وجود

... loading ...

وجود

کِس میں کتنا ہے دَم ۔۔ بھارت امریکا قربتوں پرروس وچین کی کڑی نگاہیں

اتوار 13 نومبر 2016 کِس میں کتنا ہے دَم ۔۔ بھارت امریکا قربتوں پرروس وچین کی کڑی نگاہیں

امریکا بھارت کو خطے کا چوکیداربناناچاہتا ہے جس میں حالیہ امریکی انتخابات کے بعد اضافہ متوقع ہے ،لیکن کیا مودی سرکارمیں پاکستان و چین سے ٹکرانے کا دَم ہے ،تجزیہ کاروں کا جواب نہیں میں ہے
پاکستان کی ٹرمپ کو مبارکباداور کشمیر ثالثی کے وعدے یاد دلانے سے کام نہیں چلے گابلکہ امریکی کانگریسی ارکان کے درمیان بھرپور لابنگ کرکیپاکستان کی اہمیت کا احساس دلانے کی ضرورت ہے
usa-pakistanبھارت اور امریکا کے درمیان غیر معمولی طورپر بڑھتے ہوئے تعلقات کو پوری دنیا میں محسوس کیاگیاہے، خاص طورپر روس اور عوامی جمہوریہ چین نے اس کاسنجیدگی کے ساتھ نوٹس لیاہے جس کا اندازہ اس سے لگایاجاسکتاہے کہ روس نے جو گزشتہ 70سال کے دوران پاکستان کے ساتھ تعلقات میں قدرے دوری برقرار رکھے ہوئے تھا ،پہلی مرتبہ پاکستان کے ساتھ مشترکہ دفاعی مشقوں میں شرکت کی، یہی نہیں بلکہ پاکستان کو اس کی ضرورت کا دفاعی سازوسامان فراہم کرنے اور پاکستان میں سرمایہ کاری پر بھی رضامندی کااظہار کیا۔
بھارت اور امریکا کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کے پس منظر کاجائزہ لیاجائے تو یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ ان تعلقات کا بنیادی سبب بھارت اور امریکا کے رہنماؤں میں بڑھتاہوا عدم تحفظ کااحساس ہے، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ امریکا اس خطے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ سے خائف ہے، جبکہ برطانیہ کی جانب سے یورپی یونین سے علیحدگی کے فیصلے کے بعد اب اسے اپنے یورپی اتحادیوں پر بھی بھروسہ نہیں رہا ہے، اس لیے وہ بھارت کو اپنے مضبوط حلیف کی حیثیت سے اس خطے میں ابھارنا چاہتاہے تاکہ ضرورت پڑنے پر اسے چین کے خلاف استعمال کرکے چین کی دفاعی طاقت کو نقصان پہنچایاجاسکے۔تاہم سفارتی حلقوں کاخیال ہے کہ امریکا کا یہ تصور خیال خام ہے کہ وہ بھارت کو چین کے خلاف استعمال کرسکے گا، کیونکہ بھارت کی تمامتر جنگی تیاریوں کا مقصد اس خطے میں پاکستان کو نقصان پہنچانے کے سوا اور کچھ نہیں ہے اور وہ چین کے ساتھ جنگ کی نہ تو صلاحیت رکھتاہے اور نہ ہی بھارت کے جنگی منصوبہ ساز اس قدر بے وقوف ہیں کہ وہ چین کے ساتھ محاذ آرائی کرکے اپنی فوجی طاقت کے حوالے سے دنیا بھر میں اپنے قائم کردہ بھرم کو پاش پاش کرنے پر تیار ہوجائیں۔
بھارت کو ایشیا میں چین کے مقابل کھڑاکرنے کی امریکا کی یہ خواہش ڈھکی چھپی نہیں ہے بلکہ گزشتہ دنوں امریکی کانگریس اور خارجہ امور سے متعلق رکن کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والے ایڈ رائس نے اس خواہش کا برملا اظہار کرتے ہوئے کہاتھا کہ امریکا بھارت سے ایشیا میں اہم کام لینا چاہتاہے۔امریکا ایک طرف بھارت کو چین کے خلاف متوازی قوت کے طورپر کھڑا کرنا چاہتاہے اور دوسری طرف بھارت سے ایشیا میں اپنے مفادات کی نگرانی کا کام بھی لینا چاہتاہے۔بھارتی رہنما امریکا کی اس خواہش سے لاعلم نہیں ہیں لیکن وہ امریکی رہنماؤں کی اس خواہش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکا سے زیادہ سے زیادہ جدید اسلحہ کے ساتھ ہی اقتصادی امدا د بھی بٹورنے کی کوشش کررہے ہیں اوراس طرح امریکا سے طویل المیعاد بنیادوں پر فوائد حاصل کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد بھارت کو اپنے ان مقاصد میں مزید بڑی کامیابیوں کی توقع ہے۔لیکن جیسا کہ اوپر لکھاہے کہ اس کے باوجود اس خطے میں امریکا کی نگرانی میں امریکی رہنماؤں خاص طورپر امریکا کے فوجی منصوبہ سازوں کے تیار کردہ منصوبوں کے مطابق کردار کی ادائیگی کی صلاحیت اور وقت پڑنے پر بھارتی رہنماؤں کی جانب سے مطلوبہ کردار کی ادائیگی پر ایک سوالیہ نشان لگا رہے گا۔
