... loading ...
خان صاحب نے کافی حجت کے بعدبن اور جوس کے ساتھ انصاف کرنا شروع کیا،ہم نے لیٹ کر آنکھیں بند کی ہی تھیں کہ خان صاحب زور زور سے بولنے لگے ،مڑا یہ تو ہم ناشتے میںبھی نہیں کھاتا تم نے یہ کیا کھانے کو دیدیا،ہم نے کہا خان صاحب ابھی تو جو ملا ہم لے آئے یہاں کوئی ہوٹل ریسٹورنٹ تو ہے نہیں ، پردیس ہے گزارہ کریں۔ خان صاحب کو غصہ آگیا بولے’’ مڑا ہم گھر سے اتنا دور روٹی روزی کمانے آیا ہے ادھر پردیس میںبھی روٹی نہیں ملے تو کیا فائدہ اتنا دور آنے کا؟ اتنا محنت کرنے کا؟خان صاحب کا لیکچر جاری تھا اتنے میں انہوں نے بن اور جوس ختم کرلیا، آخری گھونٹ پر انہیں پھندا لگ گیا ، خان صاحب زور زور سے کھانسنے لگے ہم نے فوراً اٹھ کر انہیں پانی کی بوتل دی، پانی پی کر انہیں کچھ آرام آیا۔ خان صاحب کی عمر کوئی پچپن چھپن سال کے قریب ہو گی، ہم نے کہا اس عمر میں آپ کو آرام کرنا چاہیے تھا آپ کیوں یہاں سختیاں جھیلنے آگئے۔ خان صاحب بولے ’’مڑا ہم میںبہت ہمت ہے ابی دکان بچہ لوگ نے سنبھال لیا تو ہم ادھر کیا کرتا ،باہر ملک جانے کا بہت خواہش تھا، کراچی میں بھی کوشش کیا تھا سعودی عرب آنے کا ،لیکن کام نہیں بنا پھرموقع لگا تو ہم نکل آیا ،ابی ہم کو دو سال ہو گیا ادھر۔ ہم نے کہا یہاں تو موسم بہت سخت ہوتا ہے اتنی گرمی میں ویلڈنگ کا کام کرنا مشکل نہیں لگتا آپ کو۔ خان صاحب بولے ہم ادھر اسٹیڈیم کی سائٹ پر کام کرتا ہے ادھر ویلڈنگ کا کام بہت کم ہوتا ہے اس لیے ہم افسر لوگوں کے لیے چائے مائے بناتا ہے، بس مڑا ٹائم آرام سے کٹ جاتا ہے، ابی ہم کو ادھر ویلڈنگ کے لیے بھیج دیا ہے ادھر بہت کام ہے ، اوپر سے کھانا بھی نہیں ملتا۔ ہم نے کہا خان صاحب آپ تو بڑے مزے میں ہیں بولے مزے کدھر ہیں، کھاناٹائم پر مل جاتاہے اتنا ہی بہت ہے۔ یعنی خان صاحب کی تان کھانے سے شروع ہو کر کھانے پر ٹوٹتی تھی۔ ہم کچھ آرام کرنے کے موڈ میں تھے لیکن خان صاحب نے بن کھانے کے بعد ہمارے کان کھانا شروع کردئے تھے اس لیے آرام کی چھٹی ہوچکی تھی۔ کوئی ایک گھنٹے بعد خان صاحب نے پوچھا نماز کدھر ہوتا ہے۔ ہم نے بتایا کیمپ ہی میں ایک کونے میں چھوٹی سی مسجد بنی ہوئی ہے ، خان صاحب نماز پڑھنے چلے گئے تو ہم نے سکون کا سانس لیا۔ سکون زیادہ دیر برقرا ر نہیں رہا۔ خان صاحب نے واپس آتے ہی زور زور سے بولنا شروع کردیا، مڑا یہ کیسا مسجد بنایا ہے، ایک کونے میں چار جائے نماز ڈال دیا ، مسجد ایسا ہوتا ہے کیا۔ ہم نے کہا خان صاحب یہ کیمپ پورا کا پورا عارضی بنا ہوا ہے، مسجد کمپنی نے نہیں بنائی یہاں موجود لوگوں نے خود ہی کیمپ کے ایک کونے کو مسجد کی حیثیت دے دی ہے۔ باجماعت نماز یہاں نہیں ہوتی لوگ انفرادی طور پر نماز پڑھ لیتے ہیں، جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے جامع مسجد جانا پڑتا ہے کو جنادریہ بازار میں ہے،آپ ذرا سکون کا سانس لیں مغرب کی نماز ہم اسی مسجد میں پڑھیں گے۔
یہ سن کرخان صاحب کو کچھ قرار آیا پھر بولے چائے کی طلب ہو رہی ہے۔ ہم نے کہا چائے پینے کے لیے باہر کیفے ٹیریا پر جانا پڑے گا جو کیمپ سے تھوڑے فاصلے پر ہے، چلیں وہاں چلتے ہیں چائے پی کر آتے ہیں۔ خان صاحب نے باہر جانے سے انکار کردیا لیکن چائے پر اصرار برقرار رکھا۔ نا چاہتے ہوئے بھی ہم کیفے ٹیریا کے لیے نکل پڑے جہاں سے پلاسٹک کے دو ڈسپوزایبل گلاسوں میں چائے لیکر اپنے کیبن میں پہنچے۔اپنے کیبن میں پہنچ کر خان صاحب کو چائے پیش کی۔ یہ چائے ٹی بیگ سے بنی ہوئی تھی ، پھر آنے میں بھی کچھ وقت لگا جس سے چائے ٹھنڈی ہو گئی تھی۔ پہلا گھونٹ لیتے ہی خان صاحب نے برا سا منہ بنا یا ، بولے مڑا یہ چائے ہے یا کچا پانی ہے، ہم نے کہا خان صاحب ہم نے بتایا تھا یہاں ایسی ہی چائے ملے گی۔ آپ افسر لوگوں کے لیے چائے بناتے ہیں تو یقیناً بہت اچھی چائے بناتے ہوں گے اس لیے آپ کو اچھی چائے پینے کی عادت ہے ، اب یہاں وہ چائے ہم آپ کو کیسے پیش کر سکتے ہیں۔ خان صاحب بولے ہم نماز کے لیے گیا تھا تو دیکھا ادھر کیمپ میںکچن بھی ہے تم ادھر جا کر کیوں چائے نہیں بناتا۔ ہم نے کہا خان صاحب ہمارے پاس چائے بنانے کے لیے برتن نہیں ہیں دوسرے کچن میں ملباری اور بنگالی بھائیوں نے خاصہ گند مچایاہوتا ہے ، ادھر بدبو بھی اتنی ہوتی ہے کہ کھڑاہونا مشکل ہو جاتاہے، ہم تو کچن کے پاس سے بھی نہیں گزرتے۔ خان صاحب نے اپنا اور ہمارا چائے کا گلاس اٹھایا اور ہمیں دروازہ کھولنے کے لیے کہا ، اب خان صاحب آگے آگے تھے اور ہم ان کے پیچھے پیچھے۔ خان صاحب سیدھے کچن میں پہنچے۔ کچن خاصہ بڑا تھا جس میں ایک درجن چولہے لگے ہوئے تھے۔ کچھ چولہوں پربنگلہ دیشی بھائی سالن پکا رہے تھے۔ باقی چولہے خالی تھے۔ خان صاحب نے جاتے ہی سب کوسلام کیا اور ایک بنگالی بھائی سے چائے بنانے کا برتن طلب کیا، یہ ایک چھوٹی سی پتیلی تھی جسے خان صاحب نے ہمیں دھوکر لانے کے لیے کہا۔ ہم پتیلی دھو کر لائے تو خان صاحب نے ہمارے اور اپنے پلاسٹک گلاسوں سے چائے ٹی بیگز سمیت پتیلی میں ڈالی اورچولہا جلا دیا۔خان صاحب نے ایک صاحب سے تھوڑا سا دودھ بھی مانگ کر پتیلی میں ڈال دیا۔ کسی سے چینی لیکر وہ بھی پتیلی میں ڈالی اور چائے کو جوش دیکر گلاسوں میں نکال لیا۔ ہمیں پتیلی دھو کر واپس کرنے کی ہدایت کی اور خود چائے کا ایک گلاس اٹھا کر کچن سے باہر نکل گئے۔ ہم بھی اپنا چائے کا گلاس اٹھا کر کیبن میں پہنچے جہاں خان صاحب گرم چائے کی چسکیاں لے رہے تھے۔ ہم نے چائے پینی شروع کی ، پہلے ہی گھونٹ میں مزہ آگیا، خان صاحب نے اچھی خاصی دودھ پتی چائے بنا لی تھی۔ ہم نے چائے کی تعریف کی تو خان صاحب مسکرا تے ہوئے بولے مڑا ہم ویلڈر تھوڑا ہے ہمارا اصل کام تو چائے بنانا ہے۔۔۔ جاری ہے
٭٭
سعودی عرب اورخلیج کی بعض دیگر ریاستوں کی جانب سے قطر کے بائیکاٹ کے بعد پاکستان کیلئے اس خطے میں اپنی حیثیت خاص طورپر خطے میں توازن پیداکرنے والی قوت کے طورپر اپنی حیثیت برقرار رکھنا بہت مشکل ہوگیاہے۔اب سے پہلے شاید کبھی بھی اس طرح کی مشکل صورت حال کاتصور بھی نہ کیاگیاہوگا۔ نواز ...
تازہ ترین اطلاعات سے انکشاف ہواہے کہ سعودی عرب اور امریکہ نے یمن کے تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنے کے لیے خفیہ طورپر گٹھ جوڑ کرلیا ہے اور اسی گٹھ جوڑ کے نتیجے میں سعودی عرب کی زیر قیادت بننے والے اتحاد کے طیارے یمن پر سعودی عرب کی مسلط کردہ حکومت کے خلاف نبرد آزما مجاہدین پر اندھادھن...
