... loading ...
امریکہ کے صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت پر ہمارے ہاں بھی شدید ردِ عمل کا اظہار کیا جا رہاہے سوشل میڈیا پر ایک دوست کا یہ تبصرہ دل کو بہت بھایا کہ ” ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت پر پاکستانی اس طرح کے ردِ عمل کا اظہار کر رہے ہیں جیسے یہ لوگ اپنے انتخابات میں فرشتے منتخب کرتے ہیں “ ۔
میں تاریخ کا ایک ادنیٰ سا طالب علم ہوں ۔ اب تک کے مطالعے کے دوران میں نے پاکستان یا برصغیر کے عام لوگوں کو ہر لحاظ سے سادہ ، سُچا اور سَچا پایا ہے ۔ نظریات کا اظہار ہو یا قربانی کا تقاضا اس خطے کے لوگ کبھی پیچھے نہیں ہٹے ۔ لیکن ان کے مقدر اور خطے میں فیصلہ کرنے والی قیادت کے اپنے اپنے چہرے اور نصب العین رہے ہیں ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی پر امریکی عوام سے زیادہ پاکستانی پریشان نظر آتے ہیں۔ اس بے قراری اور بے چینی کا بڑا سبب پاکستان کے لوگوں کی اپنے ملک اور نظریے سے محبت ہے ۔
ماضی میں 1857 ءکی جنگِ آزادی ، تحریک خلافت، ہندوستان چھوڑدو تحریک سمیت تمام تحریکوں میں یہا ں کے لوگوں نے اپنے جذبہ حریت کا بھر پور اظہار کیا ۔ یہ جدو جہد اس خطے کی تاریخ کا روشن پہلو اور دبستانِ حریت کا عنوانِ جلی ہے ۔ لیکن اس کے برعکس بھی تاریخ کے صفحات میں بہت کچھ ہے جو تاریخ کے طالب علموں کی بے قراری کا باعث ہے ۔ ان موضوعات کو بہت کم منظرِ عام پر لایا گیا ۔ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی پر پاکستانی عوام کی تشویش نے تاریخ کے گمشدہ اوراق کی ورق گردانی کے لیے مہمیز کا کام کیا ہے ۔ یہ غز ل چھِڑنے پر جو ساز ہاتھ آیا ہے وہ قارئین کی امانت کے طور پر پیش کرنا چاہوں گا ۔ یہ سب کچھ تاریخ کا حصہ ہے اسے یہاں دہرانے کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ ہم میں تاریخ کے مطالعے کی دلچسپی پیدا ہو۔
1857 ءکی جنگِ آزادی میں اس خطے کے عوام نے قربانیوں کی ایک لازوال داستان رقم کی تھی ۔ جب برِصغیر براہِ راست تاجِ برطانیہ کے ماتحت آیا تو 1857 ءکی جنگِ آزادی کو”پاگل پن کی آندھی “ قرار دےنے والوں کی کمی نہیں تھی ۔ ان کی رائے میں مسلمان انگریزوں کے مخالف ہو گئے ، ہندوو¿ں نے انگریزوں کے قریب ہو کر انہیں مسلمانوں سے بدظن کرنا شروع کر دیا ۔ لہذا سوچ سامنے آئی کہ اگر زمامِ کار ہندوو¿ں کے ہاتھ میں آئی اور انگریز درمیان سے ہٹ گئے تو مسلمانوں کا کیا حال ہوگا ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کا ایک طبقہ انگریزوں کو اپنا نجات دہندہ سمجھتا تھا ۔ اس فکر کو آگے بڑھانے میں سب سے بڑا کردار سر سید احمد خان تھا ۔ 1884 ءمیں ایک برطانوی رکنِ پارلیمنٹ کی ہندوستان آمد کے موقع پر انہوں نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ” ہم کو نہایت خوشی ہے کہ آپ ( مسٹر بلنٹ ) نے ہمارے ملک کو دیکھا، ہماری قوم کے مختلف گروہوں سے ملے ، ہم کو اُمید ہے کہ آپ نے ہر جگہ ہماری قوم کو تاجِ برطانیہ کا لائل ( Loyal ) اور کوئین وکٹوریہ ایمپریس انڈیا کا دلی خیر خواہ پایا ہوگا ۔ انگلش نیشن ہمارے مفتوحہ ملک میں آئی مگر مثل ایک دوست کے نہ کہ بطور ایک دشمن کے۔۔ ہماری خواہش ہے کہ ہندوستان میں انگلش حکومت صرف ایک زمانہ¾ دراز تک ہی نہیں بلکہ انٹرنل (Enteral ) رہے ۔“ایک دوسری جگہ سرسید کہتے ہیں کہ ” بے شک ہماری ملکہ معظمہ کے سر پر خدا کا ہاتھ ہے “۔ ملکہ برطانیہ کے حوالے سے علامہ اقبالؒ کے اُستاد شمس العلماءمولوی سید میر حسن کا فتویٰ بھی تاریخ میں محفوظ ہے ۔
