... loading ...
کالج سے واپسی پر کچھ دیر اپنے کیبن میں آرام کرنے کے بعد ہم پھر گلزار کی دکان پر پہنچ گئے ،گلزار گرمجوشی سے ملا ، کھانے کی دعوت بھی دے ڈالی جو ہم نے قبول کرلی لیکن گلزار سے یہ بات منوا لی کہ وہ اور ہم کھانے کا خرچہ شیئر کریں گے، ہم نے گلزار سے کہا بھائی اب تو رات کا کھانا روز ہم نے ساتھ کھانا ہے اس لئے بہتر ہے کہ ہم پیسے ملا کر کھانا اکھٹے بنایا کریں۔ ایک اور بات ہم نے منوائی اور وہ یہ کہ پیاز ٹماٹر وغیرہ کاٹنے کا کام ہم سرانجام دیں گے اور سالن بنانے کا کام گلزار کے ذمے ہوگا۔ بقالے سے روٹیاں لانے کا کام بھی ہم نے اپنے ذمے لے لیا۔ ناشتے میں جوس اور بن سے کام چل رہا تھا ، دوپہر کا کھانا ہم نے گول کر دیا تھا ، کیونکہ کالج میں کوئی کینٹین وغیرہ نہیں تھی۔ کالج اسٹاف اور طلبا کے کھانے کیلئے بہت بڑا میس ہال تھا اور غیر متعلقہ لوگوں کو وہاں جانے کی اجازت نہیں تھی۔ رات کے کھانے کا مسئلہ تو گلزار نے حل کر دیا تھا مسئلہ بس ایک تھا کہ ہم کو گلزارکی دکان میں بیٹھنا پڑرہا تھا اور وہ بھی ایسے کہ کسی کی نظروں میں نہ آئیں یعنی کسی فریج وغیرہ کے پیچھے اسٹول پر بیٹھ جاتے تھے، گلزار کائونٹر پر گاہکوں سے نمٹتا تھا، کسی چیز کی مرمت میں لگا رہتا اور ساتھ ہی سالن کی ہانڈی میں چمچہ بھی چلاتا جاتا۔ ہم زیادہ سے زیادہ مسجد اور بقالے تک کا چکر لگا لیتے تھے۔ زندگی صبح کالج جانے شام کو واپس آنے، کچھ دیر آرام کرنے اور پھر گلزار کی دکان پر جانے اور کھانا کھا کر واپس اپنے کیمپ آنے کا نام ہو گئی تھی۔ چوتھے ہی روز ہم اس شدید اکتا دینے والی روٹین سے بیزار ہو گئے۔ کالج سے واپس اپنے کیبن میں پہنچے تو دل میں عجیب سی اداسی کا بسیرا تھا۔ گھر شدت سے یاد آرہا تھا، وہ سڑکیں جن سے گزرتے ہوئے گندگی اور بے ترتیب ٹریفک کے علاوہ کوئی قابل ذکر بات نظر نہیں آتی تھیں جانے کیوں بے طرح یاد آرہی تھیں۔ گھر کے درودیوار جنہیں وہاں رہتے ہوئے شائد کبھی غور سے دیکھا بھی نہیں ہوگا ، نظروں کے سامنے اس طرح آرہے تھے جیسے کوئی مدت کا بچھڑا عزیز دروازے پر کھڑا پکار رہا ہو۔ ابا سے ہونے والی کھٹی میٹھی نوک جھونک ، بھائیوں سے ہونے والی نرمی گرمی ، دوستوں کی تو تکرار سب نے مل کر دل کو ایسا تھیٹر بنا دیا تھا جس کے اکلوتے ناظر ہونے کے ناطے ہم نے ضبط کا بند توڑنا ہی غنیمت جانا۔ دل بہت بوجھل ہو رہا تھا کیبن سے اٹھ کر باہر نکل آئے، کیمپ کے باہر کمپنی کی گاڑیاں کھڑی تھیں، ہم خالی ذہن لئے بس کا دروازہ کھول کر ایک سیٹ پر جا کر بیٹھ گئے۔ جیسے یہ بس ہمیں واپس ہمارے گھر پہنچا دے گی۔ خیالات فلم کی صورت ذہن کے پردے پر چل رہے تھے، خیال کیا تھے جیسے یادوں کی آندھی تھی جو ہر قسم کی سوچ اور احساس کو اڑا لے جا رہی تھی۔ غصہ ، یاسیت ، اداسی ، درد سب نے مل کر غم کی ایسی کیفیت بنا دی کہ دن رات کا احساس بھی مٹ گیا۔
سورج کب ڈوبا ، چاند کب نکلا، تارے کب بکھرے کچھ پتہ نہ چلا ،آنکھ کھلی تو شام رات کی کالی چادر اوڑھ کر سو چکی تھی، ہمارے اٹھنے سے کسی کی نیند خراب نہ ہو جائے اس خیال سے بس کی سیٹ کوہی بستر بنالیا، اندھیرے کو اوڑھا اور رات کے ساتھ ہم بھی سو گئے۔ صبح خورشید جہاں تاب نے بس کی کھڑکی سے تیز کرنوں کے بھالے مارنے شروع کیے تو آنکھ کھل گئی۔ نیند آئی تھی یا ساری رات نیند کے انتظار میں گزاری تھی کچھ یاد نہیں آرہا تھا، ذہن جیسے ابھی تک سو رہا تھا۔ جیسے تیسے اپنے کیبن میں پہنچے ، کالج جانے کی تیاری شروع کی ،جانے کا دل بالکل بھی نہیں چاہ رہا تھا، دل کو تو بس گھر جانے کی چاہ تھی لیکن یہ چاہ ایسی نہیں تھی کہ فوری پوری ہو سکے۔ جائوں نہ جائوں کی کشمکش میں بس بھی نکل گئی آخر کار قرعہ فال کالج جانے کے نام نکلا کیونکہ وہاں وقت کچھ اچھا گزر جاتا ورنہ کیمپ میں تو وقت کاٹے نہیں کٹنا تھا۔ بس تو نکل ہی چکی تھی پیدل جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا اس لئے چل پڑے۔ کالج پہنچ کر سیدھا جلال صاحب کی طرف گئے ، کیا ہوا میاں، رات بھر سوئے نہیں کیا، شکل پر اتنی تھکن کیوں نظر آرہی ہے، جلال صاحب نے ہمیں دیکھتے ہی کئی سوال جڑ دیے۔ ہم نے خالی آنکھوں سے جلال صاحب کو دیکھا اور پھر خالی آنکھیں بھر آئیں… جاری ہے
سیمی خوش مزاج آدمی تھا اس کے ساتھ کام کرنا اچھا تجربہ ثابت ہوا تھا اس کے مقابلے میں یہ نیا انچارج شنکر کمار بہت بد دماغ اور بداخلاق واقع ہوا تھا۔ ہماری پہلے ہی دن سے اس سے ٹھن گئی ، مشکل یہ تھی کہ وہ نیا تھا اور ابھی اسے کام سمجھنا تھا اس لئے وہ ہم سے زیادہ بدتمیزی نہیں کرسکتا تھ...
سیمی کو گئے کئی مہینے ہو گئے تھے اس کی واپسی کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا، اس کا کام بھی ہمارے زمے ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے کام کی تھکن بڑھتی جا رہی تھی۔ کئی بار کام کی زیادتی کی وجہ سے ہمیں دیر تک رکنا پڑتا تھا۔ ہمیں سیمی کا بھی کام کرنے کی وجہ سے کوئی مالی فائدہ بھی نہیں مل رہا تھا...
اگلے روز یعنی جمعے کو ہم عزیزیہ کے ایک پاکستانی ہوٹل میں ناشتہ کرنے کے بعد مکہ شریف کے لیے روانہ ہوئے، جدہ حدود حرم سے باہرحِل کی حدود میں ہے۔ حرم شریف اور میقات کے درمیان کے علاقے کو حِل کہا جاتا ہے اس علاقے میں خود سے اگے درخت کو کاٹنا اور جانور کا شکار کرنا حلال ہے جبکہ اس علا...
ہمارے دوست اظہار عالم کافی عرصے سے جدہ میں مقیم تھے ہم نے عمرہ پر روانگی سے پہلے انہیں فون کرکے اپنی ا?مد کی اطلاع دیدی تھی، طے ہوا تھا کہ وہ جمعرات کو صبح دس بجے باب فہد کے سامنے ایک بینک کے پاس پہچیں گے۔ ہم ساڑھے نو بجے جا کر اس بینک کے سامنے جا کر کھڑے ہوگئے۔ وہاں کافی لوگ موج...
مکہ المکرمہ سے مدینہ شریف کا فاصلہ تقریبا ساڑھے چار سو کلومیٹر ہے، راستے بھر مشہور نعت مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ ذہن میں گونجتی رہی، ہماری آنکھیں سارے راستے پُر نم رہیں۔ مدینے کا راستہ محبت کی معراج کا وہ راستہ ہے جس پر بڑے بڑے صحابہ ، علما، صوفیہ اور بزرگان دین نے...
صبح فجر سے پہلے ہماری بس مکہ مکرمہ کے ہوٹل پہنچ گئی، دل میں عجب سی ہلچل مچی ہوئی تھی، کعبہ شریف کے اس قدر قریب ہونیکا احساس جیسے دل کو الٹ پلٹ کر رہا تھا ، کوشش تھی کہ فوری طور پر حرم شریف پہنچیں اور اللہ کے گھر کا دیدار کریں۔ اللہ کا گھردنیا میں وہ پہلی عبادت گاہ ہے جو انسانوں ک...
نسیم ولا اور کالج میں شب و روز اپنی مخصوص چال سے گزر رہے تھے۔ روز صبح کو شام کرنا اور شام کو صبح کا قالب بدلتے دیکھنا اور اس کے ساتھ لگی بندھی روٹین کو فالو کرنا یہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت بن چکی تھی۔ ایک بے قراری تھی، ایک بے کلٰی تھی جو دل میں بسنے لگی تھی۔ ہم لوگ روٹین کے ایس...
نسیم ولا میں دن اچھے گزر رہے تھے۔ ایک دن باتوں کے دوران ہم نے کہا لگتا ہے ریاض میں کوئی گھومنے کی جگہ نہیں ہے ،ہوتی تو ہم لوگ وہاں کا چکر لگا آتے، نسیم کے علاقے میں جہاں ہمارا ولا تھا وہاں ہمیں نہ تو کوئی پارک نظر آیا تھا نہ کوئی اور ایسی جگہ جہاں آپ تفریح کے لیے جا سکیں۔ سنیم...
رات کے نو بج رہے تھے ہمیں پی ٹی وی سے خبر نامے کا انتظار تھا لیکن خبریں شروع نہیں ہوئیں، ہم نے علی سے کہا نو بج گئے خبرنامہ شروع نہیں ہو رہا پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے، علی بولا نو ہماری گھڑی میں بجے ہیں وہاں پاکستان میں رات کے گیارہ بج رہے ہیں ہمیں احساس ہوا کہ سعودی عرب میں ہم پاکست...
ڈش انٹینا اور اس کا متعلقہ سامان لائے کئی دن گزر چکے تھے۔ ہم چاروں روز سوچتے تھے کہ آج ضرور ڈش انٹینا لگالیں گے لیکن کالج سے آنے کے بعد کھانا پکانے اور کھانے کے بعد اتنا وقت ہی نہیں بچتا تھا کہ چھت پر جائیں اور ڈش انٹٰینا کی تنصیب کا کام مکمل کریں۔ پھر طے پایا کہ یہ کام جمعے کو...
ہم ڈش انٹینا کا سامان اٹھائے بطحہ کے مرکزی چوک پہنچے تو ایک عجیب منظر ہماری آنکھوں کے سامنے تھا۔ وہاں کچھ ٹیکسیاں اور کاریں کھڑی تھیں جن کے ڈرائیور کاروں کے باہر کھڑے مسافروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے آوازیں لگا رہے تھے۔ خمسہ ریال، خمسہ ریال۔ منظر عجیب اس لیے تھا کہ آوازی...
ہم کھانے کے لیے بیٹھ چکے تھے، صورتحال یہ تھی کہ سب کے حصے میں ایک ایک روٹی اور ایک ایک کباب آیا تھا، ہمارے حصے میں صرف ایک روٹی آئی تھی پھر منیب کو شائد ہماری حالت پر رحم آگیا اور اس نے ہمیں کچن میں جا کر مزید ایک کباب تلنے کی اجازت دیدی۔ ہم جلدی جلدی میں کباب تل کر واپس لوٹے تو ...