... loading ...
شاہد اے خان
ہمیں انتظار تھا کہ کب میڈیکل کیلیے بلایا جاتا ہے اور کب ہم اسپرین کی گولی سے ایک ٹکڑا توڑ کر یورین ٹیسٹ کی بوتل میں ملاتے ہیں، جلال صاحب کے بتائے اس نسخے نے اگر کام کردیا تو ہماری وطن واپسی پکی تھی۔ اگلے ہی روز ہمیں ایڈمن آفس طلب کیا گیاہم سمجھ گئے میڈیکل کے لیے جانا ہوگا اس لیے بلایا گیا ہے۔ ہم نے خوشی سے بھرپور نعرہ مستانہ بلند کیا، جس سے ہمارا انچارج سیمی بھی چونک اٹھا۔ سیمی نے پوچھا کیا بات ہے کیوں اتنا خوش ہو، ایڈمن نے بلایا ہے کسی حسینہ کے ساتھ ڈیٹ پر تھوڑا ہی جارہے ہو۔ ہم نے مسکرا کر سیمی کی طرف دیکھا اور کہا واپس آکر بتاتے ہیں ہم اتنا خوش کیوں ہیں۔ اورہم خوش خوش ایڈمن آفس کی جانب روانہ ہو گئے ، تیز قدموں سے چلتے پانچ منٹ بعد ہی ہم ایڈمن دفتر کے سامنے تھے، دھڑکتے دل کے ساتھ اندر داخل ہوئے سامنے مصری منیجر بیٹھا تھا ہم نے سلام دعا کی اور خاموش کھڑے ہوگئے۔ منیجر نے میڈیکل کی سلپ ہمارے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا ،ڈرائیور کے ساتھ اسپتال چلے جاؤ، میڈیکل کراؤ اور فوری واپس دفتر آجاؤ۔ ہم سلپ لیکر دوڑے دوڑے پارکنگ کی طرف روانہ ہوگئے۔ ڈرائیور تیار تھا ہمیں لیکر اسپتال کیلیے روانہ ہو گیا۔ کچھ ہی دیر میں ہم اسپتال پہنچ گئے جہاں ہمیں میڈیکل کے مراحل سے گزرنا تھا،ہم اسپتال کے ویٹنگ ایریا میں بیٹھے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے ، اسپتال میں فلپینی نرسوں کو دیکھنے کا موقع بھی مل رہا تھا۔ ویسے تو سعودی عرب میں خواتین کم ہی دکھائی دیتی ہیں اور اگر کہیں نظر آبھی جائیں تو سر سے پیر تک سیاہ برقعے میں ملفوف ہوتی ہیں،لیکن اسپتال میں نرسیں برقع پوش نہیں ہوتیں اور اپنی مخصوص یونی فارم میں خاصی کیوٹ دکھائی دیتی ہیں۔ ہمارے دفتر کے ساتھی پہلے ہی ہم سے کہہ چکے تھے کہ اسپتال میں نرسیں بے حجاب گھومتی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ مہینے پندرہ دن میں سر درد یا پیٹ درد کا بہانہ بنا کر وہ اسپتا ل کا چکر لگا لیتے ہیں اور اس عمل سے سر کا درد دور ہو یا نہ ہو ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک ضرور مل جاتی ہے۔ سعودی عرب میںمجرد افراد کی زندگی انیسویں صدی کے ہمارے شعرا کرام کی زندگی سے بہت ملتی جلتی ہے جنہیں ہر چیز میں صرف صنف نازک ہی دکھائی دیتی تھی۔ علامہ اقبال نے ایسے ہی تو نہیں کہا تھا کہ
وجود زن سے ہے تصویرکائنات میں رنگ
کچھ بات تھی تب ہی کہا تھا۔ صرف ہمارے شعرا کیا دنیا جہان کا تمام ادب صنفِ نازک کے ارد گرد ہی گھومتا ہے۔ سوچیں کہ اگر صنف نازک نہ ہوتی تو سارا کا سارا ادب اور لٹریچر کسی کام کا ہی نہ رہتا۔ صنف نازک کی بات نہ ہوتی تو حضرت میر تقی میرکس کے لبوں کی نازکی بیان کرتے ،اور مومن خاں مومن کس کیلیے کہتے
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
