وجود

... loading ...

وجود

سفر یاد۔۔۔ قسط37

منگل 03 جنوری 2017 سفر یاد۔۔۔ 		قسط37

ولا میں رہتے ہوئے ایک ہفتہ ہو گیا تھا، اس دوران اصغر کسی دوسری سائٹ پر چلا گیا تھا، ہمارے ساتھ علی منیب اور واجد رہ رہے تھے۔ ہمیں رہنے کے لیے ولا میں جو کمرہ ملا ہوا تھا وہ دو چھوٹے کمروں کا ایک پورشن تھا، ہم لوگوں نے اپنے کھانے پکانے کا انتظام بھی کرلیا تھا، منیب اچھا کک تھا اور ہم بھی اس سے کھانا پکانا سیکھ رہے تھے۔ روٹیوں کے لیے ہم نے ایک افغانی بھٹی دریافت کرلی تھی جہاں سے بڑی سی افغانی روٹیاں لے آتے تھے دو روٹیاں ہم چار افراد کیلیے کافی ہوتی تھیں۔ وقت اچھا گزر رہا تھا بس ایک چیز کی کمی شدت سے محسوس ہوتی تھی ہم پاکستان کے حالات سے یکسر لاعلم تھے، نہ ٹی وی تھا نہ ہی کوئی پاکستانی اخبار ملتا تھا۔ موبائل فون عام نہیں ہوئے تھے جبکہ لینڈ لائن پر پاکستان کال بہت مہنگی پڑتی تھی اس لیے ہفتے پندرہ دن میں گھر کال کرلیتے تھے، تین منٹ کی کال بھی خاصی مہنگی تھی۔ اس کے لیے بھی پی سی او جانا پڑتا تھا، جہاں اپنی باری پر فون ملتا تھا۔ ہمارے کان فون پر جبکہ نگاہیں گھڑی پر لگی ہوتی تھیں، کوشش ہوتی تھی کہ دو منٹ پورا ہونے سے پہلے بات مختصر کرنی شروع کردی جائے اور دو منٹ پچاس سیکنڈ پر کال کاٹ دی جائے کیونکہ منٹ سے ایک سیکنڈ بھی اوپر ہونے کا مطلب تھا کہ اگلے پورے منٹ کے پیسے بھی چارج ہو جائیں گے۔ پی سی او والوں نے سسٹم ایسا بنایا ہوا تھا کہ اگر آپ نے کال کاٹنے میں ذرا سی دیر کی تو اگلا منٹ لگ جائے گا اور اس ایک منٹ بات کیے بغیر آپ کو اس کے پیسے دینا پڑیں گے۔ ایسے حالات میں گھر والوں سے بات ہوجائے وہ ہی بڑی بات تھی ، دوست احباب اور رشتہ داروں سے رابطہ اور تعلق رکھنا مشکل تر تھا۔ انٹر نیٹ رابطے کا آسان ذریعہ ہوسکتا تھا لیکن اس کے لیے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کنکشن ہونا ضروری تھا۔ کمپیوٹر لے بھی لیتے تو انٹرنیٹ کا کنکشن لینا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہوتا۔ ہم نے ولا کے پرانے باسیوں سے علاقے میں کسی انٹر نیٹ کیفے کا پوچھا تو معلوم ہوا کہ شارع نخیل پر ایک انٹرنیٹ کیفے ہے۔پبلک ٹرانسپورٹ دستیاب نہیں تھی ،نہ ہی ہمارے پاس گاڑی تھی جس کی وجہ سے شارع نخیل پر انٹرنیٹ کیفے کھوجنے کا کام التوا کا شکار تھا۔ ایک دن کالج سے آنے کے بعد ہم نے ہمت پکڑی اور پیدل شارع نخیل پر چل پڑے ایک کلو میٹر سے زائد چلنے کے بعد انٹرنیٹ کیفے نظر آہی گیا۔ ایک دکان میں چار پانچ چھوٹے چھوٹے کیبن بنے ہوئے تھے۔ سب ہی بھرے ہوئے تھے، انٹرنیٹ استعمال کرنے والے سارے ہی مقامی عربی لڑکے تھے۔ کچھ دیر بعد ایک کیبن خالی ہوا تو ہمارا نمبر آیا۔ انٹرنیٹ بہت مہنگا تھا ایک گھنٹے کے بیس ریال۔ اس وقت پاکستان میں انٹرنیٹ کیفے پر چالیس سے پچاس روپے فی گھنٹہ چارج کیے جاتے تھے۔ سولہ روپے کا ایک ریال تھا اس طرح یہاں کے انٹرنیٹ کیفے میں ہمیں فی گھنٹہ تقریباً تین سو بیس روپے کا پڑ رہا تھا۔ انٹر نیٹ کی اسپیڈ بھی بہت کم تھی اور بہت ساری ویب سائٹس بند تھیں۔
ہم نے جلدی جلدی ای میل اکاونٹ چیک کیا، کچھ دوستوں کو مختصرمیل کی کچھ کی میل کے مختصرجواب دیے،جلدی جلدی ایک پاکستانی اخبار کا ویب ایڈیشن دیکھا، ایک گھنٹہ چند لمحوں میں گزر گیا۔ ہمارے لاگ آف کرتے کرتے دو تین منٹ اوپر ہو گئے۔ انٹرنیٹ کیفے پر بیٹھے نوجوان نے ہم سے پچیس ریال لے لیے، اس کا کہنا تھا ایک گھنٹے سے ایک منٹ بھی زائد ہونے پر پندرہ منٹ کے پیسے چارج کیے جاتے ہیں۔ ہم نے پیسے ادا کیے اور ولا کی راہ لی۔ ہمارے ایک گھنٹے کے انٹرنیٹ استعمال سے صرف اتنا ہوا تھا کہ کچھ دوستوں کی خیریت معلوم ہو گئی تھی اور ہم نے ارض وطن پاکستان کے حالات سے تھوڑی سی آگاہی حاصل کر لی تھی۔ بیرون ملک رہنے والے تارکین وطن ہزاروں میل دور ہوتے ہیں لیکن ان کا دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ ہم نے انٹرنیٹ پر اخبار اس امید پر پڑھا تھا کہ شائد وطن عزیز کے حالات میں کوئی بہتری آگئی ہو۔ لیکن اخبار میں وہی خبریں تھیں جو ہم چھوڑ کر آئے تھے، ابتر معاشی حالات، دہشت گردی کے واقعات کا تسلسل، مہنگائی، بیروز گاری، معاشی ناہمواری اور سیاسی کھینچا تانی سب کچھ ویسا ہی تھا۔ ہم سوچ رہے تھے کہ ہمارے ملک کے حالات کب بدلیں گے پھر خیال آیا یہ تو خدا کا بنایا ہوا قانون ہے۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
۔۔ جاری ہے
٭٭


