... loading ...
جنادریہ کالج میں نوکری کا پہلا دن تھا، فکر کی وجہ سے آنکھ صبح الارم سے پہلے ہی کھل گئی۔واش رومز کیمپ میں کچھ فاصلے پر بنے ہوئے تھے پانی بہت ٹھنڈا تھا، صحراکی یہی خاصیت ہے دن کتنے بھی گرم ہوں راتیں ٹھنڈی ہوتی ہیں۔ وہاں سے فارغ ہوئے تو ناشتے کی فکر ستانے لگی۔ ہم نے ناشتے کے لیے کوئی انتظام نہیں کیا تھا اس لیے کیبن میں واپس پہنچے اور دوبارہ لیٹ گئے، ڈیوٹی پر جانے میں ابھی کافی وقت تھا۔پتہ نہیں کب آنکھ پھر لگ گئی، آنکھ کھلی تو سات بج رہے تھے۔ جلدی جلدی تیار ہو کر کیبن سے باہر نکلے۔ اسٹاف کی گاڑی نکل چکی تھی ، کالج کوئی ایسا دور نہیں تھا اس لیے ہم نے پیدل جانے کی ٹھانی اور چل پڑے۔پندرہ بیس منٹ کی واک کے بعد ہم کالج میں تھے۔بھاگم بھاگ ایڈمن منیجر کے پاس پہنچے ،سلام دعا کے بعد گلال صاحب کے بارے میں دریافت کیا،اس نے کوریڈور کے آخر میں واقع پرچیزر کے کمرے میں جانے کو کہا۔پرچیزر کے کمرے میں پہنچے تو ایک پختہ رنگ کے صاحب جو فارغ البال بھی تھے ایک ٹیبل کے سامنے بیٹھے نظر آئے ، ان کے ساتھ والی ٹیبل خالی تھی۔ہم نے ان صاحب کو گلال صاحب سمجھا اور سلام جڑ دیا۔ہو آر یو۔جواب انگریزی میں آیا۔ ہم نے بھی سوال داغ دیا ، ہو آر یو سر۔ جواب آیا آئی ایم ورگسِ ،آئی ایم فرام شری لنکا۔ان صاحب کا نام ورگسِ تھا اور تعلق ان کا سری لنکا سے تھا۔ ہم نے گلال صاحب کے بارے میں دریافت کیا۔ورگسِ نے ہمیں بیٹھنے کا اشارہ کیا اور بتایا وہ آنے ہی والے ہیں شائد ان کی گاڑی لیٹ ہو گئی ہے۔ ناچار ہم ایک کرسی پر بیٹھ گئے اور گلال صاحب کا انتظار کرنے لگے،ورگسِ صاحب اپنے کام میں لگ گئے۔ کوئی دس منٹ بعد ایک گورے چٹے ادھیڑ عمر کے صاحب پتلون قمیض میں ملبوس کمرے میں داخل ہوئے ہماری طرف ایک اچٹتی ہوئی نظر ڈالی، ورگسِ سے ہیلو ہائے کی اور اپنی ٹیبل پر بیٹھ گئے۔ہم نے ذرا ہمت کرکے ان سے انگریزی میں پوچھا ہمیں گلال صاحب سے ملنا ہے وہ کب آئیں گے۔جواب آیا آئی ایم جلال الدین واٹ کین آئی ڈو فار یو، یعنی میرا نام جلال الدین ہے میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں۔ہم نے فوراً اردو میں اپنا تعارف کروایا اور بتایا ہمارا تعلق پاکستان سے ہے ۔ انہوں نے گرمجوشی کے ساتھ ہاتھ ملایا اور بتایا انہیں علم تھا ہم اس کالج میں اپائنٹ ہوئے ہیں اور وہ بھی ہم سے ملنا چاہتے تھے۔ ہم نے کہا ہم تو گلال صاحب کو تلاش کررہے تھے آپ تو جلال نکلے۔اس پر جلال الدین صاحب نے قہقہہ لگایا ، پھر انہوں نے بتایا کہ مصری جلال کا تلفظ گلال کرتے ہیں ، ہم نے حیرت سے پوچھا وہ کیوں ؟تو کہنے لگے مصریوں کے یہاں جیم نہیں ہوتا اس کا تلفظ وہ گیم سے کرتے ہیں۔جلال گلال ہے، جدہ گدہ ہے، جوہر گوہر ہے۔ہم نے کہا یہ کیا مصیبت ہے، یہاں قاف بھی گاف ہے اور جیم بھی گاف ہے ۔ ان کی بات چیت کیسے سمجھ میں آتی ہوگی۔جلال صاحب نے کہا فکر مت کرو، کچھ عرصے میں عادی ہو جاؤ گے۔
مصریوں کی زبان تو عربی ہے لیکن یہ سعودی عرب اور خلیجی ممالک کی عربی سے بہت مختلف زبان ہے۔اصل میں عرب ممالک کے عوام روزمرہ زندگی میں معیاری عربی کا استعمال نہیں کرتے، بلکہ اپنے اپنے خطوں کے لہجے استعمال کرتے ہیں۔ یہ سب لہجے ایک دوسرے سے بہت مختلف اور عموماً باہم ناقابلِ فہم ہیں، اس لیے اْن سب کو جدا زبانیں قراردیا جا سکتا ہے۔لیکن چونکہ تمام عرب ممالک میں ایک مشترکہ ثقافت، مشترکہ تاریخ اور مشترکہ شناخت کا احساس موجود ہے، اس لیے ان لہجوں کو الگ زبانوں کے بجائے عربی کے لہجے ہی کہا جاتا ہے۔ مصریوں کا لہجہ بھی باقی عرب ملکوں کی زبان سے بہت مختلف ہے۔ یہاں معیاری یا جدید عربی کے بارے میں کچھ معلومات بھی دیتے چلیں۔ انیسویں صدی عیسوی میں جب عرب نشاۃِ ثانیہ کا آغاز ہوا تو عربی زبان اپنے جدید دور میں وارد ہوئی اور ایک نئی معیاری عربی کی داغ بیل ڈالی گئی۔ اس ثقافتی نشاۃِ ثانیہ کے مراکز شام، لبنان اور مصر تھے۔جدید معیاری عربی کی دستوری بنیاد قرآنی عربی ہی پر ہے۔جہاں تک قواعدِ صرف و نحو کی بات ہے تو قرآنی عربی اور جدید معیاری عربی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ فرق صرف لفظیات اور اسلوب کا ہے، یعنی کلاسیکی عربی کے بہت سے الفاظ اب استعمال نہیں ہوتے یا اگر ہوتے ہیں تو اْن کے معنی تبدیل ہو گئے ہیں۔ جدید عربی میں دورِ جدید کے مفاہیم بیان کرنے کے لیے ہزاروں الفاظ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ زبان تمام عرب ممالک کی سرکاری اور درسی زبان ہے اور تمام کتابیں اسی معیاری عربی میں لکھی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ اخبارات ، ٹی وی چینلوں اورپروگراموں کی رسمی زبان بھی یہی جدید عربی ہے۔مصری عربی ہجے میں جیم کا تلفظ ادا نہیں کیا جاتا اس کی جگہ گیم کا استعمال ہوتا ہے، اسی لیے مصری ایڈمن منیجر نے جلال صاحب کا نام گلال بتایا تھااور دو روز تک اس مخمصے میں پھنسے رہے کہ یہ گلال بھلا کیسا پاکستانی نام ہے۔خیر اب جلال الدین صاحب سے ملاقات ہوئی تو یہ عقدہ کھلا۔۔۔۔ (جاری ہے)
سعودی عرب کی زیر قیادت مسلم ممالک کے عسکری اتحاد کی کمان کا معاملہ اس اتحاد کے قیام کے بعد ہی سے پوری مسلم دنیا خاص طورپر پاکستان میں زیر بحث رہا ہے’ یہی وجہ ہے کہ ابتدا میں پاکستان نے اس اتحاد میں شمولیت سے گریز کی کوشش کی تھی لیکن بعد میں بوجوہ پاکستان بھی اس اتحاد میں شامل ہوگ...
سیمی خوش مزاج آدمی تھا اس کے ساتھ کام کرنا اچھا تجربہ ثابت ہوا تھا اس کے مقابلے میں یہ نیا انچارج شنکر کمار بہت بد دماغ اور بداخلاق واقع ہوا تھا۔ ہماری پہلے ہی دن سے اس سے ٹھن گئی ، مشکل یہ تھی کہ وہ نیا تھا اور ابھی اسے کام سمجھنا تھا اس لئے وہ ہم سے زیادہ بدتمیزی نہیں کرسکتا تھ...
سیمی کو گئے کئی مہینے ہو گئے تھے اس کی واپسی کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا، اس کا کام بھی ہمارے زمے ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے کام کی تھکن بڑھتی جا رہی تھی۔ کئی بار کام کی زیادتی کی وجہ سے ہمیں دیر تک رکنا پڑتا تھا۔ ہمیں سیمی کا بھی کام کرنے کی وجہ سے کوئی مالی فائدہ بھی نہیں مل رہا تھا...
اگلے روز یعنی جمعے کو ہم عزیزیہ کے ایک پاکستانی ہوٹل میں ناشتہ کرنے کے بعد مکہ شریف کے لیے روانہ ہوئے، جدہ حدود حرم سے باہرحِل کی حدود میں ہے۔ حرم شریف اور میقات کے درمیان کے علاقے کو حِل کہا جاتا ہے اس علاقے میں خود سے اگے درخت کو کاٹنا اور جانور کا شکار کرنا حلال ہے جبکہ اس علا...
ہمارے دوست اظہار عالم کافی عرصے سے جدہ میں مقیم تھے ہم نے عمرہ پر روانگی سے پہلے انہیں فون کرکے اپنی ا?مد کی اطلاع دیدی تھی، طے ہوا تھا کہ وہ جمعرات کو صبح دس بجے باب فہد کے سامنے ایک بینک کے پاس پہچیں گے۔ ہم ساڑھے نو بجے جا کر اس بینک کے سامنے جا کر کھڑے ہوگئے۔ وہاں کافی لوگ موج...
مکہ المکرمہ سے مدینہ شریف کا فاصلہ تقریبا ساڑھے چار سو کلومیٹر ہے، راستے بھر مشہور نعت مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ ذہن میں گونجتی رہی، ہماری آنکھیں سارے راستے پُر نم رہیں۔ مدینے کا راستہ محبت کی معراج کا وہ راستہ ہے جس پر بڑے بڑے صحابہ ، علما، صوفیہ اور بزرگان دین نے...
صبح فجر سے پہلے ہماری بس مکہ مکرمہ کے ہوٹل پہنچ گئی، دل میں عجب سی ہلچل مچی ہوئی تھی، کعبہ شریف کے اس قدر قریب ہونیکا احساس جیسے دل کو الٹ پلٹ کر رہا تھا ، کوشش تھی کہ فوری طور پر حرم شریف پہنچیں اور اللہ کے گھر کا دیدار کریں۔ اللہ کا گھردنیا میں وہ پہلی عبادت گاہ ہے جو انسانوں ک...
نسیم ولا اور کالج میں شب و روز اپنی مخصوص چال سے گزر رہے تھے۔ روز صبح کو شام کرنا اور شام کو صبح کا قالب بدلتے دیکھنا اور اس کے ساتھ لگی بندھی روٹین کو فالو کرنا یہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت بن چکی تھی۔ ایک بے قراری تھی، ایک بے کلٰی تھی جو دل میں بسنے لگی تھی۔ ہم لوگ روٹین کے ایس...
نسیم ولا میں دن اچھے گزر رہے تھے۔ ایک دن باتوں کے دوران ہم نے کہا لگتا ہے ریاض میں کوئی گھومنے کی جگہ نہیں ہے ،ہوتی تو ہم لوگ وہاں کا چکر لگا آتے، نسیم کے علاقے میں جہاں ہمارا ولا تھا وہاں ہمیں نہ تو کوئی پارک نظر آیا تھا نہ کوئی اور ایسی جگہ جہاں آپ تفریح کے لیے جا سکیں۔ سنیم...
رات کے نو بج رہے تھے ہمیں پی ٹی وی سے خبر نامے کا انتظار تھا لیکن خبریں شروع نہیں ہوئیں، ہم نے علی سے کہا نو بج گئے خبرنامہ شروع نہیں ہو رہا پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے، علی بولا نو ہماری گھڑی میں بجے ہیں وہاں پاکستان میں رات کے گیارہ بج رہے ہیں ہمیں احساس ہوا کہ سعودی عرب میں ہم پاکست...
ڈش انٹینا اور اس کا متعلقہ سامان لائے کئی دن گزر چکے تھے۔ ہم چاروں روز سوچتے تھے کہ آج ضرور ڈش انٹینا لگالیں گے لیکن کالج سے آنے کے بعد کھانا پکانے اور کھانے کے بعد اتنا وقت ہی نہیں بچتا تھا کہ چھت پر جائیں اور ڈش انٹٰینا کی تنصیب کا کام مکمل کریں۔ پھر طے پایا کہ یہ کام جمعے کو...
ہم ڈش انٹینا کا سامان اٹھائے بطحہ کے مرکزی چوک پہنچے تو ایک عجیب منظر ہماری آنکھوں کے سامنے تھا۔ وہاں کچھ ٹیکسیاں اور کاریں کھڑی تھیں جن کے ڈرائیور کاروں کے باہر کھڑے مسافروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے آوازیں لگا رہے تھے۔ خمسہ ریال، خمسہ ریال۔ منظر عجیب اس لیے تھا کہ آوازی...