... loading ...
ہمیں کیمپ میں پانچواں روز تھا کہ جمعہ آگیا، یہاں جمعے کو چھٹی ہوتی ہے اس لئے صبح کالج تو نہیں جانا تھا لیکن مشکل یہ آپڑی تھی کہ کیمپ میں وقت کیسے گزرے گا، خیر ہم نے بستر پر پڑے رہنے میں عافیت جانی لیکن دس بجے کے قریب چار و ناچار اٹھنا ہی پڑا۔ ناشتے کے لئے جنادریہ بازار تک جانا ہی تھا، سوچا بن اور جوس لیکر گلزار کی دکان پر بیٹھ جائیں گے ، گلزار سے گپ شپ میں کچھ وقت گزر جائے گا۔بازار پہنچے تو اکثر دکانیں بند نظر آئیں۔ بقالہ کھلا ہوا تھا جہاں سے بن اور جوس کے دو پیکٹ لیکر گلزار کی دکان کی جانب چل پڑے۔ گلزار کی دکان کا شٹر بند تھا اور اس پر لگا تالا ہمارا منہ چڑا رہا تھا۔ہم نے سوچا شائد کچھ دیر میں گلزار آہی جائے یہ سوچ کر وہیں دکان کے باہر ٹہلنا شروع کردیا۔کچھ وقت گزرنے کے بعد پیٹ میں چوہے دوڑتے محسوس ہوئے تو ٹہلتے ہوئے ہی بن کھانا اور جوس پینا شروع کردیا۔گلزار کو نہ آنا تھا سو وہ تو نہ آیا ادھر ہم نے جوس کا دوسرا پیکٹ بھی پی ڈالا۔ گلزار کے نہ ملنے سے جو مایوسی ہوئی تھی اس کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ پہاڑ سا دن گزارنا تھا۔ نہ کوئی مونس و غم خوار تھا نہ کوئی محسن و مربی، نہ کوئی جاننے والانہ ہی کوئی ملنے جلنے والا۔اس حالت میں صبح کو شام کرنا مانو کسی پہاڑ کو سرکرنے جیسا مشکل محسوس ہو رہا تھا۔نیم دلی کے ساتھ واپس کیمپ کی جانب روانہ ہو گئے راستے میں مرکزی مسجد کے قریب سے گزرتے ہوئے خیال آیا کہ جمعے کی نماز کا وقت ہی پوچھ لیں۔اس خیال سے مسجد کے اندر چلے گئے کہ شائد نماز کے اوقات کا کوئی چارٹ لگا ہوا مل جائے، ادھر ادھر دیکھا کوئی چارٹ جیسی چیز نظر نہ آئی، باہرآکر ایک بنگالی بھائی سے پوچھا جمعے کی نماز کب ہوگی، جواب ملا ”بورا بزے“ آجانا۔ہم نے دوبارہ پوچھا ، دوبارہ وہی جواب ملا ”بورا بزے “بولا نا بورا بزے۔ پھر اس نے ہماری کلائی کی گھڑی کی طرف اشارہ کیا اور بارہ کے ہندے پر انگلی رکھ کر بولا ”بورا بزے“۔ اچھا ،بارہ بجے ہم نے گردن ہلاتے ہوئے کہا، ہم نے اس بنگالی بھائی کا شکریہ ادا کیا اور کیمپ کی جانب چل دیئے۔ کیمپ پہنچے تو سوا گیارہ کا وقت تھا، وہاں افراتفری مچی ہوئی تھی ، لوگ غسل خانوں کی جانب لپک رہے تھے جو نہا دھو چکے تھے وہ نماز کے لئے جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ ہم پاکستان میں ڈھائی بجے جمعہ پڑھنے کے عادی تھے یہاں اتنی جلدی جمعے کی تیاری دیکھ کر پریشان ہو گئے۔ دوڑے دوڑے کیبن میں گئے پاکستان سے اپنے ساتھ لائی ہوئی اکلوتی شلوار قمیض نکالی کیونکہ ہم پینٹ شرٹ اور ٹی شرٹ کے کئی جوڑے اپنے ساتھ لائے تھے۔اگلا مرحلہ مزید سخت تھایعنی غسل خانے تک پہنچنا اور بارہ بجے سے پہلے تیار ہو کر مسجد پہنچنا۔جیسے تیسے تمام مراحل عبور کرتے ہوئے مسجد تک پہنچے تو وہاں رش لگا ہوا تھا،بڑی مشکل سے مسجد کے صحن میں جگہ ملی لیکن مشکل یہ تھی کہ صحن پر کوئی سایہ دار چیز موجود نہیں تھی جس کی وجہ سے دھوپ اور گرمی میں نماز پڑھی ، یہاں دعا نماز سے پہلے ہی کر لی جاتی ہے اور خطیب صاحب پہلے سے لکھا ہوا خطبہ جمعہ پڑھتے ہیں۔
آج کل کچھ خطیب حضرات جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بھی کرتے نظرآتے ہیں بعض جمعہ کا خطبہ پڑھنے کے لیے اسمارٹ ڈیوائسز آئی پیڈز وغیرہ کا استعمال کررہے ہیں۔لیکن اس میں اختلاف رائے موجود ہے۔ کچھ مذہبی اسکالروں نے اس رجحان پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے اور ان کا موقف ہے کہ ائمہ اور خطباءکو خطبہ دیتے وقت آئی پیڈز کا سہارا نہیں لینا چاہیے اور اس کے بجائے وہ کاغذ پر لکھے خطبہ کو دیکھ کر پڑھ سکتے ہیں۔ان کا کہنا ہے عبادت گزار مساجد میں روحانی بالیدگی اور ترقی کے لیے آتے ہیں۔اس لیے ان کے احساسات کا احترام کیا جانا چاہیے۔امام کا ایک آئی پیڈ کو دیکھ کر خطبہ پڑھنا بے توقیری کی علامت ہے۔کچھ علما کا کہنا ہے ا مام کے لیے سچ کا لمحہ وہی ہوتا ہے جب وہ منبر پر کھڑا ہوتا ہے۔ایک امام کی آواز کا زیر وبم جتنا قدرتی ہوگا،اس کے اثرات بھی اسی اعتبار سے زیادہ مضبوط ہوں گے۔کاغذ پر لکھے خطبے کو پڑھنا تو ٹھیک ہے لیکن ٹیکنالوجی کو مسجد میں لانے سے گڑ بڑ پیدا ہو سکتی ہے۔لیکن جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے والے علما کا کہنا ہے کہ خطیبوں کو آئی پیڈز یا اسی طرح کی دوسری ڈیوائسز کے استعمال سے روکنے کا کوئی جواز نہیں ہے اور مذہبی وزارت نے ائمہ کو خطبات دیتے وقت آئی پیڈز کے استعمال کی اجازت دے رکھی ہے۔ساڑھے بارہ بجے تک ہم جمعے کی مکمل نماز پڑھ کر مسجد سے باہر نکل آئے۔ مسجد کے باہر توباقاعدہ بازار لگا ہو ا تھا۔ مقامی اور غیر مقامی لوگ پھلوں سبزیوں سے بھری پک اپ گاڑیاں لے کر کھڑے تھے ، کچھ لوگ کپڑے جبکہ کچھ لو گ گھریلو استعمال کی اشیا فروخت کر رہے تھے۔ایک شور مچا ہوا تھا۔نمازی مسجد سے باہر نکل کر خریداری میں مصروف ہو گئے، ہم نے کچھ نہیں لینا تھا اس کے باوجود ہم وہیں کھڑے لوگوں کو خرید وفروخت کرتا دیکھتے رہے۔اچانک ہمارے کاندھے پر کسی نے ہاتھ رکھ دیا، چونک کر دیکھا تو گلزار مسکراتا ہو نظر آیا، ہمیں اس روز گلزار کو دیکھ کر جس قدر خوشی ہوئی بیان نہیں کر سکتے ، گلزار نے سلام دعا کے بعد ہمیں اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی اور ہم اس کے ساتھ چل پڑے۔۔۔۔ جاری ہے
٭٭
سعودی عرب کی زیر قیادت مسلم ممالک کے عسکری اتحاد کی کمان کا معاملہ اس اتحاد کے قیام کے بعد ہی سے پوری مسلم دنیا خاص طورپر پاکستان میں زیر بحث رہا ہے’ یہی وجہ ہے کہ ابتدا میں پاکستان نے اس اتحاد میں شمولیت سے گریز کی کوشش کی تھی لیکن بعد میں بوجوہ پاکستان بھی اس اتحاد میں شامل ہوگ...
سیمی خوش مزاج آدمی تھا اس کے ساتھ کام کرنا اچھا تجربہ ثابت ہوا تھا اس کے مقابلے میں یہ نیا انچارج شنکر کمار بہت بد دماغ اور بداخلاق واقع ہوا تھا۔ ہماری پہلے ہی دن سے اس سے ٹھن گئی ، مشکل یہ تھی کہ وہ نیا تھا اور ابھی اسے کام سمجھنا تھا اس لئے وہ ہم سے زیادہ بدتمیزی نہیں کرسکتا تھ...
سیمی کو گئے کئی مہینے ہو گئے تھے اس کی واپسی کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا، اس کا کام بھی ہمارے زمے ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے کام کی تھکن بڑھتی جا رہی تھی۔ کئی بار کام کی زیادتی کی وجہ سے ہمیں دیر تک رکنا پڑتا تھا۔ ہمیں سیمی کا بھی کام کرنے کی وجہ سے کوئی مالی فائدہ بھی نہیں مل رہا تھا...
اگلے روز یعنی جمعے کو ہم عزیزیہ کے ایک پاکستانی ہوٹل میں ناشتہ کرنے کے بعد مکہ شریف کے لیے روانہ ہوئے، جدہ حدود حرم سے باہرحِل کی حدود میں ہے۔ حرم شریف اور میقات کے درمیان کے علاقے کو حِل کہا جاتا ہے اس علاقے میں خود سے اگے درخت کو کاٹنا اور جانور کا شکار کرنا حلال ہے جبکہ اس علا...
ہمارے دوست اظہار عالم کافی عرصے سے جدہ میں مقیم تھے ہم نے عمرہ پر روانگی سے پہلے انہیں فون کرکے اپنی ا?مد کی اطلاع دیدی تھی، طے ہوا تھا کہ وہ جمعرات کو صبح دس بجے باب فہد کے سامنے ایک بینک کے پاس پہچیں گے۔ ہم ساڑھے نو بجے جا کر اس بینک کے سامنے جا کر کھڑے ہوگئے۔ وہاں کافی لوگ موج...
مکہ المکرمہ سے مدینہ شریف کا فاصلہ تقریبا ساڑھے چار سو کلومیٹر ہے، راستے بھر مشہور نعت مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ ذہن میں گونجتی رہی، ہماری آنکھیں سارے راستے پُر نم رہیں۔ مدینے کا راستہ محبت کی معراج کا وہ راستہ ہے جس پر بڑے بڑے صحابہ ، علما، صوفیہ اور بزرگان دین نے...
صبح فجر سے پہلے ہماری بس مکہ مکرمہ کے ہوٹل پہنچ گئی، دل میں عجب سی ہلچل مچی ہوئی تھی، کعبہ شریف کے اس قدر قریب ہونیکا احساس جیسے دل کو الٹ پلٹ کر رہا تھا ، کوشش تھی کہ فوری طور پر حرم شریف پہنچیں اور اللہ کے گھر کا دیدار کریں۔ اللہ کا گھردنیا میں وہ پہلی عبادت گاہ ہے جو انسانوں ک...
نسیم ولا اور کالج میں شب و روز اپنی مخصوص چال سے گزر رہے تھے۔ روز صبح کو شام کرنا اور شام کو صبح کا قالب بدلتے دیکھنا اور اس کے ساتھ لگی بندھی روٹین کو فالو کرنا یہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت بن چکی تھی۔ ایک بے قراری تھی، ایک بے کلٰی تھی جو دل میں بسنے لگی تھی۔ ہم لوگ روٹین کے ایس...
نسیم ولا میں دن اچھے گزر رہے تھے۔ ایک دن باتوں کے دوران ہم نے کہا لگتا ہے ریاض میں کوئی گھومنے کی جگہ نہیں ہے ،ہوتی تو ہم لوگ وہاں کا چکر لگا آتے، نسیم کے علاقے میں جہاں ہمارا ولا تھا وہاں ہمیں نہ تو کوئی پارک نظر آیا تھا نہ کوئی اور ایسی جگہ جہاں آپ تفریح کے لیے جا سکیں۔ سنیم...
رات کے نو بج رہے تھے ہمیں پی ٹی وی سے خبر نامے کا انتظار تھا لیکن خبریں شروع نہیں ہوئیں، ہم نے علی سے کہا نو بج گئے خبرنامہ شروع نہیں ہو رہا پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے، علی بولا نو ہماری گھڑی میں بجے ہیں وہاں پاکستان میں رات کے گیارہ بج رہے ہیں ہمیں احساس ہوا کہ سعودی عرب میں ہم پاکست...
ڈش انٹینا اور اس کا متعلقہ سامان لائے کئی دن گزر چکے تھے۔ ہم چاروں روز سوچتے تھے کہ آج ضرور ڈش انٹینا لگالیں گے لیکن کالج سے آنے کے بعد کھانا پکانے اور کھانے کے بعد اتنا وقت ہی نہیں بچتا تھا کہ چھت پر جائیں اور ڈش انٹٰینا کی تنصیب کا کام مکمل کریں۔ پھر طے پایا کہ یہ کام جمعے کو...
ہم ڈش انٹینا کا سامان اٹھائے بطحہ کے مرکزی چوک پہنچے تو ایک عجیب منظر ہماری آنکھوں کے سامنے تھا۔ وہاں کچھ ٹیکسیاں اور کاریں کھڑی تھیں جن کے ڈرائیور کاروں کے باہر کھڑے مسافروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے آوازیں لگا رہے تھے۔ خمسہ ریال، خمسہ ریال۔ منظر عجیب اس لیے تھا کہ آوازی...