روس سے حاصل کردہ اسلحہ کے انبار اور اب امریکا سے حاصل ہونے والے جدید ہتھیاروں کے بل پر بھارت اپنے پڑوسی ممالک پر اپنی توسیع پسندانہ پالیسی مسلط کرنے کی کوششوں پر عمل پیرا نظر آتاہے ۔پاکستان کے ساتھ سرحدوں پر مسلسل چھیڑ چھاڑ سے اس کے ان توسیع پسندانہ عزائم کی بھرپور نشاندہی ہوتی ہے اور اب پوری امن پسند دنیا بھی بھارت کی اس مذموم خواہش کو سمجھنے لگی ہے یہی وجہ ہے کہ سفارتی محاذ پر بھارت کی مسلسل چیخ وپکار کے باوجود خود امریکا بھی بھارت کی پاکستان مخالف پالیسیوں کی حمایت میں ایک لفظ بھی کہنے کو تیار نہیں ہوا ہے اور دنیا کے بیشتر ممالک نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی انسانیت سوز کارروائیوں کی نہ صرف مذمت کی ہے بلکہ اسے یہ کارروائیاں بند کر کے افہام وتفہیم کی فضا قائم کرنے کی تلقین کی ہے۔
ماضی میں امریکا اس خطے میں مفادات کے تحفظ اور دفاع کیلیے پاکستان پر انحصار کرتاتھا کیونکہ پاکستان جس طرح امریکا کومدد پہنچاسکتاتھا اور اس نے افغانستان میں روسی مداخلت کے وقت جس کا عملی مظاہرہ بھی کیا وہ بھارت نہیں کرسکتاتھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ تمام ملکوں کی حکمت عملیاں تبدیل ہوتی ہیں اور اب پاکستان اور چین کے بڑھتے ہوئے تعلقات کی بنیاد پر امریکا زیادہ دنوں اس خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ کیلیے پاکستان پر انحصار کرنے کوتیار نہیں ہے بلکہ وہ اسے عملی طورپر قابل عمل بھی تصور نہیں کرتا، دوسری طرف اب بھارت بھی ماضی کی طرح کسی بھی ملک کے ساتھ فوجی وابستگی کا معاہدہ نہ کرنے کی پالیسی کو نظر انداز کرچکا ہے اور اب وہ اس خطے میں اپنی بادشاہت قائم کرنے کیلیے سب کچھ کر گزرنے کیلیے تیار نظر آتاہے ،یہی وجہ ہے کہ اب امریکی رہنماؤں نے بھارت کی طرف خصوصی دوستی کا ہاتھ بڑھانا ضروری تصور کیاہے ، اس طرح امریکا کا خیال ہے کہ وہ ایک طرف پاکستان کو چین کے ساتھ گہری دوستی اور وابستگی کا مزہ چکھاسکتاہے اور دوسری طرف چین کے خلاف بھارت کو موثر طورپر استعمال کرسکتاہے کیونکہ چین کے ساتھ بھارت کے تعلقات کبھی بھی مثالی نہیں رہے ہیں اوردونوں ملکوں کے درمیان سرحدی امور سمیت کئی اہم معاملات میں شدید اختلافات موجود ہیں۔
یہ ضرور ہے کہ امریکا نے حالیہ برسوں کے دوران بھارت کو انتہائی خصوصی اہمیت دینا شروع کردی ہے جس کااندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ امریکی محکمہ دفاع نے بھارت کے ساتھ مل کر فوری کارروائیوں کیلیے ایک خصوصی شعبہ تشکیل دیا ہے جس کانام ہی انڈین ریپڈ ری ایکشن سیل رکھاگیاہے۔بھارت اورامریکا کے درمیان گزشتہ 66 سال سے موجود خصوصی اور قریبی تعلقات کااندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ بھارت گزشتہ 66سال سے امریکا سے سب سے زیادہ اقتصادی پارٹنر ملک رہاہے۔حال ہی میں امریکی سینیٹ کی مسلح افواج سے متعلق کمیٹی کے سامنے بیان دیتے ہوئے امریکی فوج کے بحرالکاہل کے علاقے کے سربراہ ایڈمرل ہیری نے برملا یہ اعتراف کیاتھا کہ امریکا کیلیے بھارت میں شاندار مواقع موجود ہیں۔
