... loading ...
8 جولائی 2016ءسے اب تک ہم پر کیا گزری اور کیا گزر رہی ہے ،دنیا کے لوگ کیسے سمجھ سکتے ہیں جبکہ ہمارے پاس انھیں سنانے کے ذرائع بالکل معدوم ہیں۔خبروں کی ترسیل کے تیز ترین ذرائع دلی کے پاس ہیں۔ سینکڑوں نیوز چینلز کے مالکان اُن کے غلام ہیں۔معروف نیوز ایجنسیاں ان کی مرضی سے چلتی ہیں ۔اخبارات اور ان کے مدیران نے دلی میں براجمان وزیراعظم کے موڈ کی رعایت کرنا اپنا شعار بنا لیا ہے ۔ایسے میں ایک ”غدار قوم“پر ٹوٹی قیامت کی داستانِ غم دنیا کے آزاد لوگ کیسے جان سکتے ہیں۔ ہم اہل اردو بھی ایک دوسرے کو ہی سناتے ہیں پر یہاں حالات ایسے پیدا کئے گئے ہیں کہ ایک دوسرے کو سنانے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی ہے اور تواور کشمیر ایک ایسا خطہ ہے جہاں عزیزوں کے قتل ہو جانے کے بعدآنسو بہانے کی بھی اجازت نہیں ہے ۔8جولائی سے اب تک انٹرنیٹ بند ہے۔ کیوں؟اس لیے کہ کشمیری اپنی داستانِ غم دنیا کو سنا سکتے ہیں ۔تو بہتر یہ ہے کہ انھیں گھٹ گھٹ کر مرنے دیا جائے۔ اس لیے اس کیفیت سے کسی کو ہو یا نہیں کم از کم نئی دہلی میں براجمان ”گجراتی ٹیم“کو مسرت حاصل ہو جاتی ہے ۔نہیں تو کیا دنیا میں آدم سے لیکر اب تک کسی قوم کے معصوم بچوں کو اندھا بنانے کا حوصلہ کسی نمرودو فرعون یا چنگیز نے کیا ہے ؟ شاید اسی لیے” آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز“کے آنکھوں کے ماہر ڈاکٹروں کی ایک ٹیم جب کشمیر پہنچی تواس نے صورتحال کو دھماکا خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں جنگ جیسی صورتحال ہے۔ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر سدرشن کولکرنی نے میڈیا کے ساتھ بات کرتے ہو ئے کہا کہ ایسی صورتحال صرف جنگ زدہ علاقوں میں ہی ہوتی ہے اور ہم نے یہ صورتحال پہلے کھبی نہیں دیکھی ہے۔ ڈاکٹر سدرشن نے کہا ” میں نے اپنے 35سالہ کیرئیر کی سروس میں کھبی بھی ایسی صورتحال نہیں دیکھی ہے کیونکہ ایسی صورتحال صرف جنگ زدہ علاقوں میں ہی ہوتی ہے جہاں اتنی تعداد میں لوگ پیلٹ لگنے سے زخمی ہوئے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اواخر جولائی میں عدالت عالیہ نے مفاد عامہ عرضی پر سماعت کے دوران انتظامیہ کو صورتحال کے حوالے سے مکمل رپورٹ پیش نہ کرنے پر کھری کھری سناتے ہوئے کہاکہ یہ بات یاد رہے کہ جو بھی شخص اپنی بینائی کھودیتا ہے وہ اس دنیا کوہی کھو دیتا ہے اس کی کائنات ہی چلی جاتی ہے۔ اخبارات میں شائع تصویر کا حوالہ دیتے ہوئے ڈویژن بنچ نے کہاکہ اخبار میں 5سالہ بچے ناصر کی پیلٹ سے زخمی چہرے اور آنکھ کو دیکھیں،اس تصویر کی طرف کوئی حساس روح دیکھنے کی جرا¿ت نہیں کر سکتی ۔پانچ سالہ بچے پر آپ سنگبازی کا الزام نہیں لگا سکتے ہیں۔
