وجود

... loading ...

وجود

گورنر اور پکوڑے

منگل 22 نومبر 2016 گورنر اور پکوڑے

کوئی دن جاتا ہے کہ گورنر سندھ تبدیل کردیا جائے گا۔ مگر اس فیصلے سے وابستہ ذہن اور ذہنیت ہمیشہ موضوع بحث رہے گی، جیسا کہ یہ کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا کہ کبھی عدالتِ عظمیٰ پر ایک لشکر چڑھ دوڑا تھا۔ کبھی عدلیہ تقسیم کردی گئی تھی اور انصاف سیاسی مقاصد کے لیے جنسِ بازار بن گیا تھا۔ ماضی مٹتا ہی نہیں۔ہمیشہ یاد رہنے والے داغستان کے نامور ادیب رسول حمزہ توف نے کہا تھا کہ ’’اگر تم ماضی کو پستول کا نشانا بناؤ گے تو مستقبل تمہیں توپ کا نشانا بنائے گا۔‘‘
جسٹس(ر) سعید الزماں صدیقی جب سندھ کے گورنر بنائے گئے تو ایسا نہیں تھا کہ اُن کی عمر اور صحت کا ارباب اقتدار کو اندازا نہ ہو، مگر بات ہی دوسری تھی۔ ذرا اس بات کو کچھ وقت کے لیے نظر انداز کیجیے۔عدالت عظمیٰ کے عزت ماب منصف نے فرمایا کہ اخبار کو چھوڑیئے اگلے دن اس میں پکوڑے فروخت ہورہے ہوتے ہیں۔ برادرم ارشاد عارف نے اس کا بُرا منایا اور مثالوں سے ثابت کیا کہ اخبار عدالتوں میں ہمیشہ قابلِ لحاظ اور نظیروں میں شامل رہے۔ سچ کہا مگر ایک سچ اور بھی ہے۔ اخبارات کی حرمت کی اب کسے پروا ہے؟ وہ حرف جو حرمت آشنا تھے، کہیں حرفِ غلط کی طرح مٹ مٹا گئے۔ اب اخبارات نہیں کچھ اور چھپتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اخبارات کے مالکان اور مدیران بُرا مناتے۔ مگر موٹے پیٹوں کے لشکر کو یہ بات گراں ہی نہ گزری۔ پھر عزت ماب منصف نے درست ہی فرمایا ہوگا۔ گالی کھانے والا  آدمی ہی گالی کا مستحق بھی ہوتا ہے۔ اخبار کی پوری برادری نے بات گوارا کر لی۔ بابائے صحافت ضمیر نیازی اب اپنی قبر میں آسودہ سوتے ہیں، کبھی اُن کی زندگی رہنمائی کی دھوپ دیتی تھی۔ اب کہاں ، اب کہاں!!!!اُن کی کتابیں گاہے صحافت کے طالب علموں کو جذبات سے دہکادیتی ہیں۔ کیا تاریخ ایسے بھی تحریک دیتی ہے؟برصغیر کی صحافت اپنی تاریخ میں ایسی کبھی نہ تھی، اس کاآغاز ہی ولولہ انگیز تھا۔ ضمیر نیازی نے لکھا ہے کہ اس خطے میں صحافت اور اس کے مصائب نے ایک ساتھ جنم لیا۔ یہاں تو اخبار جاری کرنے کا پہلا خیال ہی قید خانے کے اندر پیدا ہواتھا۔ اب اخبار کے ڈیکلریشن سلاخوں کے پیچھے ریاستی طاقت کے ذریعے اپنے دستر خوانی قبیلے کے سرخیلوں کو چھین کر مرحمت کرائے جاتے ہیں۔ وقت بدلا تو محترم منصف کے الفاظ بھی بدل گئے۔ یہ انصاف کی تاریخ نہیں ، تاریخ سے انصاف بھی ہے۔ مگر پورا نہیں۔
کبھی یہاں مولانا ظفر علی خان ہوتے تھے، اب اُن کے تاجر ہیں۔ مگر سرکار کی خدمت میں ایک اور راز بھی آشکار کرنے کی ضرورت ہے۔ صحافت نے ہی نہیں انصاف نے بھی زوال کا منہ دیکھا ہے۔ عدالت کے ایسے کون سے فیصلے ہیں جو کاغذ پر چھپ کر زرق برق لباس پہن سکے۔ چاندنی کے ورقوں میں لپٹ سکے۔آبرو کی خلعت فاخرہ پہن سکے۔ گستاخی معاف اس پر کوئی منطقی مکالمہ (Reasoned Discourse) کہاں موجود ہے؟سقراط کی لاش عدالت کے کندھے پر آج بھی دھری ہے۔ ابھی وہ فیصلہ آئے چند روز ہی تو ہوئے جس میں دو بے گناہ بھائیوں کی بے گناہی کا اعلان کیا گیا توعدالت کو معلوم تک نہ تھا کہ وہ اس فیصلے سے بے نیاززنداں سے قبرستان پہنچ گئے ۔ معلوم نہیں یہ فیصلے کن کاغذوں پر لکھے جاتے ہیں؟ مگر مولانا ابوالکلام آزاد کے یہ الفاظ حرمت آشنا کاغذ پر جگمگاتے ہیں کہ ’’دنیا میں سب سے زیادہ ناانصافیاں محاذِ جنگ کے بعد عدالتی محاذ پر ہوئیں۔‘‘
سال 1997ء کا یہی ماہ نومبر تھا۔ عدالت نے اپنے فیصلے اخبار سے بھی کم قیمت کاغذوں پر لکھے تھے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عدالت عظمیٰ میں کورٹ روم نمبر ایک کی تختی دو کمروں کے دروازوں پر آویزاں تھیں۔ اور ایک کمرے سے دوسرے کمرے کے احکام کالعدم کرنے کے فیصلے سنائے جارہے تھے ۔ ایک کمرے کے اہلکار دوسرے کمرے کے خلاف عدالتی احکامات کے کاغذ لے کر دوڑتے پھرتے تھے۔ یہ فیصلے معلوم نہیں کن کاغذوں پر چھپے ہیں؟تب عدالت عظمیٰ کے منصف اعظم سجادعلی شاہ نے وطن واپسی پر قائم مقام چیف جسٹس کے مخالف فیصلوں پر یہ ریمارکس دیئے تھے کہ ’’قائم مقام چیف جسٹس کی ایکٹنگ ختم ہوگئی۔‘‘یہ عدالتی بحران کا نقطہ عروج نہیں بلکہ اخلاقی بحران کا نقطہ کھولاؤ بھی تھا۔ درست بات تو یہ ہے کہ تب وہ اخبارات جس پر اگلے دن پکوڑے فروخت ہوتے ہیں مکمل عدلیہ کے بجائے انتظامیہ کے حامی تھے۔شاید کچھ لوگوں نے اُن ہی اخبارات پر پکوڑے کھائے ہوں! ادارے نہیں افراد کی وفادار یہ صحافت بھی چمک کی شکار ہے۔مگر معزز عدلیہ کے تو کیا ہی کہنے!!اب وہ گورنر سندھ ہوتے ہیں ، جناب جسٹس سعید الزماں صدیقی صاحب، تب وہ خود بھی اپنے ادارے کے نہیں بلکہ انتظامیہ کے وفادار تھے۔ وہ عدلیہ میں منصفوں کے ایک گروہ کی دوسرے کے خلاف سرپرستی فرما رہے تھے۔ وہ معزز منصفین جو تب اپنے ہی چیف جسٹس کو چارج شیٹ کررہے تھے، اُن میں جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی بھی شامل تھے۔ اُن کی وفاداری ہمیشہ نون کے حلقوں میں قا بل قدر رہی۔اور دسترخوانی قبیلے نے اُنہیں بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ مگر تکریم کا مستقل فیصلہ تاریخ کے دوام میں ہوتا ہے، موٹے پیٹوں کے لشکروں کی لمبی زبانوں پر نہیں۔ ایک حتمی فیصلہ بآلاخر صادر ہوکر رہے گا۔آخر ایک ایسے شخص پر گورنر کے لیے نگاہ انتخاب کیوں ٹہری جو پیمپر پہن کر گورنر ہاؤس پہنچا اور اپنے قارورہ کو سنبھال نہیں پاتا۔وہ وقت بھی زیر بحث رہے گا جب عدالت عظمیٰ میں ایک اہم مقدمے کے ہنگام جسٹس سعید الزماں صدیقی گورنر بنائے گئے۔ کیا اس کا کوئی پیغام تھا۔بدعنوانوں کی دولت تو سات پردوں اور سات سمندر پار چھپ جاتی ہے۔مگر تاریخ کے دامن میں اخفا کے پردے نہیں ہوتے۔ وہ سب کچھ بے نقاب کردیتی ہے۔ کوئی دن جائے گا جب گورنر سندھ تبدیل کردیئے جائیں گے۔ مگر یہ بات بھی کسی دن طشت ازبام ہو جائے گی کہ وہ کیونکر گورنر بنائے گئے؟اور خاطر جمع رکھیں یہ بات بھی اخبار میں ہی چھپے گی۔یاد رہے صرف پکوڑے ہی اخبار میں نہیں ملتے ، کبھی کبھی اخبار کی خبر بھی ایسی ہوتی ہے جو لوگوں کے لیے پکوڑوں سے زیادہ پُرلطف ثابت ہوتی ہے۔
٭٭


متعلقہ خبریں


گورنر سندھ کی تبدیلی کا فیصلہ ، نون حکومت نے تین ناموں پر مشاورت شروع کردی! وجود - بدھ 28 دسمبر 2016

وفاقی حکومت نے گورنر سندھ جسٹس ریٹائرد سعید الزماں صدیقی کی تبدیلی کا حتمی فیصلہ کرلیا ہے۔ اسلام آباد میں موجود وجود ڈاٹ کام کے انتہائی قابل اعتماد ذرائع کے مطابق مسلم لیگ نون کی حکومت سندھ میں اب ایک فعال گورنر کو دیکھنا چاہتی ہے جو جسٹس سعید الزماں صدیقی کی صورت میں ممکن نہیں۔...

گورنر سندھ کی تبدیلی کا فیصلہ ، نون حکومت نے تین ناموں پر مشاورت شروع کردی!

مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر