... loading ...
16 دسمبر 1971کے’’سانحہ‘‘ مشرقی پاکستان کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے باقی ماندہ پاکستان کا اقتدار صدر اور سول چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے سنبھالا تھا۔ انہوں نے آرمی چیف جنرل یحییٰ خان کو سبکدوش کیا تھا۔ اپنی قابلیت اور عوامی مقبولیت کے زعم میں انہوں نے پہلا فون سندھ میں اپنے حریف حاکم علی زرداری کو کیا تھا، سول سی ایم ایل اے اور صدر پاکستان نے اسلام آباد سے کراچی فون کرکے حاکم علی زرداری کو دھمکی دی تھی کہ وہ 24گھنٹوں کے دوران دنیا کے کسی بھی کونے میں جاکر روپوش ہوجائیں، اگر مقررہ وقت کے بعد ملک میں کہیں بھی نظر آئے تو انہیں گرفتار کر کے عبرت کا نمونہ بنایا جائے گا۔ اس ٹیلیفون کال میں انہوں نے حاکم علی زرداری کو ’’حاکو‘‘ کہہ کر مخاطب کیا تھا، چنانچہ رات ہی کو حاکم علی زرداری نے لندن کا ٹکٹ کٹایا اور پاکستان کی سرحد پار کر گئے تھے‘ آج حاکم علی زرداری کے صاحبزادے آصف علی زرداری اسی پیپلز پارٹی کے’’کرتا دھرتا جو ذوالفقار علی بھٹو نے قائم کی تھی ۔ اقتدار کے نشے بعض اوقات حکمران ایسی بات کہہ جاتے ہیں یا کر جاتے ہیں جو مالکِ دو جہاں کو پسند نہیں ہوتی اور مکافاتِ عمل راندہ درگاہ کو اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھا دیتا ہے۔ قرآن مجید کی سورۃ العصر کے مطابق ہر زمانے کا انسان خسارے میں ہے اور خسارے کی وجہ یہ ہے کہ وہ وقت اور اس کے مصرف دونوں کی قیمتوں میں موازنہ نہیں کرتا۔ وہ اشرفیاں لٹاتا ہے اور کوئلوں پر مہر لگاتا ہے۔ جواہرات دے کر سنگریزے خریدتا ہے۔ کانٹوں کو چنتا ہے اور پھولوں کو پھینک دیتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو کیا معلوم تھا کہ حاکم علی زرداری کا بیٹا ان کا داماد اور پیپلز پارٹی کا وارث بنے گا۔ گوکہ موجودہ پیپلز پارٹی اب وہ جماعت نہیں رہی ہے جو 30نومبر 1967ء کو ذوالفقار علی بھٹو نے قائم کی تھی۔ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف نے اس پنجاب پر قبضہ کر رکھا ہے جس نے 1970ء کے عام انتخابات میں پی پی کو فتحیاب کرکے اقتدار تک پہنچایا تھا۔ اس پنجاب میں اپنے قدم جمانے اور اسٹیبلشمنٹ کو منانے کے لیے آصف علی زرداری کی کشمیر اور بھارت دشمنی کو پنجاب میں راستہ ہموار کرنے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ بھٹو مرحوم نے بھی بھارت میں ہزار سال جنگ لڑنے کا اعلان کیا تھا، لیکن برسر اقتدار آنے پر بھارت سے جنگ کرنے کی بجائے انہوں نے دوستی کا ہاتھ بڑھادیا تھا۔ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف پیپلز پارٹی کو پنجاب میں راستہ نہیں دے رہی ہیں۔ آصف علی زرداری کی ڈیڑھ سال از خود جلا وطنی کے بعد 23دسمبر کو وطن واپسی کا ایک مقصد پنجاب میں اثرو رسوخ بڑھانا بھی ہے۔ نوجوان بلاول بھٹو پنجاب میں کئی کئی دن مورچہ زن ہونے کے باوجود آگے پیش قدمی نہیں کرسکے تھے۔ ان کی والدہ بے نظیر بھٹو کی گڑھی خدا بخش(لاڑکانہ) میں برسی کے اجتماع میں بھی پنجاب سے حوصلہ افزا حاضری نہیں تھی۔ اس مایوس کن صورتحال میں 2018ء کا الیکشن جیتنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔ یہ معرکہ اب قومی اسمبلی میں جیتنے کی کوشش کی جائے گی ۔ سینیٹ میں پہلے ہی پی پی پی کی اکثریت ہے۔ پیپلز پارٹی کے دو ارکان قومی اسمبلی نے استعفے پیش کرکے آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کے قومی اسمبلی میں داخلے کی گنجائش پیدا کی گئی ہے۔ آصف زرداری کی ہمشیرہ عذرا پیچوہو نے نواب شاہ اور ایاز سومرو نے لاڑکانہ کی سیٹ خالی کردی ہیں ۔ ضمنی الیکشن کا اعلان ہو نے والا ہے۔ دونوں باپ بیٹا ان دو سیٹوں پر الیکشن لڑ کر اسمبلی کے رکن منتخب ہوں گے۔ وہاں بیٹھ کر داؤ پیچ لڑائیں گے۔ وزیر اعظم نواز شریف اور عمران خان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں گے۔ پی پی پی کے اپوزیشن پارلیمانی لیڈر سید خورشید شاہ اپنے کمزور ماضی کے باعث یہ فرض ادا کرنے سے قاصر تھے ۔ ان کے بارے میں یہ بھی شنید ہے کہ وہ میاں نواز شریف کی وکٹ پر کھیل رہے تھے حکومت سے جنگ کو عمران خان سے محاذ آرائی میں تبدیل کرنے آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کے قومی اسمبلی میں پہنچنے سے لڑائی کا رخ تبدیل ہو جائے گا۔ اگر آصف زرداری اور عمران خان نے مل کر حکومت کے خلاف مورچہ لگا لیا تو وزیر اعظم نواز شریف کی حکمرانی خطرے میں پڑ جائے گی۔ پنجاب میں پی پی پی کے لیے جگہ اور مقام بنانے کے لیے برادران سے تو ٹکرانا ہی پڑے گا جن کی پنجاب پرمضبوط گرفت ہے۔ بلدیاتی اداروں کے سربراھان کے چناؤ میں مسلم لیگ ن نے کامیابی کے تازہ جھنڈے گاڑے ہیں فتح کے شادیانے بجائے ہیں۔ آصف زرداری اور بلاول نے عوام کے حقوق اور انصاف کے لیے قومی اسمبلی جانے کا فیصلہ قوم کو سنایا ہے لیکن اصل مقصد تو پنجاب میں پی پی کے لیے جگہ قومی اسمبلی میں بیٹھ کر پنجاب کے اراکین سے رابطے ہوں گے اقتدار کے کھیل میں ان کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔ کسی ’’ان ہاؤس‘‘ تبدیلی کے لیے بھی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ آصف زرداری سیاست کے جادو گر ہیں ۔ انہوں نے سندھ میں دوسری بڑی پارلیمانی پارٹی ہونے کے باوجود ایم کیو ایم کو پویلین سے باہر بٹھا رکھا ہے ن لیگ کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہونے والے عبدالحکیم بلوچ کو واپس پیپلز پارٹی میں شامل کرکے فنکشنل مسلم لیگ کے اوپننگ بیٹسمین امتیاز شیخ اور جام مدد علی نے بھی پیپلز پارٹی کا پرچم اوڑھ لیا ہے اور آصف زرداری کی مالا جپ رہے ہیں ۔ سندھ کی دیہی اور شہری علاقوں کی پہلی سیاسی جماعت ایم کیو ایم نے 30 دسمبر کو کراچی کے نشتر پارک میں بڑا جلسہ کیا ہے۔ ایم کیو ایم لندن اور پاکستان دو حصوں میں منقسم ہے۔ اس کے باوجود جلسہ کامیاب گیا ہے۔ سندھ کی شہری آبادی کے بڑے مسائل ہیں لیکن سیا سی پارٹی دوحصوں میں تقسیم ہے۔ یہ صورتحال پیپلز پارٹی کی سندھ میں ہے۔ حیدرآباد اور اندرون سندھ کی’’مہاجر آبادی بڑی حد تک اپنا وزن پاک سر زمین پارٹی کے قائد مصطفی کمال اور انیس احمد قائمخانی کے پلڑے میں ڈالا ہے۔ پی ایس پی نے حیدرآباد کے پکا قلعہ گراؤنڈ میں بڑا جلسہ کرکے اپنی مقبولیت ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ سندھ کی شہری آبادی اب بھی کنفیوژ ہے۔ وہ خود کو فکرِ الطاف سے علیحدہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے۔ یہ وہی فکر ہے جو ڈاکٹر فاروق ستار نے نشتر پارک اور مصطفی کمال انیس احمد قائمخانی نے پکا قلعہ حیدرآباد میں قائم کی ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا ہے کہ ہمیں اقلیت بننا قبول نہیں ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے بھی حقوق ہیں سندھ اور وفاق کی سطح پر حکمرانی میں بھی شریک ہیں۔ سندھ کی شہری آبادی کا صوبائی ‘ وفاقی اور انتظامیہ پر کوئی کردار نہیں ہے۔ ان سے زیادہ مراعات توحاصل ہیں جن کی قومی اسمبلی میں سیٹوں کی تعداد ان کے مقابلے میں ایک چوتھائی بھی نہیں ہے۔ فرق سیاست میں مولانا فضل الرحمان اور آصف زرداری اقتدار میں رہے ہیں۔’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ کا کھیل بھی کھیل نہیںرہا۔مسلم لیگ ن‘ فوج‘ کشمیر کے موضوعات پر حکومت میںاتفاق نہیں ہے۔ پاکستان میں سیاست کے لیے الزام تراشی ‘جھوٹ دھوکہ دہی‘ فریب کاری ضروری ہیں ۔ یہ کامیاب سیاست کے گر ہیں ایم کیو ایم ہو یا پی ایس پی انہیں سسٹم کے ساتھ چلنے کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے بلدیاتی جمہوریت کی بات کی ہے ۔ صدر ایوب خان مرحوم نے بنیادی جمہوریت کا بلدیاتی نظام متعارف کرایا تھا جو کامیابی سے چلا تھا۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ اگر منصفانہ مردم شماری ہوئی توآئندہ وزیر اعلیٰ اردو آبادی کا نمائندہ ہوگا۔ یہ ملین ڈالرکا سوال ہے ۔ مردم شماری میں 1973ء سے ڈنڈی ماری گئی ہے۔ دیہی علاقوں کی زائد آبادی دکھا کر اسمبلی میں سیٹیں بھی زیادہ رکھی گئی ہیں سندھ کی شہری آبادی زیادہ ہونے کے باوجود حقوق سے محروم ہے ۔ان کی حق تلفی نے ایم کیو ایم کو جنم دیا تھا صورتحال آج بھی مختلف نہیں ہے ۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے طرز سیاست میں فرق ہے۔ یہاں میاں نواز شریف ‘ چوہدری شجاعت ‘ آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان کا سیاسی طریقہ کار کامیاب اور مروج ہے ۔ یہاں شخصی مفادات کا فارمولا چلتا ہے لوگ ووٹ بھی ان ہی کو دیتے ہیں ۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا تھا!!!
یارب تو نے مجھے کس دیس میں پیدا کیا
جس دیس کے بندے ہوں غلامی پر رضامند
٭٭
حکومت سندھ نے نیب کے قوانین سندھ سے ختم کردیے مگر سندھ ہائی کورٹ نے نیب کو اپنا کام جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے جس کے بعد حکومت سندھ کے تمام خواب چکنا چور ہونا شروع ہوگئے کیونکہ حکومت سندھ نے جن کرپٹ افراد کو بچانے کے لیے نیب کے قوانین ختم کرنے کی قانون سازی کی تھی اس میں کامیاب نہ...
جس کا ڈر تھا وہ سب کچھ ہوگیا ملک اسد سکندر بآلاخر اپنے سے زائد طاقتور شخص آصف علی زرداری کے سامنے جھک گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسے جھکنا تھا تو پھر یہ تنازع ہی کیوں لیا؟ کیونکہ ملک اسد سکندر کو یہ پتہ تھا کہ آصف علی زرداری جب ضد پر آئیں تو سب کچھ قربان کرسکتے ہیں جو لوگ ...
ملک میں ایک بھونچال آگیا ہے وزیراعظم کو تاحیات نااہل قرار دے کر گھر بھیج دیا گیا ہے اورعبوری وزیراعظم شاہ خاقان عباسی بنائے گئے ہیں ان کی کابینہ نے حلف بھی اٹھالیا ہے ۔ اب یہ بات بھی واضح ہو چکی ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف وزیراعظم کی دوڑ سے دور رہیں گے اور شاید شاہد خاقان ...
