وجود

... loading ...

وجود

روسی صدر کا مجوزہ دورہ پاکستان

اتوار 01 جنوری 2017 روسی صدر کا مجوزہ دورہ پاکستان

روسی صدر ولا دی میر پوتین جن کے نام میں ’’میر‘‘ کا لفظ ہونے کی وجہ سے بعض لوگ انہیں ہمارے انتہائی قابلِ احترام دوست سجاد میر صاحب کا دور پار کا کزن قرار دینے پر مُصر ہیں، انہوں نے مستقبل قریب میں پاکستان کے دورے پر آنے کی ’خواہش ‘کا اظہار کیا ہے۔ معتبر ذرائع راوی ہیں کہ یہ ’خواہش ‘ان کے محکمہ خارجہ نے ہمارے دفترِ خارجہ کو سفارتی زبان میں پہنچا دی ہے کہ کوئی نہ کوئی بہانہ ایسا تلاش کیا جائے کہ ان کے صدر پاکستان قدم رنجہ فرما سکیں۔تجویزکیا گیا ہے کہ کسی بڑے یا چھوٹے ترقیاتی منصوبے کے افتتاح کے موقع پر روسی صدر کو پاکستان آنے کا موقع مل جائے تو زیادہ بہتر رہے گا۔
یہ بھی تجویز پیش کی گئی ہے کہ ملک میں ایل پی جی کے ساٹھ کے قریب فلنگ اسٹیشن ان علاقوں میں لگانے کا معاہدہ ہوجائے گا جس سے پاکستان کے انتہائی ٹھنڈے علاقوں میں، جہاں ان دنوں میں ایل پی جی نامی ایندھن کی شدید کمی ہو جاتی ہے، ان علاقوں میں ایسے فلنگ اسٹیشنوں کی تنصیب سے صارفین کو ایل این جی ایک ہی نرخ پر ملتی رہے گی۔اس وقت روس کے پاس ایل پی جی کی بے شمار پیداوار ہے جسے وہ دنیا کو برآمد کرنے کے لیے مرا جا رہا ہے۔
پہلے سننے میں آیا تھا کہ روسی صدر کراچی سے لاہور تک بچھنے والی مجوزہ پائپ لائن کے افتتاح کے موقع پر آنے کاارادہ رکھتے ہیں، لیکن امریکا اور برطانیہ میں تربیت یافتہ ہماری افسر شاہی نے اس منصوبے کی کاغذی کارروائی مکمل کرنے پر ہی اتنا وقت لگا دیا ہے کہ اب روسی صدر کے صبر کا پیمانہ چھلک پڑا ہے۔ ہمارے محکمہ قانون نے تقریباً ڈھائی سال تک اس فائل کو دبا کر رکھنے کی تگ و دو کے بعد آخر کار یہ رائے دی ہے کہ ’’ہاں! پاکستان اس ریاستی معاہدے پر دستخط کر سکتا ہے‘‘۔اب اس کے بعد معاملہ تیل و گیس کی وزارت کے بابوؤں کے ہاتھ میں ہے، اب دیکھیں وہ اس گیس پائپ لائن کا فیصلہ کرنے میں کتنے سال لگاتے ہیں۔ روس میں ابھی تک چوں کہ کوئی نجی شعبہ نہیں ہے اس لیے معاملہ ریاستی اداروں کے درمیان میں ہی طے ہوگا۔
اس وقت عالمی منڈی میں سب سے آسان شرائط پر یہی قرض دستیاب ہے اور چینی طریق کار کے ہم وزن ، روسی یہ پائپ لائن اپنے سرمائے سے اپنی کمپنی کے ذریعے لگا کر دینے پر مُصر ہیں۔ نہ ٹیکنالوجی کا مسئلہ اور نہ ہی فنانشل کلوز کرنے کا جھنجھٹ کہ اس ملک کے بہت سے بڑے منصوبے فنانشل کلوز کے انتظار میں الماریوں میں ’کلوز‘ ہو چکے ہیں،جیسے کہ کالاباغ ڈیم۔
گزشتہ ستر سال سے چیوننگ (برطانوی ) اور فل برائیٹ(امریکی) اسکالرشپ کو زیادہ تر پاکستان کی افسر شاہی تک محدود رکھنے کے لامحدود فضائل اب ہمارے ان دوست ممالک کی جھولیوں میں سمٹ رہے ہیں اور چین و روس کی طرف سے آنے والے ہر منصوبے کو ایسی بریکیں لگتی ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ اسی سے سیکھتے ہوئے چین نے بیجنگ میں ہونے والے حالیہ مذاکرات میں اقتصادی راہداری کے ساتھ ساتھ ’’علمی راہداری‘‘ کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ ویسے یہ راہداری پہلے بھی کھلی ہے لیکن اب تک چین کی طرف سے آنے والی تمام پیش کشیں سینیٹر مشاہد حسین سید کی الماری میں بند ہو جاتی ہیں اور چین کی طرف سے جتنے بھی تعلیمی وظائف پاکستان آتے ہیں، وہ ان کے ’’ہم خیال‘‘ پاکستانیوں تک ہی محدود رہتے ہیں، عوام الناس کو اس کی ہوا تک نہیں لگنے دی جاتی، اور پھر سینکڑوں طلبہ چپکے سے چین چلے بھی جاتے ہیں، مفت اعلیٰ تعلیم کے لیے۔ سوچنے کی بات ہے کہ جب باقی ملکوں سے آنے والے تعلیمی وظائف ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے ذریعے دئیے جاتے ہیں تو چین میں پیشہ ورانہ اعلیٰ تعلیم کے وظائف کی ملکی سطح پر تشہیر کیوں نہیں ہوتی؟
یادش بخیر امریکا نے گزشتہ ستر سال کے دوران پاکستان میں کل ملا کر اڑتالیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے جس کے بدلے ہم نے افغانستان میں دو امریکی جنگیں بھی لڑی ہیں ،اس میں تیس سال کے بعد قابلِ ادا ہونے والا دو فیصد شرحِ سود کا وہ قرض بھی شامل تھا جس کے عوض ہم امریکا سے سویابین اور سویا میل (کھلی) بھی درآمد کیا کرتے تھے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ 1956 میں شروع ہونے والے اس قرض پروگرام کی پہلے قسط کی واپسی جب 1986میں واجب الادا ہوئی تو ہمارے ملک کے مالیاتی نظم و ضبط کا بیڑہ غرق ہو چکا تھا اور ہم مالیاتی بدنظمی کا ایسا شکار ہو چکے تھے کہ اب تک اس جہاز کو سنبھالا ہی نہیں دیا جاسکا۔ شائد اس قرض کا مقصد ہی یہی ہو، اسی لیے تو دن رات اس قرض کی تشہیر کی جاتی ہے پاکستانی میڈیا پر۔ یہ کیسی کمال کی بات ہے کہ امریکا کو ہماری قوم کو یہ بتانے کے لیے اشتہار دینا پڑتے ہیں جب کہ چینی بھائیوں کو یہ تردد نہیں کرنا پڑتا۔ اسے کہتے ہیں ’حسن وہ جو سر چڑھ کر بولے‘۔
دفترِ خارجہ میں یہ بھی سوچ پائی جا رہی ہے کہ بالائی سندھ کے قصبے کشمورکے پاس گدوکے مقام پر روس کی مدد سے 1969میں قائم کئے گئے بجلی سازی کے کارخانے کے ’نئے جنم ‘ کی افتتاحی تقریب میں ہی پوتین صاحب کو بلا لیا جائے۔ کہتے ہیں کہ گیارہ سو میگاواٹ صلاحیت گدو پاور منصوبہ 2012 میں محض دو سو میگاواٹ تک محدود ہوکر رہ گیا تھا۔ وفاق میں برسراقتدار سندھ کی پارٹی اس امر پر لڑ رہی تھی کہ اس کی بحالی کا ٹھیکا کس کو ملے گا؟ کیوں کہ قادرپور گیس فیلڈ کی بحالی کے منصوبے میں اُس وقت کی ایک انتہائی اہم شخصیت کے بھائی نے جس طرح استعمال شدہ مشیری ، نئی قرار دے کر بیچ کر لمبی دیہاڑی لگا کر اس کا بیڑہ غرق کیا تھا اور جن کو آج تک کسی نے نہیں پوچھا ، تو گدومنصوبے پر ہاتھ صاف کرنا اب کسی اور کا ’حق ‘تھا ورنہ سندھ کے حقوق خطرے میں پڑ جاتے اور پاکستان پھر نہ ’’کھپے‘‘ ہوجاتا۔ اس لیے کراچی کو پنجاب کے کوٹے میں چھ سے آٹھ سو میگاواٹ کی فراہمی جاری رہتی (جی وہی بجلی جس کا جامشورو کے بعد کوئی حساب نہیں ملتا) لیکن ابھی لڑائی جاری تھی کہ اتنے میں انتخابات ہوگئے۔
انتخابات کے بعد میاں نواز شریف نے پنجاب کی بجلی بچانے کے لیے اس کو تیل کی بجائے گیس پر بحال کرنے کا منصوبہ بنایا بلکہ اس میں ایک اور پلانٹ مزید لگانے کا حکم بھی دے دیا جن کے چلنے سے اب پاکستان میں واقع اس بجلی گھر کی صلاحیت دوہزار میگاواٹ سے بڑھ جائے گی۔ اس منصوبے پر دستاویزی فلم بنانے والی ایک ٹیم کے ارکان کیساتھ گزشتہ دنوں لاہور میں ایک ملاقات کا اتفاق ہوا، ان کا خیال تھا کہ کوئی دن جاتا ہے کہ میاں نواز شریف اس منصوبے کا افتتاحی ربن کاٹنے پہنچ جائیں اور دشمنوں کے سینوں پر مونگ دل کر واپس آئیںگے۔ اُدھر بلاول کے ننھے سے دل میں مُنی سے خواہش بس یہی ہے کہ اس منصوبے کے افتتاح میں ’’پاپا‘‘ بھی وزیر اعظم کے ہمراہ ہوں، ورنہ پھر ’پاکستان نہ کھپے‘۔ لیکن کیا کریں ’مُنی‘ تو کافی بدنام ہو چکی ہے۔
حال ہی میں افغانستان کے موضوع پر ہونے والی سہ فریقی کانفرنس جس میں پاکستان، روس اور چین کے نمائندے شریک ہوئے ، اس میں افغان طالبان کی قیادت کو اقوامِ متحدہ کی دہشت گرد فہرست میں سے نکلوانے پر بات کی گئی۔ اس کے علاوہ اس کانفرنس میں افغان طالبان کو ایک جائز فریق ماننے کے بعد ان کی سہولت کاری کی بات کی گئی ۔ یہ پہلی کانفرنس تھی جس میں کسی نے پاکستان کو جوتے نہیں مارے ورنہ اس طرح کی ہر کانفرنس میں ہمیں جوتے مار کر کہا جاتا ہے ’’چل لگ اگّے‘‘۔اس امر میں واشنگٹن ، کابل اور نئی دہلی پیش پیش ہوتے رہے ہیں۔ لیکن اس دفعہ اس کانفرنس کے نتیجے سے ان تینوں جگہوں سے بہت سی ایسی آہ وبکا بلند ہوئی ہے جیسی کوک اسٹوڈیو میں بچے بچیاں کرتے پائے جاتے ہیں۔ یہ توقابلِ فہم تھا لیکن پاکستان کے اندر چڑیا والی سرکار کی اسی سُر میں آہ و بکا کی سمجھ نہیں آئی۔
خیر ولادی میر پوتن صاحب آئیں، ہمارے دعائیں اپنے ملک و قوم کے ساتھ رہیں گی کیوں کہ اس سے پہلے جب بھی انہوں نے آنے کا ارادہ ظاہر کیا، ہمارے ہاں سیاسی اور عدالتی معاملات کچھ ایسے بگڑے کہ ہمیں ان سے معذرت کرنا پڑی۔ اللہ کرے ان کے دورے سے پہلے کسی کو دھرنا اور ’چور وزیر اعظم‘ کا احتساب اور ’شکریہ‘ ادا کرنایاد نہ آ جائے۔