دوسری جانب 1950 سے پاکستان کے امریکا کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم ہیں اور پاکستان نے امریکا کو جب بھی ضرورت پڑی ہے ہر طرح کی مدد فراہم کی ہے یہاں تک کہ اس کو فوجی کارروائیوں کیلیے اپنی سرزمین کو پلیٹ فارم کے طورپر استعمال کرنے کی اجازت دینے سے بھی گریز نہیں کیاہے لیکن اس کے باوجود پاکستان اور امریکا کے تعلقات ہمیشہ شدید اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں ، اب نریندرا مودی کی حکومت پاک امریکا تعلقات میں پیداہونے والے تناؤ کو مکمل طورپر اپنے مفادات کیلیے استعمال کرنے کی کوشش کررہی ہے اور بڑی حد تک اس میں کامیاب بھی رہی ہے جس کا اندازہ پاکستان اور امریکا کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلوں اور بھارت اور امریکا کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت سے لگایاجاسکتاہے۔
اب جبکہ ڈونلڈ امریکا کے صدر کاعہدہ سنبھالنے کیلیے تیار ہیں پاک امریکا تعلقات کی راہ میں مزید رکاوٹیں کھڑی ہونے اور امریکی پالیسیوں میں پاکستان کی جگہ بھارت کو زیادہ اہمیت دیے جانے کے امکان کو رد نہیں کیاجاسکتاکیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران ہی یہ اعلان کرچکے ہیں کہ وہ صدر بننے کے بعد بھارت کے ساتھ دوستی کو زیادہ اہمیت دیں گے اور امریکا بھارت کا زیادہ گہرا دوست بن جائے گا،ہمارے منصوبہ اور پالیسی سازوں کو اس صورت حال پر توجہ دینی چاہئے اور انھیں یہ جان لینا چاہئے کہ وزیر اعظم کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کو مبارکباد کے پیغام یا انھیں کشمیر کامنصفانہ حل نکالنے کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر یا وعدے یاد دلانے سے پاکستان امریکا کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم رکھنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا اس کے لیے امریکی حلقوں خاص طورپر ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے کانگریسی ارکان کے درمیان بھرپور لابنگ کرنے اور انھیں اس خطے میں پاکستان کی اہمیت کا احساس دلانے کے ساتھ ہی امریکا کیلیے پاکستان کی ماضی کی خدمات کا احساس دلانے کی بھی ضرورت ہے جب تک ایسا نہیں کیاجاتا اس وقت تک پاک امریکا تعلقات میں موجود تناؤ کی موجودہ کیفیت نہ صرف یہ کہ ختم نہیں ہوگی بلکہ بھارتی سازشوں اور لابنگ کی وجہ سے اس میں مزید اضافہ ہوتے جانے کے خدشات کو بھی نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔بدقسمتی سے پاکستان اس وقت ایک ایساملک ہے جس کے پاس کوئی کل وقتی وزیر خارجہ بھی نہیں ہے اور امورخارجہ مشیروں اور وزیر اعظم کے معاونین کے ذریعے چلائے جارہے ہیں۔ وزیر اعظم کواس بات کااحساس کرنا چاہئے کہ اس وقت دنیا بڑی تیزی سے تبدیل ہورہی ہیں اور تبدیلی کی اس لہر میں اپنی اہمیت برقرار رکھنے کیلیے پوری دنیا کواپنی اہمیت کا احساس دلانے کی ضرورت ہے اور یہ کام ایک کل وقتی اور واقعی باصلاحیت اور امور خارجہ پر دسترس رکھنے والا وزیر خارجہ ہی کرسکتاہے اس لیے وزیر اعظم کو وقت ضائع کیے بغیر وزیر خارجہ کا تقرر کرنا چاہئے تاکہ ملکی معاملات عالمی سطح پر احسن طریقہ سے چلائے جاسکیں اور مختلف عالمی واقعات اورحالات اور تنازعات پر پاکستان کے موقف کو بھر پور طریقے سے پیش کیاجاسکے۔


متعلقہ خبریں


وزیراعظم کی کینال منصوبے پر پی پی کے تحفظات دور کرنے کی ہدایت وجود - اتوار 20 اپریل 2025

  پیپلز پارٹی وفاق کا حصہ ہے ، آئینی عہدوں پر رہتے ہوئے بات زیادہ ذمہ داری سے کرنی چاہئے ، ہمیں پی پی پی کی قیادت کا بہت احترام ہے، اکائیوں کے پانی سمیت وسائل کی منصفانہ تقسیم پر مکمل یقین رکھتے ہیں پانی کے مسئلے پر سیاست نہیں کرنی چاہیے ، معاملات میز پر بیٹھ کر حل کرن...

وزیراعظم کی کینال منصوبے پر پی پی کے تحفظات دور کرنے کی ہدایت

افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہئے، اسحق ڈار وجود - اتوار 20 اپریل 2025

  وزیر خارجہ کے دورہ افغانستان میںدونوں ممالک میں تاریخی رشتوں کو مزید مضبوط بنانے پر تبادلہ خیال ، مشترکہ امن و ترقی کے عزم کا اظہار ،دو طرفہ مسائل کے حل کے لیے بات چیت جاری رکھنے پر بھی اتفاق افغان مہاجرین کو مکمل احترام کے ساتھ واپس بھیجا جائے گا، افغان مہاجرین کو ا...

افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہئے، اسحق ڈار

9 مئی مقدمات، ملزمان میں چالان کی نقول تقسیم، فرد جرم عائد وجود - اتوار 20 اپریل 2025

دوران سماعت بانی پی ٹی آئی عمران خان ، شاہ محمود کی جیل روبکار پر حاضری لگائی گئی عدالت میں سکیورٹی کے سخت انتظامات ،پولیس کی بھاری نفری بھی تعینات کی گئی تھی 9 مئی کے 13 مقدمات میں ملزمان میں چالان کی نقول تقسیم کردی گئیں جس کے بعد عدالت نے فرد جرم عائد کرنے کے لیے تاریخ مق...