ویسے مومن کے شعر میں تکلم مذکر سے ہے لیکن اشارہ ان کا اپنی محبوبہ کی جانب ہی ہے۔ صنف نازک نہ ہوتی توگلوں میں رنگ کیسے بھرتے اور گلشن کا کاروبار کس طرح چلتا۔
قصہ مختصر ہماری باری آئی اور ہمارا نام پکارا گیا جس کے بعد ہمیں میڈیکل چیک اپ کے لیے ایک کمرے میں پہنچا دیا گیا۔اسسٹنٹ نے ہماری قمیض اور بنیان اتروا دیئے۔ جو ہم نے وہیں لگی ہوئی کھونٹی پر ٹانگ دیئے۔ یہاں ایک ڈاکٹر صاحب موجود تھے ،غالباً ان کا تعلق لیبیا سے رہا ہوگا، لمبا قد، گہرا گندمی رنگ اور گھونگریالے بال۔ انہوں نے ہمارا بلڈ پریشر چیک کیا۔ پھر آلہ لگا کر ہمارے دل کی دھڑکنیں چیک کیں ، ہماری بدقسمتی کہ اس وقت وہاں کوئی نرس موجود نہیں تھی ورنہ ہمارے دل کی دھڑکنیں کچھ بے ترتیب ہو سکتی تھیں اور یوں شائد ہم کو دل کا مریض قرار دیکر میڈیکل میں فیل کردیا جاتا۔ آہ کہ انسان کی تمام خواہشات کب پوری ہوتی ہیں، یہاں سے ہمیں برابر والے کمرے میں لے جایا گیا جہاں ڈاکٹر کے ایک اسسٹنٹ نے ہمارا خون ایک سرنج میں نکالا ، کم بخت نے اس اناڑی پن سے سوئی ہماری نس میں گھسائی کہ نانی یاد آگئی۔ پھر ہمیں ایک شیشی دے کر کہا گیا کہ یورین ٹیسٹ ہوگا ساتھ ہی باتھ روم ہے وہاں چلے جائیں۔ ہماری حالت عجب ہوگئی، اس موقعے کے تو ہم کب سے منتظر تھے، اس ایک لمحے نے ہمیں وطن واپسی کے دلفریب سحر میں مبتلا کیا تھا ، اچانک ہمیں احساس ہوا کہ ہماری قمیض تو برابر والے کمرے میں ٹنگی ہے۔ قمیض کی جیب میں اسپرین کی ٹیبلٹ تھی جسے ہم نے بہت احتیاط کے ساتھ دو ٹکڑے کرکے کاغذ میں لپیٹ کر رکھا ہوا تھا۔ میڈیکل میں فیل ہونے کے لیے ضروری تھا کہ یورین میں اسپرین کی ملاوٹ کی جائے اور اسپرین قمیض کی جیب میں اور قمیض دوسرے کمرے میں تھی۔بیچ میں ایک دروازہ حائل تھا لیکن دروازے میں ڈاکٹر کا اسسٹنٹ سماج کی دیوا ر بنا کھڑا تھا۔۔۔ جاری ہے
٭٭
سعودی عرب اورخلیج کی بعض دیگر ریاستوں کی جانب سے قطر کے بائیکاٹ کے بعد پاکستان کیلئے اس خطے میں اپنی حیثیت خاص طورپر خطے میں توازن پیداکرنے والی قوت کے طورپر اپنی حیثیت برقرار رکھنا بہت مشکل ہوگیاہے۔اب سے پہلے شاید کبھی بھی اس طرح کی مشکل صورت حال کاتصور بھی نہ کیاگیاہوگا۔ نواز ...
تازہ ترین اطلاعات سے انکشاف ہواہے کہ سعودی عرب اور امریکہ نے یمن کے تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنے کے لیے خفیہ طورپر گٹھ جوڑ کرلیا ہے اور اسی گٹھ جوڑ کے نتیجے میں سعودی عرب کی زیر قیادت بننے والے اتحاد کے طیارے یمن پر سعودی عرب کی مسلط کردہ حکومت کے خلاف نبرد آزما مجاہدین پر اندھادھن...
سیمی خوش مزاج آدمی تھا اس کے ساتھ کام کرنا اچھا تجربہ ثابت ہوا تھا اس کے مقابلے میں یہ نیا انچارج شنکر کمار بہت بد دماغ اور بداخلاق واقع ہوا تھا۔ ہماری پہلے ہی دن سے اس سے ٹھن گئی ، مشکل یہ تھی کہ وہ نیا تھا اور ابھی اسے کام سمجھنا تھا اس لئے وہ ہم سے زیادہ بدتمیزی نہیں کرسکتا تھ...
سیمی کو گئے کئی مہینے ہو گئے تھے اس کی واپسی کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا، اس کا کام بھی ہمارے زمے ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے کام کی تھکن بڑھتی جا رہی تھی۔ کئی بار کام کی زیادتی کی وجہ سے ہمیں دیر تک رکنا پڑتا تھا۔ ہمیں سیمی کا بھی کام کرنے کی وجہ سے کوئی مالی فائدہ بھی نہیں مل رہا تھا...
اگلے روز یعنی جمعے کو ہم عزیزیہ کے ایک پاکستانی ہوٹل میں ناشتہ کرنے کے بعد مکہ شریف کے لیے روانہ ہوئے، جدہ حدود حرم سے باہرحِل کی حدود میں ہے۔ حرم شریف اور میقات کے درمیان کے علاقے کو حِل کہا جاتا ہے اس علاقے میں خود سے اگے درخت کو کاٹنا اور جانور کا شکار کرنا حلال ہے جبکہ اس علا...
ہمارے دوست اظہار عالم کافی عرصے سے جدہ میں مقیم تھے ہم نے عمرہ پر روانگی سے پہلے انہیں فون کرکے اپنی ا?مد کی اطلاع دیدی تھی، طے ہوا تھا کہ وہ جمعرات کو صبح دس بجے باب فہد کے سامنے ایک بینک کے پاس پہچیں گے۔ ہم ساڑھے نو بجے جا کر اس بینک کے سامنے جا کر کھڑے ہوگئے۔ وہاں کافی لوگ موج...
مکہ المکرمہ سے مدینہ شریف کا فاصلہ تقریبا ساڑھے چار سو کلومیٹر ہے، راستے بھر مشہور نعت مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ ذہن میں گونجتی رہی، ہماری آنکھیں سارے راستے پُر نم رہیں۔ مدینے کا راستہ محبت کی معراج کا وہ راستہ ہے جس پر بڑے بڑے صحابہ ، علما، صوفیہ اور بزرگان دین نے...
صبح فجر سے پہلے ہماری بس مکہ مکرمہ کے ہوٹل پہنچ گئی، دل میں عجب سی ہلچل مچی ہوئی تھی، کعبہ شریف کے اس قدر قریب ہونیکا احساس جیسے دل کو الٹ پلٹ کر رہا تھا ، کوشش تھی کہ فوری طور پر حرم شریف پہنچیں اور اللہ کے گھر کا دیدار کریں۔ اللہ کا گھردنیا میں وہ پہلی عبادت گاہ ہے جو انسانوں ک...
نسیم ولا اور کالج میں شب و روز اپنی مخصوص چال سے گزر رہے تھے۔ روز صبح کو شام کرنا اور شام کو صبح کا قالب بدلتے دیکھنا اور اس کے ساتھ لگی بندھی روٹین کو فالو کرنا یہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت بن چکی تھی۔ ایک بے قراری تھی، ایک بے کلٰی تھی جو دل میں بسنے لگی تھی۔ ہم لوگ روٹین کے ایس...
نسیم ولا میں دن اچھے گزر رہے تھے۔ ایک دن باتوں کے دوران ہم نے کہا لگتا ہے ریاض میں کوئی گھومنے کی جگہ نہیں ہے ،ہوتی تو ہم لوگ وہاں کا چکر لگا آتے، نسیم کے علاقے میں جہاں ہمارا ولا تھا وہاں ہمیں نہ تو کوئی پارک نظر آیا تھا نہ کوئی اور ایسی جگہ جہاں آپ تفریح کے لیے جا سکیں۔ سنیم...
رات کے نو بج رہے تھے ہمیں پی ٹی وی سے خبر نامے کا انتظار تھا لیکن خبریں شروع نہیں ہوئیں، ہم نے علی سے کہا نو بج گئے خبرنامہ شروع نہیں ہو رہا پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے، علی بولا نو ہماری گھڑی میں بجے ہیں وہاں پاکستان میں رات کے گیارہ بج رہے ہیں ہمیں احساس ہوا کہ سعودی عرب میں ہم پاکست...
ڈش انٹینا اور اس کا متعلقہ سامان لائے کئی دن گزر چکے تھے۔ ہم چاروں روز سوچتے تھے کہ آج ضرور ڈش انٹینا لگالیں گے لیکن کالج سے آنے کے بعد کھانا پکانے اور کھانے کے بعد اتنا وقت ہی نہیں بچتا تھا کہ چھت پر جائیں اور ڈش انٹٰینا کی تنصیب کا کام مکمل کریں۔ پھر طے پایا کہ یہ کام جمعے کو...