... loading ...
جلال صاحب کے گھر سے نکل کر ہم پاکستانی ہوٹل کے پاس جا کر کھڑے ہو گئے۔ اب ہمیں کسی لیموزین کا انتظار تھا، ہم جتنا جانتے تھے اس کے مطابق لیموزین ایک طویل شاندار اور انتہائی مہنگی لگژری کار ہوتی ہے۔ یہ عام کار سے دو تین گنا لمبی ہوتی ہے اور اس میں سیٹوں کی جگہ کاوچ لگی ہوتی ہے جس پر آرام سے لیٹ سکتے ہیں۔ لیموزین میں فرج اور کھانا کھانے کی ٹیبل بھی ہوتی ہے۔ ہم نے اس سے پہلے لیموزین صرف فلموں میں دیکھی تھی، آج اس گاڑی میں بیٹھنے کا موقع مل رہا تھا ،ہم اتنی مہنگی لگژری کار میں بیٹھنے کے تصور سے تو خوش تھے لیکن اس بات کا بھی ڈر تھا کہ نہ جانے یہ سفر ہمیں کتنا مہنگا پڑنے جا رہا تھا، ظاہر ہے لیموزین کی سواری سستی توبالکل بھی نہیں ہوگی۔ ہمارے پاس دو سو ریال موجود تھے لیکن اگر کرایہ زیادہ ہوا تو کیا ہوگا، ہم نے سوچا اگر زیادہ پیسے لگے تو ہم کیمپ پہنچ کر اپنے کیبن سے لاکر دے دیں گے۔ اسی کھٹی میٹھی سوچ میں آدھا گھنٹا گزر گیا، سڑک سے کوئی لیموزین نہ گزری۔ اب ہمیں کچھ تشویش شروع ہوئی، ہم نے پاکستانی ہوٹل کا رخ کیا، وہاں موجود ایک صاحب سے پوچھا کہ بھائی یہاں سے کوئی لیموزین گزرتی بھی ہے یا نہیں، اس بندہ خدا نے جواب دیا لیموزین تو آتی جاتی رہتی ہیں، آپ نے کہاں جانا ہے۔ ہم نے کہا جانا تو ہمیں جنادریہ ہے لیکن کوئی لیموزین آئے تو ہم وہاں پہنچیں۔ ان صاحب نے سڑک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا وہ دیکھیں وہ گزری ایک لیموزین۔ ہم نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر سڑک پر دیکھا دور دور تک کسی لیموزین کا نام و نشان نہ تھا۔ ہم نے پھر پوچھا بھائی کہاں ہے لیموزین ، اس شخص نے ہمیں ایسے دیکھا جیسے ہماری ذہنی حالت کو مشکوک سمجھ رہا ہو پھر بولا وہ دیکھو وہ سامنے لیموزین آرہی ہے، سامنے سے ایک عام سی گاڑی آ رہی تھی جس کی چھت پر پیلے رنگ کی لائٹ لگی تھی اور عربی میں کچھ لکھا تھا۔ مزید سوچنے کا وقت نہیں تھا ہم نے دوڑ کر اس گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا، گاڑی رکی تو ڈرائیور نے شیشہ اتار کر ہماری طرف دیکھا ہم نے کہا جنادریہ جانا ہے۔ ڈرائیور پاکستانی تھا، بولا بیٹھ جائیں۔ ہم دروازہ کھول کر ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گئے۔ ڈرائیور نے گاڑی آگے بڑھائی، ہم نے ڈرائیور سے سلام دعا کے بعد پوچھا کیا یہ گاڑی لیموزین ہے ،ہم نے تو تصویروں میں ایک بہت لمبی خوبصورت اور لگژری لیموزین ہی دیکھی ہے۔ ڈرائیور ہنسنے لگا، پھر بولا بھائی یہاں سعودی عرب میں ٹیکسی کو لیموزین کہتے ہیں۔ زیادہ تر کرولا ٹیکسی کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ اب ہماری سمجھ میں آیا کہ یہاں لیموزین ٹیکسی کو کہا جاتا ہے، ہم نے ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھا بھی کہ ٹیکسی کو ٹیکسی کیوں نہیں کہتے لیموزین کیوں کہتے ہیں، لیکن اس کا جواب اس کے پاس نہیں تھا۔ کہنے لگا بھائی میں چار سال سے یہاں ٹیکسی چلا رہا ہوں یہاں اسے لیموزین ہی کہتے ہیں اور ٹیکسی ڈرائیور کو لیموزین ڈرائیور۔
ریاض سمیت سعودی عرب میں ہزاروں ٹیکسیاں چلتی ہیں ،ان میں سے زیادہ تر کے ڈرائیور پاکستانی ہیں، سعودی عرب میں گاڑیاں اور پیٹرول سستا ہونے کی وجہ سے گاڑی رکھنا آسان ہے لیکن ان لاکھوں غیر ملکی کارکان کیلیے جو بہت کم تنخواہ پر کام کرتے ہیں گاڑی افورڈ کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ اہلکاروں کے خیال میں ہر بندے کے پاس گاڑی ہے، اس لیے پبلک ٹرانسپورٹ کی کیا ضرورت ہے، اس لیے لوگوں کے پاس لے دے کر ٹیکسی ہی شہر میں سفر کرنے کا واحد وسیلہ بن جاتی ہے۔ ویسے2012میں سعودی عرب کی وزارت محنت نے اتوار کو مقامی لوگوں کو روزگار دینے کے ایک نئے منصوبہ کا اعلان کیا تھا جس کے تحت ٹیکسی کمپنیاں ملک بھر میں اٹھائیس ہزار سے زیادہ سعودی ڈرائیوروں کو بھرتی کریں گی جو غیر ملکی ڈرائیوروں کی جگہ لیں گے۔
سعودی عرب بھی بے روزگاری کے مسئلے سے دوچار ہے اوراس منصوبے کا مقصد سعودی نوجوانوں کی ٹیکسی ڈرائیور کے طورپر بھرتی کی حوصلہ افزائی کرنا ہے تاکہ وہ غیر ملکی ٹیکسی ڈرائیوروں کی جگہ لے سکیں۔2012میں سعودی عرب میں تینتالیس ہزار سے زیادہ ٹیکسیاں چل رہی تھیں جو ایک ہزار تین سو پچھتر کمپنیوں کی ملکیت تھیں۔ ٹیکسی ڈرائیوروں میں پندرہ ہزار سعودی اور دوسرے اٹھائیس ہزار غیر ملکی تھے۔قریباً چالیس فی صد ٹیکسیاں دارالحکومت ریاض میں چلتی ہیں، تینتیس فی صد جدہ اور سترہ فی صد مشرقی صوبے میں چل رہی ہیں۔
رات میں سڑکیں خالی تھیں۔ ٹیکسی ریاض شہر کی روشن عمارتیں چھوڑتی فراٹے بھرتی آگے بڑھ رہی تھی۔ آدھے گھنٹے میں ہم جنادریہ کیمپ پہنچ گئے،ٹیکسی کا کرایہ چالیس ریال بنا تھا وہ ادا کیا، ساتھ ہی ڈرائیور کا شکریہ بھی ادا کیا اور اس بات کا بھی شکر ادا کیا کہ ہمیں واپسی کے لیے کوئی اصلی لیموزین نہیں ملی ورنہ پتہ نہیں کتنا کرایہ بن جاتا۔۔۔۔ (جاری ہے)
سعودی عرب اورخلیج کی بعض دیگر ریاستوں کی جانب سے قطر کے بائیکاٹ کے بعد پاکستان کیلئے اس خطے میں اپنی حیثیت خاص طورپر خطے میں توازن پیداکرنے والی قوت کے طورپر اپنی حیثیت برقرار رکھنا بہت مشکل ہوگیاہے۔اب سے پہلے شاید کبھی بھی اس طرح کی مشکل صورت حال کاتصور بھی نہ کیاگیاہوگا۔ نواز ...
تازہ ترین اطلاعات سے انکشاف ہواہے کہ سعودی عرب اور امریکہ نے یمن کے تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنے کے لیے خفیہ طورپر گٹھ جوڑ کرلیا ہے اور اسی گٹھ جوڑ کے نتیجے میں سعودی عرب کی زیر قیادت بننے والے اتحاد کے طیارے یمن پر سعودی عرب کی مسلط کردہ حکومت کے خلاف نبرد آزما مجاہدین پر اندھادھن...
سیمی خوش مزاج آدمی تھا اس کے ساتھ کام کرنا اچھا تجربہ ثابت ہوا تھا اس کے مقابلے میں یہ نیا انچارج شنکر کمار بہت بد دماغ اور بداخلاق واقع ہوا تھا۔ ہماری پہلے ہی دن سے اس سے ٹھن گئی ، مشکل یہ تھی کہ وہ نیا تھا اور ابھی اسے کام سمجھنا تھا اس لئے وہ ہم سے زیادہ بدتمیزی نہیں کرسکتا تھ...