جی!ایک دانش کو لیجئے اس نے اپنے گھر کی حالت سدھارنے اور سنبھالنے کیلیے بہت سے خواب دیکھے تھے۔ لیکن 2016ءکی احتجاجی تحریک میںاس کے خوا ب چکنا چورہو گئے ۔ جولائی کے مہینے میں احتجاجی مظاہروں کو روکنے کیلیے فورسز اہلکاروں نے جب قہر برپا کیاتو دانش بھی اسکی لپیٹ میں آگیا۔فورسز کی کارروائی میں زخمی افراد میں وہ لوگ بھی شامل ہےں جو اپنے کنبے کیلیے روٹی کاانتظام کرنے کیلیے گھروں سے باہر آئے تھے مگرفورسز کی فائرنگ کا شکار ہوکراب زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ دانش احمد بٹ پریہ افتاد اس وقت ٹوٹ پڑی جب ”ہال شوپیاں“ میں سی آر پی ایف اہلکاروں نے اندھادھند فائرنگ کر کے دانش کو شدید زخمی کردیا۔زخمی دانش کو سرینگر کے صدر اسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ کافی دنوں تک زیر علاج رہا۔دانش احمد بٹ کے بقول والد کے انتقال کے بعد اس نے پڑھائی چھوڑ دی اور گھر میں موجود ماں اور چھوٹے بھائی کو سہارا دینے کیلیے ڈرائیوری کا پیشہ اپنایا۔10جولائی کو شام 7بجے روز مرہ کی طرح جب وہ گاڑی کو مالک کے گھر چھوڑنے کے بعد اپنے گھر کی طرف لوٹ رہا تھا تو ہال چوک میں سڑک سنسان تھی، ہر طرف بڑی تعداد میں پتھر اور انیٹیں بکھری ہوئی تھیںاور مظاہرین کی طرف سے ٹائر جلائے گئے تھے۔ سڑک پراکا دکا لوگ ہی چل رہے تھے۔” دانش آہستہ آہستہ سڑک پر چل ہی رہا تھاکہ عین اسی وقت ہال چوک میں جپسی میں سوار سی آر پی ایف اہلکار نمودار ہوئے اورانہوںنے بغیر کسی اشتعال کے سڑک پر چلنے والے لوگوں پر بندوقوں کے دہانے کھول دئے اور چاروں طرف گولیاں چلائیں۔دانش کو پہلی گولی پیٹ میں پیوست ہوگئی ، گولی لگتے ہی وہ گرپڑا اور اپنے ہوش کھو بیٹھا۔ دانش نے جب آنکھ کھولی تو خود کو اسپتال کے بستر پردراز پایا،اسپتال پہنچے کے بعد پتا چلا کہ اس کی بازو میں بھی گولی لگی ہے۔“ زخمی دانش کے چہرے پر ایک اداسی چھائی ہوئی ہے جو اس بات کا اظہار کررہی ہے کہ وہ اپنے کنبے کیلیے وہ سب کچھ نہیں کرپایاجو والد کے انتقال کے وقت ذمہ داریاں سنبھالتے ہوئے اس نے سوچا تھا۔دانش بھی ان سینکڑوں بد نصیب نوجوانوں میںشامل ہے جن کو فورسز نے جان بوجھ کرنشانہ بنا یا۔
وانی محلہ کھنموہ (سری نگر)کے ایک باپ کے تھرتھراتے جسم کو دیکھ لیجیے، اس کے قدم لڑ کھڑارہے ہیں حالانکہ اس کی عمر ابھی لڑ کھڑانے کی نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ اس کی دنیاتب سے تاریک ہو چکی ہے جب سے اس نے اپنے 17 سالہ بیٹے کی لاش اپنے کندھوں پر اٹھائی ہے ۔یہ جولائی ہی کا مہینہ تھا کہ”شہید سمیر“ گھر سے پھوپھی کو عید کی دعوت دینے کیلیے نکلا مگر دوبارہ لوٹ کر نہیں ۔آیا بھی تو اس حال میں سارے علاقے کو رُلا دیا۔سمیر احمد وانی غریب والد کا ہاتھ بٹانے کے لیے ساتویں جماعت میں ہی تعلیم کو خیر آباد کہہ گیا تھا۔ سمیر کے والد بشیر احمد وانی ”کان میں مزدوری“ کا کام کرتا ہے ۔بڑی مشکل سے اپنے بچوں اور اہل و عیال کی پرورش کر پاتا ہے۔ وہ اس بات کی آس لگائے بیٹھے تھے کہ انکے بچے انکی پیری کا سہاراہی نہیں بنےں گے بلکہ ان کے بڑے ہوتے ہی انھیں مزدوری سے نجات مل جائے گی۔ مگر سمیر کی موت نے تو جیسے اس کی کمر توڑ دی۔بشیر احمد کی آنکھوں سے صاف جھلکتا ہے کہ کان کنی میں ہزاروں من پتھر سے زیادہ اس کے کندھوں پر اس کے جواں سال بیٹے کے تابوت کا بوجھ تھا جو اٹھایا ہی نہیں جا رہا تھا۔ان کا کہنا ہے کہ کم عمری میں ہی سمیر بڑا سمجھدار اور سنجیدہ مزاج کا مالک تھا۔سمیر کے والد کا کہنا ہے کہ10جولائی کو انکا بیٹااپنی پھوپھی کو عید کی دعوت پر بلانے کیلیے گھر سے روانہ ہواپانپور کے نئے بس اڈاکے نزدیک وہ بنڈ کے راستے پھوپھی کے گھر کی طرف جارہا تھا تو اسی اثناءمیں فورسز کی ایک گاڑی آگئی اور اس نے سمیرکو ہدف بنا کر گولی مار دی جس کی وجہ سے وہ شدید زخمی ہوا۔زخمی سمیر کو صورہ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ پہنچایا گیا۔کچھ دیر میں اہل خانہ کو یہ خبر مل گئی تو جیسے آسمان ان پر گر پڑا۔والد نے کہا کہ ہم صورہ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ پہنچے جہاں سمیر کا آپریشن کیا جا رہا تھا۔ اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھتے ہوئے بشیر احمد کا کہنا ہے کہ سمیر کے پیٹ میں گولی پیوست ہوئی تھی۔پندرہ دنوں میں ڈاکٹروں نے سمیر کے تین آپریشن کئے تاہم24جولائی کو وہ ابدی سفر پر روانہ ہوا۔بشیر احمد وانی کا کہنا ہے کہ انکی دنیا ہی اب ویران ہوچکی ہے کیونکہ ان کے جگر کا ٹکڑا سمیر اب ان میں موجود نہیں رہا۔
18سال کے عاقب کو لیجیے مقدر کی ماری اس کی ماںاوربھائی آہیں بھر کر اپنی بے بسی کا اظہار کررہے ہیں۔تینوں کو دیکھتے ہی یہ گماں کرنا مشکل نہیں کہ اس کنبے پر کوئی بڑی افتاد آن پڑی ہوگی۔عاقب کے ٹانگ کی تین بار اب تک جراحی کی جاچکی ہےں۔اپنی ٹانگ پر لگی گولی کے بارے میں عاقب بتاتا ہے کہ ایک دن سہ پہرکے قریب ساڑھے 4بجے میں گھر سے نکلا اور شالہ ٹینگ چوک میں پہنچا،وہاں اس وقت بہت کم لوگ تھے لیکن کشیدگی تھی، کچھ فاصلے پر سیکورٹی اہلکار کھڑے تھے انہوں نے ان کواپنے پاس بلایا پھر اندھا دھند طریقے سے اس پر ٹوٹ پڑے۔اسی دوران میری ٹانگ پر گولی بھی چلائی گئی اور میں پہلے سے زمین پر گرتے ہوئے بیہوش ہوگیا“۔عاقب کا کہنا ہے بعد میں کچھ لوگوں نے مجھے اسپتال پہنچایا۔ عاقب جیسے اور بہت سارے لڑکے اور اس سے بھی کم عمر کے بچے اسی طرح کی صورتحال سے دوچار ہوئے ہیں لیکن عاقب کی کہانی قدرے الگ ہے۔عاقب ابھی ماں کی پیٹ میں ہی تھا کہ اسکے والد کو فورسز اہلکاروں نے شہید کیاتھا۔عاقب کی والدہ کا کہنا ہے کہ26سال قبل 1990میں اسکے خاوند محمد اشرف بٹ، جو پیشے سے ڈرائیور تھا، کو فورسز اہلکاروں نے ڈلگیٹ سرینگرمیں شہیدکیا۔پھر6 سال بعد1996 میں عاقب کی والدہ نے پہلے خاوند کے بھائی کیساتھ دوسری شادی کی تاکہ بچوں کو سہارا مل سکے۔انکی زندگی ابھی سنورنے ہی جارہی تھی کہ بٹہ مالو میں فائرنگ کا ایک اور دلخراش واقعہ پیش آیا۔اس واقعہ کو یاد کرتے ہوئے اسکا کہنا ہے کہ میرے دوسرے خاوند منظور احمد، جو پیشے سے ایک ٹیلر ماسٹر تھے، کو ”بٹہ مالو بس اڈہ“ کے نزدیک فائرنگ کے واقعہ کے دوران فورسز نے شہید کیا۔ صرف عاقب کے باپ اور چاچاکوہی شہیدنہیں کیا گیا بلکہ اسکے ماموں،مامی اور ماموں زاد بھائی کو بھی شہید کیا جا چکا ہے جبکہ نانی کے ہاتھ میں گولی لگی جس کے باعث ان کے ہاتھ کی تین انگلیاں کاٹنی پڑیں۔ عاقب اس وقت ماںکے پیٹ میں ہی تھا۔عاقب نے بتایا کہ مزدوری کرتا ہوں، تھوڑی بہت پڑھائی کی لیکن بہت غریب ہونے کی وجہ سے مزدوری کرنے کو ہی ترجیح دی تاکہ اپنے غریب کنبے کے دال چاول کا انتظام ممکن ہو سکے، عاقب شیشے کی مزدوری کرتا ہے، وہی اس کاروزگار ہے لیکن اب وہ بھی نہیں کرسکتا۔“ٹانگ میں بہت نزدیک سے گولی ماری گئی ہے اس لیے زخم بھی بہت گہرا ہے اور ٹانگ کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں ہیں۔
لولاب کے16سالہ طالب علم ٹانگ اور آنکھوں میں درد سے زبردست بے چینی میں ہے اور بار بار بستر پر ہی موجود اسکی والدہ کی گود میں سر ڈال رہا ہے تاکہ اس کو درد سے راحت مل سکے ۔ جہانگیر نامی یہ طالب علم نا قابل برداشت درد میں مبتلا ماں کی آغوش میں منہ چھپا رہا تھا۔شائد والدہ کی گود میں سر ڈالنے سے اس کو راحت محسوس ہو رہی تھی۔15جولائی کو لولاب میں احتجاجی مظاہروں اور آنسو گیس شلنگ کی گونج سنائی دے رہی تھی، جہانگیر کووالدین نے گھر سے دور آدھ کلو میٹر ہمشیرہ کے گھر بھیجا تاکہ وہ وہاں سے اپنے بھانجے کو لائے۔ ماموں کا معصوم کمسن نواسہ ٹیر گیس شلو ں سے گھبرا رہا تھا اس لیے انھوںنے سوچا کہ اس کو ننھیال لایا جائے۔ جہانگیر کے بقول بہن کے گھر پہنچنے سے قبل ہی وہ جب اس جانب رواں تھا تو اس کو پیاس لگی۔ پیاس بجھانے کیلیے جب وہ ایک ٹیوب ویل کے نزدیک پہنچا تو پانی پیا لیکن اچانک گولیاں چلنے کی آوازیں سنیں۔جہانگیر حالات کو سمجھ ہی رہا تھا کہ اچانک اس کی ٹانگ میں در دپیداہوا اور وہ اچانک گر پڑا۔ مقامی لوگ جمع ہوئے اور انہوں نے احتجاج کرتے ہوئے جہانگیر کو اسپتال پہنچانے کی کوشش کی تاہم پولیس اہلکاروں نے لوگوں کو منتشر کرنے کیلیے گولیاں چلائی ا ور پیلٹ بندوق کے دہانے کھول دئے جس کی وجہ سے لوگ زخمی جہانگیر کو خون میں لت پت ہوتے ہوئے بھی وہیں چھوڑ کر چلے گئے اور جہانگیر کی آنکھوں پر بھی پیلٹ لگے۔ جس گاڑی میں جہانگیر کو اسپتال پہنچانے کی کوشش کی جا رہی تھی اس کی بھی توڑ پھوڑ کی گئی حتیٰ کہ جہانگیر کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ جہانگیر کی والدہ کا کہنا ہے کہ انہیں قریب 10 بجکر 30 منٹ پر یہ خبر ملی کہ جہانگیر کو گولیاں مار دی گئی ہے اور زخمی حالت میں اس کو سرینگر کے صدر اسپتال منتقل کیا گیا ۔جس کے فوراً بعد انہوں نے سرینگر کا رخ کیا اور جہانگیر کو متغیر حالات میں دیکھا۔ان کا کہنا ہے کہ رفتہ رفتہ جہانگیر کی حالت میں اگر چہ بہتری نظر آرہی ہے تاہم انہیں اپنے جگر پارے کی آنکھوں کی روشنی کے بارے میں سخت فکر ہے۔انہوں نے کہا کہ جہانگیر کا والد ایک نجی اسکول میں استادہے اور اس کا بھائی بھی مدرس ہے۔ جہانگیر کو بھی وہ استاد بنانا چاہتی تھی مگر وقت کے اندھیروں نے ہمارا خواب چکنا چور کیا۔
15 سالہ آصف جو خاموش تماشائی بنا ہوا اندر اور باہر جانے والے لوگوں پر اپنی نظریں جمائے بیٹھا ہے۔آٹھویں جماعت میں زیر تعلیم آصف 22 جولائی سر پر گولی لگنے سے شدید زخمی ہوا جس کو فوراً اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹروں نے آپریشن کرکے اسکی جان تو بچالی مگر گولی لگنے سے آصف اپنی آواز کھوبیٹھاہے۔ آصف ریشی کے والد فیاض احمد ریشی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ’جمعہ کو نماز پڑھنے کے بعد سانبورہ کاکہ پورہ میں زبردست احتجاجی مظاہرے ہو رہے تھے، لوگ ہلاکتوں کے خلاف اپنی آواز بلند کررہے تھے جبکہ آصف اپنے چند دوستوں کے ہمراہ دور بیٹھا مظاہرین کا تماشہ دیکھ رہا تھا‘۔ اسی دوران جپسی میں سوارفورسز اہلکار اچانک نمودار ہوئے اورانہوں نے گولیاں چلانا شروع کردیںجس میں سے ایک گولی آصف کے سرپر جالگی، گولیوں کی آواز سن کر جب لوگ باہر آئے تو آصف کو خون میں لت پت پایا‘۔” زخمی آصف کوفوراًسرینگر کے صدر اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹروں نے آپریشن کرکے اسکی جان بچالی۔“آصف کے والدکا کہنا ہے کہ وہ پہلے گھر میں ہر بات پر ضد کیا کرتا تھا اوراپنی بات منوانے کیلیے شور وغل مچاتا تھا مگر گولی لگنے کے بعد سے وہ خاموش بیٹھا ہے،اب نہ ہمیں اس کا شور سنائی دیتا ہے نہ ہی اس کی ضد کا پتہ چلتا ہے۔ گولی لگنے کے بعد ڈاکٹروں نے آصف کے سر سے گولی نکالنے کیلیے آپریشن کیا مگر آپریشن کے بعد سے آصف بات کرنے سے قاصر ہے۔ آصف کے والد کا کہنا ہے ”آصف نے آواز کھونے کے بعد بھی صبر کا دامن نہیں چھوڑا وہ خیریت پوچھنے کیلیے آنے والے ہر شخص کا پر نم آنکھوں سے استقبال کرتا ہے مگر جب درد حد سے گزرتا ہے تو وہ صرف ہاتھ اور گریباں پکڑ کر تکلیف کا اظہارکرتا ہے۔
٭٭
کشمیری پاکستانیوں سے سینئر پاکستانی ہیں کہ پاکستان کا قیام14 اگست 1947 کو وجود میں آیا اس سے قبل تمام لوگ ہندوستان کے شہری تھے جو ہندوستان سے ہجرت کر کے جب پاکستان میں داخل ہوئے وہ اس وقت سے پاکستانی کہلائے لیکن کشمیریوں نے 13 جولائی1947کو پاکستان سے الحاق کا اعلان کرتے ہوئے ریا...
اکتوبر2015ء میں جب کشمیر میں تاریخی معرکے لڑنے والے ابوالقاسم عبدالرحمن شہادت کی خلعت فاخرہ سے سرفراز ہوئے توابوالقاسم شہیدکے قافلہ جہاد سے متاثر برہان مظفروانی نامی ایک چمکتا دمکتاستارہ جہادی افق پرنمودارہوا۔اس نے تحریک آزادی کشمیر میں ایک نئی رُوح پھونک دی۔ برہان وانی ایک تو با...
امریکا نے بھارتی وزیرِ اعظم نریندرا مودی کے دورۂ امریکا کے موقع پر بھارت کے زیرانتظام کشمیر کے مسلح رہنما محمد یوسف شاہ عرف سید صلاح الدین کو ’خصوصی طورپر نامزد عالمی دہشت گرد‘ قرار دے دیا ہے۔بھارت نے جہاںامریکا کے اس اعلان کا خیرمقدم کیا ہے، وہیں پاکستان کے دفترِ خارجہ نے اپنے ...
پرنٹ میڈیا سے لے کر الیکٹرانک میڈیا تک آج ہر جگہ ایک ہی بات موضوع بحث بنی ہوئی ہے کہ آخر فوج اور دوسری سیکورٹی ایجنسیوں کے’’ہتھیار بندمجاہدین‘‘کو گھیرنے کے بعدکشمیر کی نہتی عوام انہیں بچانے کے لیے اپنی زندگی کیوں داؤ پر لگا دیتی ہے ؟حیرت یہ کہ عوام کچھ عرصے سے تمام تر تنبیہات ...
اب اورجنازے اٹھانے کی سکت نہیں رہی ہے ہم میں ۔کشمیر گزشتہ دو سو برس میں کئی بار جلا،اس کے گام و شہرکو کھنڈرات میں تبدیل کر دیاگیا ۔اس کی عزتیں لوٹی گئیں۔ اس کے بزرگوں کو بے عزت کیا گیا ۔اس کی بیٹیاں لا پتہ کر دی گئیں ۔اس کی اکثریت کے جذبات کو بوٹوں تلے روندا گیا ۔اس کی اقلیت کو و...
جس دن اہلِ پاکستان کشمیریوں کے ساتھ یومِ یکجہتی کشمیر منا رہے ہیں اور مظفر وانی شہید کی شہادت سے شروع ہونے والی مزاحمتی تحریک ایک نیا جنم لے چکی ہے،عین اُسی دن بھارت کے وزیر اعظم نریندرا مودی امریکا یاترا کوپدھاریں گے۔ جہاں اہلِ نظر مودی اور ڈونلڈ ٹرمپ میں یکسانیت ڈھونڈنے میں مصر...
ایجنٹ انگریزی زبان کا لفظ ہے مگر یہ دنیا کی اکثر زبانوں میں اس قدر بولا جاتا ہے کہ گویا ہر زبان کا لفظ ہو ۔اس کی وجہ شاید صرف یہ ہے کہ اس لفظ کو ہر شخص بلا کم و کاست اپنے دشمن کے لیے استعمال کرتا ہے ۔دنیا میں جتنے بھی انسان رہتے ہیں ان کے ارد گرد صرف ان کے دوست ہی نہیں بستے ہیں ب...
فدائین نے رنگروٹہ کے اس فوجی کیمپ پر دھاوا بولا جس میں ایل او سی اور پاکستانی علاقے پر بلااشتعال فائرنگ کی منصوبہ سازی ہوتی تھی ،ذرائع۔درجنوں بھارتی فوجی زخمی۔3فدائین کی شہادت کی بھی اطلاعات ۔بھارتی فوج مظالم سے جذبہ آزادی کو ختم نہیں کرسکتی ،حریت رہنما ۔۔۔مقبوضہ کشمیر میں بڑھتی...
میں 16سال7مہینے سے اپنے وطن ،اپنے گا ؤں ،اپنے محلے ،اپنے گھر ،اپنے رشتے ،اپنے دوستوں اور اپنے ہم وطنوں سے دورجوانی کا سفر طے کرکے بڑھاپے میں داخل ہو چکا ہوں ۔۔۔۔۔۔یہ دوری کتنی تکلیف دہ ہے اس کا بہتر اندازہ وہی لوگ کرسکتے ہیں،جو ایسے حالات سے یا تو دوچار ہوئے ہوں یا دوچار ہیں ۔کئ...
28فروری2002ء جب گجرات میں مسلم کش فسادات پھوٹ پڑے اور بی جے پی ،شیو سینا،بجرنگ دل کے غنڈوں نے گجرات کے ہزاروں مسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ لیے، عفت مآب خواتین کی عصمت دری کی۔ اورمحتاط اندازے کے مطا بق ایک لاکھ لوگوں کو بے گھر کردیا ۔ نریندر مودی اس وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے...
کالم کے عنوان پر بعض لوگ مسکرانے پر اکتفا کریں گے ،بعض قہقہے بھی لگا سکتے ہیں لیکن شاید یہ بھی ممکن ہے کہ بعض لوگ اسے اپنی توہین سمجھ کر ،نا زیبا زبان کا استعمال کرتے ہوئے راقم کو ریاست دشمن بھی قرار دے سکتے ہیں۔لیکن میری گزارش ہے کہ یہ الفاظ استعمال کرنے کی صرف میں ہی گستاخی نہی...
امام الانبیاء جناب محمد عربی ﷺ کی اپنی اولاد میں صرف بیٹیاں ہی زندہ رہیں بیٹے حضرت ابراہیمؓ کا بچپن میں ہی انتقال ہوگیا۔ بیٹیوں میں سب سے پیاری سیدۃالنساء حضرت فاطمۃالزھرارضی اللہ عنہا تھیں ۔ان کا نکاح آپﷺ نے حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ سے کیا۔ان کی اولاد میں حضرت حسن وحضرت حسی...