سیمی خوش مزاج آدمی تھا اس کے ساتھ کام کرنا اچھا تجربہ ثابت ہوا تھا اس کے مقابلے میں یہ نیا انچارج شنکر کمار بہت بد دماغ اور بداخلاق واقع ہوا تھا۔ ہماری پہلے ہی دن سے اس سے ٹھن گئی ، مشکل یہ تھی کہ وہ نیا تھا اور ابھی اسے کام سمجھنا تھا اس لئے وہ ہم سے زیادہ بدتمیزی نہیں کرسکتا تھ...
سیمی کو گئے کئی مہینے ہو گئے تھے اس کی واپسی کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا، اس کا کام بھی ہمارے زمے ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے کام کی تھکن بڑھتی جا رہی تھی۔ کئی بار کام کی زیادتی کی وجہ سے ہمیں دیر تک رکنا پڑتا تھا۔ ہمیں سیمی کا بھی کام کرنے کی وجہ سے کوئی مالی فائدہ بھی نہیں مل رہا تھا...
اگلے روز یعنی جمعے کو ہم عزیزیہ کے ایک پاکستانی ہوٹل میں ناشتہ کرنے کے بعد مکہ شریف کے لیے روانہ ہوئے، جدہ حدود حرم سے باہرحِل کی حدود میں ہے۔ حرم شریف اور میقات کے درمیان کے علاقے کو حِل کہا جاتا ہے اس علاقے میں خود سے اگے درخت کو کاٹنا اور جانور کا شکار کرنا حلال ہے جبکہ اس علا...
ہمارے دوست اظہار عالم کافی عرصے سے جدہ میں مقیم تھے ہم نے عمرہ پر روانگی سے پہلے انہیں فون کرکے اپنی ا?مد کی اطلاع دیدی تھی، طے ہوا تھا کہ وہ جمعرات کو صبح دس بجے باب فہد کے سامنے ایک بینک کے پاس پہچیں گے۔ ہم ساڑھے نو بجے جا کر اس بینک کے سامنے جا کر کھڑے ہوگئے۔ وہاں کافی لوگ موج...
مکہ المکرمہ سے مدینہ شریف کا فاصلہ تقریبا ساڑھے چار سو کلومیٹر ہے، راستے بھر مشہور نعت مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ ذہن میں گونجتی رہی، ہماری آنکھیں سارے راستے پُر نم رہیں۔ مدینے کا راستہ محبت کی معراج کا وہ راستہ ہے جس پر بڑے بڑے صحابہ ، علما، صوفیہ اور بزرگان دین نے...
صبح فجر سے پہلے ہماری بس مکہ مکرمہ کے ہوٹل پہنچ گئی، دل میں عجب سی ہلچل مچی ہوئی تھی، کعبہ شریف کے اس قدر قریب ہونیکا احساس جیسے دل کو الٹ پلٹ کر رہا تھا ، کوشش تھی کہ فوری طور پر حرم شریف پہنچیں اور اللہ کے گھر کا دیدار کریں۔ اللہ کا گھردنیا میں وہ پہلی عبادت گاہ ہے جو انسانوں ک...
نسیم ولا اور کالج میں شب و روز اپنی مخصوص چال سے گزر رہے تھے۔ روز صبح کو شام کرنا اور شام کو صبح کا قالب بدلتے دیکھنا اور اس کے ساتھ لگی بندھی روٹین کو فالو کرنا یہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت بن چکی تھی۔ ایک بے قراری تھی، ایک بے کلٰی تھی جو دل میں بسنے لگی تھی۔ ہم لوگ روٹین کے ایس...
نسیم ولا میں دن اچھے گزر رہے تھے۔ ایک دن باتوں کے دوران ہم نے کہا لگتا ہے ریاض میں کوئی گھومنے کی جگہ نہیں ہے ،ہوتی تو ہم لوگ وہاں کا چکر لگا آتے، نسیم کے علاقے میں جہاں ہمارا ولا تھا وہاں ہمیں نہ تو کوئی پارک نظر آیا تھا نہ کوئی اور ایسی جگہ جہاں آپ تفریح کے لیے جا سکیں۔ سنیم...
رات کے نو بج رہے تھے ہمیں پی ٹی وی سے خبر نامے کا انتظار تھا لیکن خبریں شروع نہیں ہوئیں، ہم نے علی سے کہا نو بج گئے خبرنامہ شروع نہیں ہو رہا پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے، علی بولا نو ہماری گھڑی میں بجے ہیں وہاں پاکستان میں رات کے گیارہ بج رہے ہیں ہمیں احساس ہوا کہ سعودی عرب میں ہم پاکست...
ڈش انٹینا اور اس کا متعلقہ سامان لائے کئی دن گزر چکے تھے۔ ہم چاروں روز سوچتے تھے کہ آج ضرور ڈش انٹینا لگالیں گے لیکن کالج سے آنے کے بعد کھانا پکانے اور کھانے کے بعد اتنا وقت ہی نہیں بچتا تھا کہ چھت پر جائیں اور ڈش انٹٰینا کی تنصیب کا کام مکمل کریں۔ پھر طے پایا کہ یہ کام جمعے کو...