... loading ...
پاکستانی اپنے وطن میں ہوں یا دنیا کے کسی بھی ملک میں کرکٹ اور سیاست ہی دو ایسے کھیل ہیں جن کو عبادت سمجھ کر کھیلا جاتا ہے۔ سعودی عرب میں کرکٹ گراونڈز نہ ہونے کی وجہ سے پاکستانی شہر کے باہر ویرانوں میں، خالی پارکنگ لاٹس میں یا سنسا ن سڑکوں پر کرکٹ کھیلتے ہیں، بھارتی بھی اس شوق میں ہم سے پیچھے نہیں۔ اکثر ایک ہی مقام پر کئی ٹیمیں ایک ہی وقت میں کھیل رہی ہوتی ہیں جس سے کافی کفیوژن بھی پیدا ہوجاتا ہے ،کبھی شرطے یعنی پولیس والے بھی آکر میچ رکوا دیتے ہیں لیکن کھیلنے والوں کے جذبے کی راہ میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بنتی۔ ویسے سعودی عرب کے شہروں میں جن علاقوں میں پاکستانی، بھارتی زیادہ رہتے ہیں وہاں بچے گلیوں میں یا پارکنگ لاٹس میں کرکٹ کھیلتے نظر آتے ہیں۔ سعودیوں کو کرکٹ سے کچھ لینا دینا نہیں کیونکہ ان کے یہاں فٹ بال مقبول ترین کھیل ہے، ویسے فٹ بال دنیا بھر کا مقبول ترین کھیل ہے لیکن کیونکہ اس میں انفرادی کارکردگی، فٹنس کا ثبوت اور میچ کا فوری نتیجہ سامنے آجاتا ہے اور سیاست کی بھی زیادہ گنجائش نہیں ہوتی اس لیے برصغیر پاک و ہند کے باسی فٹ بال کو لفٹ نہیں کرواتے، انہیں تو کرکٹ پسند ہے جس میں ہر بندہ اپنا اپنا کھیل کھیلتا ہے اور لڑائی پھڈا ہوجائے تو کرکٹ بیٹ کو لاٹھی کی طرح چلانے کی سہولت بھی حاصل ہوتی ہے۔ سعودی حکام کرکٹ کے ان نازک معاملات کو بھلا کہاں سمجھ سکتے ہیں اس لیے انہیں پاکستانیوں اور بھارتیوں وغیرہ کا سڑکوں اور پارکنگ لاٹس میں کرکٹ کھیلنا ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ حکام کو اتنے سارے غیرملکیوں کا ایک جگہ جمع ہونا بھی اچھا نہیں لگتا،ان کاکہنا ہے کہ غیر ملکیوں کا اس طرح جمع ہو کر ہلڑ مچانا غیر قانونی اقدام ہے۔ حال ہی میں سعودی عرب کی جنوبی میونسپل کارپوریشن کے رکن نے ملک میں غیرملکیوں کی جانب سے گلیوں محلوںمیں کرکٹ کھیلنے پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کاکہنا ہے کہ اتنے سارے غیر ملکیوں کا ایک جگہ جمع ہونا اہل محلہ کے لیے کسی نقصان کا باعث ہوسکتا ہے۔ ان کوخدشہ ہے کہ غیر ملکی قریب سے گزرنے والے کسی بچے کے ساتھ زیادتی کی کوشش بھی کرسکتے ہیں۔ رکن میونسپل کارپوریشن کایہ بھی کہنا ہے کہ عام طور پر جمعرات کی شام اور جمعے کو کرکٹ کھیلنے والے جمع ہوتے ہیں ان کے شور شرابے سے اہل محلہ کا سکون غارت اور نیند خراب ہوتی ہے اس لیے غیر ملکیوں کے اس طرح کرکٹ کھیلنے کو غیر قانونی قرار دیکر اس پر پابندی لگائی جائے۔ ایک ایشیائی صاحب نے سوشل میڈیا پر ایک ہزار ریال جرمانے کی رسید شیئر کی ہے۔ یہ جرمانہ انہیں جدہ کورینش پر کرکٹ کھیلنے کے الزام میں کیا گیا۔انہوں نے اپنی پوسٹ میں لکھا، کورنیش پر کرکٹ کھیلنے سے پرہیز کریں ورنہ ہماری طرح ایک ہزار ریال کا جرمانہ ہو سکتا ہے۔