سیمی کو گئے کئی مہینے ہو گئے تھے اس کی واپسی کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا، اس کا کام بھی ہمارے زمے ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے کام کی تھکن بڑھتی جا رہی تھی۔ کئی بار کام کی زیادتی کی وجہ سے ہمیں دیر تک رکنا پڑتا تھا۔ ہمیں سیمی کا بھی کام کرنے کی وجہ سے کوئی مالی فائدہ بھی نہیں مل رہا تھا...
اگلے روز یعنی جمعے کو ہم عزیزیہ کے ایک پاکستانی ہوٹل میں ناشتہ کرنے کے بعد مکہ شریف کے لیے روانہ ہوئے، جدہ حدود حرم سے باہرحِل کی حدود میں ہے۔ حرم شریف اور میقات کے درمیان کے علاقے کو حِل کہا جاتا ہے اس علاقے میں خود سے اگے درخت کو کاٹنا اور جانور کا شکار کرنا حلال ہے جبکہ اس علا...
ہمارے دوست اظہار عالم کافی عرصے سے جدہ میں مقیم تھے ہم نے عمرہ پر روانگی سے پہلے انہیں فون کرکے اپنی ا?مد کی اطلاع دیدی تھی، طے ہوا تھا کہ وہ جمعرات کو صبح دس بجے باب فہد کے سامنے ایک بینک کے پاس پہچیں گے۔ ہم ساڑھے نو بجے جا کر اس بینک کے سامنے جا کر کھڑے ہوگئے۔ وہاں کافی لوگ موج...
مکہ المکرمہ سے مدینہ شریف کا فاصلہ تقریبا ساڑھے چار سو کلومیٹر ہے، راستے بھر مشہور نعت مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ ذہن میں گونجتی رہی، ہماری آنکھیں سارے راستے پُر نم رہیں۔ مدینے کا راستہ محبت کی معراج کا وہ راستہ ہے جس پر بڑے بڑے صحابہ ، علما، صوفیہ اور بزرگان دین نے...
صبح فجر سے پہلے ہماری بس مکہ مکرمہ کے ہوٹل پہنچ گئی، دل میں عجب سی ہلچل مچی ہوئی تھی، کعبہ شریف کے اس قدر قریب ہونیکا احساس جیسے دل کو الٹ پلٹ کر رہا تھا ، کوشش تھی کہ فوری طور پر حرم شریف پہنچیں اور اللہ کے گھر کا دیدار کریں۔ اللہ کا گھردنیا میں وہ پہلی عبادت گاہ ہے جو انسانوں ک...
نسیم ولا اور کالج میں شب و روز اپنی مخصوص چال سے گزر رہے تھے۔ روز صبح کو شام کرنا اور شام کو صبح کا قالب بدلتے دیکھنا اور اس کے ساتھ لگی بندھی روٹین کو فالو کرنا یہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت بن چکی تھی۔ ایک بے قراری تھی، ایک بے کلٰی تھی جو دل میں بسنے لگی تھی۔ ہم لوگ روٹین کے ایس...
نسیم ولا میں دن اچھے گزر رہے تھے۔ ایک دن باتوں کے دوران ہم نے کہا لگتا ہے ریاض میں کوئی گھومنے کی جگہ نہیں ہے ،ہوتی تو ہم لوگ وہاں کا چکر لگا آتے، نسیم کے علاقے میں جہاں ہمارا ولا تھا وہاں ہمیں نہ تو کوئی پارک نظر آیا تھا نہ کوئی اور ایسی جگہ جہاں آپ تفریح کے لیے جا سکیں۔ سنیم...
رات کے نو بج رہے تھے ہمیں پی ٹی وی سے خبر نامے کا انتظار تھا لیکن خبریں شروع نہیں ہوئیں، ہم نے علی سے کہا نو بج گئے خبرنامہ شروع نہیں ہو رہا پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے، علی بولا نو ہماری گھڑی میں بجے ہیں وہاں پاکستان میں رات کے گیارہ بج رہے ہیں ہمیں احساس ہوا کہ سعودی عرب میں ہم پاکست...
ڈش انٹینا اور اس کا متعلقہ سامان لائے کئی دن گزر چکے تھے۔ ہم چاروں روز سوچتے تھے کہ آج ضرور ڈش انٹینا لگالیں گے لیکن کالج سے آنے کے بعد کھانا پکانے اور کھانے کے بعد اتنا وقت ہی نہیں بچتا تھا کہ چھت پر جائیں اور ڈش انٹٰینا کی تنصیب کا کام مکمل کریں۔ پھر طے پایا کہ یہ کام جمعے کو...