... loading ...
ہم ڈش انٹینا کا سامان اٹھائے بطحہ کے مرکزی چوک پہنچے تو ایک عجیب منظر ہماری آنکھوں کے سامنے تھا۔ وہاں کچھ ٹیکسیاں اور کاریں کھڑی تھیں جن کے ڈرائیور کاروں کے باہر کھڑے مسافروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے آوازیں لگا رہے تھے۔ خمسہ ریال، خمسہ ریال۔ منظر عجیب اس لیے تھا کہ آوازیں لگانے والوں میں مقامی باشندے بھی تھے جو اپنے سفید چوغے اور سر پر غترے کے باعث الگ ہی پہچانے جاتے ہیں۔ ہم نے کہا یا خدا یہ کیسا منظر ہے، ان بیچارے وطنیوں پر کیا مشکل آن پڑی جو اس طرح سواریاں ڈھو رہے ہیں۔ رات کا وقت ہونے کی وجہ سے لوگوں کا رش تو نہیں تھا لیکن جمعہ ہونے کی وجہ سے کافی لوگ اس وقت بھی بطحہ میں موجود تھے اور اب اپنی اپنی منزلوں کی جانب لوٹ رہے تھے۔ وطنی بھی دیگر گاڑیوں کے ڈرائیوروں کی طرح نسیم خمسہ ریال ، مطار (ایئرپورٹ) خمسہ ریال وغیرہ کی آوازیں لگا رہے تھے۔ یعنی نسیم یا مطار یعنی ایئرپورٹ کے پانچ ریال۔۔ لوگ گاڑیوں میں بیٹھ رہے تھے، سواریاں پوری ہو جاتیں تو ڈرائیور اپنی منزل کی جانب روانہ ہو جاتے۔ علی نے ایک وطنی ڈرائیور سے معاملہ کیا، پانچ پانچ ریال ہم دونوں کے اور پانچ ریال سامان کے یعنی کل پندرہ ریال میں معاملہ طے ہو گیا، وطنی نے ہمارا سامان ڈگی میں رکھا اور ہم گاڑی میں بیٹھ گئے، ہم ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گئے ہمارا ارادہ اس سے گپ شپ کرنے اور یہ جاننے کا تھا کہ وطنی ہو کر وہ کیوں یہ کام کر رہا ہے۔ سواریاں پوری ہو گئیں تو گاڑی نسیم کی جانب فراٹے بھرنے لگی۔ ہم نے وطنی سے سلام دعا شروع کی، سلام علیکم یا اخی۔ اس نے سلام کا جواب دیا اور پھر ٹوٹی پھوٹی عربی، کچھ اردو اور انگریزی میں بات چیت شروع ہو گئی۔ ہم نے پوچھا یہاں تو سارے چھوٹے موٹے کاموں کے لیے غیر ملکی رکھے جاتے ہیں، وطنی تو کفیل ہوتے مدیر (منیجر) ہوتے ہیں پھر آپ کیوں اس طرح پانچ پانچ ریال میں سواریاں اٹھا رہے ہیں۔ وطنی نے جواب دیا ، مہنگائی بہت زیادہ ہو گئی ہے گزارہ نہیں ہوتا، اس لیے میں اپنے کام سے چھٹی کے بعد گھر جاتے ہوئے بطحہ سے چار،پانچ سواریاں اٹھا لیتا ہوں، میرے گھر کا رات کے کھانے کا خرچہ نکل آتا ہے۔ آج چھٹی تھی میں کسی کام سے بطحہ آیا تھا اب واپسی پرخالی جانے سے بہتر تھا سواریاں اٹھا لوں کچھ پیسے ہی بن جائیں گے۔
تیل کی دولت سے مالامال سعودی عرب دنیا کے ا میر ترین ملکوں میں سے ایک ہے۔اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ وہاں عوام بھی بہت امیرہیں،لیکن امیرترین ملک ہونے کے باوجود وہاں بھی لاکھوں لوگ غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ غریب ملکوں کی طرح وہاں بھی کچی آبادیاں اور چھوٹے چھوٹے مکانات ہیں۔
ہم ڈش انٹینا کا سامان اٹھائے بطحہ کے مرکزی چوک پہنچے تو ایک عجیب منظر ہماری آنکھوں کے سامنے تھا۔ وہاں کچھ ٹیکسیاں اور کاریں کھڑی تھیں جن کے ڈرائیور کاروں کے باہر کھڑے مسافروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے آوازیں لگا رہے تھے۔ خمسہ ریال، خمسہ ریال۔ منظر عجیب اس لیے تھا کہ آوازیں لگانے والوں میں مقامی باشندے بھی تھے جو اپنے سفید چوغے اور سر پر غترے کے باعث الگ ہی پہچانے جاتے ہیں۔ ہم نے کہا یا خدا یہ کیسا منظر ہے، ان بیچارے وطنیوں پر کیا مشکل آن پڑی جو اس طرح سواریاں ڈھو رہے ہیں۔ رات کا وقت ہونے کی وجہ سے لوگوں کا رش تو نہیں تھا لیکن جمعہ ہونے کی وجہ سے کافی لوگ اس وقت بھی بطحہ میں موجود تھے اور اب اپنی اپنی منزلوں کی جانب لوٹ رہے تھے۔ وطنی بھی دیگر گاڑیوں کے ڈرائیوروں کی طرح نسیم خمسہ ریال ، مطار (ایئرپورٹ) خمسہ ریال وغیرہ کی آوازیں لگا رہے تھے۔ یعنی نسیم یا مطار یعنی ایئرپورٹ کے پانچ ریال۔۔ لوگ گاڑیوں میں بیٹھ رہے تھے، سواریاں پوری ہو جاتیں تو ڈرائیور اپنی منزل کی جانب روانہ ہو جاتے۔ علی نے ایک وطنی ڈرائیور سے معاملہ کیا، پانچ پانچ ریال ہم دونوں کے اور پانچ ریال سامان کے یعنی کل پندرہ ریال میں معاملہ طے ہو گیا، وطنی نے ہمارا سامان ڈگی میں رکھا اور ہم گاڑی میں بیٹھ گئے، ہم ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گئے ہمارا ارادہ اس سے گپ شپ کرنے اور یہ جاننے کا تھا کہ وطنی ہو کر وہ کیوں یہ کام کر رہا ہے۔ سواریاں پوری ہو گئیں تو گاڑی نسیم کی جانب فراٹے بھرنے لگی۔ ہم نے وطنی سے سلام دعا شروع کی، سلام علیکم یا اخی۔ اس نے سلام کا جواب دیا اور پھر ٹوٹی پھوٹی عربی، کچھ اردو اور انگریزی میں بات چیت شروع ہو گئی۔ ہم نے پوچھا یہاں تو سارے چھوٹے موٹے کاموں کے لیے غیر ملکی رکھے جاتے ہیں، وطنی تو کفیل ہوتے مدیر (منیجر) ہوتے ہیں پھر آپ کیوں اس طرح پانچ پانچ ریال میں سواریاں اٹھا رہے ہیں۔ وطنی نے جواب دیا ، مہنگائی بہت زیادہ ہو گئی ہے گزارہ نہیں ہوتا، اس لیے میں اپنے کام سے چھٹی کے بعد گھر جاتے ہوئے بطحہ سے چار،پانچ سواریاں اٹھا لیتا ہوں، میرے گھر کا رات کے کھانے کا خرچہ نکل آتا ہے۔ آج چھٹی تھی میں کسی کام سے بطحہ آیا تھا اب واپسی پرخالی جانے سے بہتر تھا سواریاں اٹھا لوں کچھ پیسے ہی بن جائیں گے۔
تیل کی دولت سے مالامال سعودی عرب دنیا کے ا میر ترین ملکوں میں سے ایک ہے۔اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ وہاں عوام بھی بہت امیرہیں،لیکن امیرترین ملک ہونے کے باوجود وہاں بھی لاکھوں لوگ غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ غریب ملکوں کی طرح وہاں بھی کچی آبادیاں اور چھوٹے چھوٹے مکانات ہیں۔