جنادریہ کے ویرانے میں کرکٹ میچ جاری تھا، دونوں جانب سے خاصے جوش و خروش کا مظاہرہ کیا جا رہا تھا، گلزار اور اس کے تینوں ساتھی ایک ہی ٹیم میں تھے جو پہلے فیلڈنگ کر رہی تھی اس لیے ہم زیادہ بور ہو رہے تھے ورنہ اگر گلزار کی ٹیم بیٹنگ کر رہی ہوتی تو گلزار کی بیٹنگ آنے تک ہم اس کے ساتھ گپ شپ ضرور کر سکتے تھے۔ گرمی زوروں پر تھی، سورج آگ برسا رہا تھا اور ہم سائے کی تلاش میں کبھی اس گاڑی کی اوٹ میں اور کبھی دوسری گاڑی کی اوٹ میں پناہ لینے کی کو شش کر رہے تھے۔ اس دوران پیاس سے برا حال ہوا تو ایک صاحب سے پانی مانگا، انہوں نے کمال مہربانی سے پانی کی بوتل ہمارے حوالے کردی جس میں تھوڑا سا پانی موجود تھا،ہم دعا کررہے تھے کہ میچ جلد از جلد ختم ہو جائے۔ خدا خدا کرکے دو گھنٹے بعد میچ ختم ہوا، گلزار کی ٹیم میچ جیت گئی تھی اس لیے وہ بہت خوش تھا، اس کی ٹیم کے سبھی لوگ خوش تھے، ہاری ہوئی ٹیم نے ہمت نہیں ہاری او ر اگلے جمعے دوبارہ مقابلے کا اعلان کردیا۔ ہم گلزار کے ساتھ وسیم کی گاڑی میں بیٹھ گئے، جنادریہ واپسی کا سفر شروع ہوگیا، گلزار اور باقی تینوں خوش تھے اور زور زور سے ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی مذاق میں لگے ہوئے تھے، ہم چپ چاپ بیٹھے تھے اور ہماری خاموشی کا ان لوگوں نے نوٹس بھی نہیں لیا تھا۔ پتہ نہیں کیوں ہم نے خود کو ان کے درمیان اجنبی سمجھنا شروع کردیا۔ ان لوگوں کا آپس میں پرانا تعلق تھا اور ہماری ان سے ابھی سلام دعا ہوئی تھی۔ ان تینوں کی تمام گفتگو پنجابی میں ہو رہی تھی گو ہم پنجابی سمجھتے تھے لیکن ان کے لیے کراچی والے ہی تھے اس لیے فی الحال ہمیں گفتگو میں سائڈ لائن کردیا گیا تھا۔ وسیم ہم لوگوں کو اپنی طرف لے گیا، اس کے فلیٹ میں کھانے کا انتظام تھا، ہمیں پہلے سے دعوت نہیں ملی ہوئی تھی لیکن گلزار کے کہنے پر ہم کھانے میں شریک ہو گئے۔ وسیم کے فلیٹ پر اور بھی لوگ موجود تھے،ہلے گلے کا ماحول تھا لیکن ہم اس ماحول میں خود کو الگ الگ سا محسوس کر رہے تھے۔ سات بجے ہم نے گلزار سے چلنے کے لیے کہا،ہماری مروت میں گلزار اٹھ گیا۔ وسیم نے گلزار کو اس کے فلیٹ پر اور ہمیں ہمارے کیمپ کے قریب چھوڑدیا۔ ہم اپنے کیبن میں آکر لیٹ گئے۔ سعودی عرب میں پہلاجمعہ گزر گیا تھا۔۔۔ جاری ہے
سعودی عرب اورخلیج کی بعض دیگر ریاستوں کی جانب سے قطر کے بائیکاٹ کے بعد پاکستان کیلئے اس خطے میں اپنی حیثیت خاص طورپر خطے میں توازن پیداکرنے والی قوت کے طورپر اپنی حیثیت برقرار رکھنا بہت مشکل ہوگیاہے۔اب سے پہلے شاید کبھی بھی اس طرح کی مشکل صورت حال کاتصور بھی نہ کیاگیاہوگا۔ نواز ...
تازہ ترین اطلاعات سے انکشاف ہواہے کہ سعودی عرب اور امریکہ نے یمن کے تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنے کے لیے خفیہ طورپر گٹھ جوڑ کرلیا ہے اور اسی گٹھ جوڑ کے نتیجے میں سعودی عرب کی زیر قیادت بننے والے اتحاد کے طیارے یمن پر سعودی عرب کی مسلط کردہ حکومت کے خلاف نبرد آزما مجاہدین پر اندھادھن...
سیمی خوش مزاج آدمی تھا اس کے ساتھ کام کرنا اچھا تجربہ ثابت ہوا تھا اس کے مقابلے میں یہ نیا انچارج شنکر کمار بہت بد دماغ اور بداخلاق واقع ہوا تھا۔ ہماری پہلے ہی دن سے اس سے ٹھن گئی ، مشکل یہ تھی کہ وہ نیا تھا اور ابھی اسے کام سمجھنا تھا اس لئے وہ ہم سے زیادہ بدتمیزی نہیں کرسکتا تھ...
سیمی کو گئے کئی مہینے ہو گئے تھے اس کی واپسی کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا، اس کا کام بھی ہمارے زمے ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے کام کی تھکن بڑھتی جا رہی تھی۔ کئی بار کام کی زیادتی کی وجہ سے ہمیں دیر تک رکنا پڑتا تھا۔ ہمیں سیمی کا بھی کام کرنے کی وجہ سے کوئی مالی فائدہ بھی نہیں مل رہا تھا...
اگلے روز یعنی جمعے کو ہم عزیزیہ کے ایک پاکستانی ہوٹل میں ناشتہ کرنے کے بعد مکہ شریف کے لیے روانہ ہوئے، جدہ حدود حرم سے باہرحِل کی حدود میں ہے۔ حرم شریف اور میقات کے درمیان کے علاقے کو حِل کہا جاتا ہے اس علاقے میں خود سے اگے درخت کو کاٹنا اور جانور کا شکار کرنا حلال ہے جبکہ اس علا...
ہمارے دوست اظہار عالم کافی عرصے سے جدہ میں مقیم تھے ہم نے عمرہ پر روانگی سے پہلے انہیں فون کرکے اپنی ا?مد کی اطلاع دیدی تھی، طے ہوا تھا کہ وہ جمعرات کو صبح دس بجے باب فہد کے سامنے ایک بینک کے پاس پہچیں گے۔ ہم ساڑھے نو بجے جا کر اس بینک کے سامنے جا کر کھڑے ہوگئے۔ وہاں کافی لوگ موج...
مکہ المکرمہ سے مدینہ شریف کا فاصلہ تقریبا ساڑھے چار سو کلومیٹر ہے، راستے بھر مشہور نعت مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ ذہن میں گونجتی رہی، ہماری آنکھیں سارے راستے پُر نم رہیں۔ مدینے کا راستہ محبت کی معراج کا وہ راستہ ہے جس پر بڑے بڑے صحابہ ، علما، صوفیہ اور بزرگان دین نے...
صبح فجر سے پہلے ہماری بس مکہ مکرمہ کے ہوٹل پہنچ گئی، دل میں عجب سی ہلچل مچی ہوئی تھی، کعبہ شریف کے اس قدر قریب ہونیکا احساس جیسے دل کو الٹ پلٹ کر رہا تھا ، کوشش تھی کہ فوری طور پر حرم شریف پہنچیں اور اللہ کے گھر کا دیدار کریں۔ اللہ کا گھردنیا میں وہ پہلی عبادت گاہ ہے جو انسانوں ک...
نسیم ولا اور کالج میں شب و روز اپنی مخصوص چال سے گزر رہے تھے۔ روز صبح کو شام کرنا اور شام کو صبح کا قالب بدلتے دیکھنا اور اس کے ساتھ لگی بندھی روٹین کو فالو کرنا یہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت بن چکی تھی۔ ایک بے قراری تھی، ایک بے کلٰی تھی جو دل میں بسنے لگی تھی۔ ہم لوگ روٹین کے ایس...
نسیم ولا میں دن اچھے گزر رہے تھے۔ ایک دن باتوں کے دوران ہم نے کہا لگتا ہے ریاض میں کوئی گھومنے کی جگہ نہیں ہے ،ہوتی تو ہم لوگ وہاں کا چکر لگا آتے، نسیم کے علاقے میں جہاں ہمارا ولا تھا وہاں ہمیں نہ تو کوئی پارک نظر آیا تھا نہ کوئی اور ایسی جگہ جہاں آپ تفریح کے لیے جا سکیں۔ سنیم...
رات کے نو بج رہے تھے ہمیں پی ٹی وی سے خبر نامے کا انتظار تھا لیکن خبریں شروع نہیں ہوئیں، ہم نے علی سے کہا نو بج گئے خبرنامہ شروع نہیں ہو رہا پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے، علی بولا نو ہماری گھڑی میں بجے ہیں وہاں پاکستان میں رات کے گیارہ بج رہے ہیں ہمیں احساس ہوا کہ سعودی عرب میں ہم پاکست...
ڈش انٹینا اور اس کا متعلقہ سامان لائے کئی دن گزر چکے تھے۔ ہم چاروں روز سوچتے تھے کہ آج ضرور ڈش انٹینا لگالیں گے لیکن کالج سے آنے کے بعد کھانا پکانے اور کھانے کے بعد اتنا وقت ہی نہیں بچتا تھا کہ چھت پر جائیں اور ڈش انٹٰینا کی تنصیب کا کام مکمل کریں۔ پھر طے پایا کہ یہ کام جمعے کو...