... loading ...
حیرت ہے لوگوں کو ٹرمپ کی فتح پر حیرت ہے، کیا وہ انسانی جبلتوں کے تعامل سے پیدا ہونے والے رویوں پر غور نہیں کرتے؟ امریکا مختلف کیسے ہوسکتا ہے؟گجراتی کہاوت ہے کہ ’’کوّے ہر جگہ کالے ہوتے ہیں‘‘۔
پاکستان کے سفارتی بزرجمہر اس پر غور ہی نہیں کرسکے کہ ٹرمپ جیت بھی سکتا ہے۔ حالانکہ اُن کے پاس اس کا بھی کوئی جواب نہیں تھا کہ ہیلری کلنٹن کی فتح کے بعد پاکستان کے کون سے زمین وآسمان تبدیل ہو جانے تھے۔ وہ بنیادی طور پر اُسی ورثے کو دانت سے پکڑے رکھتی جو اُن کے پیش رو اُوباما سے اُنہیں ملتا۔ اور اُوباما نے پاکستان کے لیے کیا کچھ چھوڑ رکھا ہے؟ امریکا نے رواں برس پاکستان کو رعایتی نرخوں پر ایف سولہ کی مد میں امداد دینے سے انکار کردیا۔ کیونکہ بھارت ایسا نہیں چاہتا تھا۔ کلنٹن کاامریکا ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کے لیے پاکستان کی مزاحمت پر چراغ پاہے۔ امریکا حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی میں ’’مزید اور‘‘ (ڈومور) کی رٹ سے باز بھی نہیں آرہا۔ کیا ہیلری کلنٹن ان امور پرکوئی رعایت دیتیں؟ پھر کیوں وزارت خارجہ کے تمام ہی بقراط ہیلری کلنٹن کی فتح پر انحصار کرکے اپنی پالیسیوں کو ترتیب دے رہے تھے۔پاکستان کے لیے ہیلری اور ٹرمپ میں کیا بنیادی فرق ہوسکتا ہے؟ ذرا نہیں ، کوئی بھی نہیں۔ان دونوں میں فرق صرف طریقہ واردات کا ہوسکتا ہے، اہداف کا ہرگز نہیں۔
امریکا کی بنیادِ فصیل ودر میں بھونچال ہی بھونچال ہیں۔ایک صنعتِ تضاد پر کھڑا یہ ملک دراصل انسان کی اعلیٰ ذہانتوں کے ایک محدود اقلیتی گروہ نے سنبھالے رکھا تھا۔ جن کے پیش نظر کوئی صحیح وغلط کا نہیں بلکہ مفید وغیر مفید کا تصور تھا۔ ہر اعلیٰ انسانی قدر دراصل ایک نوعی دھندا ہے۔ جسے امریکا نے کرکے دکھایا ہے۔ ٹیکنالوجی کی زبردست چکا چوند اور طاقت کی عالمگیر مگر سازشی گرفت نے امریکا کے اندرون میں لوگوں کو کم کم جھانکنے دیاہے۔امریکا کے ظاہر کو اُس کے باطن پر ہمیشہ ترجیح دی گئی۔ یہاں تک کہ اُس کی مذموم، مکروہ اور گھناؤنی تاریخ کو بھی نظر انداز کیا جاتا رہا۔ ہمارا واسطہ ایسے لوگوں سے آ پڑا ہے جو اپنی تاریخ کے سرشار کردینے والے لمحات اور جذبات میں تموج پیدا کردینے والے واقعات میں بھی گند گھولتے ہیں۔مگر امریکا کی تاریخِ تعفن پر بھی عطربیزی کرتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح دراصل ایسے لوگوں کے لیے تازیانۂ عبرت ہے۔ جہاں تک اُن لوگوں کا تعلق ہے جو امریکا کو اُس کے باضمیر دانشوروں کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ جو ولیم بہلم اور نوم چومسکی سے کوئی علاقہ رکھتے ہیں تو وہ جانتے ہیں کہ دنیا کی اس غنڈہ ریاست نے پہلی مرتبہ خود اپنے لیے بھی ایک ایسا ہی رہنما منتخب کر لیا ہے جو وہ پہلے دوسروں کے لیے کرتے تھے۔ امریکا کے تمام صدور کی درشتی اور بہیمت پہلے دنیا کے لیے ہوتی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح پر امریکا میں موجودہ بے چینی دراصل اس امر کی غمازی کرتی ہے کہ یہ بہیمت اب خود اُن کے اپنے ملک کے اندر بھی رقصاں رہے گی۔
