... loading ...
ہم کھانے کے لیے بیٹھ چکے تھے، صورتحال یہ تھی کہ سب کے حصے میں ایک ایک روٹی اور ایک ایک کباب آیا تھا، ہمارے حصے میں صرف ایک روٹی آئی تھی پھر منیب کو شائد ہماری حالت پر رحم آگیا اور اس نے ہمیں کچن میں جا کر مزید ایک کباب تلنے کی اجازت دیدی۔ ہم جلدی جلدی میں کباب تل کر واپس لوٹے تو کسی نے بھی کھانا شروع نہیں کیا تھا، ہم سب نے اپنی اپنی روٹی اور کباب سے انصاف کیا، انصاف تو منیب کی والدہ نے بھی کبابوں کے ساتھ خوب کیا تھا پوری محبت اور توجہ سے بنائے تھے، ایسے لذیذ کباب دوبارہ کھانے کو نہیں ملے۔ کھانا ختم ہوا لیکن پیٹ کسی کا بھی نہیں بھرا تھا بس گزارہ ہو گیا تھا۔ پردیس میں اتنا بھی غنیمت ہے۔ جن پر گزرتی ہے صرف وہی جان سکتے ہیں کہ پردیس کیا بلا ہے کیسی اذیت کا نام ہے پردیس ، یہ صرف وہی جان سکتا ہے جو یہ سزا بھگت رہا ہوتا ہے۔ ایسی عجیب سی تنہائی کا عالم کہ بیشمار لوگوں کے ہوتے ہوئے بھی اکیلاپن ہو، ہے نا عجیب سزا، مگر حالات اور انسانی ضروریات کی وجہ سے بندہ یہ سزا قبول کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔کبھی بیماری کی حالت میں کمرے میں پڑے رہنا، تنہا اور اداس، کمرے کی گھٹی فضا، سگریٹ کا دھواں اور بو، بکھری چیزیں، میلی چادر، پھٹا ہوا پردہ، بکھری سوچیں، یہ سب کیا ہے یہ پردیس میں رہنے کا بونس ہے۔پردیسی جب بیمار ہوتا ہے تو کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا، پانی کا ایک گلاس پینے کیلیے بھی اسے خود ہی اُٹھنا پڑتا ہے، ڈاکٹر کہتا ہے نرم غذا کھائو اور آرام کرو، لیکن پردیس میں کون اس کو نرم غذا پکاکر دے گا، نہ تو بیٹی پاس ہوتی ہے، نہ بہن نہ ماں اور نہ بیوی… پردیس میں بیچارہ آرام بھی کیسے کرے کہ کونسا اُس کے پاس ماں یا بیوی ہوتی ہے کہ جن کے گھٹنے پر سر رکھ کے سو سکے۔ بس وہ روٹی کے کچھ ٹکڑے کھاکر بازوئوں کا سرہانہ بناکر آہوں اور سسکیوں کے بیچ کہیں سوجاتا ہے اور ایک عمر پردیس میں گزار کر گھر والوں کو معاشی خوشحالی دینے والا یہ بندہ جب وقت کی مار کھا کر اور اپنی حصے کی بیگار کاٹ کر واپس لوٹتا ہے، تو اپنے ملک میں کچھ بھی اس کا نہیں ہوتا۔ پردیس میں گزرے لمحے دیمک کی طرح سب کچھ چاٹ چکے ہوتے ہیں، معاشرے میں ان فِٹ سا کردار، سنکی کھانستا ہوا بوڑھا وجود…شائد، ایسا ہی ہے پردیس۔۔ ہم لوگوں نے بھی روٹی کباب کھا کر اور پانی پی کر خدا کا شکر ادا کیا اور ایک دوسرے کی کہانی سننے اور اپنی کہانی سنانے میں لگ گئے۔ سب کی سعودی عرب آمد کا ایک ہی مقصد تھا یعنی اپنے گھر والوں کے لیے زیادہ سے زیادہ پیسے کمانا۔ سب ہی اپنے ملک میں اپنی معاشی حالت سے پریشان تھے یہاں آکر شائد معاشی حالت تو تھوڑی بہتر ہو جائے گی لیکن زندگی کے وہ قیمتی لمحے جو اپنوں کے بغیر زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو ترسائیں گے ان کی قیمت کون دے گا اس کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔۔
گپ شپ میں وقت تیزی سے گزرا کب رات کے گیارہ بج گئے پتہ بھی نہیں چلا، ہمیں صبح جنادریہ کالج جانا تھا اس لیے باقی چاروں سے اجازت طلب کی اور سونے کیلیے لیٹ گئے۔ صبح اٹھ کر وہی روٹین یعنی بقالے سے جوس اور بن لینا، کام پر جانے کی تیاری اور پھر وین کا انتظار۔ فرق صرف اتنا تھا کہ گاڑی نکل جاتی تو جنادریہ کیمپ سے تو پیدل بھی کالج جا سکتے تھے یہاں سے ایسا ممکن نہیں تھا اس لیے وین کے آنے سے پہلے اپنے کمرے سے نیچے پہنچنا ضروری تھا۔ پہلا دن تھا اس لیے ہم کافی جلدی نیچے آگئے۔ باہر گلی میں کھڑے نہیں ہو سکتے تھے اس لیے ولا کے چھوٹے سے لان کے پاس بیٹھ گئے۔ لان کیا تھا کچھ انتہائی ڈھیٹ قسم کے پودے تھے جو شدید گرمی اور سخت موسم کے باوجود کسی نہ کسی طرح سر اٹھائے کھڑے تھے۔ سوکھے ہوئے خزاں رسیدہ سے نظر آنے والے پودوں کو شائد کئی روز سے پانی نہیں ملا تھا۔ ہم نے ادھر ادھر تلاش کیا تو پانی کا پائپ مل گیا ۔ پائپ کا ایک سرا قریب موجود ایک نلکے میں پھنسایا اور نل کھول دیا۔ سوکھے اداس پودوں کو آب حیات مل گیا، ہم نے لان میں لگے سبھی پودوں کو پانی سے نہلا دیا، اس دوران ہمارے کپڑے بھی کچھ گیلے ہو گئے لیکن ان پودوں کو مسرور دیکھ کر ہمیں اس وقت جتنی خوشی ہوئی وہ بیان سے باہر ہے۔ انہیں پانی دینا توہمارا روز صبح کا معمول بن گیا، آنے والے دنوں میں ہماری لان میں لگے پودوں سے دوستی مزید پکی ہوتی چلی گئی۔۔۔۔ جاری ہے
[caption id="attachment_44110" align="aligncenter" width="784"] تیل کی عالمی قیمتوںاور کھپت میں کمی پر قابو پانے کے لیے حکام کی تنخواہوں مراعات میں کٹوتی،زرمبادلہ کی آمدنی کے متبادل ذرائع کی تلاش اور سیاحت کی پالیسیوں میں نرمی کی جارہی ہے سیاسی طور پر اندرونی و بیرونی چیلنجز نے ...
دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف کو سعودی قیادت میں قائم دہشت گردی کے خلاف مشترکہ فوج کے سربراہ کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے حوالے سے حکومت پاکستان کی جانب سے دی گئی اجازت کے حوالے سے ملک کے اندر بعض حلقوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے اعتراضات...
سیمی خوش مزاج آدمی تھا اس کے ساتھ کام کرنا اچھا تجربہ ثابت ہوا تھا اس کے مقابلے میں یہ نیا انچارج شنکر کمار بہت بد دماغ اور بداخلاق واقع ہوا تھا۔ ہماری پہلے ہی دن سے اس سے ٹھن گئی ، مشکل یہ تھی کہ وہ نیا تھا اور ابھی اسے کام سمجھنا تھا اس لئے وہ ہم سے زیادہ بدتمیزی نہیں کرسکتا تھ...
سیمی کو گئے کئی مہینے ہو گئے تھے اس کی واپسی کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا، اس کا کام بھی ہمارے زمے ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے کام کی تھکن بڑھتی جا رہی تھی۔ کئی بار کام کی زیادتی کی وجہ سے ہمیں دیر تک رکنا پڑتا تھا۔ ہمیں سیمی کا بھی کام کرنے کی وجہ سے کوئی مالی فائدہ بھی نہیں مل رہا تھا...
