... loading ...
اکہرے بدن کا ایک دھان پان سا شخص… نحیف بھی اور ضعیف بھی… زبان اجنبی، رہن سہن، نشست و برخاست اور لباس و پوشاک سب الگ۔ مگر وہ دلوں کی دھڑکن بن گیا۔ لوگ اس کی آنکھوں سے دیکھنے لگے، اس کے کانوں سے سننے لگے، یہاں تک کہ اس کے ذہن سے سوچنے لگے، ٹھہرائو کے ساتھ گونجدار آواز میں وہ مخاطب ہوتا اور قوم مبہوت اُسے سنتی رہتی، مسلمانان ِبرصغیر جو اندیشوں میں رہتے اور وسوسوں کو پالتے تھے، پھر وہ کیونکر ان کی محبتوں اور عقیدتوں کا مرکز بن گیا؟
یہ محبت بھی عجیب شے ہے، جو محبوب کو محبین کی مرضی سے زندگی گزارنے پر مجبور کردیتی ہے۔ محبوب کو اپنے محبین کا قدم قدم پر خیال رکھنا پڑتا ہے کہ کہیں ان کے آبگینوں کو ٹھیس نہ پہنچے، کوئی حرکت گراں نہ گزرے اور کنج ِلب سے پھوٹنے والا کوئی لفظ عقیدت کے شیشے میں بال نہ لے آئے۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے محبوب اپنی زندگی سے دستبردار ہوجاتا ہے اور ایک مصنوعی زندگی بسر کرنے لگتا ہے۔ ریاکاری کی یہ زندگی وہ تب بسر کرتا ہے، جب وہ ایک حقیقی شخص نہ ہو اور پیاز کی پرتوں کی طرح تہہ بہ تہہ کھوکھلا ہو… مگر یہ محبوب بالکل مختلف ثابت ہوا۔ اس نے نمائشی زندگی جینے سے انکار کردیا۔ اس نے تب شیروانی پہننے سے انکار کردیا، جب کلکتہ میں استقبال کے لیے امڈٹتاانبوہ اُسے شیروانی میں دیکھنا چاہتا تھا۔ اس نے اِصرار کرنے والوں سے نرمی کے ساتھ، مگر حتمی انداز میں کہا: ’’میں کوئی ایسا لباس کیوں پہنوں، جو عام طور پر نہیں پہنتا‘‘۔ وہ1945ء میں شملہ کانفرنس میں شرکت کیلیے جارہا تھا، تب رانوں پر رکھے ہیٹ کو چھپانے کی کوشش کی گئی تو اس نے سختی سے انکار کردیا اور ہیٹ کو اٹھا کر سر پر پہن لیا۔
ایک مصنوعی زندگی جو گاندھی کا مقدر تھی۔ ریل گاڑی کے سفر میں بھی اسے بسر کرنا پڑتی۔ گاندھی ایک عوامی زندگی گزارنے کے مصنوعی تصور کے تحت ریل گاڑی کے تیسرے درجے میں سفر کرتے، مگر یہ سفر ان کے پرستاروں کے ساتھ رکھا جاتا۔ ایک پورا ڈبہ مخصوص کردیا جاتا، جہاں انہیں تمام سہولتیں میسر آتیں۔ سروجنی نائید و کو گاندھی کے اس طرز سفر کیلیے کہنا پڑا: ’’گاندھی جی کو غریب رکھنے پر قوم کو بہت خرچ کرنا پڑتا ہے‘‘… مگر مسلمانوں کے اس محبوب کو جب گاندھی کی طرح تیسرے درجے میں سفر کے لیے کہا گیا تو اس نے کہا: ’’میں اپنے سفر پر قومی دولت نہیں، ذاتی پیسہ صرف کرتا ہوں، مجھے اپنے طرز ِزندگی کے تعین کا پورا اختیار ہے۔‘‘ ریاکاری سے پاک زندگی جو اس کی اپنی تھی اور جسے وہ خود بسر کرتا تھا۔ ایک کبھی نہ ختم ہونے والی خود اعتماد ی کے ساتھ۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ جائز بات کو نہیں مانتا تھا۔ بمبئی کے ایمپائر تھیٹر سے خطاب کرتے ہوئے اس نے محمد علی جوہر کا ذکر مسٹر محمد علی کہہ کر کیا۔ مجمع کا مطالبہ تھا، مولانا محمد علی کہا جائے۔ اُس نے مسکرا کر اُنہیں مولانا کہا، مگر اس تقریر میں جب اُنہوں نے گاندھی کو مسٹر گاندھی کہا تو ایک دوسرے مجمع نے اِصرار کیا، گاندھی نہیں مہاتما گاندھی کہا جائے۔ اُس نے انکار کردیا اور اپنی پوری زندگی میں کبھی گاندھی کے لیے مہاتما کا لفظ استعمال نہیں کیا۔
یہی خود اعتمادی وہ مسلمانانِ برصغیر کے سینوں میں اُتارنااور اس کی دھاک کانگریس پر نقش کردینا چاہتا تھا کہ کانگریس مسلم لیگ کے احترام پر مجبور ہوجائے اور مسلمان ایک مستحکم قوم کی صورت میں ڈھل جائیں، اسی خواب کی تعبیر میں وہ کانگریس کو اپنے پائوں کی ٹھوکر پہ لے لیتا۔ جب کانگریس کے خلاف شکایتوں کا انبار لگنے لگا تو اس نے اسے ایک باقاعدہ آواز میں ڈھال دیا۔ تب گاندھی پریشانی میں اس سے ایک ذاتی ملاقات کے لیے بے تاب ہوگئے۔ اس نے انکار کردیا۔ تب گاندھی نے ایک خط لکھا اور ممبئی میں اس کے گھر پر ملاقات کیلیے آمادگی ظاہر کی۔ گاندھی اپریل 1938ء میں ساڑھے تین گھنٹے تک تنہائی میں اُسے آمادہ کرتے رہے، پھر اس کے گھر سے مایوس ہوکر نکلے اور جواہر لال نہرو کو خط لکھا: ’’میں کام کررہا ہوں، مگر یہ خیال میرے لیے تکلیف دہ ہے کہ میں نے خود پر وہ اعتماد کھودیا ہے جو ایک ماہ پہلے تک مجھ میں تھا۔‘‘ کیسی مسحور کن حیرتیں ہیں جو کل کی چمکدار روشنیوں اور آج کے المیہ اندھیروں سے جھانکتی، تاکتی ہیں۔ تاریخ کے آسمان پر کم ہی ایسے سورج طلوع ہوئے۔ آج بھی زندگی سے بھرپور اس کے الفاظ رہنمائی کرتے ہیں: ’’کسی اور پر انحصار کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، ہمیں اپنی اندرونی قوت پر بھروسا کرنا چاہیے، اپنی طاقت کی تعمیر کرنی چاہیے اور اپنے فیصلوں کی توثیق کیلیے آگے بڑھنا چاہیے۔ اگر مسلمانوں کو اپنے قومی مقصد اورصفوںمیں شکست ہوگی تو وہ ہمارے درمیان مسلمانوں کی غداری کی وجہ سے ہی ہوگی۔ جیسا کہ ماضی میں ہوا ہے۔‘‘
خواہش مفعول ہے، مگر ارادہ فاعل۔ تابع خواہش ظاہر کرتے ہیں، مگر وہ قائدین ہوتے ہیں جو ارادہ کرتے ہیں اور وہ قائد اعظمؒ ہوتا ہے جو ارادہ مجسم کردیتا ہے۔ یہ بہت نہیں، ایک ہوتا ہے… اسٹینلے والپرٹ نے کتنا درست کہا: ’’چند ہی لوگ معنی خیز طور پر تاریخ کا رخ پلٹتے ہیں، ان سے کہیں کم دنیا کا نقشہ تبدیل کرتے ہیں اور یہ تو شاید ہی کسی نے کیا ہو کہ ایک قومی ریاست تشکیل دی ہو… مگر محمد علی جناح نے تینوں کام کیے۔‘‘
’’آئیے اب ہم اپنی عظیم الشان قوم اور خود مختار مملکت پاکستان کی تجدید کے لیے‘ تشکیل تازہ کے لیے اور تعمیر نو کے لیے منصوبہ بنائیں‘ تدبیریں کریں۔ آپ کو علم ہے کہ ہماری یہ عظیم الشان قوم اور خود مختار مملکت دنیا میں سب سے بڑی مسلم مملکت ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی بڑی آزاد مملکتوں اور...