متعلقہ خبریں


سفیر کے قتل کے بعد روس ترکی تعلقات مزید مضبوط ہوئے،پوٹن وجود - هفته 24 دسمبر 2016

حلب بحران میں ترکی نے اہم کردارادا کیا ، تقریبا ایک لاکھ متاثرین کو حلب سے نکالنے کا دعویٰ ولادیمر پوٹن کا کہنا ہے کہ ترکی میں سفیر کے قتل کے بعد روس ترکی تعلقات مزید مضبوط ہوئے ۔ روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے جمعے کو بارہویں سالانہ نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہاکہ شام میں جنگ بندی او...

سفیر کے قتل کے بعد روس ترکی تعلقات مزید مضبوط ہوئے،پوٹن

مضامین
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ جاری وجود جمعه 18 اپریل 2025
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ جاری

عالمی معاشی جنگ کا آغاز! وجود جمعه 18 اپریل 2025
عالمی معاشی جنگ کا آغاز!

منی پور فسادات بے قابو وجود جمعرات 17 اپریل 2025
منی پور فسادات بے قابو

جہاں میں اہل ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں! وجود بدھ 16 اپریل 2025
جہاں میں اہل ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں!

پاک بیلا روس معاہدے وجود بدھ 16 اپریل 2025
پاک بیلا روس معاہدے

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر