... loading ...
2016 کی باقیات میں دیگر بہت سی چیزوں کے علاوہ جعلی یاجھوٹی خبروں کا بھی ایک سلسلہ شروع ہوا جو نہ جانے کب تک جاری رہے گا۔یہ جعلی خبریں بالکل صحیح اور منطقی اعتبارسے بالکل درست معلوم اور محسوس ہوتی ہیں، اور دلچسپ اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان خبروں میں کسی بھی خبر کی بنیادی خوبیوں کو مدنظر رکھاجاتاہے یعنی یہ خبر کسی بھی طورپر ایسے ہی پھیلائی ہوئی افواہ یا کسی کی شرارت معلوم یا محسوس نہیں ہوتی،کہاجاتاہے کہ جھوٹی خبروں کاسلسلہ امریکا کے منچلے نوجوانوں نے امریکا کی اسٹاک مارکیٹوں میں ہلچل مچانے اور لوگوں میں خوف پیدا کرنے کے لیے شروع کیاتھا اور اب یہ فن امریکاسے سفر کرتاہوا مواصلات کی تیز رفتاری سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے پاکستان جیسے ترقی پزیر ملکوں تک وسعت اختیار کرچکاہے۔ گلین گرین والڈ نے حال ہی میں یہ بھی انکشاف کیاہے کہ ان جعلی خبروں کے حوالے سے یہ اہم حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ عام طورپر ان جعلی خبروں کی شدت کے ساتھ تردید اور اس کی مذمت کرنے والے ہی عمومی طورپر جعلی خبریں پھیلانے میں شریک ہیں بلکہ پس پردہ اس میں ان ہی کارستانی ہوتی ہے۔
جعلی خبریں کیاہوتی ہیں اوران کو پھیلانے کے مقاصد کیاہیں اوراس کے معاشرے یا کسی ملک یا حکومت پر کیا اثرات رونما ہوتے ہیں، اس پر غور کیاجائے تو امریکاکے صدارتی انتخابات میں روس کی مداخلت سے متعلق امریکاسمیت پوری دنیا میں گردش کرنے والے الزامات سامنے آتے ہیں، یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ روسی ماہرین نے انتہائی چابکدستی کے ساتھ ٹرمپ کی مدمقابل ہلیری کلنٹن کے خلاف اورٹرمپ کے حق میں ایک مکروہ اور مجرمانہ مہم چلائی اور غلط اطلاعات اور مفروضوں کی اس مہم کو اس انداز میں عام لوگوں تک پہنچایاگیا کہ ہر ایک انھیں درست تسلیم کرنے پر مجبور ہوگیااور اس طرح پورا انتخابی منظر نامہ تبدیل ہوکر رہ گیا۔
دسمبر 2016 میں جعلی خبروں کے حوالے سے پیو ریسرچ سینٹر کی جانب سے کرائے گئے ایک سروے رپورٹ میں انکشاف کیاگیاہے کہ 64 فیصد امریکی شہریوں نے یہ اعتراف کیاہے کہ جعلی اورمن گھڑت خبروں سے موجودہ حالات و واقعات اور مسائل کے حوالے سے شدید کنفیوژن پیدا ہوا۔جبکہ 23 فیصد لوگوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ وہ دانستہ یانادانستہ طورپر ان جعلی خبروں کو آگے بڑھانے اور پھیلانے میں شریک رہے ہیں۔
جعلی خبروں کے حوالے سے مچنے والے تمام شوروغوغا سے قطع نظر یہ ایک حقیقت ہے کہ فیس بک نے جوخود بھی دنیا کی ایک بڑی آبادی کیلئے خبروں کاایک بڑا ذریعہ ہے۔ اس طرح کی جعلی اور من گھڑت خبریں پھیلانے والوں کے خلاف کریک ڈائون کرنے اور ایسی جعلی اور من گھڑت خبروں کو آگے پھیلنے سے روکنے کے لیے اقدامات کا عندیہ دیاہے لیکن سوال یہ پیداہوتاہے کہ جعلی خبروں کو پھیلنے سے روکنے کی کوششیں کتنی کامیاب اور کیسے کامیاب ہوسکتی ہیں جبکہ یہ الزامات بھی سامنے آچکے ہیں کہ خود امریکی اسٹیبلشمنٹ کامیڈیا بعض اوقات اس طرح کی خبریں پھیلانے میں ملوث بتایا جاتا ہے۔اگرچہ اس طرح کے واقعات کو اتفاقات تصور کرتے ہوئے نظر انداز کیاجاتاہے لیکن حقیقت یہ ہے اس طرح کی صحافت پوری طرح بر سر عمل ہے اسے راکٹ سائنس کانام دینا بھی درست نہیں ہوگا۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ بڑے اخبارات کے اداریئے بھی سیاسی اور کاروباری اشرافیہ کے مفاد کے مطابق بلکہ بعض اوقات ان کے اشارے پر لکھے جانے لگے ہیں اور عام طورپر صحافی آزاد پریس کی آڑ میں اس اشرافیہ کے مائوتھ پیس یاترجمانی کافرض انجام دینے لگے ہیں۔جعلی خبروں کی اور بھی بہت سی مثالیں اور طریقے ہیں جن کی پشت پر مختلف عناصر کارفرما ہوتے ہیں،اور جو ایک مخصوص نظریئے ،فکر یا خیال کو معاشرے میں اس طرح عام کرنے کیلئے کام کررہے ہیں کہ ان کے پھیلائے ہوئے نظریئے ،فکر اور خیال کو درست تسلیم کرلیاجائے اس سلسلے میں اسرائیل کاحوالہ دیاجاسکتاہے جسے بڑی شدومد کے ساتھ جمہوریت کی روشن مثال ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
واشنگٹن کے ایک معروف ایڈیٹراینڈریو کاک برن نے حال ہی میں ہارپر میگزین کیلئے ایک مضمون لکھاہے جس میں دنیا میں جنگ وجدال کے نئے سلسلے کاحوالہ دیتے ہوئے لکھاہے کہ روس کے ساتھ مخاصمت کے نئے سلسلے کی وجہ سے اب امریکاکو اپنے جنگی اخراجات میں بے انتہا اضافہ کرنا پڑے گا ،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ روس کاجنگی بجٹ امریکا کے جنگی بجٹ کے 10 فیصد کے برابر بھی نہیں ہے اور روس کے فوجی وہ جدید اسلحہ استعمال کرنے کاسوچ بھی نہیں سکتے جو روس عالمی منڈی میں فروخت کیلئے پیش کرتاہے۔
اس مضمون میں امریکا کی فوجی صنعتوں کیلئے منافع کی ایک راہ نکالنے اور امریکی انتظامیہ کو اپنے جنگی اخراجات میں اضافے کے حوالے سے عوام کا ذہن تیار کرنے کی کوشش کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکا کے جنگی بجٹ میں اضافہ امریکی حکام کی ترجیحات میں اس وقت دوسرے نمبر پر ہے اور اولین ترجیح تو جنگی بجٹ کی تقسیم کے حوالے سے امریکا کی تینوں مسلح افواج کے درمیان جاری کشمکش یا لڑائی ہے،اور یہ بات واضح ہے کہ جنگی بجٹ میں جتنا زیادہ اضافہ ہوگا یہ لڑائی اتنی زیادہ شدت اختیار کرے گی۔
درج بالا حقائق سے ظاہرہوتاہے کہ جعلی خبریں پھیلانے میں صرف چند سرپھرے نوجوان ہی ملوث نہیں ہیں بلکہ یہ کام منظم انداز میں بعض بڑی طاقتوں کے ادارے بھی انجام دے رہے ہیں اور بعض اوقات اس مقصد کے حصول کیلئے دنیا کے معروف ترین اخبارات کے معتبر اور نامور صحافیوں کی خدمات بھی حاصل کی جاتی ہیں جو رقم کمانے یا تعلقات کو وسعت دینے کیلئے اس مکروہ عمل میں برضا ورغبت شریک ہوجاتے ہیں۔
جعلی خبروں کا ایک خطرناک پہلو یہ ہے کہ ہم نادانستہ طورپر یا حادثاتی طورپر مالی فائدے کے اس کھیل کا حصہ بن سکتے ہیں۔اسے روس کے مقابلے میں امریکا کی جنگی قوت اور جنگی اخراجات میں اضافے کے حوالے سے حال ہی میں شائع ہونے والے مضامین کا نتیجہ ہی قرار دیاجاسکتا ہے کہ امریکا کے صدر بارک اوبا نے اس بات پر زور دیاہے کہ امریکا کو اپنی ایٹمی صلاحیت میں توسیع اور اضافہ کرنے کی شدید ضرورت ہے۔
بیلین فرنانڈز