... loading ...
ریاض کے شگا صالحیہ میں تیسرا دن تھا،ہم بطحہ بازار کے پاکستانی ہوٹل پر ناشتے کے لیے نکلے ، اصرار کرکے دونوں مصریوں سمیر اورعضام کو بھی ساتھ لے لیا۔ ہم لوگوں نے انہیں اپنا مہمان بنا لیا تھا حالانکہ وہ بھی ہماری ہی طرح کمپنی کے ملازم تھے لیکن ہمارے گروپ نے طے کیا کہ کیونکہ ہم پہلے شگا صالحیہ پہنچے تھے اور مصری بعد میں آئے تھے اس لیے وہ ہمارے مہمان ہیں۔ ہمارا گروپ پاکستانی ہوٹل پہنچا، ہمارا ارادہ ہوا کہ مصریوں کو حلوہ پوری کا ناشتہ کروایا جائے۔ لیکن تیل میں تربتر پوریاں دیکھ کر سمیر اور عضام پریشان ہوگئے۔ طے پایا کہ پراٹھے اور آملیٹ منگوایا جائے، دونوں مصریوں کو یہ ناشتہ پسند آیا۔ ناشتے کے دوران بھی سمیر کچھ نہ کچھ بولتا رہا اورہم سب سر ہلاتے رہے ، شاید ناشتے کی تعریف کر رہا تھا۔ ناشتے کے بعد چائے منگوائی گئی ،دودھ والی چائے دیکھ کر سمیر اور عضام نے نخرے شروع کر دئے ،کہنے لگے ہم توقہوہ پیتے ہیں ،اس ہوٹل پر قہوہ دستیاب نہیں تھا۔ ہماری پرزور فرمائش پر سمیر اور عضام نے چائے پینی شروع کی، ایک دو چسکیاں لینے کے بعد انہیں شاید اس میں مزہ آیا، دونوں نے مزے سے چائے ختم کی۔ مصری اور عربی چائے کی جگہ قہوہ استعمال کرتے ہیں ویسے خاص بات یہ ہے کہ سعودی عرب سمیت اکثرعرب ملکوں میں قہوہ کا تلفظ گاوا ہے۔ یہ گاوا چھوٹی سی پیالی میں پیا جاتا ہے جسے فنجان کہتے ہیں، جس کیتلی میں یہ گاوا، رکھا جاتا ہے اسے دَلہ کہتے ہیں۔ عام طور پر گاوا بہت تلخ ہوتا ہے پہلی بار پینے والوں کو اکثر گاوا پسند نہیں آتا لیکن اگر عادت بن جائے تو اس کا تلخی آمیز ذائقہ مزہ دینے لگتا ہے۔ یہ قہوہ یا گاوا عام طور پر کھجور کے ساتھ پیا جاتا ہے کچھ لوگ مصری کے ساتھ جبکہ کچھ لوگ کسی میٹھی گولی کے ساتھ گاوا پیتے ہیں۔ قہوہ یا گاوا پینے کا طریقہ کچھ ہوں ہے کہ فجان سے گھونٹ بھرنے کے بعد کھجور یامیٹھی چیز منہ میں ڈال لی جاتی ہے تاکہ کڑواہٹ محسوس نہ ہو۔ گاوا عمدہ خاص قسم کے کافی کے بیجوں سے تیار کیا جاتا ہے ، یہ اسپیشل بیج بہت مہنگے ہوتے ہیں ان بیجوں سے پاو¿ڈر تیار کرنا پڑتا ہے جس میں الائچی کا استعمال بھی کیا جاتاہے۔ اس گاوے کو کھجور کے ساتھ پیا جاتا ہے ، یہ گاوا بہت کڑوا اور بہت ہی خشک ہوتا ہے۔ اس میں کھجور کا استعمال اس لیے کیا جاتا ھے کہ گلا بھی تر رہے اور دوسرے کڑواہٹ بھی محسوس نہ ہو۔ دوسری قسم کا گاوا سستا ہوتا ہے اور اس کی تیاری بھی آسان ہے، تھوڑی سی چائے کی پتی کپ میں ڈال کر گرم پانی ڈالتے ہیں بس گاوا تیارہے، اس میں اپنی مرضی سے جتنی چینی کی ضرورت ہو ڈال لیں، یہ گاوا بھی خشک ہوتا ہے اس لیے اس میں لیمو کے چند قطرے ڈال لیتے ہیں جس سے ذائقہ بہتر ہو جاتا ہے اور کڑواہت بھی ختم ہو جاتی ہے، غیر عربی اور پاکستانی اکثر دوسری قسم کا گاوا استعمال کرتے ہیں۔
کافی بھی عربی قہوے کی جدید شکل ہے۔آج دنیا کا شائد ہی کوئی ملک ہو جہاں کافی نہ پی جاتی ہو لیکن تاریخی طورپرکافی ایتھوپیا میں دریافت ہوئی۔1414 تک کافی کا بیج مکہ پہنچا اور 16ویں صدی کی ابتدا میں یمن کی بندرگاہ المخا سے ہو کر مصر تک کافی کے بیچوں کی خوشبو پھیل گئی۔ ابتدا میں کافی کے بیجوں سے بنا قہوہ صوفیوں کا مشروب تھا۔ قاہرہ میں جامعة الاظہر کے اردگرد کئی قہوہ خانے کھل گئے۔ اس کے بعد یہ مشروب شام کے شہر حلب میں داخل ہوااور وہاں سے کچھ ہی عرصے بعد 1554 میں وسیع و عریض عثمانی سلطنت کے دارالخلافہ قسطنطنیہ تک پہنچ گیا۔ یہاں قہوے کو کافے کا نام ملا ، قسطنطنیہ یا استنبول سے کافے یا کافی یورپ تک پھیل گئی۔ مکہ، قاہرہ اور استنبول میں مذہبی شخصیات نے قہوے پر پابندی لگانے کے کوشش کی۔ علما نے اس بات پر بحث شروع کر دی کہ آیا کافے یا قہوے کے اثرات الکوحل کی طرح نشہ آور ہیں یا نہیں۔ بعض شیوخ نے کہا تھا قہوہ خانوں میں صراحی شراب کے ساغر کی طرح محفل میں گردش کرتی ہے۔ بعض علما ء نے قہوے کو شراب سے بدتر قرار دے دیا،رفتہ رفتہ مذہبی رہنما بھی اس نتیجے پر پہنچے کہ قہوہ یا کافی پینا جائز ہے۔ قہوہ خانے ایک نیا ادارہ تھے جن میں لوگ مل بیٹھتے تھے، مختلف موضوعات پر گفتگو کی جاتی تھی، شعرا سے ان کا تازہ کلام سنا جاتا تھا اورلوگ شطرنج وغیرہ کھیلتے تھے۔ جلد ہی قہوہ خانے بلاد اسلامیہ کی علمی زندگی کا محور بن گئے۔ آج بھی عرب دنیا میں قہوے یا گاوے کو مہمان نوازی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔عربوں میں رواج ہے کہ مہمان کی آمد کے کچھ دیر بعد اسے قہوہ پیش کیا جاتا ہے۔ اگر فوراً ہی دے دیا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ میزبان کو بہت جلدی ہے۔ خیر بطحہ کے پاکستانی ہوٹل واپس آتے ہیں جہاں ہمارے مصری مہمانوں کو قہوہ یا گاوا تو نہ ملا لیکن انہوں نے ہماری دودھ والی چائے پی اوراس کی تعریف بھی کی۔ ہم خوش تھے کہ میزبانی کی عزت رہ گئی۔ ناشتے کے بعد واپس ہوٹل پہنچ کرہمارے پاس احمد کے انتظار کے علاوہ کوئی کام نہیں تھا۔ احمد نے دوپہر دو بجے اپنی شکل دکھائی۔۔۔ جاری ہے
سعودی عرب کی زیر قیادت مسلم ممالک کے عسکری اتحاد کی کمان کا معاملہ اس اتحاد کے قیام کے بعد ہی سے پوری مسلم دنیا خاص طورپر پاکستان میں زیر بحث رہا ہے’ یہی وجہ ہے کہ ابتدا میں پاکستان نے اس اتحاد میں شمولیت سے گریز کی کوشش کی تھی لیکن بعد میں بوجوہ پاکستان بھی اس اتحاد میں شامل ہوگ...
