... loading ...
برطانوی حکومت ان دنوں معیشت کی ترقی کی رفتار میں سست روی اور بیروزگاری میں اضافے کے مسائل کے علاوہ یورپی یونین سے علیحدگی کاعمل مکمل کرنے کے حوالے سے شدید دبائوا ور تذبذب کاشکار ہے۔ ایک طرف خود حکمران پارٹی کے بعض اہم رہنما اور کابینہ میں شامل بعض وزرا یورپی یونین سے مکمل علیحدگی کے بجائے یورپی یونین سے علیحدگی کی صورت میں ظاہر ہونے والے منفی اثرات سے بچنے کیلیے کوئی درمیانی راہ نکالنے کامشورہ دے رہے ہیں جبکہ دوسری جانب برطانیہ کے شہری یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دینے کے بعد اب بے چینی سے اپنے اس فیصلے پر پوری طرح عمل ہوتادیکھنے کے منتظر ہیں، اور انھوںنے حکومت کو متنبہ کردیاہے کہ اگر وعدے کے مطابق 31 مارچ تک برطانیہ نے خود کو یورپی یونین سے مکمل طورپر علیحدہ نہ کیاتو برطانیہ میں فسادات شروع ہوسکتے ہیں اور اس سے ملک بھر میں خانہ جنگی کی سی کیفیت پیداہوسکتی ہے جس پر کنٹرول کرنا حکومت کیلیے آسان نہیں ہوگا۔جبکہ دوسری جانب یورپی یونین سے مکمل طورپر علیحدگی اختیار کرنے کے حوالے سے حکومت کو بعض ایسی دشواریاں پیش آرہی ہیں جن کی وجہ سے حکومت عوام کی اکثریت کی جانب سے دئے گئے اس فیصلے پر پوری طرح عملدرآمد سے گریزاں نظر آتی ہے اور ارباب اختیار اس عوامی فیصلے پر عملدرآمد کو موخر کرکے اس مسئلے کے حوالے سے کوئی ایسی راہ نکالنے کے متمنی نظر آتے ہیں جس کے تحت عوام کے اس فیصلے کو نظر انداز کرکے معاملات کو جوں کاتوں چلنے دیاجاسکے۔
حکومت کی جانب سے یورپی یونین سے علیحدگی کے فیصلے پر پوری طرح عملدرآمد سے گریز کا بنیادی سبب برطانیہ میں موجود غیر برطانوی تجارتی اور صنعتی اداروں کی جانب سے دی گئی وہ دھمکی ہے جس میں انھوںنے واضح طورپر متنبہ کردیاہے کہ اگر برطانوی حکومت بریگزٹ پر پوری طرح عملدرآمد کرتی ہے تو وہ کاروباری اور صنعتی ادارے کسی دوسرے یورپی ملک میں منتقل کرنے پر مجبورہوں گے ۔اب حکومت کیلیے مشکل یہ ہے کہ اگر تمام یورپی تاجر اور صنعتکار برطانیہ سے اپنا کاروبار ختم کرکے کسی اور ملک منتقل ہونے کی دھمکی پر عملدرآمد کرتے ہیںتو برطانیہ میں بڑی تعداد میں لوگ بیروزگار ہوجائیں گے ، بیروزگار ہونے والے ان لوگوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنر مند لوگ بھی شامل ہوں گے اور نیم ہنر مند اورنیم خواندہ لوگ بھی اور برطانوی حکومت کیلیے اتنی بڑی تعداد میں بیروزگار لوگوں کومناسب روزگار کی فراہمی ایک مشکل کام ثابت ہوگی ،یہاں تک کہ ان سب کو سوشل سیکورٹی کے تحت بیروزگاری الائونس کی فراہمی سے بھی خزانہ بری طرح زیر بار ہوگا اور اس کے منفی اثرات ،صحت ، تعلیم اور دیگر بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے اداروں پر پڑیں گے اور ترقیاتی کاموں کو زبردست دھچکا لگے گا۔ اس کے علاوہ اس سے برطانیہ کی پہلے سے ڈانواںڈول معیشت کو زبردست دھچکا لگے گا جس سے معاشی ترقی کی راہ نہ صرف رک جائے گی بلکہ معاشی سطح پر ترقی معکوس شروع ہوجائے گی ،پاؤنڈ کی قیمت جو یورپی یونین سے علیحدگی کے فیصلے کے بعد سے ابھی تک مستحکم نہیں ہوسکی ہے ڈالر کے مقابلے میںمزید گراوٹ کاشکار ہوجائے گی،اس طرح عالمی منڈی میں اس کی اشیا سے ہونے والی آمدنی میں بھی مزید کمی ہوگی۔
دوسری جانب تجزیہ کاروں کاکہناہے کہ برطانیہ میں یورپی یونین سے علیحدگی کی بھرپور حمایت کرنے والے علاقوںیعنی یورپی یونین سے علیحدگی کے حامیوں کے مضبوط گڑھ تصور کئے جانے والے علاقوں کے لوگو ں میں اس فیصلے پر عملدرآمد میں تاخیر کے سبب بے چینی بڑھتی جارہی ہے اور اگر یورپی یونین سے علیحدگی کیلیے مقرر کردہ تاریخ 31 مارچ تک اس فیصلے پر پوری طرح عملدرآمد نہ کیاگیا تو وہ حکومت کے خلاف سڑکوں پر آنے کیلیے تیار بیٹھے ہیں،جبکہ بعض حکومت مخالف حلقے جن میں دائیں بازو کی انتہا پسند قوم پرست پارٹیوں کے رہنما بھی شامل ہیں ان کو اس فیصلے پر عملدرآمد کرنے پر حکومت کو مجبور کرنے کیلیے انھیں سڑکوں پر آنے کی ترغیب دے رہے اور اس اہم مسئلے کی بنیاد پر حکومت کے خلاف سیاسی کھیل کھیلنے کی تیار ی کررہے ہیں۔
انفو وارز ڈاٹ کام کی رپورٹ کے مطابق اسکائی نیوز کی ٹیم نے گزشتہ روز یورپی یونین سے علیحدگی کے حامیوں کے مضبوط گڑھ تصور کئے جانے والے علاقوں کا دورہ کیاتھا اور وہاں یورپی یونین سے علیحدگی کے حوالے سے لوگوں کی رائے معلوم کی تھی اور لوگوں سے معلوم کیاتھا کہ اگر حکومت نے یورپی یونین سے پوری طرح ناتا توڑنے کا جلد ہی اعلان نہ کیا اور یورپی یونین سے علیحدگی کیلیے مقررہ تاریخ کے اندر یہ عمل مکمل نہ کیاجاسکا تو ان کاردعمل کیاہوگا۔اسکائی نیوز کی ٹیم کے اس سوال پر ایک خاتون نے براڈکاسٹرکو جواب دیا کہ ’’ پھر بڑے پیمانے پر فسادات شروع ہوجائیں گے،لوگوں میں ایک جنون ہوگا جو ابل کر سامنے آجائے گا، اور اس کے نتیجے میں خانہ جنگی بھی شروع ہوسکتی ہے۔اس ملک کی حکومت نے ان کی آواز کو استعمال کیاہے اور اب اگر حکومت عوام کی رائے کونظر انداز کرنے کی کوشش کرے گی توملک خانہ جنگی کی طرف چلاجائے گا۔ایسا ہونا ہے اور ایسا ہی ہوگا‘‘۔
خاتون نے کہا کہ اس معاملے میں تاخیر پر لوگ بہت برہم ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ انھیں نظر انداز کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ان کی رائے کااحترام نہیں کیاجارہاہے، ’’اگر حکومت نے بریگزٹ کے معاملے کودبانے کی کوشش کی تو دوسرے یورپی ممالک سے تارکین کا ایک سیلاب برطانیہ میں داخل ہونا شروع ہوجائے گا۔‘‘ اور یہ ہمیں قبول نہیں ہے۔
اسکائی نیوز کی اس رپورٹ سے برطانیہ کے بعض علاقوں کے لوگوں کی سوچ کا اندازہ اچھی طرح لگایاجاسکتاہے ، اور حکومت یقینا عوام کے ان جذبات سے لاعلم اور ناواقف نہیں ہوگی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس صورتحال پر کنٹرول اور عوامی رائے کااحترام کرتے ہوئے ملکی مفادات کاتحفظ کس طرح کرتی ہے،اور بریگزٹ پر پوری طرح عملدرآمد کے نتیجے میں معیشت کو پہنچنے والے نقصان پر کنٹرول کیلیے کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے۔
٭٭