سیمی کے جانے کے بعد ہمارا کام کافی بڑھ گیا تھا، اب ہمیں اپنے کام کے ساتھ سیمی کا کام بھی دیکھنا پڑ رہا تھا لیکن ہم یہ سوچ کر چپ چاپ لگے ہوئے تھے کہ چلو ایک ماہ کی بات ہے سیمی واپس آجائے گا تو ہمارا کام ہلکا ہو جائے گا۔ ایک ماہ ہوتا ہی کتنا ہے تیس دنوں میں گزر گیا، لیکن سیمی واپس ...
اگلے روز یعنی جمعے کو ہم عزیزیہ کے ایک پاکستانی ہوٹل میں ناشتہ کرنے کے بعد مکہ شریف کے لیے روانہ ہوئے، جدہ حدود حرم سے باہرحِل کی حدود میں ہے۔ حرم شریف اور میقات کے درمیان کے علاقے کو حِل کہا جاتا ہے اس علاقے میں خود سے اگے درخت کو کاٹنا اور جانور کا شکار کرنا حلال ہے جبکہ اس علا...
ہمارے دوست اظہار عالم کافی عرصے سے جدہ میں مقیم تھے ہم نے عمرہ پر روانگی سے پہلے انہیں فون کرکے اپنی ا?مد کی اطلاع دیدی تھی، طے ہوا تھا کہ وہ جمعرات کو صبح دس بجے باب فہد کے سامنے ایک بینک کے پاس پہچیں گے۔ ہم ساڑھے نو بجے جا کر اس بینک کے سامنے جا کر کھڑے ہوگئے۔ وہاں کافی لوگ موج...
مکہ المکرمہ سے مدینہ شریف کا فاصلہ تقریبا ساڑھے چار سو کلومیٹر ہے، راستے بھر مشہور نعت مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ ذہن میں گونجتی رہی، ہماری آنکھیں سارے راستے پُر نم رہیں۔ مدینے کا راستہ محبت کی معراج کا وہ راستہ ہے جس پر بڑے بڑے صحابہ ، علما، صوفیہ اور بزرگان دین نے...
صبح فجر سے پہلے ہماری بس مکہ مکرمہ کے ہوٹل پہنچ گئی، دل میں عجب سی ہلچل مچی ہوئی تھی، کعبہ شریف کے اس قدر قریب ہونیکا احساس جیسے دل کو الٹ پلٹ کر رہا تھا ، کوشش تھی کہ فوری طور پر حرم شریف پہنچیں اور اللہ کے گھر کا دیدار کریں۔ اللہ کا گھردنیا میں وہ پہلی عبادت گاہ ہے جو انسانوں ک...
نسیم ولا اور کالج میں شب و روز اپنی مخصوص چال سے گزر رہے تھے۔ روز صبح کو شام کرنا اور شام کو صبح کا قالب بدلتے دیکھنا اور اس کے ساتھ لگی بندھی روٹین کو فالو کرنا یہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت بن چکی تھی۔ ایک بے قراری تھی، ایک بے کلٰی تھی جو دل میں بسنے لگی تھی۔ ہم لوگ روٹین کے ایس...
نسیم ولا میں دن اچھے گزر رہے تھے۔ ایک دن باتوں کے دوران ہم نے کہا لگتا ہے ریاض میں کوئی گھومنے کی جگہ نہیں ہے ،ہوتی تو ہم لوگ وہاں کا چکر لگا آتے، نسیم کے علاقے میں جہاں ہمارا ولا تھا وہاں ہمیں نہ تو کوئی پارک نظر آیا تھا نہ کوئی اور ایسی جگہ جہاں آپ تفریح کے لیے جا سکیں۔ سنیم...
رات کے نو بج رہے تھے ہمیں پی ٹی وی سے خبر نامے کا انتظار تھا لیکن خبریں شروع نہیں ہوئیں، ہم نے علی سے کہا نو بج گئے خبرنامہ شروع نہیں ہو رہا پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے، علی بولا نو ہماری گھڑی میں بجے ہیں وہاں پاکستان میں رات کے گیارہ بج رہے ہیں ہمیں احساس ہوا کہ سعودی عرب میں ہم پاکست...