9 مئی مقدمات، ملزمان میں چالان کی نقول تقسیم، فرد جرم عائد

5؍ ہزار مزید غیرقانونی افغان باشندے واپس روانہ وجود - اتوار 20 اپریل 2025

واپس جانے والے افراد کو خوراک اور صحت کی معیاری سہولتیں فراہم کی گئی ہیں 9 لاکھ 70 ہزار غیر قانونی افغان شہری پاکستان چھوڑ کر افغانستان جا چکے ہیں پاکستان میں مقیم غیر قانونی، غیر ملکی اور افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کے انخلا کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے دی گئ...

5؍ ہزار مزید غیرقانونی افغان باشندے واپس روانہ

وزیر مملکت کھیئل داس کوہستانی کی گاڑی پر حملہ وجود - اتوار 20 اپریل 2025

حملہ کرنے والوں کے ہاتھ میں پارٹی جھنڈے تھے وہ کینالوں کے خلاف نعرے لگا رہے تھے ٹھٹہ سے سجاول کے درمیان ایک قوم پرست جماعت کے کارکنان نے اچانک حملہ کیا، وزیر وزیر مملکت برائے مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کھیئل داس کوہستانی کی گاڑی پر ٹھٹہ کے قریب نامعلوم افراد کی جانب سے...

وزیر مملکت کھیئل داس کوہستانی کی گاڑی پر حملہ

وزیراعظم کی 60ممالک کو معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری کی دعوت وجود - اتوار 20 اپریل 2025

کان کنی اور معدنیات کے شعبوں میں مشترکہ منصوبے شروع کرنے کا بہترین موقع ہے غیرملکی سرمایہ کاروں کو کاروبار دوست ماحول اور تمام سہولتیں فراہم کریں گے ، شہباز شریف وزیراعظم شہباز شریف نے 60 ممالک کو معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری کی دعوت دے دی۔وزیراعظم شہباز شریف نے لاہور میں ...

وزیراعظم کی 60ممالک کو معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری کی دعوت

طالبان نے 5لاکھ امریکی ہتھیار دہشت گردوں کو بیچ دیے ،برطانوی میڈیا کا دعویٰ وجود - هفته 19 اپریل 2025

  ہتھیار طالبان کے 2021میں افغانستان پر قبضے کے بعد غائب ہوئے، طالبان نے اپنے مقامی کمانڈرز کو امریکی ہتھیاروں کا 20فیصد رکھنے کی اجازت دی، جس سے بلیک مارکیٹ میں اسلحے کی فروخت کو فروغ ملا امریکی اسلحہ اب افغانستان میں القاعدہ سے منسلک تنظیموں کے پاس بھی پہنچ چکا ہے ، ...

طالبان نے 5لاکھ امریکی ہتھیار دہشت گردوں کو بیچ دیے ،برطانوی میڈیا کا دعویٰ

وزیر خارجہ کادورہ ٔ کابل ،افغانستان سے سیکورٹی مسائل پر گفتگو، اسحق ڈار کی اہم ملاقاتیںطے وجود - هفته 19 اپریل 2025

  اسحاق ڈار افغان وزیر اعظم ملا محمد حسن اخوند ، نائب وزیر اعظم برائے اقتصادی امور ملا عبدالغنی برادر سے علیحدہ، علیحدہ ملاقاتیں کریں گے افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کے ساتھ وفود کی سطح پر مذاکرات بھی کریں گے ہمیں سیکیورٹی صورتحال پر تشویش ہے ، افغانستان میں سیکیورٹی...

