... loading ...
علی اور منیب سوتے سے اٹھے تھے اس لیے انہیں چائے کی طلب ہو رہی تھی، ہم نے کہا چلو باہر چلتے ہیں نزدیک کوئی کیفے ٹیریا ہوگا، وہاں سے چائے پی لیں گے۔ علی نے بتایا کہ گزشتہ روز وہ اور منیب شام میں کچھ دیر کے لیے باہر نکلے تھے لیکن قریب میں کوئی کیفے ٹیریا نظر نہیں آیا۔ ہم نے کہا چل کر دیکھتے ہیں کل آپ لوگ جس طرف گئے تھے آج اس سڑک کی دوسری طرف چلے جاتے ہیں، باہر نکلیں گے تو علاقے کا حدود اربع معلوم ہوگا۔ ہم تینوں ولا سے نکلے اور سڑک پر مٹر گشت کرنے لگے، موسم گرم تھا لیکن ہم تینوں خوش گپیوں میں لگے چلے جا رہے تھے۔ کچھ دور جا کر ایک بقالے والے سے ہم نے کیفے ٹیریا کا پوچھا۔ اس نے قریب واقع ایک کیفے ٹیریا کا پتہ سمجھایا اور ہم تینوں وہاں پہنچ گئے۔ کیفے ٹیریا سے وہی ٹی بیگ والی چائے ملی، ہم نے اور علی نے چسکیاں لینا شروع کردیں لیکن منیب بھائی پھیل گئے کہ وہ یہ چائے نہیں پئیں گے۔ ہم نے کہا منیب یہ پردیس کا پہلا جھٹکا ہے ،ابھی تو ایسے ایسے کئی جھٹکے لگیں گے یہاں۔ کیفے ٹیریا میں کچھ دیر بیٹھ کر ہم لوگ باہر نکلے تو علی اور منیب کا واپس ولا جانے کا موڈ تھا لیکن ہم نے کہا رات کا کھانا بھی کھانا ہے اس لیے کوئی پاکستانی ہوٹل تلاش کرتے ہیں۔ منیب نے کہا رات کے کھانے کی فکر نہ کریں میری امی نے کافی سارے کباب فریز کر کے دیے ہیں جو میں نے ولا کے کچن میں موجود فرج میں رکھ دیے ہیں، رات کو کباب کھائیں گے بس کہیں سے روٹی لے لیں۔ ہم نے کہا روٹی تو بقالے سے بھی مل جائے گی بس وہ ٹھنڈی ہوگی۔ ہم تینوں اسی طرح گپ شپ کرتے ولا کے کمرے میں لوٹ آئے۔ یہاں باقی دو پاکستانی بھی انٹرویو دیکر واپس آ چکے تھے۔ اصغر اور واجد بھی علی اور منیب کے ساتھ اس کمپنی میں نوکری کے لیے سعودی عرب آئے تھے، اصغر کا تعلق لاہور سے تھا جبکہ واجد گوجرانوالہ سے آیاتھا۔ دونوں تھکے ہوئے لگ رہے تھے ۔سلام دعا کے بعد انہوں نے بتایا کہ ان کا دو سائٹوں پر انٹرویو ہوا ہے۔ کل یا پرسوں پتہ چل جائے گا کہ کس سائٹ پر کام کے لیے جانا ہوگا۔ ہم نے کہا اچھے کی امید رکھیں ،خدا نے چاہا تو وہی ہوگا جو آپ کے لیے بہتر ہوگا۔ کچھ دیر بعد منیب کچن میں چلا گیا ہم بھی اس کے پیچھے پیچھے کچن میں پہنچ گئے، منیب نے فریزر سے کبابوں کا پیکٹ نکالا اور اس میں سے گن کر پانچ کباب الگ کر لیے اور پیکٹ واپس فریزر میں رکھ دیا۔ یعنی اس نے فی فرد ایک کباب نکالا تھا، اتنی دیرمیں ہم نے چولہے پر توا رکھ کر گرم کر لیا تھا، ہم نے منیب سے پوچھا کوکنگ آئل کہاں رکھا ہے، منیب بولا وہ تو لانا پڑے گا، ہم نے کہا ہم بقالے سے لے آتے ہیں ہم پیسے لینے کمرے میں پہنچے تو اصغر اورعلی باہر جانے کے لیے نکل رہے تھے ،ہم نے پوچھا کہاں کی تیاری ہے؟ علی نے کہا روٹیاں لینے جا رہے ہیں، ہم نے کہا کوکنگ آئل بھی لانا ہے ہم بھی چلتے ہیں، اصغر نے کہا آپ یہیں رکیں ہم کوکنگ آئل بھی لے آئیں گے۔
ہم واپس کچن میں چلے گئے، منیب ایک پلیٹ میں کباب لیے بیٹھا تھا، توا گرم ہو چکا تھا ہم نے سوچا علی اور اصغر کو تو آنے میں وقت لگے گا اس لیے کچن میں موجود ایک ملباری سے کوکنگ آئل مانگ لیا اور کباب تلنے شروع کردیے، منیب کی اماں نے بڑی محبت اور محنت سے بیٹے کے لیے کباب بنائے تھے، کچن کبابوں کی خوشبو سے مہکنے لگا۔ کبابوں کی خوشبو نے ملباری بھائی کو بھی کچن میں رکنے پر مجبور کردیا تھا۔ ہم نے کوکنگ آئل بھی ملباری بھائی سے لیا تھا اس لیے ان کی کباب کے لیے چاہت اور زیادہ ہو گئی تھی۔ ہم ایک ایک کر کے کباب تل رہے تھے ،ہم نے کبابوں کی تعریف شروع کی تو منیب کو اماں کی یاد آگئی۔ اس کی شکل رونے والی بن گئی۔ ہمارے لیے مشکل صورتحال بن گئی تھی منیب کو دلاسا دیں یا کباب کو جلنے سے بچائیں، ہم نے کباب کو بچانے کا فیصلہ کیا اور منیب سے کہا وہ کمرے میں چلا جائے۔ منیب تو کمرے میں چلا گیا لیکن ملباری بھائی ہمارے سر پر سوار رہے ان کا ارادہ کم از کم ایک کباب لیکر ہی ٹلنے کا تھا۔ ہمارے پانچوں کباب تلے جا چکے تھے ہم ملباری بھائی کو نظر انداز کرنے کی کوشش کر رہے تھے کیونکہ ہم چاہتے ہوئے بھی انہیں ایک کباب نہیں دے سکتے تھے، دیتے تو کس کے حصے کا کباب دیتے۔ ملباری بھائی ہمارے انداز سے بھانپ گئے کہ ہم کباب دینے والے نہیں ،اس لیے انہوں نے کبابوں کی تعریف شروع کردی اور جب ہم کچن سے نکلنے لگے تو انہوں نے ایک کباب مانگ ہی لیا۔ ہم نے کچھ سوچا پھر اپنے حصے کا کباب ملباری بھائی کو پیش کردیا، جو انہوں نے وہیں کھڑے کھڑے کھا لیا۔ اس سے پہلے کہ وہ دوسرے کباب کا تقاضہ کرتے ہم چار کباب لیکر کچن سے اپنے کمرے کی جانب لپکے۔ علی اور اصغر بھی اسی وقت واپس لوٹے۔ ہم سب فورا ہی کھانے کے لیے بیٹھ گئے۔ ہم نے منیب کو ایک کباب ملباری کو دینے کا بتایا، منیب کا منہ بن گیا۔۔۔۔ جاری ہے
٭٭
[caption id="attachment_44110" align="aligncenter" width="784"] تیل کی عالمی قیمتوںاور کھپت میں کمی پر قابو پانے کے لیے حکام کی تنخواہوں مراعات میں کٹوتی،زرمبادلہ کی آمدنی کے متبادل ذرائع کی تلاش اور سیاحت کی پالیسیوں میں نرمی کی جارہی ہے سیاسی طور پر اندرونی و بیرونی چیلنجز نے ...
دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف کو سعودی قیادت میں قائم دہشت گردی کے خلاف مشترکہ فوج کے سربراہ کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے حوالے سے حکومت پاکستان کی جانب سے دی گئی اجازت کے حوالے سے ملک کے اندر بعض حلقوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے اعتراضات...
سیمی کے جانے کے بعد ہمارا کام کافی بڑھ گیا تھا، اب ہمیں اپنے کام کے ساتھ سیمی کا کام بھی دیکھنا پڑ رہا تھا لیکن ہم یہ سوچ کر چپ چاپ لگے ہوئے تھے کہ چلو ایک ماہ کی بات ہے سیمی واپس آجائے گا تو ہمارا کام ہلکا ہو جائے گا۔ ایک ماہ ہوتا ہی کتنا ہے تیس دنوں میں گزر گیا، لیکن سیمی واپس ...
مکہ المکرمہ سے مدینہ شریف کا فاصلہ تقریبا ساڑھے چار سو کلومیٹر ہے، راستے بھر مشہور نعت مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ ذہن میں گونجتی رہی، ہماری آنکھیں سارے راستے پُر نم رہیں۔ مدینے کا راستہ محبت کی معراج کا وہ راستہ ہے جس پر بڑے بڑے صحابہ ، علما، صوفیہ اور بزرگان دین نے...
ولا میں دوسرا مہینہ گزر رہا تھا، ہم نے اپنے کمرے کے لیے ٹی وی خرید لیا تھا لیکن اس پر صرف سعودی عرب کے دو لوکل چینل آتے تھے۔ ولا کی چھت پر کئی ڈش انٹینا لگے ہوئے تھے لیکن وہ بھارتیوں یا سری لنکنز نے لگائے ہوئے تھے اس لیے کسی پر پاکستانی ٹی وی چینلز نہیں آتے تھے۔ اس وقت سعودی عرب ...
ولا میں رہتے ہوئے ایک ہفتہ ہو گیا تھا، اس دوران اصغر کسی دوسری سائٹ پر چلا گیا تھا، ہمارے ساتھ علی منیب اور واجد رہ رہے تھے۔ ہمیں رہنے کے لیے ولا میں جو کمرہ ملا ہوا تھا وہ دو چھوٹے کمروں کا ایک پورشن تھا، ہم لوگوں نے اپنے کھانے پکانے کا انتظام بھی کرلیا تھا، منیب اچھا کک تھا اور...
ہم کھانے کے لیے بیٹھ چکے تھے، صورتحال یہ تھی کہ سب کے حصے میں ایک ایک روٹی اور ایک ایک کباب آیا تھا، ہمارے حصے میں صرف ایک روٹی آئی تھی پھر منیب کو شائد ہماری حالت پر رحم آگیا اور اس نے ہمیں کچن میں جا کر مزید ایک کباب تلنے کی اجازت دیدی۔ ہم جلدی جلدی میں کباب تل کر واپس لوٹے تو ...
دوسری بار کھٹ کھٹانے پر دروازہ کھلا، سامنے ایک درمیانے قد، گہرے سانولے رنگ کے موٹے سے صاحب کھڑے آنکھیں مل رہے تھے، گویا ابھی سو کر اٹھے تھے، حلیے سے مدراسی یا کیرالہ کے باشندے لگ رہے تھے۔ ہم سوچ میں پڑ گئے ہمیں تو یہاں پاکستانی بھائی ملنا تھے، یہ بھارتیوں جیسے صاحب کون ہیں ،ابھی ...
کراچی کا صدر، لاہور کی انارکلی یا مزنگ اور پنڈی کا راجا بازار، تینوں کو ایک جگہ ملا لیں اور اس میں ڈھیر سارے بنگالی، فلپائنی اور کیرالہ والے جمع کریں تو جو کچھ آپ کے سامنے آئے گا وہ ریاض کا بطحہ بازار ہوگا۔ بس ہمارے بازاروں میں خواتین خریداروں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جبکہ بطحہ میں...
رات کودیر سے سوئے تھے اس لیے صبح آنکھ بھی دیر سے کھلی۔ جب سب لوگ جاگ گئے تو فیصلہ کیا گیا کہ ناشتہ باہر کسی ہوٹل میں کیا جائے۔ لیکن ایک صاحب نے یہ کہہ کر کہ ہمارے پاس نہ پاسپورٹ ہے نہ اقامہ اس لیے ہمیں باہر نہیں نکلنا چاہیے، ہم سب کو مشکل میں ڈال دیا۔ سعودی عرب میں کفیل سسٹم ہے، ...
آنکھ ٹھنڈ کی وجہ سے کھلی، اے سی چل رہا تھا اور ہم بغیر کمبل کے سو گئے تھے، بھوک بھی لگ رہی تھی، کلائی کی گھڑی میں وقت دیکھا نو بج رہے تھے۔ ہم نے ابھی تک گھڑی میں وقت تبدیل نہیں کیا تھا۔ سعودی عرب اور پاکستان کے وقت میں دو گھنٹے کا فرق ہے۔ اس حساب سے ریاض میں شام کے سات بج چکے تھے...
ہم ریاض ایئرپورٹ سے باہر آچکے تھے، جہاز میں اور ایئرپورٹ کے اندر ایئرکنڈشننگ کی وجہ سے موسم سردی مائل خوشگوار تھا لیکن ایئرپورٹ سے باہر آتے ہی گرم ہوا نے استقبال کیا۔ یہاں مقامی وقت کے مطابق دوپہر دو بجے کا وقت تھا،مارچ کا مہینہ ہونے کے باوجود گرمی شباب پر تھی۔ ایک دم گرمی کا شدی...