... loading ...
امریکی انتخابات کے بعد سامنے آنے والے دعووں کے مطابق امریکا کے انتخابات ڈونلڈ ٹرمپ کے نام پر روس کے صدر پیوٹن نے انتہائی چالاکی کے ساتھ چرالیے ہیں اورڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے منتخب صدر کی حیثیت سے نہیں بلکہ روسی صدر کے نمائندے یااہلکار کے طورپروائٹ ہائوس میںامریکا کاصدارتی منصب سنبھالیں گے۔
صدارتی انتخابات میں ہیکنگ یا دھاندلی کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کی مخالف ہلیری کلنٹن کے دعوے اور الزامات بالکل ہی بے بنیاد نہیں تھے بلکہ سی آئی اے اور امریکی انٹیلی جنس کے دیگر ادارے ہفتوں تک تفتیش کے بعد یہ دعوے کرتے رہے ہیں کہ ڈیموکریٹک پارٹی کی قیادت کی ای میلز افشا کرنے والوں کی پشت پرروس کارفرما تھا تاہم امریکی انٹیلی جنس ادارے اپنے ان دعووں یا الزامات کے بارے میں کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کرسکے۔اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی کی قیادت کے بارے میں جو بھی الزامات عاید کئے گئے وہ درست نہیں تھے اور تحقیقات کے بعد غلط ثابت ہوئے۔تاہم اس کے ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہوا کہ ای میلز درست تھیں جن سے ڈیموکریٹک پارٹی کی غیر جمہوری سوچ یا غیر جمہوری میکانزم کا اظہار ہوتاہے،یعنی بلی تھیلے سے باہر آگئی اور یہ ثابت ہوگیا کہ ڈیموکریٹک پارٹی کے قول وفعل میں نمایاں تضاد موجود ہے۔اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ہلیری کلنٹن کے مد مقابل صدارتی امیدوار بننے کیلیے سامنے آنے والے ڈیموکریٹک پارٹی ہی کے امیدوار برنی سینڈرز کو ہلیری کلنٹن سے ہرانے کیلیے غیر جمہوری طریقے اختیار کئے گئے تھے۔
اگر یہ تسلیم کرلیاجائے کہ روس نے امریکی صدارتی انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی تو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ روس نے ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار ہلیری کلنٹن کے بارے میں جو ڈاکومنٹس دنیا کو دکھانے کی کوشش کی وہ غلط نہیں تھے اور روس کی جانب سے بالواسطہ طورپر فراہم کی جانے والی تمام اطلاعات اور معلومات درست تھیں،اور روس نے ایسا کرکے کچھ ایسا غلط بھی نہیں کیا بلکہ خود امریکا اس سے بھی زیادہ بدترین طریقے اورننگے پن کے ساتھ دیگر ممالک کے ساتھ ایسا کرتارہاہے ۔
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیںکہ امریکا کئی عشروں سے لاطینی امریکا ،مشرق وسطیٰ اور دنیا کے دیگر خطوں میں مختلف ممالک کی حکومتوں کاتختہ الٹنے اور اپنی پسند کی حکومت یا حکمرانوں کو برسراقتدار لانے کی سازشوں میں مصروف رہاہے بلکہ یہ کہا جائے کہ اب بھی ایساہی کرنے کی کوشش کررہاہے تو غلط نہیں ہوگا۔کیا امریکی رہنما اس حقیقت سے انکار کرسکتے ہیں کہ وہ اپنے ڈرون حملوں کے ذریعے مختلف ممالک کی خودمختاری پر ضرب لگانے کی کوششیں کرتارہاہے اور اب بھی اس عمل میں مصروف ہے۔کیا یہ غلط ہے کہ امریکا مختلف ممالک کے میڈیا کو من پسند طریقہ کار اختیار کرنے کیلیے بالواسطہ طورپر بھاری رقوم دیتارہاہے، من پسند انقلاب برپا کرنے کیلیے ہر طرح کی مالی اور فوجی امداد کی فراہمی سے گریز اور دریغ نہیں کرتا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکا پوری دنیا پر اپنا تسلط چاہتاہے خواہ کسی ملک کی عوام کو یہ پسند ہو یاناپسند۔امریکی میڈیا اچانک جاگ اٹھاہے اور اس نے شور مچانا شروع کردیاہے کہ مغربی جمہوریتوں کو جعلی اور بے بنیاد خبروں کی بنیاد پر خطرہ ہے۔ان کا استدلال یہ ہے کہ ٹرمپ بھی ایک جھوٹی خبر کی وجہ سے مسند صدارت تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیںاور اگر رائے دہندگان کو پوری طرح آگاہی ہوتی تو وہ ٹرمپ کا انتخاب نہ کرتے یعنی انھیں کامیاب نہ بناتے اورہلیری کلنٹن مسند صدارت سنبھالنے میں کامیاب ہوجاتیں۔
کارپوریٹ میڈیا جس منظم انداز میں عوام کو بیوقوف بناتا ہے، جعلی یاجھوٹی خبریں اس میں بہت کم ہی کچھ کردارادا کرپاتی ہیں ،جہاں تک جھوٹی خبروں کی افادیت اور رائے عامہ پر ان کے اثرانداز ہونے کا تعلق ہے تو اس سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ جعلی اور من گھڑت خبریں بعض اوقات نہ صرف رائے عامہ بلکہ سربراہان مملکت اور حکومت کو غلط فیصلے کرنے پر مجبور کردیتی ہیں جس کی واضح مثال عراق میں صدام حسین کے پاس مہلک ترین اسلحہ کی موجودگی کے حوالے سے چلائی جانے والی خبروں سے ہوتاہے جن کی بنیاد پر کئی ممالک عراق پر فوج کشی کیلیے امریکا کاساتھ دینے یعنی امریکا کا اتحادی بننے پر تیار ہوگئے تھے۔اور انھیں عراق پر اس حملے کے نتیجے میں معاشی بدحالی اور اقتصادی کسادبازاری کے سوا کچھ نہیں مل سکا۔یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ امریکی کارپوریٹ میڈیا نے امریکا کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ایما پر ان جعلی خبروں کو خوب اچھالا یہاں تک کہ انھیں درست تسلیم کیاجانے لگا۔
امریکی حکومت جن ممالک کو اپنا دشمن تصور کرتی ہے یاجن ممالک میں کسی سربراہ مملکت یاحکومت کی جگہ اپنا پسند امیدوار برسراقتدار لانا چاہتی ہے خواہ وہ کیوباہو یا وینزویلا ،لیبیا ہویاشام اس کے بارے میں بے بنیاد پراپگنڈا شروع کرادیاجاتاہے اور اس طرح اس ملک یااس کے سربراہ کے خلاف کارروائی کو حق بجانب ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
صرف بلاگرز اور آزاد ویب سائٹس ہی جھوٹی خبریں سوشل میڈیا پر نہیں پھیلاتیں بلکہ ان میں نامور ادیب ،مضمون نگار ،صحافی اور مختلف پارٹیوں کے سرگرم کارکن بھی شامل ہوتے ہیں جنھیں بالواسطہ طریقے سے بھاری رقوم ادا کی جاتی ہیں تاکہ انھیں میڈیا کے کسی ادارے یاکسی اخبار کا دست نگر نہ رہناپڑے اور صرف متعلقہ ادارے کی پالیسی کے مطابق ہی قلم چلانے پر مجبور نہ رہنا پڑے۔
یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ہلیری کلنٹن کی جو ای میلز افشا کی گئیں وہ خواہ روس نے افشا کی یاکرائی ہوں یا کسی اور نے وہ جعلی نہیں تھیں،وہ قطعی درست اور اصلی تھیں۔لیکن ان کے افشاہونے کے بعد مسلسل جعلی خبروں کے ذریعے ان کومشکوک بنادیاگیا۔
مختلف ممالک کے سیاستدانوں، امریکی اور مغربی ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں اورکارپوریٹ اداروں کی جانب سے جعلی خبروں کاواویلا دراصل حقائق پرشکوک وشبہات کی چادر ڈال کر اس کی افادیت کو کم کرنے اور حقائق کو مسخ کرنے کیلیے مچایاجاتاہے اور اس طرح اصلی اور بھاری رقوم خرچ کرکے کئے جانے والے پراپگنڈے کی وجہ سے سچی خبریں بھی اپناتاثر کھوبیٹھتی ہیں اور جھوٹا پراپگنڈا بھاری پڑجاتاہے۔اس صورت میں حکومتوں پر تنقید کرنے والوں کے پاس اپنے خیالات عوام تک پہنچانے کیلیے آزاد ویب سائٹ اورسوشل میڈیا کے سوا کوئی دوسرا پلیٹ فارم باقی نہیں رہتا ،اس طرح یہ کہاجاسکتاہے کہ اگر اپنے مخالفین کی زبان بند کرناچاہتے ہو تو یہ آزاد ویب سائٹس اورسوشل میڈیا کو بند کردو۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف چلائی جانے والی اس مہم سے بھی غیر ملکی طاقتوں کوہی فائدہ پہنچ سکتاہے جو ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کو اپنے لیے نقصاندہ تصور کرتی ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی جمہوریت کے خلاف کوئی جنگ شروع کرنے نہیں جارہے ہیں بلکہ خود امریکی جمہوریت نے یہ ثابت کیا ہے کہ اب وہ انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کی خواہش رکھنے والوں کا ساتھ نہیں دے گی اورامریکی جمہوریت میں پیداہونے والی یہی خوبی مخالفین کو بری طرح پریشان کئے ہوئے ہے کیونکہ مخالفین یہ سمجھ رہے ہیں کہ جمہوریت کی اس خوبی کو جڑ پکڑنے کاموقع مل گیا تو ان کوجعلی خبروں اور پروپگنڈے کے ذریعے رائے عامہ پر اثر اندازہونے کاموقع نہیں مل سکے گا اور پھر وہی ہوگا جو امریکی عوام کی اکثریت کی خواہش ہوگی۔
جوناتھن کوک
بھارت کے نائب وزیر داخلہ اور انتہا پسند ہندو تنظیم آر ایس ایس کے رہنماکرن ر یج جو کے حالیہ بیان پر ایک بار پھر مسلمانوں کی آبادی پر سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے،بھارت کے نائب وزیر داخلہ کرن ریج جو نے اسمبلی انتخابات کے ماحول میں کچھ ایسا ہی کہا جیسا کہ ہندو تنظیم آر ایس ایس کے رہنما ا...