متعلقہ خبریں


سفر یاد۔۔۔ قسط38 شاہد اے خان - بدھ 04 جنوری 2017

ولا میں دوسرا مہینہ گزر رہا تھا، ہم نے اپنے کمرے کے لیے ٹی وی خرید لیا تھا لیکن اس پر صرف سعودی عرب کے دو لوکل چینل آتے تھے۔ ولا کی چھت پر کئی ڈش انٹینا لگے ہوئے تھے لیکن وہ بھارتیوں یا سری لنکنز نے لگائے ہوئے تھے اس لیے کسی پر پاکستانی ٹی وی چینلز نہیں آتے تھے۔ اس وقت سعودی عرب ...

سفر یاد۔۔۔ 		قسط38

سفر یاد۔۔۔ قسط34 شاہد اے خان - هفته 31 دسمبر 2016

علی اور منیب سوتے سے اٹھے تھے اس لیے انہیں چائے کی طلب ہو رہی تھی، ہم نے کہا چلو باہر چلتے ہیں نزدیک کوئی کیفے ٹیریا ہوگا، وہاں سے چائے پی لیں گے۔ علی نے بتایا کہ گزشتہ روز وہ اور منیب شام میں کچھ دیر کے لیے باہر نکلے تھے لیکن قریب میں کوئی کیفے ٹیریا نظر نہیں آیا۔ ہم نے کہا چل ...

سفر یاد۔۔۔ قسط34

مضامین
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ جاری وجود جمعه 18 اپریل 2025
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ جاری

عالمی معاشی جنگ کا آغاز! وجود جمعه 18 اپریل 2025
عالمی معاشی جنگ کا آغاز!

منی پور فسادات بے قابو وجود جمعرات 17 اپریل 2025
منی پور فسادات بے قابو

جہاں میں اہل ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں! وجود بدھ 16 اپریل 2025
جہاں میں اہل ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں!

پاک بیلا روس معاہدے وجود بدھ 16 اپریل 2025
پاک بیلا روس معاہدے

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر