... loading ...
خان صاحب واپس اپنی سائٹ پر جا چکے تھے، گلزار بھی کچھ کھنچا کھنچا سا تھا، کالج میں وقت جیسے تیسے گزر ہی جاتا تھا لیکن کیمپ میں وقت کاٹنا مشکل ہو رہا تھا، ہم نے اپنی رہائش تبدیل کرانے کے لیے روز جا کر مصری منیجر کی جان کھانا شروع کردی، مصری منیجر کے پاس ایک ہی جواب ہوتا تھا کالج سائٹ کی رہائش جنادریہ میں ہے اس لیے جنادریہ کیمپ میں ہی رہنا ہوگا۔ کالج میں ہمیں ایک مہینہ گزر چکا تھا کافی لوگوں سے سلام دعا بھی ہو گئی تھی ایسے میں ہمیں معلوم ہوا کہ ہماری کمپنی کے کچھ لوگ جنادریہ کیمپ کے بجائے نسیم شرقی کے علاقے میں بھی رہتے ہیں۔ ہم نے تصدیق کی تو معلوم ہواکہ ایچ وی اے سی ڈپارٹمنٹ کے تین لوگ نسیم شرقی میں واقع کمپنی کے ولِا میں رہتے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اس ولا میں کمپنی کی ایک دوسری سائٹ کے کارکنان کی رہائش ہے لیکن ہماری سائٹ سے بھی کچھ لوگ وہاں رہ رہے ہیں۔ جلال صاحب سے ہمیں معلوم ہوا کہ کچھ پاکستانی نسیم شرقی کے ولا میں رہتے ہیں، ہمارے لیے اتنا جاننا ہی بہت تھا،اگلے روزچھٹی کے بعد ہم جلال صاحب والی گاڑی میں سوار ہوگئے کیونکہ یہی گاڑی نسیم شرقی کے ولا سے ہوکر جاتی تھی۔ جلال صاحب کو ہم نے بتادیا کہ ہم ولا میں موجود پاکستانیوں سے ملیں گے اور اگر یہاں جگہ ہوئی تو مصری منیجر سے کہیں گے ہمیں بھی اس ولا میں رہائش دلوادے۔ نسیم شرقی ریاض کے مضافات میں واقع ایک علاقہ ہے جہاں سعودی باشندے رہتے ہیں، درمیانے طبقے کے اس رہائشی علاقے میں بنگلے بنے ہوئے ہیں جنہیں یہاں ویلا کہا جاتا ہے یہ دراصل انگلش کا لفظ ولا ہے اردو میں بھی ہم ولا ہی کہیں گے۔ اس علاقے میں ’’اجانب‘‘ یعنی غیر ملکی باشندے کم ہی رہتے ہیں اور اگر رہتے بھی ہیں توزیادہ تر غیر ملکی وہ ہیں جو بقالوں یعنی پرچون کی دکانوں یا مغسلوں یعنی لانڈری یا کیفے ٹیریا وغیرہ پر کام کرتے ہیں، اس علاقے میں اصلی تے وڈے عربیوں کے مکانات کے درمیان دو بنگلوں میں کمپنی کے ملازمین کی رہائش واقع تھی۔ سعودی عرب میں پردے کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ مکانات کے گرد اونچی چار دیواری ہوتی ہے، چاردیواری کے درمیان مکان بنا ہوتا ہے جو عام طور پر سنگل اسٹوری ہوتا ہے ،کچھ مکانات دومنزلہ بھی ہوتے ہیں تاہم ان میں کھڑکیاں بہت چھوٹی اور باہر سے مکمل بند ہوتی ہیں، گیلری یا ٹیرس کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ سعودی عام طور پر اپنے معاملات میں دخل در معقولات پسند نہیں کرتے اس لیے محلے میں ایک دوسرے کے گھر آنے جانے کا چلن نظر نہیں آتا۔ گرمی اتنی شدید ہوتی ہے کہ بچے بھی گلیوں میں کھیلتے نظر نہیں آتے، ہاں موسم اچھا ہو تو سعودیوں کے بچوں کو گھر سے باہر سائیکل چلاتے یا فٹ بال کھیلتے دیکھا جا سکتا ہے۔ ہماری کمپنی کے دونوں وِلا ساتھ ساتھ تھے اور ان کے درمیان کی دیوار نکال دی گئی تھی۔کراچی کے حساب سے دونوں بنگلے چار چار سو گز کے تھے، پنجاب کے دوست بیس بیس مرلے کے سمجھ لیں۔ ہماری سائٹ کے جو لوگ یہاں اترے ہم بھی ان کے ساتھ ہی اتر کر ولا کے اندر چلے گئے۔
وہ لوگ تو اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے اور ہم سوچتے رہے کہ جانا کہاں ہے۔ پھر ایک صاحب سے پوچھا کہ یہاں کچھ پاکستانی رہتے ہیں ان سے ملنا ہے ۔ہمیں بتایا گیا کہ ابھی کچھ دیر میں گاڑی کارکنان کو ڈراپ کرنے آئے گی توان سے پتہ چلے گا، خیر ہم گاڑی کے انتظار میں وہیں ولا کے اندر بنے چھوٹے سے لان کے پاس بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعد باہر وین آکر رکی اور لوگ ولا میں آنا شروع ہوئے، ہم نے لوگوں کا جائزہ لینا شروع کیا کہ کوئی پاکستانی نظر آئے تو سلام دعا کریں۔ سب سے آخر میں آنے والے تین افراد کے بارے میں ہمیں گمان ہوا کہ یہ پاکستانی ہو سکتے ہیں ،اس سے پہلے کہ وہ سیڑھیوں تک پہنچیں ہم دوڑ کر ان کے قریب پہنچے اور سلام دعا کی، پتہ چلا ہمارا گمان ٹھیک تھا۔ ہم نے اپنا تعارف کروایا جس پر انہوں نے ہمیں اپنے ساتھ اپنے کمرے میں چلنے کی دعوت دی، یہ کل چار لوگ تھے جو ولا کی چھت پر بنے دو کمروں میں رہائش پذیر تھے۔ ان کی ڈیوٹی ریاض میں ایک اسپتال کی سائٹ پر ہے،تین ڈیوٹی سے واپس آگئے تھے جبکہ چوتھے صاحب کا اوور ٹائم تھا اس لیے ان کی واپسی رات کو ہونا تھی۔ تینوں کے نام مقبول ، دلاور اور شفیق تھے جبکہ چوتھے کا نام ریاض معلوم ہوا۔ تینوں ہی اخلاق سے پیش آئے، ہمارے لیے چائے بھی بنائی۔ ہم نے پوچھا ہم بھی اس ولا میں شفٹ ہونا چاہتے ہیں کیا یہ ممکن ہے۔ اس پر بحث شروع ہو گئی کہ ہم کیونکہ جنادریہ کالج کی سائٹ پر ہیں اس لیے ہماری رہائش وہیں کیمپ میں رہے گی، یہی کمپنی کی پالیسی ہے۔ یہاں صرف وہی لوگ ہیں جن کی سائٹس ریاض شہرمیں ہیں۔ ہم نے بتایا کہ ہماری سائٹ کے چار لوگ یہاں رہتے ہیں چاروں ہی انڈین ہیں اور شائد ایک ہی علاقے کیرالہ کے رہنے والے ہیں، تو کوئی تو صورت ہوگی ہمارے یہاں رہنے کی۔ دلاور نے کہا بھائی یہ تو آپ ان لوگوں سے ہی پوچھیں کہ وہ کیسے اس سائٹ پر رہ رہے ہیں۔ ہم نے ان تینوں سے اجازت لی اور تلاش کرتے ہوئے ان لوگوں کے روم تک پہنچ گئے جو ہماری سائٹ پر کام کرتے تھے۔ ان انڈینز نے کوئی خاص لفٹ تو نہیں کروائی لیکن یہ بتا دیا کہ انہوں نے یہاں رہائش کی شرط پر ہی کمپنی جوائن کی تھی ہم بھی اگر یہاں رہنا چاہتے ہیں تو کمپنی کے ایم ڈی سے بات کریں شائد کام بن جائے۔ ولا سے نکل کر ہم نے لیموزین یعنی ٹیکسی پکڑی اور اپنے کیمپ پہنچ گئے۔ اگلے روز ہمارا کمپنی کے ہیڈ آفس جانے کا پروگرام تھا تاکہ ایم ڈی سے بات کرسکیں۔۔۔ ۔۔ جاری ہے
سعودی عرب اورخلیج کی بعض دیگر ریاستوں کی جانب سے قطر کے بائیکاٹ کے بعد پاکستان کیلئے اس خطے میں اپنی حیثیت خاص طورپر خطے میں توازن پیداکرنے والی قوت کے طورپر اپنی حیثیت برقرار رکھنا بہت مشکل ہوگیاہے۔اب سے پہلے شاید کبھی بھی اس طرح کی مشکل صورت حال کاتصور بھی نہ کیاگیاہوگا۔ نواز ...
تازہ ترین اطلاعات سے انکشاف ہواہے کہ سعودی عرب اور امریکہ نے یمن کے تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنے کے لیے خفیہ طورپر گٹھ جوڑ کرلیا ہے اور اسی گٹھ جوڑ کے نتیجے میں سعودی عرب کی زیر قیادت بننے والے اتحاد کے طیارے یمن پر سعودی عرب کی مسلط کردہ حکومت کے خلاف نبرد آزما مجاہدین پر اندھادھن...
سیمی خوش مزاج آدمی تھا اس کے ساتھ کام کرنا اچھا تجربہ ثابت ہوا تھا اس کے مقابلے میں یہ نیا انچارج شنکر کمار بہت بد دماغ اور بداخلاق واقع ہوا تھا۔ ہماری پہلے ہی دن سے اس سے ٹھن گئی ، مشکل یہ تھی کہ وہ نیا تھا اور ابھی اسے کام سمجھنا تھا اس لئے وہ ہم سے زیادہ بدتمیزی نہیں کرسکتا تھ...
سیمی کو گئے کئی مہینے ہو گئے تھے اس کی واپسی کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا، اس کا کام بھی ہمارے زمے ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے کام کی تھکن بڑھتی جا رہی تھی۔ کئی بار کام کی زیادتی کی وجہ سے ہمیں دیر تک رکنا پڑتا تھا۔ ہمیں سیمی کا بھی کام کرنے کی وجہ سے کوئی مالی فائدہ بھی نہیں مل رہا تھا...
اگلے روز یعنی جمعے کو ہم عزیزیہ کے ایک پاکستانی ہوٹل میں ناشتہ کرنے کے بعد مکہ شریف کے لیے روانہ ہوئے، جدہ حدود حرم سے باہرحِل کی حدود میں ہے۔ حرم شریف اور میقات کے درمیان کے علاقے کو حِل کہا جاتا ہے اس علاقے میں خود سے اگے درخت کو کاٹنا اور جانور کا شکار کرنا حلال ہے جبکہ اس علا...
ہمارے دوست اظہار عالم کافی عرصے سے جدہ میں مقیم تھے ہم نے عمرہ پر روانگی سے پہلے انہیں فون کرکے اپنی ا?مد کی اطلاع دیدی تھی، طے ہوا تھا کہ وہ جمعرات کو صبح دس بجے باب فہد کے سامنے ایک بینک کے پاس پہچیں گے۔ ہم ساڑھے نو بجے جا کر اس بینک کے سامنے جا کر کھڑے ہوگئے۔ وہاں کافی لوگ موج...
مکہ المکرمہ سے مدینہ شریف کا فاصلہ تقریبا ساڑھے چار سو کلومیٹر ہے، راستے بھر مشہور نعت مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ ذہن میں گونجتی رہی، ہماری آنکھیں سارے راستے پُر نم رہیں۔ مدینے کا راستہ محبت کی معراج کا وہ راستہ ہے جس پر بڑے بڑے صحابہ ، علما، صوفیہ اور بزرگان دین نے...
صبح فجر سے پہلے ہماری بس مکہ مکرمہ کے ہوٹل پہنچ گئی، دل میں عجب سی ہلچل مچی ہوئی تھی، کعبہ شریف کے اس قدر قریب ہونیکا احساس جیسے دل کو الٹ پلٹ کر رہا تھا ، کوشش تھی کہ فوری طور پر حرم شریف پہنچیں اور اللہ کے گھر کا دیدار کریں۔ اللہ کا گھردنیا میں وہ پہلی عبادت گاہ ہے جو انسانوں ک...
نسیم ولا اور کالج میں شب و روز اپنی مخصوص چال سے گزر رہے تھے۔ روز صبح کو شام کرنا اور شام کو صبح کا قالب بدلتے دیکھنا اور اس کے ساتھ لگی بندھی روٹین کو فالو کرنا یہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت بن چکی تھی۔ ایک بے قراری تھی، ایک بے کلٰی تھی جو دل میں بسنے لگی تھی۔ ہم لوگ روٹین کے ایس...
نسیم ولا میں دن اچھے گزر رہے تھے۔ ایک دن باتوں کے دوران ہم نے کہا لگتا ہے ریاض میں کوئی گھومنے کی جگہ نہیں ہے ،ہوتی تو ہم لوگ وہاں کا چکر لگا آتے، نسیم کے علاقے میں جہاں ہمارا ولا تھا وہاں ہمیں نہ تو کوئی پارک نظر آیا تھا نہ کوئی اور ایسی جگہ جہاں آپ تفریح کے لیے جا سکیں۔ سنیم...
رات کے نو بج رہے تھے ہمیں پی ٹی وی سے خبر نامے کا انتظار تھا لیکن خبریں شروع نہیں ہوئیں، ہم نے علی سے کہا نو بج گئے خبرنامہ شروع نہیں ہو رہا پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے، علی بولا نو ہماری گھڑی میں بجے ہیں وہاں پاکستان میں رات کے گیارہ بج رہے ہیں ہمیں احساس ہوا کہ سعودی عرب میں ہم پاکست...
ڈش انٹینا اور اس کا متعلقہ سامان لائے کئی دن گزر چکے تھے۔ ہم چاروں روز سوچتے تھے کہ آج ضرور ڈش انٹینا لگالیں گے لیکن کالج سے آنے کے بعد کھانا پکانے اور کھانے کے بعد اتنا وقت ہی نہیں بچتا تھا کہ چھت پر جائیں اور ڈش انٹٰینا کی تنصیب کا کام مکمل کریں۔ پھر طے پایا کہ یہ کام جمعے کو...