تاریخ ، سیرت اور فلسفہ پر عبور رکھنے والے معروف اسکالر سید نصیر شاہ مرحوم نے اپنی آخری کتاب ” اسلام اور دہشت گردی “ میں اس بارے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ۔ کتاب مصنف کی وفات کی وجہ سے منظر عام پر نہیں آ سکی لیکن یہ نادر معلومات کا خزینہ ہے اس کتاب میں سید نصیر شاہ لکھتے ہیں کہ ” ملکہ وکٹوریہ 22 جنوری1901 ءکو فوت ہوئیں یہ دن ہندوستان میں عید الفطر کا دن تھا ۔ علامہ اقبالؒ اور مولانا الطاف حسن حالی ؒ دونوں نے پُر درد مر ثیے لکھے ۔مولانا حالی کے مقابلے میں علامہ اقبال ؒ کا ایک سو دس اشعار کا مرثیہ بہت زیادہ پردرد اور اثر انگیز ہے اور اس میں جذبات کے ساتھ زبان و بیان کی ساری خوبیاں سمٹ آئی ہیں ۔ اسی مرثیہ میں ملکہ کی موت کو محرم سے بھی تعبیر کیا ہے ۔
آئی ادھر نشاط ادھر غم بھی آ گیا
کل عید تھی تو آج محرم بھی آ گیا
اس مرثیے کے چوتھے بند میں انہوں نے نیک حاکم کے اوصاف گنوائے اور کہا ہے ہر بات اس کی ایسی پاکیزہ ہونا چاہیے جیسے جبرائیل کی صداہو، وہ معاملات کا فیصلہ ایسے رنگ میں کرے گویا تقدیر کی مراد وہی ہو ۔ اور جیسے یہ سب اوصاف ملکہ میں بدرجہ اتم پائے جاتے تھے ۔اُن کے جاوداں ہونے کی بات چھیڑتے ہوئے کہتے ہیں
وکٹوریہ نہ مُرد کہ نام نکوگزاشت
ہے زندگی یہی جسے پروردگار دے
اور آخر میں وہی ظلِ الہی والی بات دہراتے ہیں
” اے ہند تیرے سر سے اُٹھا سایہ خدا “
انگریز حاکموں کو یہ مرثیہ بہت ہی پر سوز اور پر اثر لگا ۔ اسے سرکاری خرچ پر طبع کرایا گیا ۔ حکومت نے خود اس کی کئی ہزار کاپیاں مختلف زبانوں میں شائع کروائیں اس کا انگریزی ترجمہ خود علامہ اقبال ؒ نے کیا اور Tear of Blood کے نام سے شائع ہوا ۔
تاریخی حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ صرف سرسید کے مکتب ِ فکر کا خیال نہیں تھا تمام مسلمان فرقے انگریزوں کی اطاعت کا دم بھرتے تھے ۔ مرقہءاہلحدیث کے مشہور عالم دین مولانا محمد حسین بٹالوی اپنے مشہورِ زمانہ ” اشاعت السنہ “ میں بار بار حکومت سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں ۔
” ملکہ معظمہ اور اس کی سلطنت کے لیے دعائے سلامتی و حفاظت وبرکت“۔۔ سجادہ نشین آستانہ عالیہ حضرت غوث بہاو¿ الحق فرماتے ہیں ”۔۔گورنمنٹ برطانیہ نے اپنے دورانِ سلطنت میں ہماری دینی اور روحانی ترقی میں جو نمایاں حصہ لیا ہے وہ محتاجِِ بیاں نہیں پس ہم کو ”من لم یشکرالناس لم یشکر اللہ“ سے بچنے کے لیے لازم ہے کہ اپنی محسن گورنمنٹ کے حق میں خاص مواقع پر صدقِ دل سے دعا کریں “ ۔ ( روزنامہ پیسہ اخبار لاہور 22 اگست1915 ء)
دیو بندی مسلک کے علماءکا کہنا تھا کہ ” ہر مومن مسلمان سے استدعا ہے کہ وہ گورنمنٹ عالیہ کے لیے کہ جس کے عہدِ حکومت میں ہر فرد بشر نہایت عیش و آرام سے اپنی زندگی بسر کر رہا ہے ، اور اس کی عطا کردہ آزادی کی بدولت اسلامی چمنستان سرسبز و بار آور ہے ۔ ضرور بالضرور اُٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے غرض ہر لحظہ اور ہر ساعت دعا کریں ،اے خدا تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے انہیں مسندِ حکومت پر قائم رکھ “ ۔۔۔ اہل تشیعہ حضرات کا طرزِ عمل بھی ایسا ہی تھا ” ہم تمام ہندوستان کے اہل تشیعہ عزم بالجزم، ارادہ¿ ہمم اور کامل مستعدی کے ساتھ اپنی جان ، اپنے مال، اپنے عزیز و اقارب اور اپنی اولاد کی جانوں کو بغیر کسی قسم کی قیود و شرائط شہنشاہ ِ برطانیہ اور اپنی گورنمنٹ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ “
مجلس ندوة العلماءکے ماہوار رسالہ ” الندوہ “ میں شائع شدہ رپورٹ کا ایک اقتباس کچھ یوں ہے ۔”ہز آنر لیفٹیننٹ گورنر بہادر نے منظور فرمایا تھا کہ وہ دارالعلوم ندوة العلماءکا سنگِ بنیاد اپنے ہاتھ سے رکھیں گے ۔ یہ تقریب28 نومبر1908 ءکو عمل میں آئی ، معزز شرکائے جلسہ کے علماءمیں مولانا عبد الباری فرنگی محلی ، مولوی شاہ سلیمان صاحب پھلواری، مولوی مسیح الزمان خان صاحب استاذ حضور نظام اور اربابِ وجاہت میں سے راجہ صاحب محمود آباد ، صاحبزادہ آفتاب احمد خان ، شیخ عبد القادر بیرسٹر ، خان بہادر سید جعفر حسین صاحب جلسہ میں شریک تھے ۔ ارکانِ ِ انتطامیہ¿ ندوہ ہزآنر کے استقبال کے لیے لبِ فرش دو رویہ صف باندھے کھڑے تھے ۔ کمشنر صاحب لکھن¿و نے سیکرٹری دارالعلوم شبلی نعمانی کو لیفٹیننٹ گورنر صاحب بہادر سے ملوایا ۔ ہز آنر سرخ بانات کے خیمہ میں لیڈی صاحبہ کے ساتھ چاندی کی کرسی پر رونق افروز ہوئے “۔۔۔یہ تو علمائے کرام کی داستانیں تھیں۔ تاریخ اسلام کا شاید پہلا موقع تھا کہ ترکی ٹوپیاں اور عمامے دوش بدوش نظر آتے تھے، مقدس علمائے اسلام عیسائی فرمانروا کے سامنے دلی شکر گزاری کے ساتھ ادب سے خم تھے اور شاید یہ بھی پہلا ہی موقع تھا کہ ایک مذہبی درسگاہ کا سنگِ بنیاد ایک غیر مذہبی شخص کے ہاتھوں رکھا جا رہا تھا ۔چلتے چلتے اُس دور کی صحافت کا حال بھی جانیے اور سر دھنتے رہ جائیے ۔۔۔”مولانا ظفر علی خان کے اخبار ”زمیندار “ کا سرنامہ یوں ہوا کرتا تھا ۔۔
روزانہ
زمیندار لاہور
تاجِ برطانیہ کانشان نشان خنجر
تُم خیر خواہِ دولتِ برطانیہ رہو
سمجھیں جناب قیصرِ ہند اپنا جاں نثار
تیغوں کے سایہ میں ہم پل کر جوان ہوئے
خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا۔۔۔۔۔۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فیس بک اور ٹوئٹر سے ٹکرانے کا فیصلہ کرلیا ۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹروتھ نامی سوشل میڈیا پلیٹ فارم بنانے کا اعلان کردیا ہے۔ ٹرمپ نے کہا کہ ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں ٹوئٹر پر طالبان کی موجودگی تو ہے تاہم عوام کے پسندیدہ امریکی صدر...
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نوجوان غیر قانونی تارکینِ وطن کو تحفظ دینے کے پروگرام 'ڈریمر کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جس کے بعد ملک بھر میں اس فیصلے کی شدید مذمت کی گئی ہے اور اس کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں ۔ ڈریمر پروگرام سابق امریکی صدر بارک اوباما نے متعارف کروایا تھا۔امریکی صدر...
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر توہینِ عدالت کے ملزم ریاست ایریزونا کے شیرف جو آرپائیو کو معاف کرنے کے بعد ان کی اپنی ہی ریپبلکن جماعت کی جانب سے کڑی تنقید کی جا رہی ہے۔ایوانِ نمائندگان کے ا سپیکر پال رائن کا کہنا تھا کہ شیروف جو آرپائیو کو معاف نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔صدر ٹرمپ نے شیر...
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیرس معاہدے سے علیحدگی کا اعلان کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ ماحول میں آلودگی پھیلانے والے انسانیت دشمنوں کے ساتھ ہیں ۔اپنے اس عمل کے ذریعے انھوں نے تاریخ میں اپنا نام سائنس اور انسانیت کے مخالفین کی فہرست میں درج کرالیاہے۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو...
امریکا کے موقر اخبارات نے جن میں واشنگٹن پوسٹ اورنیویارک ٹائمز شامل ہیں حال ہی میں ایسی اطلاعات شائع کی ہیں جن سے ظاہرہوتاہے کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ روس کے ساتھ رابطوں کے حوالے سے اپنے اور اپنے بیٹے داماد اور خاندان کے دیگر افراد کے خلاف ایف بی آئی کی جانب سے جاری تفتیشی رپو...
واشنگٹن پوسٹ اور اے بی سی نیوز کا رائے عامہ کا حالیہ جائزہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ مسٹرٹرمپ کی مقبولیت اپریل کے 42 فی صد کے مقابلے میں اب 36 فی صد ہے۔واشنگٹن پوسٹ اور اے بی سی نیوز کے تحت کرائے گئے رائے عامہ کے ایک تازہ ترین جائزے سے ظاہر ہو ا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت کی سطح می...
[caption id="attachment_44317" align="aligncenter" width="784"] خواتین صنعت کاروں پر ہونے والے ڈسکشن میں جب خواتین سے متعلق ٹرمپ کے رویے کا دفاع کیا تو حاضرین نے ایوانکا کیخلاف نعرے لگائے ایوانکا کی اپنے شوہر کے ساتھ وہائٹ ہائوس منتقلی اور ان کو وہائٹ ہائوس میں دفتر اور عملے کی ف...
امریکا کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز اس امکان کا عندیہ دیا کہ شمالی کوریا پر چین سے تعاون کے حصول کے لیے تجارت کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے؛ اور یہ کہ اگر ضرورت پڑی تو امریکا شمالی کوریا کے جوہری ہتھیار اور میزائل پروگرام کے خلاف اپنے طور پر اقدام کر سکتا ہے۔اُنہو...
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہدایت پر ایک خفیہ ایجنسی نے اوباما دور میں وہائٹ ہائوس میں منعقد ہونے والی پر تعیش تقریبات میں خفیہ طریقے سے کروڑوں ڈالر کے خرچ کے حوالے سے تحقیقات شروع کردی ہے۔ سرکاری اخراجات پر نظر رکھنے والی تنظیم ’’فریڈم واچ ‘‘ کے بانی لیری کلے مین نے انکشاف کیا ہے ...
ٹرمپ اپنے سرکاری جہازیوایس ایئر فورس ون میں سفرکررہاتھا۔وہ اپنی کرسی سے اٹھااورباتھ روم گیا۔وہاں سے باہر نکل کراس نے تولیے سے ہاتھ پونچھے اور وہاں موجود ایک خاتون سے کہا کہ یہ تولیہ کھردراہے، نرم تولیہ رکھو،تاکہ ہاتھ جلدی خشک ہوسکیں،اس کے بعدٹرمپ اپنی سیٹ پربیٹھ گیا۔مگریہ واقعہ پ...
امریکاکی خواہش ہے کہ نیٹو میں اس کے اتحادی ممالک بھی اس ادارے کا خرچ برداشت کرنے کے لیے اپنا حصہ ادا کریں، امریکا کی یہ خواہش نئی نہیں ہے بلکہ امریکی حکومت طویل عرصے سے یہ مطالبہ کرتی رہی ہے تاہم کسی امریکی حکومت نے اس پر اتنا زیادہ زور نہیں دیاتھا اور یہ مطالبہ اتنی شدومد کے سات...
ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھرامریکی میڈیاپر تنقید کرکے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ مغربی میڈیا جھوٹا ہے ۔فلوریڈا پہنچنے کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر پیغام میںانہوں نے کہاکہ نیو یارک ٹائمز۔این بی سی ،اے بی سی ،سی بی ایس اور سی این این جھوٹی خبریں چلاتے ہیں اور میرے نہیں بلکہ امریک...