے قریب گاڑی روکنے کا کہا ، سامان اتارا اور وطنی ڈرائیور کا شکریہ ادا کرکے ہم دونوں ولا کی جانب چل پڑے۔۔۔جاری ہے
٭٭


متعلقہ خبریں


سفر یاد۔۔۔ آخری قسط شاہد اے خان - منگل 31 جنوری 2017

سیمی خوش مزاج آدمی تھا اس کے ساتھ کام کرنا اچھا تجربہ ثابت ہوا تھا اس کے مقابلے میں یہ نیا انچارج شنکر کمار بہت بد دماغ اور بداخلاق واقع ہوا تھا۔ ہماری پہلے ہی دن سے اس سے ٹھن گئی ، مشکل یہ تھی کہ وہ نیا تھا اور ابھی اسے کام سمجھنا تھا اس لئے وہ ہم سے زیادہ بدتمیزی نہیں کرسکتا تھ...

سفر یاد۔۔۔ 		آخری قسط

سفر یاد۔۔۔ قسط49 شاہد اے خان - پیر 30 جنوری 2017

سیمی کو گئے کئی مہینے ہو گئے تھے اس کی واپسی کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا، اس کا کام بھی ہمارے زمے ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے کام کی تھکن بڑھتی جا رہی تھی۔ کئی بار کام کی زیادتی کی وجہ سے ہمیں دیر تک رکنا پڑتا تھا۔ ہمیں سیمی کا بھی کام کرنے کی وجہ سے کوئی مالی فائدہ بھی نہیں مل رہا تھا...

سفر یاد۔۔۔ 		قسط49

سفر یاد۔۔۔ قسط47 شاہد اے خان - هفته 28 جنوری 2017

اگلے روز یعنی جمعے کو ہم عزیزیہ کے ایک پاکستانی ہوٹل میں ناشتہ کرنے کے بعد مکہ شریف کے لیے روانہ ہوئے، جدہ حدود حرم سے باہرحِل کی حدود میں ہے۔ حرم شریف اور میقات کے درمیان کے علاقے کو حِل کہا جاتا ہے اس علاقے میں خود سے اگے درخت کو کاٹنا اور جانور کا شکار کرنا حلال ہے جبکہ اس علا...

سفر یاد۔۔۔ 		قسط47

سفر یاد۔۔۔ قسط46 شاہد اے خان - جمعرات 26 جنوری 2017

ہمارے دوست اظہار عالم کافی عرصے سے جدہ میں مقیم تھے ہم نے عمرہ پر روانگی سے پہلے انہیں فون کرکے اپنی ا?مد کی اطلاع دیدی تھی، طے ہوا تھا کہ وہ جمعرات کو صبح دس بجے باب فہد کے سامنے ایک بینک کے پاس پہچیں گے۔ ہم ساڑھے نو بجے جا کر اس بینک کے سامنے جا کر کھڑے ہوگئے۔ وہاں کافی لوگ موج...

سفر یاد۔۔۔ 		قسط46

سفر یاد۔۔ قسط۔45۔ شاہد اے خان - اتوار 22 جنوری 2017

مکہ المکرمہ سے مدینہ شریف کا فاصلہ تقریبا ساڑھے چار سو کلومیٹر ہے، راستے بھر مشہور نعت مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ ذہن میں گونجتی رہی، ہماری آنکھیں سارے راستے پُر نم رہیں۔ مدینے کا راستہ محبت کی معراج کا وہ راستہ ہے جس پر بڑے بڑے صحابہ ، علما، صوفیہ اور بزرگان دین نے...

سفر یاد۔۔ قسط۔45۔

سفر یاد۔۔۔ قسط44 شاہد اے خان - جمعه 20 جنوری 2017

صبح فجر سے پہلے ہماری بس مکہ مکرمہ کے ہوٹل پہنچ گئی، دل میں عجب سی ہلچل مچی ہوئی تھی، کعبہ شریف کے اس قدر قریب ہونیکا احساس جیسے دل کو الٹ پلٹ کر رہا تھا ، کوشش تھی کہ فوری طور پر حرم شریف پہنچیں اور اللہ کے گھر کا دیدار کریں۔ اللہ کا گھردنیا میں وہ پہلی عبادت گاہ ہے جو انسانوں ک...