وزیر خارجہ کادورہ ٔ کابل ،افغانستان سے سیکورٹی مسائل پر گفتگو، اسحق ڈار کی اہم ملاقاتیںطے

بلاول کی کینالز پر شہباز حکومت کا ساتھ چھوڑنے کی دھمکی وجود - هفته 19 اپریل 2025

  ہم نے شہباز کو دو بار وزیراعظم بنوایا، منصوبہ واپس نہ لیا تو پی پی حکومت کے ساتھ نہیں چلے گی سندھ کے عوام نے منصوبہ مسترد کردیا، اسلام آباد والے اندھے اور بہرے ہیں، بلاول زرداری پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پانی کی تقسیم کا مسئلہ وفاق کو خطرے...

بلاول کی کینالز پر شہباز حکومت کا ساتھ چھوڑنے کی دھمکی

کھربوں روپے کے زیر التوا ٹیکس کیسز کے فوری فیصلے ناگزیر ہیں،وزیراعظم وجود - هفته 19 اپریل 2025

قرضوں سے جان چھڑانی ہے تو آمدن میں اضافہ کرنا ہوگا ورنہ قرضوں کے پہاڑ آئندہ بھی بڑھتے جائیں گے ایف بی آر کی ڈیجیٹائزیشن کا سفر شروع ہوچکا، یہ طویل سفر ہے ، رکاوٹیں دور کرناہونگیں، شہبازشریف کا خطاب وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کھربوں روپے کے زیر التوا ٹیکس کیسز کے فوری فی...

کھربوں روپے کے زیر التوا ٹیکس کیسز کے فوری فیصلے ناگزیر ہیں،وزیراعظم

سندھ میں مقررہ ہدف سے 49فیصد کم ٹیکس وصولی کا انکشاف وجود - جمعه 18 اپریل 2025

  8ماہ میں ٹیکس وصولی کا ہدف 6کھرب 14ارب 55کروڑ روپے تھا جبکہ صرف 3کھرب 11ارب 4کروڑ ہی وصول کیے جاسکے ، بورڈ آف ریونیو نے 71فیصد، ایکسائز نے 39فیصد ،سندھ ریونیو نے 51فیصد کم ٹیکس وصول کیا بورڈ آف ریونیو کا ہدف 60ارب 70 کروڑ روپے تھا مگر17ارب 43کروڑ روپے وصول کیے ، ای...

سندھ میں مقررہ ہدف سے 49فیصد کم ٹیکس وصولی کا انکشاف

عمران خان کی زیر حراست تینوں بہنوں سمیت دیگر گرفتار رہنما رہا وجود - جمعه 18 اپریل 2025

  عمران خان کی تینوں بہنیں، علیمہ خانم، عظمی خان، نورین خان سمیت اپوزیشن لیڈر عمر ایوب، پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان بھچر،صاحبزادہ حامد رضا اورقاسم نیازی کو حراست میں لیا گیا تھا پولیس ریاست کے اہلکار کیسے اپوزیشن لیڈر کو روک سکتے ہیں، عدلیہ کو اپنی رٹ قائ...

عمران خان کی زیر حراست تینوں بہنوں سمیت دیگر گرفتار رہنما رہا

مضامین
ایران کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے! وجود اتوار 20 اپریل 2025
ایران کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے!

یکجہتی فلسطین کے لیے ملک گیر ہڑتال وجود اتوار 20 اپریل 2025
یکجہتی فلسطین کے لیے ملک گیر ہڑتال

تارکین وطن کااجتماع اور امکانات وجود اتوار 20 اپریل 2025
تارکین وطن کااجتماع اور امکانات

تہور رانا کی حوالگی:سفارتی کامیابی یا ایک اور فریب وجود اتوار 20 اپریل 2025
تہور رانا کی حوالگی:سفارتی کامیابی یا ایک اور فریب

مقصد ہم خود ڈھونڈتے ہیں! وجود هفته 19 اپریل 2025
مقصد ہم خود ڈھونڈتے ہیں!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر