... loading ...
وقت آگیا ہے کہ ہم اردو کی اس اصطلاح میں اب کشادگی پیدا کرکے اس میں اسٹریٹ آرٹ کو بھی شامل کرلیں۔پچھلے دنوں یہاں سندھ میں پی ٹی آئی کے ایک رکن اورنگزیب نے ایک تحریک شروع کی تھی۔ایک احتجاجی تحریک۔وہ اسٹینسل پر قائم علی شاہ جو اس وقت سندھ کے وزیر اعلیٰ تھے ان کی تصویر اور اس کے نیچے انگریزی میں Fix-itکے الفاظ جن کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ ’’ اسے ٹھیک کرو‘‘ سے ایسا پیغام اس جگہ نقش کردیتے تھے جہاں یا تو گٹر کا ڈھکن غائب ہوتا یا جہاں کچرے کا ڈھیر لگا ہوتا تھا۔ان کی اس حرکت سے پہلے تو سندھ حکومت نالاں ہوئی اور جب اس تحریک کو میڈیا اچھالنے لگا اور خود اورنگ زیب صاحب بھی حد سے کچھ تجاوز کرنے لگے تو انہیں پابند سلاسل کردیا گیا۔ اب وہ باب گمنامی میں کہیں گم ہوگئے ہیں۔
ہمیں یہاں دکھائی دینے والے اس اسٹریٹ آرٹ سے شدید چڑ ہے جو اکثر دیواروں پر یا تو ٹرکوں والے آرٹ کے نمونے منقش کردیتا ہے یا کالے اسٹینسل سے بار بار دہرائے گئے مناظر سے دیواروں کو آلودہ کرتا ہے۔ہمارا خیال یہ ہے کہ اسٹریٹ آرٹ ایک گہرے نازک خیال کو فنکارانہ مشاقی سے کم سے کم انداز میں بیان کرے تو اسٹریٹ آرٹ کہلانے کا مستحق قرار پاتا ہے۔دنیا بھر میں اس کی کئی مثالیں مختلف دیواروں پر آویزاں دکھائی دیتی ہیں۔ان دیواروں پر اسے دو انداز سے پرکھا
جاتا ہے کہ یہ کیا عوام کو باخبر رکھنے کے لیے کسی قسم کا معصومانہ احتجاج ہے یا یہ سرمایہ کارانہ نظام کے خلاف عام آدمی کا ایک anti-capitalistاعلان جنگ ہے۔
اس کے خالق فن کار ایک طرح سے خاموشی سے یہ پیغام بھی دے رہے ہوتے ہیں کہ کوئی فن پارہ اگر کسی میوزیم یا آرٹ گیلری میں نہیں سجایا گیا تو اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ اس کی دنیائے مصوری میں کوئی اہمیت نہیں۔ اس کے مخالفین اسے شہری نوجوانوں کی ایک طرح کی بے راہ روی(vandalism)کا درجہ دیتے ہیں۔
اسٹریٹ آرٹ کے حوالے سے دنیا بھر میں مشہور ترین نام برطانیہ کے آرٹسٹ Banksy کا ہے جنہیں سن2010 میں مشہور رسالے ٹائم میگزین نے دنیا بھر کے ان سو افراد کی فہرست میں شامل کیا تھا جنہیں اس وقتmost influential people قرار دیا تھا۔اس فہرست میں براک اوباما۔ایپل کے مالک اسٹیو جاب اور مشہور گلوکارہ لیڈی گاگا بھی شامل تھے۔بنکسی کو اسٹریٹ آرٹسٹ،فلم ساز، پینٹر، فعال (activist) اور ہمہ جہت محرک (provocateur) کا درجہ دیا گیا۔ بنکسی جنہیں گمنام رہنے کا بے حد شوق ہے اور بہت کم لوگ ان کی وجاہتی شناخت سے واقف ہیں انہوں نے اس موقعے پر اپنی جو تصویر شائع ہونے کے لیے فراہم کی اس میں وہ کاغذ کی ایک تھیلی
recyclable میٹریل کی بنی تھی۔یہ ان کا جنگلات کی بے دریغ کٹائی کے خلاف احتجاج تھا،جن سے کاغذ اور دیگر اشیا بنائی جاتی ہیں۔ان کے آرٹ کے نمونے اب تو لاکھوں ڈالر میں فروخت ہوتے ہیں جنہیں دیگر فن کاروں نے یورپ اور امریکہ کی مختلف دیواروں پر اپنا خاموش احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے نقل کیا ہے۔ان کے بارے میں ایک فلم بھی بنی جس کا نام ہے Exit Through the Gift Shop ۔ یہ فلم آسکر ایوراڈ کے لیے بھی نامزد ہوئی تھی۔برطانیہ میں جب وہ محض ایک گمنام نوجوان تھے انہوں نے شہر برسٹل میں جب اپنی پہلی پینٹنگ ایک دیوار پر بنانے کی کوشش کی تو آزادیء اظہار کی اس مملکت میں پولیس انہیں پکڑنے آگئی اور انہوں نے بمشکل کچرے کے ایک ٹرک کے نیچے چھپ کر اپنی جان بچائی۔
چند برسوں بعد جب حالات نارمل ہوئے تو انہوں نے چند فن کاروں کے ساتھ مل کر ایک سرنگ کو سفید رنگ کیا اور اپنے فن پارے تخلیق کیے اس دیکھنے پانچ ہزار افراد آئے۔یہ ان کا آرٹ کی مہنگی دنیا کے خلاف پہلا باقاعدہ احتجاج تھا۔ اس کی تخلیق پر بہت کم لاگت آئی تھی مگر اس نے دنیا بھر کے نو آموز جدہوجہد میں مصروف فن کاروں کو بہت حوصلہ افزائی فراہم کی۔بنکسی اپنے فن میں اسٹینسل کا استعمال کرتے ہیں۔ان میں سیاہ اسپرے پینٹ نمایاں ہوتا ہے۔
بنکسی کو اصل شہرت اس وقت ملی جب وہ اسرائیل کے شہر بیت اللحم گئے۔وہاں کی دیواروں پر انہوں نے نو ایسے فن پارے پینٹ کیے جس سے اسرایئل میں آگ لگ گئی اور اس کی روشنی سے انٹرنیٹ جگمگا اٹھا۔ان کی ایک تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ اسرائیل کو پیغام دے رہے ہیں کہ اگر فلسطینوں پر ظلم ہوگا تو وہ پھولوں کے گلدستے یقینا فوجیوں پر نہیں پھینکیں گے۔
ان کا آخری فن پارہ جو بہت باعث نزاع بنا وہ ایک بچے کی تصویر تھی جو ایک جلتا ہوا ٹائر ہانکتا ہوا لے جارہا ہے ۔یہ ایک اسکول کی دیوار کے باہر بنایا گیا تھا ۔اسکول کا ارادہ غریب بچوں کی فیس میں اضافے کا ارادہ تھا۔ وہ اسکول کی انتظامیہ کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ اس وجہ سے جو بچے تعلیم سے محروم
رہ جایئں گے، وہ احتجاج کی تحاریک کا حصہ بن جائیں گے۔اسی طرح کی ایک تصویر جس میں بچی ایک بم کو تھامے کھڑی ہے وہ ان کی اس مخالفت کا حصہ ہے جو انہوں نے برطانیہ کی عراق کی جنگ میں شمولیت پر کی تھی۔بنکسی ایک دن چپ چاپ سے امریکہ کے شہر نیویارک میں سڑک پر اسٹال لگا کر بیٹھ گئے۔سنٹرل پارک کے باہر بہت سے فن کا ر سڑک پر اپنے اسٹال لگا کر بیٹھتے ہیں کسی کو علم ہی نہ ہوا کہ دنیا کا مشہور آرٹسٹ بھی اپنا ٹھیہ سجائے بیٹھا ہے۔ایک فن کارہ سب سے مہنگا تھا، ساٹھ ہزار ڈالر کا۔ایک طالبہ کو بہت پسند آیا
۔ وہ معصومیت سے کہنے لگی کہ اسے ان کی گمنامی سے کوئی سروکار نہیں۔وہ کون ہیں یہ بھی اسے معلوم نہیں مگر تصویر وہ خریدنا چاہتی ہے۔اس کے پاس کل بیس ڈالر ہیں جو اس نے رات بھر کی ملازمت سے کمائے ہیں۔ وہ آج بھوکی رہ سکتی ہے اگر وہ یہ فن پارہ اس رقم میں فروخت کریں تو ان کی مہربانی ہوگی۔بنکسی نے اسے کہا وہ یہ رقم اپنے پاس رکھے،کھانا بھی ضرور کھائے اور تصویر مفت میں لے جائے۔بعد میں جب اسے یہ معلوم ہوا کہ وہ تو بنکسی کے فن پارے کے مالک بن گئی ہے تو اس نے اسے فروخت کرکے اپنی تعلیم مکمل کی۔ایسا ہی معاملہ ہندوستان کے مشہور بوہری آرٹسٹ مقبول فدا حسین (المعروف ایم۔ایف۔حسین جسے وہ مادھوری ڈکشٹ سے اپنے دلی لگائو کی وجہ سے مادھوری کا فین حسین بھی کہتے تھے) کے ساتھ بھی پیش آیا ، وہ بہت غریب تھے شہر الور کے ایک سرکاری اسکول میں پڑھتے تھے اور فلموں کے اشتہار پینٹ کرتے تھے۔انہوں نے اپنی دو درجن تصاویر کی ایک نمائش اسکول کے اس کمرے میں منعقد کی، جہاں سے وہ غربت کی وجہ سے تعلیم منقطع کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔یہ وہ زمانہ تھا جب ان کی تصویر کم از کم تیس ہزار ڈالر کی فروخت ہوتی تھی۔کلاس میں کل چوبیس بچے زیر تعلیم تھے۔بہت سے مالدار افراد ان تصاویر کی خریداری کے مشتاق تھے۔منتظمین پربہت دبائو تھا۔حسین صاحب نے نمائش کے آخری دن اپنی پسندیدہ تصویر کے پاس اس پر اپنی رائے ایک رجسٹر پر منقول کرکے کھڑے ہوجائیں۔انہوں نے یہ تصاویر ان ہی بچوں کو مفت میں دے دیں۔ان کی مالیت ان دنوں سات کروڑ بیس لاکھ روپے بنتی تھی۔
اب آپ جان گئے ہوں گے کہ اسٹریٹ آرٹ اہل معاملہ سے ایک سوال پوچھتا ہے۔ان کی توجہ کسی بے حسی کی طرف دلاتا ہے۔امریکہ میں اب دیواروں پر بلااجازت لکھی جانے والیgraffiti اور متعلقہ افراد یا ادارے کی اجازت لے کر بنایا جانے آرٹ ایک دوسرے سے جدا کردیا گیا ہے۔پہلا ناپسندیدہ عمل Vandalism اور دوسرا آرٹ تصور کیا جاتا ہے۔پہلے کو وہ جرائم میں اضافے کا باعث سمجھتے ہیں اور اسے اب وہ the Broken Window Theory کا نام دیتے ہیں۔دوسرے نمونے میں اب کئی فن کار اپنی تصاویر بناتے ہیں، کہیں کہیں ڈیجٹل طور پر دور سے ایک خاص پیغام یا تصویر کسی اہم مقام پر پروجیکٹ کرتے ہیں۔
بعض مقامات پر وہ Street installations
بھی 3-D اشیا سے آویزاں کرتے ہیں۔
اس مضمون کو پڑھ کر ممکن ہے ہمارا نوشتہء دیوار بھی مرقعہء خیال آفرینی اور فن بن جائے،