امریکی صدور ڈونلڈ ٹرمپ سے کبھی مختلف نہیں تھے۔ اُنہیں پیش کرنے کے امریکی طریقۂ کار نے اُنہیں دوسروں سے مختلف بنایا۔ امریکا کا بانی صدر جس کے نام سے دارالحکومت واشنگٹن موسوم کیا گیا ، اپنی غصیلی طبیعت میں ڈونلڈ ٹرمپ سے کئی ہاتھ آگے تھا۔مگر وہ جنگ آزادی سے آیاتھا۔ اُس کی آمد پر نیویارک سٹی کے ایک مقامی اخبار نے یہ سرخی جمائی تھی کہ ’’وہ آگیا۔۔۔ وہ عظیم واشنگٹن، جس کے کارنامے بیان کرنے سے لفظ قاصر ہیں۔‘‘ ریاست ورجینیا کا یہ طویل القامت اور فرانسیسیوں کو شکست سے دوچار کردینے والاجارج واشنگٹن ہی وہ شخص تھا جسے سامنے رکھ کر امریکی صدر کے منصب کو متشکل کیا گیاتھا۔ مگر تاریخ کو اگر پڑھنے کے بجائے جلوہ گاۂ نظر سے دیکھنے کی خواہش مچلتی ہو تو وہ کیا منظر ہو گا جب بانئ قوم جارج واشنگٹن غصے میں ہر سامنے والے شخص کو ہذیانی انداز میں بُرا بھلا کہا کرتا تھا۔ وہ غصے کی ایک پوٹ تھا۔ خلیج کپس کی لڑائی میں جب کنکٹی کٹ ملیشیا برطانوی فوج سے ایسے پسپا ہوئی کہ کوئی گولی چلانے کی مہلت بھی نہ مل سکی تو جنرل واشنگٹن وحشیانہ انداز میں ہر سامنے آنے والے شخص کو ہاتھ میں پکڑی چھڑی سے پیٹنے لگا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے برعکس جو لڑائی کے معروف دنگل ڈبلیو ڈبلیو ای میں غصے کو بھی ایک بڑی اداکاری کے طور پر برتتا رہا۔
ذاتی رویئے سے ذرا آگے ایک مثال امریکی اقدار کی ترجمانی کے لیے بھی شاید ضروری ہو۔ تھامس جیفرسن امریکا کا تیسر اصدرتھا۔ اُتھلے پانیوں میں رہنے والوں کے برعکس وہ گہرائیوں کا غوطہ خور تھا۔ جیفرسن کی قبر کا کتبہ اُس کی بے مثال عظمت کو ظاہر کرتا ہے جس کی عبارت اُس نے اپنی زندگی میں خود طے کی کہ
’’یہاں مدفون ہے
تھامس جیفرسن
امریکا کے اعلان آزادی کا مصنف
ورجینیا کے لیے مذہبی آزادی کے آئین کا مصنف
اور یونیورسٹی آف ورجینیا کا بانی‘‘
ذرا سا غور کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ امریکا کے اس تیسرے صدر نے دو مرتبہ ملک کا چیف ایگزیکٹو رہنے کے باوجود امریکی صدارت کے حوالے کو اپنی وجہ امتیاز نہیں بنایا تھا۔امریکا میں غلامی کی مذمت اور جس اعلان آزادی کے مصنف کے طور پر تھامس جیفرسن دنیا بھر میں عظمت کے ایک دیوتا کے طور پر پوجے جاتے ہیں اُن کا حال عمل کی میزان پر تولنے کے قابل تھا۔ یہ ایک مبہوت کردینے والی پیچیدہ ذہانت اور کھلے تضادات کی ملی جلی شخصیت تھے۔ غلامی کے اس سب سے بڑے مخالف جیفرسن کی جب موت ہوئی تو وہ ایک لاکھ سات ہزار کا مقروض تھا۔ جسے اُس کے وارثوں نے اُس کے غلام بیچ کر ادا کیا تھا۔ امریکا ایسے ہی تضادات کا ملک ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ مختلف نہیں۔ چھوٹے ذہن کے اس آدمی کو اب ایک بڑے منصب پر بیٹھنا ہے مگر وہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے تعصبات اور رجحانات کا عام امریکی معاشرہ ہے۔ امریکیوں کو پریشانی یہ ہے کہ مصنوعی اور اداکاری سے مخصوص اقدار کے نام پر سنبھالے جانے والا یہ ملک بغیر اداکاری کے کہیں اپنی حقیقی شکل میں دنیا کے سامنے عریاں ہوگیا تو کیا ہوگا؟ ڈونلڈ ٹرمپ کے عہد اقتدار میں یہ خطرہ سب سے بڑھ کر ہے۔ اگرچہ مختلف امریکی حلقوں میں اس امر پر غور ہورہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو صدارت تک پہنچنے سے کیسے روکا جائے۔ وہ مختلف النوع مقدمات میں امریکی عدالتوں کے رحم وکرم پر ہے۔ سیاسی نظام کے بناوٹی ہتھیار بھی کچھ کارآمد ہو سکتے ہیں۔ اور پھر سرمائے کی ایک لہر ہے جو ڈونلڈ ٹرمپ کو اقتدار تک پہنچنے سے روکنے کے لیے کھلے بندوں نظر آرہی ہے۔یہ سب کچھ صرف اس لیے ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی صورت میں امریکا جیسا ہے، بس ویسا ہی ظاہر بھی ہو سکتا ہے۔دنیا کا کوئی ملک اپنی مصنوعیت کو بچانے کے لیے اتنی حقیقی محنت نہیں کرتا جتنی امریکا کررہا ہے۔ اچھا تماشا ہے مگر ہم نہ جانے کیوں اس میں اپنے نظریات کی دُکان بڑھانے پر تُلے بیٹھے ہیں۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فیس بک اور ٹوئٹر سے ٹکرانے کا فیصلہ کرلیا ۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹروتھ نامی سوشل میڈیا پلیٹ فارم بنانے کا اعلان کردیا ہے۔ ٹرمپ نے کہا کہ ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں ٹوئٹر پر طالبان کی موجودگی تو ہے تاہم عوام کے پسندیدہ امریکی صدر...
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نوجوان غیر قانونی تارکینِ وطن کو تحفظ دینے کے پروگرام 'ڈریمر کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جس کے بعد ملک بھر میں اس فیصلے کی شدید مذمت کی گئی ہے اور اس کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں ۔ ڈریمر پروگرام سابق امریکی صدر بارک اوباما نے متعارف کروایا تھا۔امریکی صدر...
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر توہینِ عدالت کے ملزم ریاست ایریزونا کے شیرف جو آرپائیو کو معاف کرنے کے بعد ان کی اپنی ہی ریپبلکن جماعت کی جانب سے کڑی تنقید کی جا رہی ہے۔ایوانِ نمائندگان کے ا سپیکر پال رائن کا کہنا تھا کہ شیروف جو آرپائیو کو معاف نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔صدر ٹرمپ نے شیر...
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیرس معاہدے سے علیحدگی کا اعلان کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ ماحول میں آلودگی پھیلانے والے انسانیت دشمنوں کے ساتھ ہیں ۔اپنے اس عمل کے ذریعے انھوں نے تاریخ میں اپنا نام سائنس اور انسانیت کے مخالفین کی فہرست میں درج کرالیاہے۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو...
امریکا کے موقر اخبارات نے جن میں واشنگٹن پوسٹ اورنیویارک ٹائمز شامل ہیں حال ہی میں ایسی اطلاعات شائع کی ہیں جن سے ظاہرہوتاہے کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ روس کے ساتھ رابطوں کے حوالے سے اپنے اور اپنے بیٹے داماد اور خاندان کے دیگر افراد کے خلاف ایف بی آئی کی جانب سے جاری تفتیشی رپو...
واشنگٹن پوسٹ اور اے بی سی نیوز کا رائے عامہ کا حالیہ جائزہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ مسٹرٹرمپ کی مقبولیت اپریل کے 42 فی صد کے مقابلے میں اب 36 فی صد ہے۔واشنگٹن پوسٹ اور اے بی سی نیوز کے تحت کرائے گئے رائے عامہ کے ایک تازہ ترین جائزے سے ظاہر ہو ا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت کی سطح می...
[caption id="attachment_44317" align="aligncenter" width="784"] خواتین صنعت کاروں پر ہونے والے ڈسکشن میں جب خواتین سے متعلق ٹرمپ کے رویے کا دفاع کیا تو حاضرین نے ایوانکا کیخلاف نعرے لگائے ایوانکا کی اپنے شوہر کے ساتھ وہائٹ ہائوس منتقلی اور ان کو وہائٹ ہائوس میں دفتر اور عملے کی ف...
امریکا کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز اس امکان کا عندیہ دیا کہ شمالی کوریا پر چین سے تعاون کے حصول کے لیے تجارت کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے؛ اور یہ کہ اگر ضرورت پڑی تو امریکا شمالی کوریا کے جوہری ہتھیار اور میزائل پروگرام کے خلاف اپنے طور پر اقدام کر سکتا ہے۔اُنہو...
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہدایت پر ایک خفیہ ایجنسی نے اوباما دور میں وہائٹ ہائوس میں منعقد ہونے والی پر تعیش تقریبات میں خفیہ طریقے سے کروڑوں ڈالر کے خرچ کے حوالے سے تحقیقات شروع کردی ہے۔ سرکاری اخراجات پر نظر رکھنے والی تنظیم ’’فریڈم واچ ‘‘ کے بانی لیری کلے مین نے انکشاف کیا ہے ...
ٹرمپ اپنے سرکاری جہازیوایس ایئر فورس ون میں سفرکررہاتھا۔وہ اپنی کرسی سے اٹھااورباتھ روم گیا۔وہاں سے باہر نکل کراس نے تولیے سے ہاتھ پونچھے اور وہاں موجود ایک خاتون سے کہا کہ یہ تولیہ کھردراہے، نرم تولیہ رکھو،تاکہ ہاتھ جلدی خشک ہوسکیں،اس کے بعدٹرمپ اپنی سیٹ پربیٹھ گیا۔مگریہ واقعہ پ...
امریکاکی خواہش ہے کہ نیٹو میں اس کے اتحادی ممالک بھی اس ادارے کا خرچ برداشت کرنے کے لیے اپنا حصہ ادا کریں، امریکا کی یہ خواہش نئی نہیں ہے بلکہ امریکی حکومت طویل عرصے سے یہ مطالبہ کرتی رہی ہے تاہم کسی امریکی حکومت نے اس پر اتنا زیادہ زور نہیں دیاتھا اور یہ مطالبہ اتنی شدومد کے سات...
ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھرامریکی میڈیاپر تنقید کرکے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ مغربی میڈیا جھوٹا ہے ۔فلوریڈا پہنچنے کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر پیغام میںانہوں نے کہاکہ نیو یارک ٹائمز۔این بی سی ،اے بی سی ،سی بی ایس اور سی این این جھوٹی خبریں چلاتے ہیں اور میرے نہیں بلکہ امریک...