سعودی عرب کے مقررکردہ معیار کے مطابق جو افراد ساڑھے چار سو ڈالر مہینہ سے کم پر گزارہ کررہے ہیں ، وہ خط غربت سے نیچے کی زندگی گزارنے والوں میں شمار ہوتے ہیں۔ سعودی ادارے نیشنل اسٹرٹیجی ٹو کومبیٹ پاورٹی کے مطابق ملک کی کل آبادی کے1.63 فیصد افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ امدادی کارکنوں اور فلاح عامہ کے کام کرنے والے اداروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی حقیقی تعداد سرکاری اعداد وشمار سے کہیں زیادہ ہے اور ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری، افراط زر ،کرایوں میں اضافے اور تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث اس میں مزید اضافہ ہورہاہے۔ سعودی حکومت نے بیروزگاری میں کمی کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔ تعلیمی اصلاحات اور فنی تربیت کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی گئی ہے اور ساتھ ہی ’’سب سے پہلے سعودی عرب‘‘ یعنی ’’سعودائزیشن‘‘کی پالیسی تشکیل دی ہے۔اس پالیسی کے تحت ایسے آجروں کو سزا دی جاتی ہے جنہوں نے ایک خاص شرح سے زیادہ غیرملکی کارکنوں کو ملازمت دے رکھی ہو۔اس پالیسی کا مقصد ملک میں غیرملکی کارکنوں کی تعداد میں کمی کرنا اور وطنیوں کے لیے ملازمتوں کے مواقع بڑھانا ہے۔ ہم ڈرائیور سے بات چیت میں لگے ہوئے تھے او ر گاڑی نسیم کے علاقے میں داخل ہو چکی تھی کہ ایک مسافر نے کہا ، انزل ہنا ، یعنی یہاں اتار دو۔ کچھ آگے چلے تو دوسرا مسافر اتر گیا ، اب گاڑی شارع نخیل پر دوڑ رہی تھی ہم نے اپنے ولا کے قریب گاڑی روکنے کا کہا ، سامان اتارا اور وطنی ڈرائیور کا شکریہ ادا کرکے ہم دونوں ولا کی جانب چل پڑے۔۔۔جاری ہے
٭٭
سیمی خوش مزاج آدمی تھا اس کے ساتھ کام کرنا اچھا تجربہ ثابت ہوا تھا اس کے مقابلے میں یہ نیا انچارج شنکر کمار بہت بد دماغ اور بداخلاق واقع ہوا تھا۔ ہماری پہلے ہی دن سے اس سے ٹھن گئی ، مشکل یہ تھی کہ وہ نیا تھا اور ابھی اسے کام سمجھنا تھا اس لئے وہ ہم سے زیادہ بدتمیزی نہیں کرسکتا تھ...
سیمی کو گئے کئی مہینے ہو گئے تھے اس کی واپسی کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا، اس کا کام بھی ہمارے زمے ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے کام کی تھکن بڑھتی جا رہی تھی۔ کئی بار کام کی زیادتی کی وجہ سے ہمیں دیر تک رکنا پڑتا تھا۔ ہمیں سیمی کا بھی کام کرنے کی وجہ سے کوئی مالی فائدہ بھی نہیں مل رہا تھا...
اگلے روز یعنی جمعے کو ہم عزیزیہ کے ایک پاکستانی ہوٹل میں ناشتہ کرنے کے بعد مکہ شریف کے لیے روانہ ہوئے، جدہ حدود حرم سے باہرحِل کی حدود میں ہے۔ حرم شریف اور میقات کے درمیان کے علاقے کو حِل کہا جاتا ہے اس علاقے میں خود سے اگے درخت کو کاٹنا اور جانور کا شکار کرنا حلال ہے جبکہ اس علا...
ہمارے دوست اظہار عالم کافی عرصے سے جدہ میں مقیم تھے ہم نے عمرہ پر روانگی سے پہلے انہیں فون کرکے اپنی ا?مد کی اطلاع دیدی تھی، طے ہوا تھا کہ وہ جمعرات کو صبح دس بجے باب فہد کے سامنے ایک بینک کے پاس پہچیں گے۔ ہم ساڑھے نو بجے جا کر اس بینک کے سامنے جا کر کھڑے ہوگئے۔ وہاں کافی لوگ موج...
مکہ المکرمہ سے مدینہ شریف کا فاصلہ تقریبا ساڑھے چار سو کلومیٹر ہے، راستے بھر مشہور نعت مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ ذہن میں گونجتی رہی، ہماری آنکھیں سارے راستے پُر نم رہیں۔ مدینے کا راستہ محبت کی معراج کا وہ راستہ ہے جس پر بڑے بڑے صحابہ ، علما، صوفیہ اور بزرگان دین نے...
صبح فجر سے پہلے ہماری بس مکہ مکرمہ کے ہوٹل پہنچ گئی، دل میں عجب سی ہلچل مچی ہوئی تھی، کعبہ شریف کے اس قدر قریب ہونیکا احساس جیسے دل کو الٹ پلٹ کر رہا تھا ، کوشش تھی کہ فوری طور پر حرم شریف پہنچیں اور اللہ کے گھر کا دیدار کریں۔ اللہ کا گھردنیا میں وہ پہلی عبادت گاہ ہے جو انسانوں ک...
نسیم ولا اور کالج میں شب و روز اپنی مخصوص چال سے گزر رہے تھے۔ روز صبح کو شام کرنا اور شام کو صبح کا قالب بدلتے دیکھنا اور اس کے ساتھ لگی بندھی روٹین کو فالو کرنا یہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت بن چکی تھی۔ ایک بے قراری تھی، ایک بے کلٰی تھی جو دل میں بسنے لگی تھی۔ ہم لوگ روٹین کے ایس...
نسیم ولا میں دن اچھے گزر رہے تھے۔ ایک دن باتوں کے دوران ہم نے کہا لگتا ہے ریاض میں کوئی گھومنے کی جگہ نہیں ہے ،ہوتی تو ہم لوگ وہاں کا چکر لگا آتے، نسیم کے علاقے میں جہاں ہمارا ولا تھا وہاں ہمیں نہ تو کوئی پارک نظر آیا تھا نہ کوئی اور ایسی جگہ جہاں آپ تفریح کے لیے جا سکیں۔ سنیم...
رات کے نو بج رہے تھے ہمیں پی ٹی وی سے خبر نامے کا انتظار تھا لیکن خبریں شروع نہیں ہوئیں، ہم نے علی سے کہا نو بج گئے خبرنامہ شروع نہیں ہو رہا پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے، علی بولا نو ہماری گھڑی میں بجے ہیں وہاں پاکستان میں رات کے گیارہ بج رہے ہیں ہمیں احساس ہوا کہ سعودی عرب میں ہم پاکست...
ڈش انٹینا اور اس کا متعلقہ سامان لائے کئی دن گزر چکے تھے۔ ہم چاروں روز سوچتے تھے کہ آج ضرور ڈش انٹینا لگالیں گے لیکن کالج سے آنے کے بعد کھانا پکانے اور کھانے کے بعد اتنا وقت ہی نہیں بچتا تھا کہ چھت پر جائیں اور ڈش انٹٰینا کی تنصیب کا کام مکمل کریں۔ پھر طے پایا کہ یہ کام جمعے کو...
ولا میں دوسرا مہینہ گزر رہا تھا، ہم نے اپنے کمرے کے لیے ٹی وی خرید لیا تھا لیکن اس پر صرف سعودی عرب کے دو لوکل چینل آتے تھے۔ ولا کی چھت پر کئی ڈش انٹینا لگے ہوئے تھے لیکن وہ بھارتیوں یا سری لنکنز نے لگائے ہوئے تھے اس لیے کسی پر پاکستانی ٹی وی چینلز نہیں آتے تھے۔ اس وقت سعودی عرب ...
ہم کھانے کے لیے بیٹھ چکے تھے، صورتحال یہ تھی کہ سب کے حصے میں ایک ایک روٹی اور ایک ایک کباب آیا تھا، ہمارے حصے میں صرف ایک روٹی آئی تھی پھر منیب کو شائد ہماری حالت پر رحم آگیا اور اس نے ہمیں کچن میں جا کر مزید ایک کباب تلنے کی اجازت دیدی۔ ہم جلدی جلدی میں کباب تل کر واپس لوٹے تو ...