سفر یاد۔۔۔ 		قسط44

سفر یاد۔۔۔ قسط43 شاہد اے خان - جمعرات 19 جنوری 2017

نسیم ولا اور کالج میں شب و روز اپنی مخصوص چال سے گزر رہے تھے۔ روز صبح کو شام کرنا اور شام کو صبح کا قالب بدلتے دیکھنا اور اس کے ساتھ لگی بندھی روٹین کو فالو کرنا یہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت بن چکی تھی۔ ایک بے قراری تھی، ایک بے کلٰی تھی جو دل میں بسنے لگی تھی۔ ہم لوگ روٹین کے ایس...

سفر یاد۔۔۔ 		قسط43

سفر یاد۔۔۔ قسط42 شاہد اے خان - بدھ 11 جنوری 2017

نسیم ولا میں دن اچھے گزر رہے تھے۔ ایک دن باتوں کے دوران ہم نے کہا لگتا ہے ریاض میں کوئی گھومنے کی جگہ نہیں ہے ،ہوتی تو ہم لوگ وہاں کا چکر لگا آتے، نسیم کے علاقے میں جہاں ہمارا ولا تھا وہاں ہمیں نہ تو کوئی پارک نظر آیا تھا نہ کوئی اور ایسی جگہ جہاں آپ تفریح کے لیے جا سکیں۔ سنیم...

سفر یاد۔۔۔ 		قسط42

سفر یاد۔۔۔ قسط41 شاہد اے خان - هفته 07 جنوری 2017

رات کے نو بج رہے تھے ہمیں پی ٹی وی سے خبر نامے کا انتظار تھا لیکن خبریں شروع نہیں ہوئیں، ہم نے علی سے کہا نو بج گئے خبرنامہ شروع نہیں ہو رہا پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے، علی بولا نو ہماری گھڑی میں بجے ہیں وہاں پاکستان میں رات کے گیارہ بج رہے ہیں ہمیں احساس ہوا کہ سعودی عرب میں ہم پاکست...

سفر یاد۔۔۔ 		قسط41

سفر یاد۔۔۔ قسط40 شاہد اے خان - جمعه 06 جنوری 2017

ڈش انٹینا اور اس کا متعلقہ سامان لائے کئی دن گزر چکے تھے۔ ہم چاروں روز سوچتے تھے کہ آج ضرور ڈش انٹینا لگالیں گے لیکن کالج سے آنے کے بعد کھانا پکانے اور کھانے کے بعد اتنا وقت ہی نہیں بچتا تھا کہ چھت پر جائیں اور ڈش انٹٰینا کی تنصیب کا کام مکمل کریں۔ پھر طے پایا کہ یہ کام جمعے کو...

سفر یاد۔۔۔ 		قسط40

سفر یاد۔۔۔ قسط38 شاہد اے خان - بدھ 04 جنوری 2017

ولا میں دوسرا مہینہ گزر رہا تھا، ہم نے اپنے کمرے کے لیے ٹی وی خرید لیا تھا لیکن اس پر صرف سعودی عرب کے دو لوکل چینل آتے تھے۔ ولا کی چھت پر کئی ڈش انٹینا لگے ہوئے تھے لیکن وہ بھارتیوں یا سری لنکنز نے لگائے ہوئے تھے اس لیے کسی پر پاکستانی ٹی وی چینلز نہیں آتے تھے۔ اس وقت سعودی عرب ...

سفر یاد۔۔۔ 		قسط38

سفر یاد۔۔۔ قسط36 شاہد اے خان - اتوار 01 جنوری 2017

ہم کھانے کے لیے بیٹھ چکے تھے، صورتحال یہ تھی کہ سب کے حصے میں ایک ایک روٹی اور ایک ایک کباب آیا تھا، ہمارے حصے میں صرف ایک روٹی آئی تھی پھر منیب کو شائد ہماری حالت پر رحم آگیا اور اس نے ہمیں کچن میں جا کر مزید ایک کباب تلنے کی اجازت دیدی۔ ہم جلدی جلدی میں کباب تل کر واپس لوٹے تو ...

سفر یاد۔۔۔ قسط36

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر