... loading ...
جلال صاحب سے مختصر تعارف کے بعد ہم اپنے دفتر لوٹ گئے۔ جہاں موجود دیگر لوگوں سے تعارف کے مرحلے کے بعد اپنے کام میں لگ گئے۔ جلال صاحب سے دوسری ملاقات لنچ ٹائم میں ہوئی۔ جلال صاحب ٹہلتے ہوئے ہماری طرف آگئے اور کھانے کی دعوت دی، جسے ہم نے ایسے قبول کیا جیسے صحرا میں بھٹکتا مسافرپانی کی چھاگل پکڑتا ہے۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ جلال صاحب اپنے گھر سے کھانا لائے تھے جو ان کی بیگم نے بنایا تھا۔ آلو گوشت کا سالن، گھر کی روٹیوں اور اچار کے ساتھ کھا کر مزہ آگیا، ہم نے تو یوں بھی کئی دن کے بعد گھر کا کھانا چکھا تھا، کھانا دو لوگوں کے لیے کم تھا کیونکہ جلال صاحب تو صرف اپنے لیے لنچ لائے تھے لیکن کام بہرحا ل چل گیا۔ کھانے کے ساتھ ساتھ جلال صاحب سے گپ شپ بھی لگتی رہی۔ جلال صاحب کا تعلق لاہور سے ہے،ان کی عمر پچاس سال سے اوپر رہی ہوگی وہ طویل عرصے سے سعودی عرب میں مقیم تھے اور ان کی عربی بہت اچھی تھی یہی وجہ تھی کہ وہ ایڈمن آفس میں تعینات تھے کیونکہ یہاں سب کام عربی میں ہوتا ہے۔ جلال صاحب اچھے پڑھے لکھے انسان ہیں، ان کا شاعری کا ذوق بھی عمدہ ہے، گاہے گاہے اساتذہ کے اشعار سے گفتگو کو تڑکا لگاتے تھے جس سے بات چیت کا مزہ دوبالا ہو رہا تھا۔ جلال صاحب نے بتایا کہ ان کے بہن بھائی کراچی میں رہائش پذیر ہیں اورانہوں نے کئی بار کراچی کا چکر لگایا ہے۔ ہمارے اور جلال صاحب کے درمیان اچھی خاصی انسیت پیدا ہو گئی، ہمیں تو اس ویرانے میں ایک پاکستانی کا ہونا ہی خدا کی نعمت محسوس ہوتا ،اس پر اس ہم وطن کا ادب نواز اور بذلہ سنج ہونا گویا سونے پر سہاگہ ہو گیا۔ جلا ل صاحب نے کمپنی اور کالج کے بارے میں بھی کام کی باتیں بتائیں، ہم نے انہیں بتایا کہ کیمپ میں کوئی پاکستانی نہیں جس کی وجہ سے ایڈجسٹ ہونے میں بہت مشکل پیش آرہی ہے۔ انہوں نے کہا کوئی بات نہیں ، کوشش کرو ایک دو اچھے لوگوں سے سلام دعا ہو جائے پھر وقت کچھ اچھا کٹ جائے گا۔ ہم نے کہا کھانے کا بھی بہت مسئلہ ہے۔ جلال صاحب نے کہا کیمپ کے پیچھے جنادریہ کی مختصر سی آبادی ہے وہاں چکر لگا لو شائد کوئی ہوٹل وغیرہ نظر آجائے، یہ بھی ہو سکتاہے وہاں کچھ پاکستانی بھی ہوں، ایک دو سے سلام دعا ہو گئی تو یقینا تنہائی کے عذاب سے جان چھوٹ جائے گی۔ کھانے کے بعد ہم دوبارہ اپنے آفس چلے گئے، کام سمجھنے او ر لوگوں سے ملنے میں تین بج گئے، لوگوں نے چھٹی کی تیاری شروع کردی، کوئی منہ ہاتھ دھونے چلا گیا تو کسی نے ٹیبل سے سامان سمیٹناشروع کردیا۔ ہم نے بھی ایڈمن آفس کی راہ لی جس کے باہر سے ہماری بس نے ہم سب کو بھر کر کیمپ چھوڑنا تھا۔ جلال صاحب کی طرح کے دیگر کچھ لوگ جن کی رہائش ریاض میں تھی ان کے لیے بھی ایک وین موجود تھی۔ بس آئی ،کچھ لوگ سوار ہوئے کچھ ویسے ہی ٹہلتے رہے، بس بھی انہیں لیے بغیر روانہ ہو گئی۔ ہم نے پوچھا یہ لوگ کیوں واپس نہیں جا رہے تو جواب ملا کیمپ ہے ہی کتنا دور، جتنی دیر میں بس سڑکوں سے ہوتے ہوئے پہنچے گی اتنے ہی وقت میں پیدل ٹہلتے ہوئے پہنچ جائیں گے۔۔
کیمپ واپس پہنچ کر ہم نے کچھ وقت آرام کیااور پھر جلال صاحب کے مشورے کے عین مطابق نہا دھو کر کیمپ سے نکل پڑے، ہمارا ارادہ جنادریہ کے علاقے میں گھومنے کا تھا، جنادریہ کی آبادی زیادہ نہیں تھی، مرکزی مسجد کے سامنے بازار تھا جہاں سبزی پھل کی ایک آدھ دکان ، ایک کریانے کی دوکان اور کچھ ورکشاپ موجود تھے۔ ہم نے مغرب مرکزی مسجد میں پڑھی اور اس کے بعد بازار کا رخ کیا، کسی ہوٹل کی تلاش تھی تاکہ پیٹ پوجا کی جاسکے لیکن اس چھوٹے سے بازار میں ہوٹل نہ ملاایک مصری روٹی کی بھٹی ضرور موجود تھی لیکن سالن کے بغیر روٹی کس کام کی تھی۔ اس لیے ایک کریانے کی دکان کا رخ کیا جہاں سے بن، ڈبل روٹی وغیرہ مل سکتے تھے۔ کریانے کی دکان کو عرب ملکوں میں بگالہ کہا جاتا ہے اسے لکھتے بقالہ ہیں۔ بقالہ کسی سوڈانی کا تھا اس لیے اس سے کچھ دریافت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔سوڈانی بھی عربی بولتے ہیں۔ ابھی ہم کاو¿نٹر پر ہی تھے کہ شلوار قمیض پہنے ایک درمیانے قد کا نوجوان بقالے میں داخل ہوا۔ صاف ظاہر تھا کہ پاکستانی ہے ،ہم نے سلام دعا کی اور اپنے بارے میں بتایا، نوجوان کا نام گلزار تھا اس کا تعلق لالہ موسیٰ سے تھا، کئی سال سے سعودی عرب میں مقیم تھا اور جنادریہ میں اس کی الیکٹریکل اپلائنزیعنی بجلی کے آلات ،پنکھے، جوسر، موٹریں ، واشنگ مشین وغیرہ مرمت کرنے کی ورکشاپ تھی۔ ہم نے گلزار کو بتایا کہ کیمپ اور کالج میں ہم واحد پاکستانی ہیں او ر جلال صاحب کے بعد وہ واحد پاکستانی ہے جس سے ہماری ملاقات ہوئی ہے۔ گلزار نے پوچھا بقالے سے کیا لینا ہے؟ ہم نے بتایا بھوک لگی ہے اس لیے کچھ کھانے کو لینے آئے تھے، گلزار نے کہا وہ کھانا پکانے کے لیے چکن لینے آیا تھا۔ اس نے چکن لی اور ہمیں کھانے کی دعو ت بھی دے دی ، ہم گلزار کے ساتھ اس کے ورکشاپ کی جانب چل پڑے۔۔ جاری ہے
سعودی عرب کی زیر قیادت مسلم ممالک کے عسکری اتحاد کی کمان کا معاملہ اس اتحاد کے قیام کے بعد ہی سے پوری مسلم دنیا خاص طورپر پاکستان میں زیر بحث رہا ہے’ یہی وجہ ہے کہ ابتدا میں پاکستان نے اس اتحاد میں شمولیت سے گریز کی کوشش کی تھی لیکن بعد میں بوجوہ پاکستان بھی اس اتحاد میں شامل ہوگ...
ہمیں کیمپ میں پانچواں روز تھا کہ جمعہ آگیا، یہاں جمعے کو چھٹی ہوتی ہے اس لئے صبح کالج تو نہیں جانا تھا لیکن مشکل یہ آپڑی تھی کہ کیمپ میں وقت کیسے گزرے گا، خیر ہم نے بستر پر پڑے رہنے میں عافیت جانی لیکن دس بجے کے قریب چار و ناچار اٹھنا ہی پڑا۔ ناشتے کے لئے جنادریہ بازار تک جانا ہی...
ہم عجیب شش وپنچ میں پڑے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر کااسسٹنٹ دروازے کے بیچ میں کھڑا ہمیں گھور رہا تھا۔ ہم نے کہا ہماری شرٹ ڈاکٹر کے کمرے میں ہے ہمیں وہ لینی ہے۔ اسسٹنٹ بولا واپس جاتے ہوئے آپ شرٹ پہن کر ہی جائیں گے ابھی جائیں یورین پاس کریں، ہم نے کہا بھائی تم خود ہی شرٹ لادو ہمیں ضروری کام ہ...
جنادریہ کالج میں نوکری کا پہلا دن تھا، فکر کی وجہ سے آنکھ صبح الارم سے پہلے ہی کھل گئی۔واش رومز کیمپ میں کچھ فاصلے پر بنے ہوئے تھے پانی بہت ٹھنڈا تھا، صحراکی یہی خاصیت ہے دن کتنے بھی گرم ہوں راتیں ٹھنڈی ہوتی ہیں۔ وہاں سے فارغ ہوئے تو ناشتے کی فکر ستانے لگی۔ ہم نے ناشتے کے لیے کوئ...
جنادریہ کیمپ میں ہمیں ایک کنٹینر میں کیبن الاٹ کردیا گیا۔ کیبن میں دو افراد کے رہنے کی جگہ تھی، کسی کسی کیبن میں بیڈ پر بیڈ لگا کر چار لوگوں کے لیے جگہ بھی بنا دی گئی تھی۔ ہمارے کیبن میں فی الحال ابھی کوئی اور نہیں تھا اس لیے ذرا سکون محسوس ہوا۔ سامان کیبن میں رکھ کر ہم نے کیمپ ک...
احمد نے آتے ہی ہمیں طلب کیا، کہا اپنا سامان اٹھا لو تمہیں تمہاری ملازمت کی سائٹ پر پہنچانا ہے۔ ہم نے پوچھا ہماری سائٹ کہاں ہے جواب ملا جنادریہ کالج۔ دراصل ہماری کمپنی ایک بڑی مینٹی ننس کمپنی تھی جس کا کام مختلف اداروں میں مرمت اور دیکھ بھا ل کا کام انجام دینا تھا۔ پورے سعودی عرب ...
ریاض کے شگا صالحیہ میں تیسرا دن تھا،ہم بطحہ بازار کے پاکستانی ہوٹل پر ناشتے کے لیے نکلے ، اصرار کرکے دونوں مصریوں سمیر اورعضام کو بھی ساتھ لے لیا۔ ہم لوگوں نے انہیں اپنا مہمان بنا لیا تھا حالانکہ وہ بھی ہماری ہی طرح کمپنی کے ملازم تھے لیکن ہمارے گروپ نے طے کیا کہ کیونکہ ہم پہلے ش...
ہم بطحہ سے ہوٹل واپس پہنچے تو اپارٹمنٹ میں دو اجنبی موجود تھے۔ سلام دعا کے بعد تعارف کا مرحلہ آیا۔ ایک کا نام عضام اور دوسرے کا سمیر تھا، دونوں کا تعلق مصر سے تھا۔ ہم سب نے بھی اپنے نام بتائے اور بتایا کہ ہمارا تعلق پاکستان سے ہے۔ تعارف کا یہ مرحلہ توآسانی کے ساتھ طے ہو گیا، باقی...