وجود

... loading ...

وجود

قائد اعظم اور اسلامی سماجی انصاف

پیر 26 دسمبر 2016 قائد اعظم اور اسلامی سماجی انصاف

قائد اعظمؒ نے قیام پاکستان کے بعد گورنر جنرل کی حیثیت سے مشرقی پاکستان کا دورہ مارچ 1948 ء میں کیا تو وہ اچھی طرح آگاہ تھے کہ تصور پاکستان کے خلاف کچھ تحریکیں برملا بھی کام کررہی ہیں اور کچھ درپردہ بھی۔ ڈھاکا کے جلسہ عام میں قائد اعظم ؒ نے کہا کہ’’ میں صاف صاف اورا علانیہ آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ آپ کے گرد کچھ بیرونی ایجنٹ بھی کام کررہے ہیں۔ جن کو باہر سے مدد مل رہی ہے۔ آپ ہوشیار نہ رہے تو ان کی حرکتیں آپ کی صفوں میں انتشار پیدا کردیں گی۔ میں آپ کو دوبارہ خبردار کرتا ہوں کہ ان لوگوں کے جال میں نہ آئیے گا جو پاکستان کے دشمن ہیں۔ بدقسمتی سے آپ کی صفوں میں ’’ففتھ کالم‘‘ (اغیار کے کارندے) موجود ہیں اور یہ کہتے ہوئے مجھے افسوس ہوتا ہے کہ وہ مسلمان ہی کے بھیس میں ہیں۔ مجھے اعتماد ہے کہ آپ کی صوبائی حکومت اور پاکستان کی مرکزی حکومت ان کے معاملے میں سخت ترین قدم اٹھائے گی، ان سے انتہائی بے دردی کے ساتھ نمٹے گی اس لیے کہ یہ لوگ زہر ہیں۔‘‘ یہ پس منظر ہے قائد اعظمؒ کے ذہن و فکر کا جس نے سارے بیرونی ’’ازموں‘‘ سے پاک صرف اسلام کو قوم کا ہادی سمجھا اور ہماری زندگی کے لیے مکمل ضابطہ حیات قرار دیا۔ فروری 48 ء میں فرمایا۔
’’میرا ایمان ہے کہ ہم سب کی نجات انہیں زریں قوانین کی پیروی میں مضمر ہے جو ہمارے عظیم المرتبت مقنن اعظم پیغمبر اسلامؐ نے ہمارے لیے مقرر کیے ہیں۔ ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچی اسلامی تصورات و اصولوں پر رکھنی ہیں۔‘‘ اسی ماہ میں پاک افواج کو یوں تاکید کی کہ ’’آپ نے بہت سی جنگیں دور دراز کے عالمی محاذوں پر لڑی ہیں تاکہ دنیا کو فاشسٹوں کے خطرے سے نجات دلوائیں اور جمہوریت کے پھولنے پھلنے کے لیے محفوظ رکھیں۔ اب آپ کو خود انصاف یا اسلامی نظام عدل اور مساوات انسانی کے قیام و ترقی کا محافظ و نگہبان بننا ہوگا۔‘‘
قیام پاکستان سے چار سال قبل دہلی میں سامعین کو انہوں نے متنبہ کیا تھا کہ ’’خاصی غلط فہمیاں پھیلائی گئی ہیں‘ بڑی شرانگیزیاں کی جارہی ہیں کہ کیا پاکستان اسلامی مملکت بننے والا ہے؟ اور پھر اس کے جواب میں انہوں نے خود ایک سوال کیا کہ کیا پاکستان کو اسلامی مملکت کے قیام کے لیے بھی کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا ہے؟ کیا ایسے سوال کا مطلب یہ نہیں ہوا کہ آپ خود اپنے خلاف عدم اعتماد کا فیصلہ صادر کررہے ہیں؟
قیام پاکستان کے چند ماہ بعد امریکا کے لیے ایک تقریر نشر کرتے ہوئے قائد نے فرمایا تھا کہ ’’دستور ساز اسمبلی ابھی پاکستان کا آئین مرتب کرنے والی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ آئین مرتب ہوکر آخری صورت کیااختیار کرنے والا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ جمہوری طرز کا ہوگا۔ جو اسلام کے بنیادی اور لازمی اصولوں پر مشتمل ہوگا۔ آج بھی وہ روز مرہ کی زندگی میں اسی طرح نافذ العمل ہیں جس طرح تیرہ سو سال پہلے تھے۔ اسلام اور اس کی مقصدیت نے ہمیں جمہوریت کی تعلیم دی ہے اور مساوات انسانی کی تعلیم دی ہے۔ ہم لوگ وارث ہیں ان ہی شاندار روایات کے اور ہم پاکستان کا آئین مرتب کرنے والوں کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کا پورا احساس رکھتے ہیں اور بیدار ہیں۔‘‘
