... loading ...
ڈیڑھ سال کی غیر حاضری کے بعد سابق صدر مملکت اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری وطن واپس پہنچ گئے ۔ اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے ایک ” سخت تقریر ” کرنے کے بعد وہ دبئی چلے گئے تھے۔ آصف علی زرداری نے اسلام آباد میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا “آپ ہر معاملے میں مداخلت کر رہے ہیں ۔ ہمیں تنگ کرنے کی کوشش کی گئی تو اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے ۔پیپلز پارٹی کھڑی ہو گئی تو فاٹا سے کراچی تک ملک بند ہوگا یہ مت سمجھنا کہ ہمیں جنگ کرنا نہیں آتی۔ ہم جنگ کرنا جانتے ہیں ۔آپ کو صرف 3 سال رہنا ہے ۔ہم ہمیشہ رہیں گے ۔” اس تقریر نے سیا سی حلقوں اور میڈیا میں تہلکہ مچا دیا تھا ۔ اس کے بعد کراچی کے گورنر ہائو س میں سندھ ایپکس کمیٹی کا ایک اجلاس ہوا جس میں سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور آصف زرداری دونوں شریک تھے۔جنرل راحیل شریف غصے میں تھے ۔ آصف زرداری نے معافی تلافی اور علیحدہ ملاقات کی خواہش ظاہر کی لیکن جنرل راحیل شریف آمادہ نہ ہوئے ۔اسی اجلاس میں زمینوں پر قبضہ اور بھتے کا ذکر ہوا اور مافیائوں کے ساتھ سختی سے نمٹنے کا فیصلہ کیا گیا ۔فوج کا مزاج دیکھ کر آصف زرداری دبئی چلے گئے تھے اور ڈیڑھ سال بعد 23 دسمبر کو کراچی واپس پہنچے ہیں ۔ اطلاعات کے مطابق انہیں آمد سے قبل پیغام دیا گیا کہ وہ ابھی نہ آئیں لیکن ان کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری تین دن قبل ان کی واپسی کا باقاعدہ اعلان کر چکے تھے ۔ابھی وہ دبئی ایئر پورٹ اور جہاز میں تھے کہ رینجرز کے چھاپوں کی اطلاعات موصول ہو گئی۔ ادارے حرکت میں آچکے تھے۔ حکومت اور اداروں کی رِٹ واضح ہو کر سامنے آگئی تھی۔ ریاست انہیں قبول کرنے کیلئے تیار نہیں تھی۔ڈیڑھ سال پہلے دبئی جانے سے قبل انہوں نے کہا تھا کہ” آپ کو صرف تین سال رہنا ہے ۔ہم ہمیشہ رہیں گے” ان کا اشارہ غالباً جنرل راحیل شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل رضوان اختر کی طرف تھا۔ آج دونوں جر نیل اپنی قومی ذمہ داری پوری طرح نبھاتے ہوئے ریٹائرڈ ہوچکے ہیں ۔ لیکن فوج بحیثیت ادارہ پوری طاقت کے ساتھ موجود ہے اور رہے گا۔ آصف زرداری کی وطن واپسی کے موقع پر ان کے دست راست اور عزیز دوست انور مجید کی کمپنی اومنی گروپ آف کمپنیز کے دفاتر پر رینجرز کے چھاپے ‘ ملازمین کی گرفتاری اور 17 کلاشنکوفوں سمیت کثیر مہلک ہتھیاروں کی برآمدگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ ادارے آج بھی اسی قوت ‘ عزم اور ارادے کے ساتھ موجود ہیں جب جنرل راحیل شریف کی بحیثیت آرمی چیف موجود تھے ۔آصف علی زرداری کے حوالے جن شخصیات کا ذکر کیا جاتا ہے ان میں ڈاکٹر عاصم حسین ‘ ماڈل ایان علی ‘ انور مجید ‘ نثار مورائی ‘ منظورکا کا ‘ اویس مظفر ٹپی اور شرجیل میمن وغیرہ شامل ہیں اور یہ سارے بدستور ملک یا بیرون وطن عتاب میں ہیں ۔آصف علی زرداری کیخلاف بھی کئی الزامات ہیں جو مقدمات بن سکتے ہیں ان کی واپسی پر ان کے مخالفین نے یہ تبصرہ بھی کیا کہ جن لوگوں کو انٹر پول کے ذریعے آنا چاہیے ۔ وہ پروٹوکول کے ساتھ آرہے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ کراچی ایئر پورٹ پر پورے سندھ سے آنے والے چند ہزار کارکنوں کو اس وقت مایوسی ہو ئی جب آصف علی زرداری یا بلاول بھٹو زرداری جلوس میں شامل نہیں ہوئے ۔ آصف زرداری نے ایئر پورٹ پر ہی بلٹ پروف اسکرین کے پیچھے سے نہ صرف 13 منٹ خطاب کیا جس میں الفاظ ان کا ساتھ چھوڑ رہے تھے اور وہ بہت ٹھر ٹھر کر جملوں اور لفظوں کا انتخاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کوئی سخت بات نہیں کی ۔ اپنی تقریر کا آغاز کشمیر سے کیا اور فوج کی خوب تعریف کی ۔ ان کی تقریر میں نہ نواز حکومت کے خلاف بلاول بھٹو کے چار مطالبات کا ذکر تھا اور نہ ہی انہوں نے حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی بات کی ۔ استقبالیہ جلسہ بمشکل آدھا گھنٹہ چلا اور آصف زرداری ایئرپورٹ سے ہی ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر اپنی رہائش گاہ بلاول ہائوس چلے گئے جہاں انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے 30 دسمبر کو اپنی دبئی واپسی کا اعلان بھی کردیا ۔ پیپلز پارٹی کے کسی دوسرے لیڈر نے استقبالی جلسے سے خطاب ہی نہیں کیا ۔ ایسا محسوس ہوا کہ آصف زرداری جلدی میں تھے ۔ آصف زرداری کی کراچی آمد سے چند ہی روز قبل سندھ میں فائیو کور اور رینجرز کی کمان تبدیل ہوئی ہے ۔ لیفٹیننٹ جنرل شاہد بیگ مرزا سندھ کے کور کمانڈر اور میجر جنرل محمد سعید ڈی جی رینجرز مقرر ہوئے ہیں ۔ ان کے پیش رو میجر جنرل بلال اکبرکو لیفٹیننٹ جنرل بنا کر جی ایچ کیو میں چیف آف جنرل اسٹاف اور لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار ڈی جی آئی ایس آئی مقرر ہو چکے ہیں ۔ یہ تمام فوجی افسران ’’کائونٹر ٹیرر ازم ‘‘ (دہشت گردی سے مقابلہ) کے شعبہ میں کئی برس کا تجربہ رکھتے ہیں ۔ آرمی چیف جنرل طارق مجید باجوہ بھی وسیع تجربہ کے حامل ہیں ۔ اس اعلیٰ درجہ کی عسکری قیادت کا دہشت گردی بد معاشی اور بھتہ خوروں سے سمجھوتہ ممکن ہی نہیں ہے ۔ پاکستان کی سیاسی قیادت اور جماعتوں کو بھی اس مزاج کو سمجھنا ہوگا ۔ سیاستدانوں کی نا اہلی ‘ کرپشن بدعنوانوں اور اقربا پروری کے باعث طاقت کا محور بھی تبدیل ہو چکا ہے ۔ آج پاکستان کے عوام پاک فون کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں ۔ زیادہ دن نہیں گزرے جب پاکستان کی سڑکوں اور گلیوں میں جنرل راحیل شریف کے حق میں نعرے لگ رہے تھے اور اسلام آباد ‘ کوئٹہ ‘ کراچی اور لاہور کی سڑکوں پر بینرز لٹک رہے تھے ’’ جانے کی باتیں جانے دو‘‘ جنرل راحیل شریف نے نیشنل ایکشن پلان شروع کرکے پاکستان کے عوام کو امن اعتماد اور حوصلہ دیا تھا ۔ آصف زرداری کو وطن واپسی پر یہ اعتراف کرنا پڑا کہ مسلح افواج کی طاقت اور عوام کے اتحاد سے پاکستان کی سرحد میں مضبوط ہوگئی ہیں ۔ آج کوئی سیاستدان بھی قومی دفاعی اور خارجہ امور میں فوج کی موجودگی اور اہمیت کو نظر انداز نہیں کرسکتا ۔ پاکستان اپنی تزویراتی پوزیشن کے باعث پورے خطے کا اہم ترین ملک ہے جس کے چاروں طرف ‘ چین ‘ روس ‘ بھارت ‘ ایران اور افغانستان اپنے اپنے منصوبوں کے ساتھ موجود ہیں ‘ چین کے ساتھ اقتصادی راہداری منصوبہ آدھے سے زیادہ فاصلہ طے کرچکا ہے اور تیزی سے تکمیل کی جانب گامزن ہے ۔ فوج جمہوریت کا دفاع بھی اپنا فریضہ سمجھتی ہے جس کا ثبوت جنرل راحیل شریف کی بروقت ریٹائرمنٹ ہے ۔ اس حمایت سے جمہوریت پھل پھول رہی ہے نواز حکومت کو یہ حوصلہ ہوا ہے کہ لندن میں بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ کیس دوبارہ کھولنے کے لیے رجوع کیا جارہا ہے ۔ پیپلز پارٹی کے لئے میدان تنگ کردیا گیا ہے جس پر پی پی قیادت نے ن لیگ سے مفاہمت ختم کرنے مورچہ لگانے کا اعلان کردیا ہے ۔ 27دسمبر کو بے نظیر بھٹو کی نویں برسی کے موقع پر اس کا اعلان متوقع ہے لیکن پنجاب میں بلدیاتی عہدیداروں کے انتخابات میں بھرپور کامیابی ‘ خیبر پختونخواہ میں ن لیگ کے لیڈر امیر مقام کے بھرپور جلسوں اور بلوچستان میں ن لیگی وزیر اعلیٰ سردار ثناء اللہ زہری کی اچھی حکمرانی نے مسلم لیلگ (ن) کو تین صوبوں کی مضبوط جماعت بنا دیا ہے ۔ سندھ کے شہری علاقوں میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی کے بڑے جلسے یہ ثابت کررہے ہیں کہ پیپلز پارٹی سندھ کے دیہی علاقوں تک محدود رہ گئی ہے ۔ وہاں بھی اس کا اقتدار اور اختیار تھانیداروں اور ٹپہ داروں کا مرہون منت ہے ۔ ان حالات میں کیا وہ حکومت کے خلاف کسی بڑی تحریک کا اعلان کرسکتی ہے ۔ جبکہ کرپشن کے الزامات اس کی لیڈر شپ کا بدستور تعاقب کررہے ہیں ۔
٭٭
حکومت سندھ نے نیب کے قوانین سندھ سے ختم کردیے مگر سندھ ہائی کورٹ نے نیب کو اپنا کام جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے جس کے بعد حکومت سندھ کے تمام خواب چکنا چور ہونا شروع ہوگئے کیونکہ حکومت سندھ نے جن کرپٹ افراد کو بچانے کے لیے نیب کے قوانین ختم کرنے کی قانون سازی کی تھی اس میں کامیاب نہ...
جس کا ڈر تھا وہ سب کچھ ہوگیا ملک اسد سکندر بآلاخر اپنے سے زائد طاقتور شخص آصف علی زرداری کے سامنے جھک گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسے جھکنا تھا تو پھر یہ تنازع ہی کیوں لیا؟ کیونکہ ملک اسد سکندر کو یہ پتہ تھا کہ آصف علی زرداری جب ضد پر آئیں تو سب کچھ قربان کرسکتے ہیں جو لوگ ...
ملک میں ایک بھونچال آگیا ہے وزیراعظم کو تاحیات نااہل قرار دے کر گھر بھیج دیا گیا ہے اورعبوری وزیراعظم شاہ خاقان عباسی بنائے گئے ہیں ان کی کابینہ نے حلف بھی اٹھالیا ہے ۔ اب یہ بات بھی واضح ہو چکی ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف وزیراعظم کی دوڑ سے دور رہیں گے اور شاید شاہد خاقان ...
جس طریقے سے کٹھ پتلی کی طرح حکومت سندھ کوچلایا جاتا ہے اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ ماضی میں جام صادق ، مظفر شاہ، لیاقت جتوئی، علی محمد مہر اور ارباب غلام رحیم ایسے وزرائے اعلیٰ تھے جو مخلوط حکو مت چلاتے تھے یوں ان کی پوزیشن کمزور ہوتی تھی تاہم اس کے باوجود وہ اچھے فیصلے کر جا...
یوں تو سندھ میں کئی افراد آج بھی ایک طاقت رکھتے ہیں لیکن چند افراد ایسے ہیں جن کی طاقت کا اندازہ حکومت کو بھی نہیں ہوتا۔ ان میں ملک اسد سکندر بھی ایک ہیں۔ضلع جامشورو کے علاقہ تھانہ بولا خان سے تعلق رکھنے والے ملک اسد سکندر حقیقت میں ایسے ہی طاقتور ہیں جیسے قبائلی سردار ہوتے ہیں ...
پاکستان پیپلز پارٹی نے 2008 کے بعد اپنی پالیسی تبدیل کی ہے اور نظریاتی سیاست کو عملی طور پر دفن کردیا ہے ۔ یہ کوشش کی گئی کہ ہر سیاسی شخصیت اور ہر سیاسی خاندان کو پی پی میں شامل کیا جائے چاہے اس کے لیے کچھ بھی قربانی دینا پڑے۔ جام مدد علی ،امتیاز شیخ، اسماعیل راہو، جاموٹ خاندان ک...
2008 ءسے 2016 ءتک جب قائم علی شاہ نے آٹھ سال یکمشت اور مجموعی طو رپر دس سال تک وزارت اعلیٰ کے منصب پر برقرار رہنے کا اعزاز حاصل کیا تو اس وقت دنیا نے ان کی حکمرانی کے بارے میں کوئی اچھی رائے قائم نہیں کی، بس وہ پہلے دور میں 1988ءمیں امن امان قائم نہ کرسکے اور 2008 ءمیں بھی کرپشن ...
پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت 27دسمبر 2007ءکوکیا بدلی سارے اصول، ساری پالیسیاں ،ساری حکمت عملی ،سارے حالات ہی تبدیل ہوگئے۔ جو اصول ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے طے کیے گئے تھے اور محترمہ بینظیر بھٹو نے بھی ان کو برقراررکھا مگرآصف علی زرداری نے ان سب کوملیا میٹ کردیا اورتمام ضابطے اص...
[caption id="attachment_44159" align="aligncenter" width="784"] نواب لغاری، اشفاق لغاری اور غلام قادر مری کی گمشدگی پر کئی افواہیں زیر گردش،آصف زرداری کی پریشانی عیاں ہوگئی ان تینوں لاپتہ افراد کی زندہ بازیابی ہویا مسخ شدہ لاشوں کی شکل میں، صورتحال آصف زرداری کے لیے پریشان کن ہو...
[caption id="attachment_44054" align="aligncenter" width="784"] آصف زرداری اپنے دوستوں کو دل کھول کر نوازتے ہیں ،جب اپنی مرضی اور ضد پر آتے ہیں تو انہیں دل کھول کر برباد کرتے ہیں حضور بخش کلوڑ، آفتاب پٹھان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا، اب نواب لغاری‘ اشفاق لغاری اور غلام قادر مری ک...
باسمہ تعالیٰ ۔۔۔۔۔۔ زمانے کی ہوا بگڑتی جارہی ہے مگر جنابِ زرداری کے ماتھے پر غرور کی شکنیں ختم ہونے میں نہیں آرہیں۔ کیا وہ اُس حالت کو پہنچ گئے جہاں عالم کے پرورگار کی ناراضی متوجہ ہوتی ہے۔ الامان والحفیظ! الامان والحفیظ!!!!! کیسا غرور ہے جواُن کے ایک فقرے میں چھلکتا ہی جارہا...
نیب نے پچھلے سال کوئٹہ سے گریڈ 20 کے افسر اور صوبائی سیکریٹری مشتاق رئیسانی کے گھر پر چھاپہ مارکر 65 کروڑ روپے نقد اور ڈیڑھ سے دو ارب روپے کی املاک برآمد کرکے چونکا دیا تھا اور پھر اس کے اثاثوں کی تحقیقات میں کئی ہفتے لگ گئے ۔مجموعی طورپر مشتاق رئیسانی تین چار ارب روپے ظاہر کرچکا...