... loading ...
میں 16سال7مہینے سے اپنے وطن ،اپنے گا ؤں ،اپنے محلے ،اپنے گھر ،اپنے رشتے ،اپنے دوستوں اور اپنے ہم وطنوں سے دورجوانی کا سفر طے کرکے بڑھاپے میں داخل ہو چکا ہوں ۔۔۔۔۔۔یہ دوری کتنی تکلیف دہ ہے اس کا بہتر اندازہ وہی لوگ کرسکتے ہیں،جو ایسے حالات سے یا تو دوچار ہوئے ہوں یا دوچار ہیں ۔کئی بار دل چا ہتا ہے کہ اس دوری اور جدائی کو تحریر کی شکل دوں ۔لیکن قلم یہ کہانی لکھتے وقت رک جانے کا مشورہ دیتا ہے، زبان کہنا شروع کردے تو آنکھیں آنسو بہانے کی تیاری شروع کردیتی ہیں،نتیجہ ابراہیم ذوق جیسی صورتحال ہونے کا احتمال رہتا ہے
؎ایک آنسو نے ڈبویا مجھ کو ان کی بزم میں
بوند بھر پانی سے ساری آبرو پانی ہوئی
یا توہین صبر کا خیال سا منے آڑے آتا ہے
؎پلکوں کی حد کو توڑ کے دامن پر آگرا
ایک آنسو میرے صبر کی توہین کرگیا
اس ساری صورتحال سے بچنے کیلیے زبان کو بھی لگام دینی پڑتی ہے ۔موضوع بدلنا پڑتا ہے ،چہرے پر مسکراہٹ سجانی پڑتی ہے ۔شدت جذبات زیادہ خطرناک رخ اختیار کرنے کی کوشش کریں تو سر کے بالوں پر ہاتھ پھیر کر ، ایک مصنوعی قہقہہ لگاکر یہ تاثر دینے کی کو شش کی جاتی ہے کہ جیسے سب کچھ ٹھیک جارہا ہے۔
ایک معروف شاعر نے کیا خوب مشورہ دیا ہے
؎ایک چراغ ، ایک کتاب اور ایک امید اثا ثہ
اس کے بعد تو جو کچھ ہے وہ سب افسانہ ہے
اس فلسفے پر جب سے عمل شروع کیا ہے ،کا فی حد تک اطمینان حاصل ہوااور امیدکے چراغ جل اٹھے۔زمینی حقائق بھی یہی ہیں کہ زندگی کے کچھ ایام ہیں جہاں جینے کا موقع ملے ،حوصلے ،ہمت اور صبرکے ساتھ جئے جائیں۔اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آج مجھے اچانک یہ مہاجرت کے ساڑھے پندرہ سال یاد کیوں آئے ۔اس کا سبب وادی سے آئے ہوئے ایک دوست بنے ،جن سے 20سال بعد ملاقات ہوئی۔ وہ دوست جس کے ساتھ بچپن اور جوانی کا بیشتر حصہ گزراہے۔اسکول اور کالج ایک ساتھ جا تے رہے۔ کبھی ایک دوسرے سے جدا ہونا بھی مشکل ہوجاتا تھا تو کبھی ہفتوں مہینوں ایک دوسرے سے روٹھ کر بات کرنا بھی چھوڑ دیتے ۔پھراچانک ایک دوسرے سے جدا ہو گئے اور آج اچانک 20سال بعد غیر متوقع طور پر پھر ملے ۔کھٹی میٹھی یادوں کا ایک دور سامنے آیا۔دل دھک دھک کرنے لگا لیکن بہت ہی صبر و حوصلے کا بھر پور مظا ہرہ کرکے گلے ملے۔ معاملات آنکھیں نم ہونے تک محدود ر کھے۔نمکین چا ئے کا سہارا لیکر کا فی دیر تک گفتگو کرتے رہے،دوسری ملاقات پرمزید گفتگو کرنے کے وعدے کے ساتھ رخصت مانگی ۔ وہ رخصت کرنے گھر سے باہر تک آئے ۔دوبارہ گلے ملے لیکن۔۔۔ صورتحال یکسر بدل گئی۔ دوست ضبط کا دامن چھوڑ گئے۔ایک بچے کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے، لپٹ لپٹ کر مجھے چومنے لگے۔ میرے وجود کا کڑا امتحان شروع ہوا۔میں نے ہر ممکنہ کو شش کی کہ صبر و عشق کے اس امتحان میں ناکام نہ ہوجاؤں ۔لیکن کچھ دیر کی مزاحمت بالآخر نا کا می پر منتج ہوئی۔میری آنکھوں کوشاید بہت مدت بعد کھل کر آنسو بہانے کا موقع ملا۔۔۔اللہ رحم فرمائے۔
5سال پہلے سندھ سے تعلق رکھنے والے میرے دوست معروف ما ہر ابلاغ اور صحا فی ماجد صدیقی نے 2010ء میںشائع میری کتاب “کشمیر کا مقدمہ “پر ایک بھر پور تبصرہ لکھا تھا۔اس کا ایک پیرا گراف یہاںلکھنا مناسب سمجھتا ہوں تاکہ نہ صرف میری کہانی بلکہ ہر مہاجرکشمیری کی کہانی کو سمجھنے میں تھوڑی بہت مدد ملے۔
” دھرتی ماں ہوتی ہے۔جس کی آغوش میں سر رکھ کے سویا جاتا ہے،بچھڑنے پر رویا جاتا ہے ۔شیخ صاحب گزشتہ دس برس اپنی دھرتی ماں کے آغوش سے دور،حالت اضطراب میں ہیںاور بن جل مچھلی کی طرح ہیں۔یہ وجہ ہے کہ شیخ صاحب کی بات بات میں کشمیر کی کہا نی بسی ہوئی ہے۔ان اپنوں کی کہانی ،جنہوں نے چلنا ،پھرنا اور بولنا سکھایا ۔اس ماں کی کہانی جس نے دور پار اپنے لخت جگر کی یاد میں آنکھیں موندھ لیں۔اس عظیم باپ کی کہانی جس نے ہر قیمت پر گردن اٹھاکے جینے کی ہمت اورحوصلہ دیا۔ان بھائیوں کی کہانی جن کو اپنے وجود سے الگ کرنا گناہ ِعظیم ہوگا۔ا ن گلیوں کی کہانی جہاں پیروں کے نشان اگر کوئی مٹانا بھی چاہے تو ہر بار ناکام رہے گا۔اور چنار کے ان رنگ برنگے درختوں کی کہانی جو کشمیر اور اس کے بچوں کی نا ختم ہونے والی شاندار قربانیوں کے گواہ ہیں اور رہیں گے۔ـ”
دوست سے ملاقات ہوئی۔سب یادیں تازہ ہوئیں، ضبط کا بندھن ضرور ٹوٹ گیا لیکن امید کا دامن نہیں چھوٹا۔ جگر مراد آبادی بہت پہلے ہمیں یہ سمجھا چکے ہیں کہ
؎طول غم ِ حیات سے گھبرا نہ اے جگرؔ
ایسی بھی کوئی شام ہے جس کی سحر نہ ہو
٭٭
کشمیری پاکستانیوں سے سینئر پاکستانی ہیں کہ پاکستان کا قیام14 اگست 1947 کو وجود میں آیا اس سے قبل تمام لوگ ہندوستان کے شہری تھے جو ہندوستان سے ہجرت کر کے جب پاکستان میں داخل ہوئے وہ اس وقت سے پاکستانی کہلائے لیکن کشمیریوں نے 13 جولائی1947کو پاکستان سے الحاق کا اعلان کرتے ہوئے ریا...
اکتوبر2015ء میں جب کشمیر میں تاریخی معرکے لڑنے والے ابوالقاسم عبدالرحمن شہادت کی خلعت فاخرہ سے سرفراز ہوئے توابوالقاسم شہیدکے قافلہ جہاد سے متاثر برہان مظفروانی نامی ایک چمکتا دمکتاستارہ جہادی افق پرنمودارہوا۔اس نے تحریک آزادی کشمیر میں ایک نئی رُوح پھونک دی۔ برہان وانی ایک تو با...
امریکا نے بھارتی وزیرِ اعظم نریندرا مودی کے دورۂ امریکا کے موقع پر بھارت کے زیرانتظام کشمیر کے مسلح رہنما محمد یوسف شاہ عرف سید صلاح الدین کو ’خصوصی طورپر نامزد عالمی دہشت گرد‘ قرار دے دیا ہے۔بھارت نے جہاںامریکا کے اس اعلان کا خیرمقدم کیا ہے، وہیں پاکستان کے دفترِ خارجہ نے اپنے ...
پرنٹ میڈیا سے لے کر الیکٹرانک میڈیا تک آج ہر جگہ ایک ہی بات موضوع بحث بنی ہوئی ہے کہ آخر فوج اور دوسری سیکورٹی ایجنسیوں کے’’ہتھیار بندمجاہدین‘‘کو گھیرنے کے بعدکشمیر کی نہتی عوام انہیں بچانے کے لیے اپنی زندگی کیوں داؤ پر لگا دیتی ہے ؟حیرت یہ کہ عوام کچھ عرصے سے تمام تر تنبیہات ...
اب اورجنازے اٹھانے کی سکت نہیں رہی ہے ہم میں ۔کشمیر گزشتہ دو سو برس میں کئی بار جلا،اس کے گام و شہرکو کھنڈرات میں تبدیل کر دیاگیا ۔اس کی عزتیں لوٹی گئیں۔ اس کے بزرگوں کو بے عزت کیا گیا ۔اس کی بیٹیاں لا پتہ کر دی گئیں ۔اس کی اکثریت کے جذبات کو بوٹوں تلے روندا گیا ۔اس کی اقلیت کو و...
جس دن اہلِ پاکستان کشمیریوں کے ساتھ یومِ یکجہتی کشمیر منا رہے ہیں اور مظفر وانی شہید کی شہادت سے شروع ہونے والی مزاحمتی تحریک ایک نیا جنم لے چکی ہے،عین اُسی دن بھارت کے وزیر اعظم نریندرا مودی امریکا یاترا کوپدھاریں گے۔ جہاں اہلِ نظر مودی اور ڈونلڈ ٹرمپ میں یکسانیت ڈھونڈنے میں مصر...
ایجنٹ انگریزی زبان کا لفظ ہے مگر یہ دنیا کی اکثر زبانوں میں اس قدر بولا جاتا ہے کہ گویا ہر زبان کا لفظ ہو ۔اس کی وجہ شاید صرف یہ ہے کہ اس لفظ کو ہر شخص بلا کم و کاست اپنے دشمن کے لیے استعمال کرتا ہے ۔دنیا میں جتنے بھی انسان رہتے ہیں ان کے ارد گرد صرف ان کے دوست ہی نہیں بستے ہیں ب...
فدائین نے رنگروٹہ کے اس فوجی کیمپ پر دھاوا بولا جس میں ایل او سی اور پاکستانی علاقے پر بلااشتعال فائرنگ کی منصوبہ سازی ہوتی تھی ،ذرائع۔درجنوں بھارتی فوجی زخمی۔3فدائین کی شہادت کی بھی اطلاعات ۔بھارتی فوج مظالم سے جذبہ آزادی کو ختم نہیں کرسکتی ،حریت رہنما ۔۔۔مقبوضہ کشمیر میں بڑھتی...
8 جولائی 2016ءسے اب تک ہم پر کیا گزری اور کیا گزر رہی ہے ،دنیا کے لوگ کیسے سمجھ سکتے ہیں جبکہ ہمارے پاس انھیں سنانے کے ذرائع بالکل معدوم ہیں۔خبروں کی ترسیل کے تیز ترین ذرائع دلی کے پاس ہیں۔ سینکڑوں نیوز چینلز کے مالکان اُن کے غلام ہیں۔معروف نیوز ایجنسیاں ان کی مرضی سے چلتی ہیں ۔ا...
28فروری2002ء جب گجرات میں مسلم کش فسادات پھوٹ پڑے اور بی جے پی ،شیو سینا،بجرنگ دل کے غنڈوں نے گجرات کے ہزاروں مسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ لیے، عفت مآب خواتین کی عصمت دری کی۔ اورمحتاط اندازے کے مطا بق ایک لاکھ لوگوں کو بے گھر کردیا ۔ نریندر مودی اس وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے...
کالم کے عنوان پر بعض لوگ مسکرانے پر اکتفا کریں گے ،بعض قہقہے بھی لگا سکتے ہیں لیکن شاید یہ بھی ممکن ہے کہ بعض لوگ اسے اپنی توہین سمجھ کر ،نا زیبا زبان کا استعمال کرتے ہوئے راقم کو ریاست دشمن بھی قرار دے سکتے ہیں۔لیکن میری گزارش ہے کہ یہ الفاظ استعمال کرنے کی صرف میں ہی گستاخی نہی...
امام الانبیاء جناب محمد عربی ﷺ کی اپنی اولاد میں صرف بیٹیاں ہی زندہ رہیں بیٹے حضرت ابراہیمؓ کا بچپن میں ہی انتقال ہوگیا۔ بیٹیوں میں سب سے پیاری سیدۃالنساء حضرت فاطمۃالزھرارضی اللہ عنہا تھیں ۔ان کا نکاح آپﷺ نے حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ سے کیا۔ان کی اولاد میں حضرت حسن وحضرت حسی...