... loading ...
دوسری بار کھٹ کھٹانے پر دروازہ کھلا، سامنے ایک درمیانے قد، گہرے سانولے رنگ کے موٹے سے صاحب کھڑے آنکھیں مل رہے تھے، گویا ابھی سو کر اٹھے تھے، حلیے سے مدراسی یا کیرالہ کے باشندے لگ رہے تھے۔ ہم سوچ میں پڑ گئے ہمیں تو یہاں پاکستانی بھائی ملنا تھے، یہ بھارتیوں جیسے صاحب کون ہیں ،ابھی ہم اسی ادھیڑ بن میں لگے تھے کہ وہ صاحب بولے جی کون ہیں آپ؟ کیا مسئلہ ہے؟ لہجہ پورا کراچی والا تھا، ہم نے اپنا نام اور آنے کا مقصد بتایا۔ بولے اندر آجائو یار۔ معلوم ہوا ان کا نام علی ہے اور کراچی کے علاقے ملیر کے رہنے والے ہیں، ہم اندر پہنچے تو ایک اور صاحب سے ملاقات ہوئی ، وہ بھی تقریبا سو رہے تھے۔ ان کا نام منیب تھا ،یہ بھی کراچی کے رہنے والے تھے۔ دونوں سے مل کر بہت خوشی ہوئی، سعودی عرب آنے کے بعد یہ پہلے کراچی والے تھے جن سے ملاقات ہوئی تھی۔ ہم نے مختصر الفاظ میں اپنے ریاض آنے اور جنادریہ کیمپ کا احوال سنایا اور بتایا کہ کیمپ میں کوئی پاکستانی نہیں تھا اس لیے ہمیں یہاں نسیم کے ولا میں شفٹ کردیا گیا ہے۔ دونوں کوریاض پہنچے دو روز ہی ہوئے تھے، ان کے ساتھ دیگر دو افراد بھی آئے تھے جو آج کسی سائٹ پر انٹرویو دینے گئے ہوئے تھے۔ علی پہلے بھی سعودی عرب آچکا تھا وہ پہلے مدینہ شریف میں رہ کر گیا تھا اس لیے کافی مطمئن نظر آرہا تھا۔ منیب پہلی بار ملک بلکہ شہر سے باہر نکلا تھا۔ دونوں نے ایجنٹ کواس کمپنی میں ملازمت اورسعودی عرب آنے کیلیے کافی پیسے دیے تھے۔ منیب خاصا نروس تھا، اس کو گھر کی یاد شدت سے آرہی تھی ،بار بار اپنے گھر والوں کا ذکر شروع کر دیتا اور سسکیاں لینے لگتا۔ ہم نے اپنے ایک مہینے کا تجربہ اس کے سامنے رکھ دیا اور کہا اب آگئے ہو، واپسی کا ارادہ بھول جاؤ کم از کم تین سال تک تو واپسی کا سوچنا بھی نہیں کیونکہ کمپنی تین سال بعد واپسی کا ٹکٹ دے گی۔ علی کہنے لگا بھاگنے کے بڑے طریقے ہیں بندے کا دل بڑا ہونا چاہیے۔ ہم نے کہا پاسپورٹ کمپنی کے پاس جمع ہے ،واپسی کیسے ہوگی جب تک پاسپورٹ ہاتھ میں نہیں ہوگا۔ علی نے کہا سب کچھ ممکن ہے بس خلی ولی ہو جاؤ۔ یہ خلی ولی کیا ہے بھائی ؟ہم نے حیرت سے پوچھا۔ علی نے بتایا جو ورکر اپنے کفیل کے پاس سے بھاگ جاتا ہے، اسے خلی ولی کہتے ہیں۔ ایسے لوگ سعودی عرب میں بہت ہیں، کیونکہ خلی ولی غیر قانونی طور پر رہ رہے ہوتے ہیں ،اس لیے انہیں کام کا معاوضہ بھی کم ملتا ہے، سستی لیبر ہونے کی وجہ سے کئی ٹھیکیدار یا کنٹریکٹر ان کوکام پر رکھ لیتے ہیں ۔عام طور پریہ لوگ چوری چھپے کام کرتے ہیں لیکن کئی کنسٹرکشن سائٹ پر کھلے عام کام کرتے ہوئے بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ کیونکہ پیسہ ہر جگہ کام دکھاتا ہے، اس لیے حکام بھی ان کی ان دیکھی کردیتے ہیں۔ ہم نے علی سے پوچھا چلو بندہ اپنے کفیل سے بھاگ گیا، کام بھی مل گیا ،اپنے طور پر رہائش کا انتظام بھی کر لیا لیکن پاسپورٹ تو پاس ہے ہی نہیں، وطن اپنے گھر واپس کیسے جائے گا۔
علی ہنسنے لگا پھر بولا خلی ولی لوگوں کو جب گھر جانا ہوتا ہے تو وہ خود کو گرفتار کرا دیتے ہیں ،پولیس ان کو کچھ دن جیل میں رکھنے کے بعد ڈی پورٹ کر دیتی ہے۔ ہم نے پوچھا بغیر پاسپورٹ کے واپس کیسے آتے ہوں گے۔ علی نے بتایا ایسے لوگوں کا ایمرجنسی پاسپورٹ بنوایا جاتا ہے۔ ان کے ملک کا سفارتخانہ یا قونصل خانہ ان کے لیے ایمرجنسی پاسپورٹ کا انتظام کرتا ہے ویسے تو ٹکٹ کا انتظام بھی سفارخانہ یا قونصل خانہ کرتا ہے لیکن اس میں کافی وقت لگ جاتاہے اس لیے خلی ولی اپنے ٹکٹ کے پیسے اپنے پاس سے دیتے ہیں، اس طرح ان کی وطن واپسی ممکن ہو جاتی ہے۔ ہم حیران پریشان علی کو دیکھ رہے تھے ،واقعی یہاں کے رنگ نرالے ہیں۔ سعودی عرب میں کچھ عرصہ رہنے کے بعد پتہ چلا کہ یہ لفظ خلی ولی اپنے معنی میں کتنا وسیع ہے۔ خلی ولی یہاں کی زبان میں کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔ ویسے بات چیت میں اس کا مطلب ہے چلو چھوڑو۔ یعنی بات ختم کرنی ہو تو خلی ولی۔ جھگڑا شروع کرنا ہو تو خلی ولی۔ معافی مانگنی ہو تو خل ولی۔ کسی کو انکار کرنا ہو تو خلی ولی۔ کام ختم کرنا ہو تو خلی ولی۔ کوئی چیز گم ہو جائے تو خلی ولی۔ کسی کو چپ کرانا ہو تو خلی ولی۔ کیرالہ والے مدراسی اور بنگالی بھائیوں نے خلی ولی کو کھلی ولی بنا دیا ہے جبکہ چینی، فلپینی اور مغربی ممالک کے لوگ کلی ولی کہتے ہیں۔ یہاں کہتے ہیں بات سمجھ آنی چاہیے ،باقی سب ٹھیک ہے۔ یعنی باقی سب خلی ولی۔۔۔۔ جاری ہے
٭٭
[caption id="attachment_44110" align="aligncenter" width="784"] تیل کی عالمی قیمتوںاور کھپت میں کمی پر قابو پانے کے لیے حکام کی تنخواہوں مراعات میں کٹوتی،زرمبادلہ کی آمدنی کے متبادل ذرائع کی تلاش اور سیاحت کی پالیسیوں میں نرمی کی جارہی ہے سیاسی طور پر اندرونی و بیرونی چیلنجز نے ...
دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف کو سعودی قیادت میں قائم دہشت گردی کے خلاف مشترکہ فوج کے سربراہ کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے حوالے سے حکومت پاکستان کی جانب سے دی گئی اجازت کے حوالے سے ملک کے اندر بعض حلقوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے اعتراضات...
سیمی خوش مزاج آدمی تھا اس کے ساتھ کام کرنا اچھا تجربہ ثابت ہوا تھا اس کے مقابلے میں یہ نیا انچارج شنکر کمار بہت بد دماغ اور بداخلاق واقع ہوا تھا۔ ہماری پہلے ہی دن سے اس سے ٹھن گئی ، مشکل یہ تھی کہ وہ نیا تھا اور ابھی اسے کام سمجھنا تھا اس لئے وہ ہم سے زیادہ بدتمیزی نہیں کرسکتا تھ...
سیمی کو گئے کئی مہینے ہو گئے تھے اس کی واپسی کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا، اس کا کام بھی ہمارے زمے ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے کام کی تھکن بڑھتی جا رہی تھی۔ کئی بار کام کی زیادتی کی وجہ سے ہمیں دیر تک رکنا پڑتا تھا۔ ہمیں سیمی کا بھی کام کرنے کی وجہ سے کوئی مالی فائدہ بھی نہیں مل رہا تھا...
سیمی کے جانے کے بعد ہمارا کام کافی بڑھ گیا تھا، اب ہمیں اپنے کام کے ساتھ سیمی کا کام بھی دیکھنا پڑ رہا تھا لیکن ہم یہ سوچ کر چپ چاپ لگے ہوئے تھے کہ چلو ایک ماہ کی بات ہے سیمی واپس آجائے گا تو ہمارا کام ہلکا ہو جائے گا۔ ایک ماہ ہوتا ہی کتنا ہے تیس دنوں میں گزر گیا، لیکن سیمی واپس ...
اگلے روز یعنی جمعے کو ہم عزیزیہ کے ایک پاکستانی ہوٹل میں ناشتہ کرنے کے بعد مکہ شریف کے لیے روانہ ہوئے، جدہ حدود حرم سے باہرحِل کی حدود میں ہے۔ حرم شریف اور میقات کے درمیان کے علاقے کو حِل کہا جاتا ہے اس علاقے میں خود سے اگے درخت کو کاٹنا اور جانور کا شکار کرنا حلال ہے جبکہ اس علا...
ہمارے دوست اظہار عالم کافی عرصے سے جدہ میں مقیم تھے ہم نے عمرہ پر روانگی سے پہلے انہیں فون کرکے اپنی ا?مد کی اطلاع دیدی تھی، طے ہوا تھا کہ وہ جمعرات کو صبح دس بجے باب فہد کے سامنے ایک بینک کے پاس پہچیں گے۔ ہم ساڑھے نو بجے جا کر اس بینک کے سامنے جا کر کھڑے ہوگئے۔ وہاں کافی لوگ موج...
مکہ المکرمہ سے مدینہ شریف کا فاصلہ تقریبا ساڑھے چار سو کلومیٹر ہے، راستے بھر مشہور نعت مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ ذہن میں گونجتی رہی، ہماری آنکھیں سارے راستے پُر نم رہیں۔ مدینے کا راستہ محبت کی معراج کا وہ راستہ ہے جس پر بڑے بڑے صحابہ ، علما، صوفیہ اور بزرگان دین نے...
صبح فجر سے پہلے ہماری بس مکہ مکرمہ کے ہوٹل پہنچ گئی، دل میں عجب سی ہلچل مچی ہوئی تھی، کعبہ شریف کے اس قدر قریب ہونیکا احساس جیسے دل کو الٹ پلٹ کر رہا تھا ، کوشش تھی کہ فوری طور پر حرم شریف پہنچیں اور اللہ کے گھر کا دیدار کریں۔ اللہ کا گھردنیا میں وہ پہلی عبادت گاہ ہے جو انسانوں ک...
نسیم ولا اور کالج میں شب و روز اپنی مخصوص چال سے گزر رہے تھے۔ روز صبح کو شام کرنا اور شام کو صبح کا قالب بدلتے دیکھنا اور اس کے ساتھ لگی بندھی روٹین کو فالو کرنا یہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت بن چکی تھی۔ ایک بے قراری تھی، ایک بے کلٰی تھی جو دل میں بسنے لگی تھی۔ ہم لوگ روٹین کے ایس...
نسیم ولا میں دن اچھے گزر رہے تھے۔ ایک دن باتوں کے دوران ہم نے کہا لگتا ہے ریاض میں کوئی گھومنے کی جگہ نہیں ہے ،ہوتی تو ہم لوگ وہاں کا چکر لگا آتے، نسیم کے علاقے میں جہاں ہمارا ولا تھا وہاں ہمیں نہ تو کوئی پارک نظر آیا تھا نہ کوئی اور ایسی جگہ جہاں آپ تفریح کے لیے جا سکیں۔ سنیم...
رات کے نو بج رہے تھے ہمیں پی ٹی وی سے خبر نامے کا انتظار تھا لیکن خبریں شروع نہیں ہوئیں، ہم نے علی سے کہا نو بج گئے خبرنامہ شروع نہیں ہو رہا پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے، علی بولا نو ہماری گھڑی میں بجے ہیں وہاں پاکستان میں رات کے گیارہ بج رہے ہیں ہمیں احساس ہوا کہ سعودی عرب میں ہم پاکست...