قیام پاکستان کے بعد ملت کو اپنی متعین راہ سے ہٹانے کی بھرپور کوشش اغیار کی طرف سے کی جاتی رہے اور ہمیشہ قائد اعظم ؒ کی تقریر کے کچھ الفاظ بلا سیاق و سباق کے توڑ مروڑ کر پیش کیے جاتے رہے۔ قائد اعظم ؒ کا قول یوں بیان کیا کہ ’’اب مسلمان ‘ مسلمان نہ رہے گا اور ہندو ہندو نہ رہے گا‘‘ اور آگے کا حصہ جو شہری حقوق کے بارے میں تھا اس کو حذف کرکے پاکستان کو لادینی ریاست (سیکولر اسٹیٹ) بنانے کی دلیل پیش کرتے رہے۔جب یہ حربہ کامیاب نہ ہوا تو نیا فتنہ اٹھایا کہ قائد اعظم ؒ اس ملک کو اسلامی سوشلسٹ اسٹیٹ بنانا چاہتے تھے اور اسلامی سوشلزم ان کا عقیدہ تھا۔ اس میں تحریک پاکستان کے کچھ زعماء بھی شامل ہوگئے۔ اسلامی سوشلزم کے لفظ کو قائد اعظم ؒ کی طرف منسوب کیا گیا جو غالباً مارچ 1948 ء کی چاٹگام والی تقریر سے ماخوذ ہے۔ اگرچہ آپ کو قائد اعظم ؒ کے ذہن و فکر کا پورا اندازہ ہوگا مگر آئیے اس تقریر کے اس فقرہ یا لفظ کا تجزیہ بھی کرلیا جائے جس پر حریفوں کی ساری کائنات قائم ہے اور جو بار بار پیش کی جاتی رہی ہے۔ قائد اعظمؒ نے تقسیم براعظم سے قبل بھی اور بعد بھی بار بار زور دے کر کہا کہ ’’میں اس جمہوری اسلامی اسٹیٹ کو مانتا ہوں جو اسلامک سوشل جسٹس پر مبنی ہو‘‘ یہ ان کے ذہن و فکر کی اساس ہے اور اسے بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حکومتوں کے جو مختلف نظام دنیا میں پائے جاتے ہیں، ان میں سے کسی ایک کی نقل کرلینے کا بھی رجحان ان کے اندر بالکل نہیں تھا اور نہ وہ اس کی طرح مائل تھے کہ کسی ایک کو لے کر اسے مشرف بہ اسلام کرلیا جائے۔
قائد اعظمؒ نے چاٹگام کی تقریر میں یہ کہا تھا کہ ’’آپ میرے اور کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کی ہمنوائی کرتے ہیں۔ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی بنیاد رکھی جائے۔ سوشل جسٹس اور اسلامی سوشلزم کوئی اور ازم نہیں جس میں انسانی مساوات اور اخوت کی تاکید ہے اس طرح آپ میرے خیالات کی ہمنوائی کرتے ہیں۔ جب آپ کہتے ہیں کہ تمام لوگوں کو مساوی حقوق حاصل ہونے چاہییں۔ یہ تقریر اس سپاس نامے کے جواب میں ہوئی تھی جس میں پہلے بار ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کا لفظ سپاس نامہ پیش کرنے والے نے استعمال کیا تھا۔ قائد اعظم ؒ نے خود اس لفظ کو استعمال نہیں کیا۔ اور نہ ہی یہ لفظ ان کی ایجاد ہے‘ یہ کہنا کہ قائد اعظم ؒ اسلامی سوشلزم پر عقیدہ رکھتے تھے یہ سراسر لغو اور جھوٹ ہے۔ عقیدہ رکھنا تو درکنار انہوں نے تو زندگی بھر کبھی اس لفظ کو استعمال ہی نہیں کیا۔ وہ ہمیشہ اسلامی سوشل جسٹس کا لفظ استعمال کرتے تھے ’’کوئی اور ازم نہیں‘‘ کا جملہ جو قائد اعظمؒ کی تقریر میں موجود ہے حذف کرکے اب تک پیش کیا جاتا رہا ہے۔ انہوںنے اسلام کے مقابلہ پر ہر ’’ازم‘‘ کو واضح طور پر مسترد کردیا تھا۔ چاٹگام والی تقریر کے تین ہی ماہ بعد اسٹیٹ بینک کے ادارہ تحقیقات میں یکم جولائی 1948 ء کی تقریر میں قائد نے قوم کو مسائل کا فیصلہ اپنی مخصوص ضرورتوں کی روشنی میں کرنے کی کچھ واضح ہدایات کی تھیں اور نکات پیش کیے۔ ان کے ذہن میں معاشی پالیسی کا کیا خاکہ تھا ان نکات سے اس کی عکاسی ہوتی ہے۔ قائد نے فرمایا تھا کہ ’’میری نظریں بڑی توجہ کے ساتھ ان خدمات پر لگی رہیں گی جو بنکاری کو معاشی و معاشرتی زندگی کے اسلامی تصورات کے مطابق ترقی دینے کے لیے آپ کا ادارہ تحقیقات انجام دے گا‘ مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لیے ناقابل حل مسائل پیدا کردیے ہیں اور ہم میں سے اکثر لوگوں کو ایسا نظر آتا ہے کہ یہ دنیا جس تباہی سے دوچار ہوگئی ہے، اب کوئی معجزہ ہی اس کو بچائے تو بچا سکتا ہے۔ یہ نظام آدمی آدمی کے درمیان عدل و انصاف کی فضا قائم کرنے میں اور بین الاقوامی سے فتنہ و فساد کو مٹانے میں ناکام ہوچکا ہے بلکہ اس کے برعکس صورت تو یہ ہے کہ گزشتہ نصف صدی کے عرصہ میں دو عالمگیر جنگیں جو برپا ہوئیں ان کی ذمہ داری بہت بڑی ہحد تک اسی نظام کے سر ہے۔ مغربی دنیا مشینی اور صنعتی قابلیت سے بہرہ مند تو ہے مگر اس کے باوجود آج انسانی تاریخ کے بدترین خلفشار میں مبتلا ہے۔ ہمارا مقصد خوشحال و مطمئن قوم پیدا کرنا ہے۔ اس لیے مغرب کے معاشی نظریہ اور نظام کو اختیار کرنا ہمارے اس مقصد کی تکمیل میں ہر گز معاون و مددگار نہیں ہوگا۔ ہمیں مستقبل سنوارنے کے لیے لازماً خود اپنے طریقے پر عمل کرنا ہے اور دنیا کے سامنے ایک ایسا معاشی نظام پیش کرنا ہے جو مساواتِ انسانی اور عدل ِاجتماعی کے سچے اسلامی نظریہ پر قائم ہو۔ اس طرح ہم مسلمان ہونے کی حیثیت سے اپنا مشن بھی پورا کریں گے اور انسانیت کو امن و سکون کا پیغام بھی دے سکیں گے۔ جو بنی آدم کو تباہی سے بچانے کا تنہا ضامن اور انسانی فلاح و بہبود اور مسرت و خوش حالی کا واحد امین ہے۔‘‘
قائد اعظمؒ کی یہ تقریر آخری ہے اور بہت اہم ہے۔ اس میں انہوں نے خاص طور سے معاشی نظام پر زور دیا ہے۔ سوشلزم اور اسلامی سوشلزم کی ذرا بھی اہمیت ان کی نظر میں ہوتی تو یقینا اس اصطلاح کو پیش کرتے لیکن اس کا سرسری تذکرہ تک نہ کیا۔

رضوان احمد


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کے خلاف امریکی اسلحہ کا استعمال وجود پیر 21 اپریل 2025
پاکستان کے خلاف امریکی اسلحہ کا استعمال

ہندوتوانوازوں پر برسا سپریم جوتا! وجود پیر 21 اپریل 2025
ہندوتوانوازوں پر برسا سپریم جوتا!

ایران کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے! وجود اتوار 20 اپریل 2025
ایران کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے!

یکجہتی فلسطین کے لیے ملک گیر ہڑتال وجود اتوار 20 اپریل 2025
یکجہتی فلسطین کے لیے ملک گیر ہڑتال

تارکین وطن کااجتماع اور امکانات وجود اتوار 20 اپریل 2025
تارکین وطن کااجتماع اور امکانات

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر