... loading ...
ولا میں دوسرا مہینہ گزر رہا تھا، ہم نے اپنے کمرے کے لیے ٹی وی خرید لیا تھا لیکن اس پر صرف سعودی عرب کے دو لوکل چینل آتے تھے۔ ولا کی چھت پر کئی ڈش انٹینا لگے ہوئے تھے لیکن وہ بھارتیوں یا سری لنکنز نے لگائے ہوئے تھے اس لیے کسی پر پاکستانی ٹی وی چینلز نہیں آتے تھے۔ اس وقت سعودی عرب میں ڈش انٹینا عام ہو چکے تھے، عام سعودی شہریوں کے گھروں کی چھتوں پر تین چار ڈش انٹینا لگے ہونا معمول کی بات تھی۔ کچھ ڈشوں کا رخ مصر کے سیٹلائٹ چینلز کی طرف ہوتا تھا اور کچھ کا یورپی چینلز کی طرف۔ اگر ڈش انٹینا نہ لگا ہو تو عام انٹینے پر سعودی ٹی وی کے دو چینل آتے تھے سعودی چینل ون اور سعودی چینل ٹو۔ سعودی چینل ون مکمل طور پر عربی نشریات کے لیے مخصوص تھا جبکہ سعودی چینل ٹو پر انگریزی کی خبریں اور ڈاکومنٹریز بھی دکھائی جاتی تھیں۔ ہم اپنے پاکستانی چینل دیکھنا چاہتے تھے، نیوز چینلز تو ابھی آئے نہیں تھے لیکن پی ٹی وی اور کچھ انٹرٹینمنٹ چینلز ڈش پر آتے تھے۔ ایک دن ہم چاروں نے طے کیا کہ اپنا ڈش لگا لینا چاہیے۔ ہم نے طے کیا کہ جمعے کو یعنی چھٹی والے روز بطحہ کا چکر لگائیں گے اور وہاں سے ڈش اور رسیور خرید لائیں گے۔ جمعے کو ہماری کمپنی کی وین بطحہ جاتی تھی ہمارا اسی میں جانے اور واپس آنے کا پلان تھا۔ لیکن جمعے کو نماز کے بعد واجد اور منیب اپنے عزیزوں کی طرف نکل گئے یعنی ڈش انٹینا لانے اور لگانے کا کام اب ہمیں اور علی کو سرانجام دینا تھا۔شام کو پانچ بے ہم دونوں وین میں بیٹھے اور بطحہ پہنچ گئے۔ وہاں لوگوں سے پوچھتے ہوئے الیکٹرونکس مارکیٹ پہنچے جہاں قسم قسم کے ڈش انٹینا اور ان سے متعلق سامان بک رہا تھا۔ ہمیں پاکستانی چینلز دیکھنے کے لیے کم از کم چھ فٹ کا ڈش درکار تھا، ہماری کوشش تھی کہ ایسا ڈش مل جائے جو مختلف پیسز میں بنا ہوا ہو تاکہ ہم اس کو آسانی سے وین میں نسیم ولا لے جا سکیں۔ مول بھاؤ کرتے مختلف چیزیں خریدتے ہوئے وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ ڈش انٹینا اور اس کے متعلقات خریدنے کے بعد ہم ایک ہوٹل پر کھاناکھانے کیلیے بیٹھ گئے۔ہم نے علی سے کہا بھی کہ کہیں وین نہ نکل جائے ڈرائیور نے ڈھائی گھنٹے رکنے کا ٹائم دیا تھا لیکن علی کھانا کھانے پر بضد رہا اس کا کہنا تھا وین نو بجے سے پہلے نہیں نکلے گی اور ہمیں چھوڑ کر بھی نہیں جائے گی۔ اس لیے ہم مطمئن ہو گئے۔ رات کے نو بج رہے تھے جب ہم سارا سامان اٹھائے اس جگہ پہنچے جہاں ہماری وین کو موجود ہونا چاہیے تھا، لیکن وین وہاں موجود نہیں تھی۔ ہم نے ادھر اُدھر تلاش کیا کہ شاید ڈرائیور نے وین کہیں اور کھڑی کردی ہو لیکن وین ہمیں چھوڑ کر جا چکی تھی۔ ہم دونوں سارا سامان اٹھائے کھڑے ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے۔
ہم نے علی سے کہا دیکھ لیا ناں دیرکرنے کا انجام، وین نکل گئی ہے اب واپس کیسے جائیں گے۔ علی نے کہا کوشش کرتے ہیں کوئی انتظام ہو ہی جائے گا۔ علی پہلے بھی سعودی عرب میں رہ چکا تھا اس لیے یہاں کے کئی معاملات میں اس کی معلومات ہم سے زیادہ تھیں۔ علی نے ہم کو سامان کے پاس چھوڑا اور خود کسی مناسب سواری کی تلاش میں چلا گیا۔ ہم سوچ رہے تھے کہ لیموزین میں تو سامان لے جا نہیں سکتے اور اس وقت کون سی گاڑی ملے گی جس میں سامان رکھا جا سکے اور ہم بھی بیٹھ جائیں۔ ہمارے ملک میں تو اس کام کے لیے رکشہ بھی کافی ہوتا لیکن سعودی عرب میں رکشے نہیں چلتے نہ ہی ہم نے یہاں کوئی سوزوکی وین جیسی چیز دیکھی تھی کہ جس سے سامان ڈھونے کا کام لیا جا سکے۔ کچھ دیر بعد علی واپس آیا لیکن وہ پیدل تھا یعنی کسی گاڑی کا انتظام نہیں ہوسکا۔ ہم نے کہا کیا ہوا بھائی کوئی گاڑی ملی کہ نہیں، یا ہمیں رات یہیں گزارنی پڑے گی اور رات میں شرطے ہمیں آوارہ گردی کے الزام میں اندر کر دیں گے،اس کے بعد نہ جانے کیا ہوگا۔ کیا پتہ ہم کو کتنی سزا ہو جائے اور اس کے بعد شائد ہمیں ڈی پورٹ کردیا جائے۔ شرطے عربی کے علاوہ کوئی زبان نہیں جانتے ہماری انگریزی ان کے سر سے گزر جائے گی۔ ہم اچھے خاصے پریشان ہو چکے تھے لیکن علی مطمئن تھا۔ اس نے کہا گاڑی تو مل جائے گی لیکن بطحہ کے مرکزی چوک تک جانا پڑ یگا۔ ہم دونوں سامان اٹھا کر مرکزی چوک پہنچ گئے جہاں ایک عجیب منظر ہمارا منتظر تھا۔۔۔۔ جاری ہے
٭٭
سیمی خوش مزاج آدمی تھا اس کے ساتھ کام کرنا اچھا تجربہ ثابت ہوا تھا اس کے مقابلے میں یہ نیا انچارج شنکر کمار بہت بد دماغ اور بداخلاق واقع ہوا تھا۔ ہماری پہلے ہی دن سے اس سے ٹھن گئی ، مشکل یہ تھی کہ وہ نیا تھا اور ابھی اسے کام سمجھنا تھا اس لئے وہ ہم سے زیادہ بدتمیزی نہیں کرسکتا تھ...
سیمی کو گئے کئی مہینے ہو گئے تھے اس کی واپسی کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا، اس کا کام بھی ہمارے زمے ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے کام کی تھکن بڑھتی جا رہی تھی۔ کئی بار کام کی زیادتی کی وجہ سے ہمیں دیر تک رکنا پڑتا تھا۔ ہمیں سیمی کا بھی کام کرنے کی وجہ سے کوئی مالی فائدہ بھی نہیں مل رہا تھا...
اگلے روز یعنی جمعے کو ہم عزیزیہ کے ایک پاکستانی ہوٹل میں ناشتہ کرنے کے بعد مکہ شریف کے لیے روانہ ہوئے، جدہ حدود حرم سے باہرحِل کی حدود میں ہے۔ حرم شریف اور میقات کے درمیان کے علاقے کو حِل کہا جاتا ہے اس علاقے میں خود سے اگے درخت کو کاٹنا اور جانور کا شکار کرنا حلال ہے جبکہ اس علا...
ہمارے دوست اظہار عالم کافی عرصے سے جدہ میں مقیم تھے ہم نے عمرہ پر روانگی سے پہلے انہیں فون کرکے اپنی ا?مد کی اطلاع دیدی تھی، طے ہوا تھا کہ وہ جمعرات کو صبح دس بجے باب فہد کے سامنے ایک بینک کے پاس پہچیں گے۔ ہم ساڑھے نو بجے جا کر اس بینک کے سامنے جا کر کھڑے ہوگئے۔ وہاں کافی لوگ موج...
صبح فجر سے پہلے ہماری بس مکہ مکرمہ کے ہوٹل پہنچ گئی، دل میں عجب سی ہلچل مچی ہوئی تھی، کعبہ شریف کے اس قدر قریب ہونیکا احساس جیسے دل کو الٹ پلٹ کر رہا تھا ، کوشش تھی کہ فوری طور پر حرم شریف پہنچیں اور اللہ کے گھر کا دیدار کریں۔ اللہ کا گھردنیا میں وہ پہلی عبادت گاہ ہے جو انسانوں ک...
نسیم ولا اور کالج میں شب و روز اپنی مخصوص چال سے گزر رہے تھے۔ روز صبح کو شام کرنا اور شام کو صبح کا قالب بدلتے دیکھنا اور اس کے ساتھ لگی بندھی روٹین کو فالو کرنا یہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت بن چکی تھی۔ ایک بے قراری تھی، ایک بے کلٰی تھی جو دل میں بسنے لگی تھی۔ ہم لوگ روٹین کے ایس...
نسیم ولا میں دن اچھے گزر رہے تھے۔ ایک دن باتوں کے دوران ہم نے کہا لگتا ہے ریاض میں کوئی گھومنے کی جگہ نہیں ہے ،ہوتی تو ہم لوگ وہاں کا چکر لگا آتے، نسیم کے علاقے میں جہاں ہمارا ولا تھا وہاں ہمیں نہ تو کوئی پارک نظر آیا تھا نہ کوئی اور ایسی جگہ جہاں آپ تفریح کے لیے جا سکیں۔ سنیم...
رات کے نو بج رہے تھے ہمیں پی ٹی وی سے خبر نامے کا انتظار تھا لیکن خبریں شروع نہیں ہوئیں، ہم نے علی سے کہا نو بج گئے خبرنامہ شروع نہیں ہو رہا پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے، علی بولا نو ہماری گھڑی میں بجے ہیں وہاں پاکستان میں رات کے گیارہ بج رہے ہیں ہمیں احساس ہوا کہ سعودی عرب میں ہم پاکست...
ڈش انٹینا اور اس کا متعلقہ سامان لائے کئی دن گزر چکے تھے۔ ہم چاروں روز سوچتے تھے کہ آج ضرور ڈش انٹینا لگالیں گے لیکن کالج سے آنے کے بعد کھانا پکانے اور کھانے کے بعد اتنا وقت ہی نہیں بچتا تھا کہ چھت پر جائیں اور ڈش انٹٰینا کی تنصیب کا کام مکمل کریں۔ پھر طے پایا کہ یہ کام جمعے کو...
ہم ڈش انٹینا کا سامان اٹھائے بطحہ کے مرکزی چوک پہنچے تو ایک عجیب منظر ہماری آنکھوں کے سامنے تھا۔ وہاں کچھ ٹیکسیاں اور کاریں کھڑی تھیں جن کے ڈرائیور کاروں کے باہر کھڑے مسافروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے آوازیں لگا رہے تھے۔ خمسہ ریال، خمسہ ریال۔ منظر عجیب اس لیے تھا کہ آوازی...
ولا میں رہتے ہوئے ایک ہفتہ ہو گیا تھا، اس دوران اصغر کسی دوسری سائٹ پر چلا گیا تھا، ہمارے ساتھ علی منیب اور واجد رہ رہے تھے۔ ہمیں رہنے کے لیے ولا میں جو کمرہ ملا ہوا تھا وہ دو چھوٹے کمروں کا ایک پورشن تھا، ہم لوگوں نے اپنے کھانے پکانے کا انتظام بھی کرلیا تھا، منیب اچھا کک تھا اور...
علی اور منیب سوتے سے اٹھے تھے اس لیے انہیں چائے کی طلب ہو رہی تھی، ہم نے کہا چلو باہر چلتے ہیں نزدیک کوئی کیفے ٹیریا ہوگا، وہاں سے چائے پی لیں گے۔ علی نے بتایا کہ گزشتہ روز وہ اور منیب شام میں کچھ دیر کے لیے باہر نکلے تھے لیکن قریب میں کوئی کیفے ٹیریا نظر نہیں آیا۔ ہم نے کہا چل ...