... loading ...
12ربیع الاول ،محمد عربی ﷺ دنیا میںتشریف لائے ،تخلیق کا ئنات کا مقصد پورا ہوا۔محبوب خدا ﷺنے حضرت آمنہؓ کے گھر میں آنکھ کیا کھو لی،پوری دنیا میںابلیسی قوتیںحیران و ششدر اور جذباتی ہیجان کا شکار ہوگئیں۔دنیا کے کنیسے اور دیگر ایسے ہی کفر و شرک کے مراکز منہدم ہوگئے۔وادی سماویٰ جو شام میں ہے،ہزار سال سے خشک پڑی تھی ، آمد مصطفی کے نتیجے میں پانی کی نعمت سے سرفراز ہوئی ،ہر طرف سے پانی کے چشمے پھوٹ پڑے۔ایوان کسریٰ کے 41کنگرے زمین پر گر پڑے اور فارس کی وہ آگ جو ایک ہزار سال سے مسلسل روشن تھی بجھ گئی۔دنیا کے جادوگروں اور کاہنوں کا ذہن ما وف ہوا ۔اس عظیم الشان شخصیت کی تعریف ،اس کے جلال و کمال کا تذکرہ ،اس کی پیغمبرانہ شان کا ذکر ،انسان کے بس کی بات نہیں۔عاشق رسول ﷺ جناب احمد رضا خان ؒ نے انسان کی اس بے بسی کی کیفیت کو اس شعر میں سمجھایا ہے ۔فرماتے ہیں
” اے رضا خود صاحب قرآن ہے مداح حضور
تجھ سے کب ممکن ہے پھر مدحت رسو ل اللہ کی” حافظ شیرازی ؒ نے بھی اس ٹھوس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان فرما یا ہے ۔
یا صاحب الجمال و یا سید البشر
من وجہک المنیر لقد نو رالقمر
لا یمکن الثنا ءکما کان حقہ
بعد ازخدا بزرگ توایں قصہ مختصر
علا مہ اقبا ل ؒ نے بھی اسی حقیقت کا اظہار کیا ہے اور مختصر الفاظ میں رسول اللہ ﷺ کے پاک اور مقدس وجود کا خلا صہ یوں بیان کیا ہے
وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے
غبار راہ کو بخشا ،فروغ وادی سینا
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآن ،وہی فرقان ،وہی یٰسین وہی طحہٰ
علامہ اقبال ؓ نے محبوب خداکے عشق میں گم ہونے ا ن کے فرمودات کو من و عن قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کو دین و دنیا کی نہ صرف کا میابی قرار دیا ہے بلکہ وہ اس سے بھی آگے کے مقام کی بھی نشاندہی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ،وہ فرماتے ہیں
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
ہادی اعظم ،نور مجسم ، نبی محترم ﷺ کی شان اقدس کو وہ لوگ بھی بیان کرتے نظر آرہے ہیں جنہوں نے بظا ہر اسلام قبول نہیں کیا ۔لیکن ان کی عظمت کا انہیں اعتراف کرنا پڑا۔مہا تما گاندھی اپنے پیروکاروں کو یہ کہتے ہوئے سنا ئی دے رہے ہیں”میں یقین سے کہتا ہوں کہ اسلام بزورِ شمشیر نہیں پھیلا۔ بلکہ اس کی اشاعت کا ذمہ دار رسولِ عربی کا ایمان، ایقان، ایثار اور اوصافِ حمیدہ تھے۔ ان صفات نے لوگوں کے دلوں کو مسخر کر لیا تھا” ۔ معروف ہندو شاعرہ اور دانشور سروجنی نائیڈو برملا اس حقیقت کا اعتراف کرتی ہیں کہ ” اسلام میں حقیقی اور خالص جمہوریت کا رنگ پایا جاتا ہے جو اپنی اعلیٰ شان و شوکت کے لحاظ سے ہمارے زمانے کی نام نہاد جمہوریت سے بدرجہا اعلیٰ تر ہے۔ یہ وہ رنگ ہے جس کو اعلیٰ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کو نہ مذہب عیسوی پیدا کر سکا نہ میرا مذہب جو تاریخ عالم میں بہت پرانا ہے اس کی تخلیق کا موجب ہوا ۔۔بلکہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک مساعی کا نتیجہ ہے©۔
عظیم فرانسیسی سپہ سالار اور شہنشاہ نپولین میرے نبی ﷺکی عظمت کا اعتراف ان الفاظ میں بیان کررہے ہیں
محمدﷺبہت بڑے اور عظیم انسان تھے۔ اس قدر عظیم انقلاب کے بعد اگر کوئی دوسرا ہوتا تو خدائی کا دعویٰ کر دیتا۔