ہمیں کیمپ میں پانچواں روز تھا کہ جمعہ آگیا، یہاں جمعے کو چھٹی ہوتی ہے اس لئے صبح کالج تو نہیں جانا تھا لیکن مشکل یہ آپڑی تھی کہ کیمپ میں وقت کیسے گزرے گا، خیر ہم نے بستر پر پڑے رہنے میں عافیت جانی لیکن دس بجے کے قریب چار و ناچار اٹھنا ہی پڑا۔ ناشتے کے لئے جنادریہ بازار تک جانا ہی...
ہم عجیب شش وپنچ میں پڑے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر کااسسٹنٹ دروازے کے بیچ میں کھڑا ہمیں گھور رہا تھا۔ ہم نے کہا ہماری شرٹ ڈاکٹر کے کمرے میں ہے ہمیں وہ لینی ہے۔ اسسٹنٹ بولا واپس جاتے ہوئے آپ شرٹ پہن کر ہی جائیں گے ابھی جائیں یورین پاس کریں، ہم نے کہا بھائی تم خود ہی شرٹ لادو ہمیں ضروری کام ہ...
جلال صاحب سے مختصر تعارف کے بعد ہم اپنے دفتر لوٹ گئے۔ جہاں موجود دیگر لوگوں سے تعارف کے مرحلے کے بعد اپنے کام میں لگ گئے۔ جلال صاحب سے دوسری ملاقات لنچ ٹائم میں ہوئی۔ جلال صاحب ٹہلتے ہوئے ہماری طرف آگئے اور کھانے کی دعوت دی، جسے ہم نے ایسے قبول کیا جیسے صحرا میں بھٹکتا مسافرپانی ...
جنادریہ کالج میں نوکری کا پہلا دن تھا، فکر کی وجہ سے آنکھ صبح الارم سے پہلے ہی کھل گئی۔واش رومز کیمپ میں کچھ فاصلے پر بنے ہوئے تھے پانی بہت ٹھنڈا تھا، صحراکی یہی خاصیت ہے دن کتنے بھی گرم ہوں راتیں ٹھنڈی ہوتی ہیں۔ وہاں سے فارغ ہوئے تو ناشتے کی فکر ستانے لگی۔ ہم نے ناشتے کے لیے کوئ...
جنادریہ کیمپ میں ہمیں ایک کنٹینر میں کیبن الاٹ کردیا گیا۔ کیبن میں دو افراد کے رہنے کی جگہ تھی، کسی کسی کیبن میں بیڈ پر بیڈ لگا کر چار لوگوں کے لیے جگہ بھی بنا دی گئی تھی۔ ہمارے کیبن میں فی الحال ابھی کوئی اور نہیں تھا اس لیے ذرا سکون محسوس ہوا۔ سامان کیبن میں رکھ کر ہم نے کیمپ ک...
احمد نے آتے ہی ہمیں طلب کیا، کہا اپنا سامان اٹھا لو تمہیں تمہاری ملازمت کی سائٹ پر پہنچانا ہے۔ ہم نے پوچھا ہماری سائٹ کہاں ہے جواب ملا جنادریہ کالج۔ دراصل ہماری کمپنی ایک بڑی مینٹی ننس کمپنی تھی جس کا کام مختلف اداروں میں مرمت اور دیکھ بھا ل کا کام انجام دینا تھا۔ پورے سعودی عرب ...
ہم بطحہ سے ہوٹل واپس پہنچے تو اپارٹمنٹ میں دو اجنبی موجود تھے۔ سلام دعا کے بعد تعارف کا مرحلہ آیا۔ ایک کا نام عضام اور دوسرے کا سمیر تھا، دونوں کا تعلق مصر سے تھا۔ ہم سب نے بھی اپنے نام بتائے اور بتایا کہ ہمارا تعلق پاکستان سے ہے۔ تعارف کا یہ مرحلہ توآسانی کے ساتھ طے ہو گیا، باقی...