جس طریقے سے کٹھ پتلی کی طرح حکومت سندھ کوچلایا جاتا ہے اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ ماضی میں جام صادق ، مظفر شاہ، لیاقت جتوئی، علی محمد مہر اور ارباب غلام رحیم ایسے وزرائے اعلیٰ تھے جو مخلوط حکو مت چلاتے تھے یوں ان کی پوزیشن کمزور ہوتی تھی تاہم اس کے باوجود وہ اچھے فیصلے کر جا...
یوں تو سندھ میں کئی افراد آج بھی ایک طاقت رکھتے ہیں لیکن چند افراد ایسے ہیں جن کی طاقت کا اندازہ حکومت کو بھی نہیں ہوتا۔ ان میں ملک اسد سکندر بھی ایک ہیں۔ضلع جامشورو کے علاقہ تھانہ بولا خان سے تعلق رکھنے والے ملک اسد سکندر حقیقت میں ایسے ہی طاقتور ہیں جیسے قبائلی سردار ہوتے ہیں ...
پاکستان پیپلز پارٹی نے 2008 کے بعد اپنی پالیسی تبدیل کی ہے اور نظریاتی سیاست کو عملی طور پر دفن کردیا ہے ۔ یہ کوشش کی گئی کہ ہر سیاسی شخصیت اور ہر سیاسی خاندان کو پی پی میں شامل کیا جائے چاہے اس کے لیے کچھ بھی قربانی دینا پڑے۔ جام مدد علی ،امتیاز شیخ، اسماعیل راہو، جاموٹ خاندان ک...
2008 ءسے 2016 ءتک جب قائم علی شاہ نے آٹھ سال یکمشت اور مجموعی طو رپر دس سال تک وزارت اعلیٰ کے منصب پر برقرار رہنے کا اعزاز حاصل کیا تو اس وقت دنیا نے ان کی حکمرانی کے بارے میں کوئی اچھی رائے قائم نہیں کی، بس وہ پہلے دور میں 1988ءمیں امن امان قائم نہ کرسکے اور 2008 ءمیں بھی کرپشن ...
پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت 27دسمبر 2007ءکوکیا بدلی سارے اصول، ساری پالیسیاں ،ساری حکمت عملی ،سارے حالات ہی تبدیل ہوگئے۔ جو اصول ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے طے کیے گئے تھے اور محترمہ بینظیر بھٹو نے بھی ان کو برقراررکھا مگرآصف علی زرداری نے ان سب کوملیا میٹ کردیا اورتمام ضابطے اص...
[caption id="attachment_44159" align="aligncenter" width="784"] نواب لغاری، اشفاق لغاری اور غلام قادر مری کی گمشدگی پر کئی افواہیں زیر گردش،آصف زرداری کی پریشانی عیاں ہوگئی ان تینوں لاپتہ افراد کی زندہ بازیابی ہویا مسخ شدہ لاشوں کی شکل میں، صورتحال آصف زرداری کے لیے پریشان کن ہو...
[caption id="attachment_44054" align="aligncenter" width="784"] آصف زرداری اپنے دوستوں کو دل کھول کر نوازتے ہیں ،جب اپنی مرضی اور ضد پر آتے ہیں تو انہیں دل کھول کر برباد کرتے ہیں حضور بخش کلوڑ، آفتاب پٹھان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا، اب نواب لغاری‘ اشفاق لغاری اور غلام قادر مری ک...
باسمہ تعالیٰ ۔۔۔۔۔۔ زمانے کی ہوا بگڑتی جارہی ہے مگر جنابِ زرداری کے ماتھے پر غرور کی شکنیں ختم ہونے میں نہیں آرہیں۔ کیا وہ اُس حالت کو پہنچ گئے جہاں عالم کے پرورگار کی ناراضی متوجہ ہوتی ہے۔ الامان والحفیظ! الامان والحفیظ!!!!! کیسا غرور ہے جواُن کے ایک فقرے میں چھلکتا ہی جارہا...
نیب نے پچھلے سال کوئٹہ سے گریڈ 20 کے افسر اور صوبائی سیکریٹری مشتاق رئیسانی کے گھر پر چھاپہ مارکر 65 کروڑ روپے نقد اور ڈیڑھ سے دو ارب روپے کی املاک برآمد کرکے چونکا دیا تھا اور پھر اس کے اثاثوں کی تحقیقات میں کئی ہفتے لگ گئے ۔مجموعی طورپر مشتاق رئیسانی تین چار ارب روپے ظاہر کرچکا...