برطانوی ادیب، مضمون نگارو مورخ تھامس کارلائل ،ہمارے نبی کی تعریف ان الفاظ میں ادا کرتے ہیں۔محمد ﷺ حیات ابدی کا نورانی وجود تھے جو قدرت کے وسیع سینے میں دنیا کو منور کرنے کو نکلے تھے۔ بلاشبہ خدا نے اسے دنیا کو منور کرنے کے لیے ہی پیدا کیا تھا۔
نوبل انعام یافتہ ادیب و دانشور، نقاد، ناول نگار، افسانہ نگار جارج برنارڈشا نبی محترم کے لائے ہوئے دین کو ہی مبنی بر حق سمجھتے ہیں ۔لکھتے ہیں
“میں نے ہمیشہ ہی پیغمبرِ اسلام ﷺکے دین کو عزت، عظمت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ دینِ اسلام میں ایک بہت بڑی قوت ہے۔ اسلام ہی ایک ایسا دین ہے جو دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق ہر دور کی رہنمائی کی اہلیت رکھتا ہے۔ میں یہ پیش گوئی بھی کر چکا ہوں کہ سو سال بعد اگر یورپ کا کوئی مذہب ہو گا تو وہ صرف اسلام ہو گا”
معروف بھارتی شاعر،ادیب ،ماہر تعلیم اور استاد پروفیسر جگن ناتھ آزاد میرے نبی ﷺ پر جب سلام بھیجتے ہیں تو یہ اندازہ کرنے میں دقت نہیں پیش آتی کہ جگن ناتھ آزاد اس حقیقت کا اعتراف کرکے مسلم امة کی خوش قسمتی کی داد دے رہے ہیں
سلام ا±س پر ،بنایا جِس نے دیوانوں کو فرزانہ
مئے حِکمت کا چھلکایا جہاں میں جِس نے پَیمانہ
بڑے چھوٹے میں جِس نے ایک اخوت کی بِنا ڈالی
زمانے سے تمیز بندہ و آقا مِٹا ڈالی
مددگار و معاون بے بسوں کا زیر دستوں کا
ضعیفوں کا سہارا اور محسن حق پرستوں کا
سلام ا±س پر کہ جس کے نور سے پر نور ہے دنیا
سلام ا±س پر کہ جس کے نطق سے مسحور ہے دنیا
معروف ہندو شاعرچرن سرن ناز مانک پوری جناب رسول اکرم کی ذات مبارک کے حوالے سے اعتراف حق ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔
جس طرح سے مختص ہے رزاقی خدا کے نام پر
یوں ہی رحمت کا جہاں خیر الوریٰ کے نام پر
ہزاروں اور لاکھوں غیر مسلم شعراء،ادیب، محققین اور دانشور ہیں ،جنہوں نے ہمارے پیارے نبی کی عظمت کو نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ ببانگ دہل اس کا اعلان بھی کیاہے ۔یہ الگ بات ہے کہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے باوجود یہ اہل خرد حلقہ اسلام میں داخل نہ ہو سکے۔شاید اس کی وجہ ہم لوگ ہونگے، جو دعویٰ تو کرتے ہیں ، رسول اکرم کے ساتھ عشق و وفا کا ،لیکن عملاََ زندگی کے ہر شعبے سے اس عظیم رہنما ، ہادی برحق کے فرمودات اور اس کی لائی ہوئی کتا ب قرآن مجید کی تعلیمات کو بے دخل کردیا ہے ۔
علامہ اقبال امت کی زبوں حالی اور حالت زار کا ذمہ داراسی روش کو قرار دے رہے ہیں۔کہتے ہیں
خوار از مہجوری قرآن شدی
شکوہ سنج گردش دوران شدی
(تیری ذلت کا سبب قرآن سے دوری ہے اور تو زمانے کی گردش کے شکوے کررہا ہے)
معروف کشمیری صوفی بزرگ شیخ العالم شیخ نورالدین نورانی ؒ مسلمانوںکی اس روش پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے اپنی ایک نظم میں بیان فرماتے ہیں (ترجمہ)۔۔ اے مسلم ۔۔۔کافروں، برہمنوں اورمشرکوں کا طریقہ ترک کرکے،حق کا راستہ اختیار کر۔مجھے اس بات کا افسوس نہیں کہ تجھے کل جہنم میں ٹھونس دیا جائیگا ،دکھ اور افسوس اس بات کا ہوگا کہ آپ کے جہنم میں جانے سے ،نبی رحمت ﷺکو تکلیف ہوگی ۔قرآن کی تعلیمات اور اسوہ حسنہ کو مشعل راہ بنا کر عصر حاضر میں ہم انفرادی اور سماجی مشکلات پر قابو پا سکتے ہیں۔اللہ ہمیں عشق نبیﷺ سے مالا مال کردے۔قرآن پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جن آزمائشوں سے اس وقت ملت اسلا میہ دوچار ہے ،ان سے خلاصی فرمائے ۔
٭٭