وجود

... loading ...

وجود

ڈونلڈ ٹرمپ نئے صدر۔۔۔امریکا انتہا پسندی کی طرف گامزن

جمعرات 10 نومبر 2016 ڈونلڈ ٹرمپ نئے صدر۔۔۔امریکا انتہا پسندی کی طرف گامزن

امریکا سیاسی، معاشی اور سماجی طور پر مزید منقسم ہو گیا ہے،سوشل میڈیا پر کسی نے اسے نفرت کی جیت قرار دیا،کسی نے عوامی مسائل پر آواز اٹھانا ٹرمپ کی فتح کا سبب قراردیا ،خانہ جنگی کے خدشات کا بھی اظہار
ٹرمپ کی سیاہ فاموں ،مسلمانوں اور تارکین وطن کیلیے نفرت اور تجارتی و خارجہ پالیسی کے لیے اپنے نئے اصول اور موجودہ نظام کیخلاف کھری کھری باتیں ہی امریکیوں کے لیے خوبی ٹھہریں،ووٹرز کو روزگارکی امیدی
trump-dominica-1-copyارب پتی امریکی تاجر ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکا کے 45ویں صدر منتخب ہونے پر سوشل میڈیا پر خوشی اور غم سے بھرپور ملے جلے تاثرات دیکھنے کو مل رہے ہیں، جہاں کئی لوگ خوشی سے سرشار تھے تو کچھ نے انتخابی نتائج پر حیرانی و پریشانی کا اظہار کیا۔ٹرمپ کی کامیابی کو مجموعی طور پر دنیا میں منفی نظر سے دیکھا جا رہا ہے، جس کی وجہ ان کا ماضی اور صدارتی مہم سے قبل اور اس دوران دیے جانے والے متنازع بیانات ہیں۔ٹرمپ کی کامیابی کے بعد جہاں ایشیائی شیئرز کی مارکیٹ متاثر ہوئی وہیں عوام کی اکثریت نے بھی غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ٹوئٹر ہینڈل شہباز جمال نے لکھا کہ امریکا 9/11 کو کبھی نہیں بھولے گا اور 11/9 پر ہمیشہ افسوس کرے گا۔ماجد آغا نے ٹرمپ کے انتخاب پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں انتہا پسندی کا ٹھیکیدار امریکا آج خود انتہا پسندی کا شکار ہو گیا۔
سرجیکل اسٹرائیکر کے نام سے کی گئی ٹوئٹ میں خبردار کیا گیا کہ ٹرمپ کے انتخاب کے بعد امریکا خانہ جنگی کا شکار ہو سکتا ہے۔انکا خیال ہے کہ امریکا کے بھی برے دن شروع ہوگئے ہیں کیونکہ
ڈونلڈ ٹرمپ مسلمانوں اور کالوں سے شدید نفرت کرتا ہے،ایسے شخص کے صدر بننے کے بعددوسرے ملکوں میں دہشت گردی کروانے والے امریکا کو خود خانہ جنگی کا خطرہ درپیش ہے۔
اس دوران آصف بٹ نے اچھا سوال اٹھایا ہے کہ آیا امریکا کی جانب سے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مد ملنے والا کولیشن سپورٹ فنڈ ٹرمپ کے انتخاب کے بعد بھی ملتا رہے گا یا نہیں۔پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر بھی ٹرمپ کی آمد کو زیادہ سراہا نہیں جا رہا اور اسے دنیا بھر کیلیے خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔پیڈی پاورٹوئٹر ہینڈل سے ڈبلیو ڈبلیو ای کی ایک ویڈیو شیئر کی گئی جس کے مطابق اب صرف ریسلر اسٹون لوڈ ہی امریکا کو بچا سکتے ہیں۔جب کہ ایک خاتون نے دلچسپ تبصرہ کیا ہے کہ ’’اب خوبصورت خواتین بے روزگار نہیں رہیں گی ،لیکن ہم جیسوں کا کیا ہوگا ‘‘؟
فلپ بلوم نے ڈبلیو ڈبلیو ای کی ایک اور ویڈیو میں ٹرمپ کی متشدد شخصیت کی عکاسی کرتے ہوئے بتایا کہ یہ امریکا کے نئے صدر ہیں۔رینی نے ٹرمپ کے انتخاب کو امریکا کی ‘ڈراؤنی کہانی’ قرار دیا۔
ایک اور شخص نے امریکی عوام پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے امریکی صدر کے انتخاب سے زیادہ میک ڈونلڈ پر آرڈر دیتے ہوئے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
لیکن دوسری طرف دیکھا جائے تو حالیہ امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ نے صرف اپنی حریف ہلیری کلنٹن ہی کو شکست نہیں دی بلکہ تمام اندازوں، تخمینوں اور پیش گوئیوں کو بھی مات دے دی ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ اور ہیلری کلنٹن کے درمیان عہدہ صدارت کے لیے کانٹے کا مقابلہ ہوا جس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے 290 الیکٹورل ووٹ حاصل کیے جبکہ صدر منتخب ہونے کے لیے 538 میں سے کم سے کم 270 الیکٹورل ووٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔
ٹرمپ کے بارے میں عام تاثر تھا کہ وہ صدارت کے لیے موزوں امیدوار نہیں ہیں۔ ان کا کوئی سیاسی تجربہ نہیں ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق انھوں نے عشروں سے ٹیکس ادا نہیں کیا، انھوں نے عورتوں کا تمسخر اڑایا، ان کے درجنوں جنسی اسکینڈل سامنے آئے، انھوں نے تارکینِ وطن کو ناراض کیا، مسلمانوں کی امریکا آمد پر پابندی لگانے کا اعلان کیا، میکسیکو والوں کو جنسی مجرم کہا، میڈیا کے خلاف جنگ لڑی، خود اپنی ہی جماعت کے رہنماؤں سے مخالفت مول لی، وغیرہ وغیرہ۔لیکن پھر بھی جیت اپنے نام کر لی، اس صورتِ حال میں مبصرین ان کی حیران کن فتح کوسیاسی تاریخ کا سب سے بڑا اپ سیٹ قرار دے رہے ہیں۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر انھوں نے ہلیری کلنٹن جیسی منجھی ہوئی سیاست دان کو شکست سے کیسے ہمکنار کر دیا؟
برطانوی خبر رساں ایجنسی کے مطابق ماہرِ معاشیات اور سیاسی مبصر منظور اعجاز نے کہا کہ دراصل ان انتخابات میں لوگوں نے ٹرمپ کو نہیں بلکہ اپنے روزگار کو ووٹ دیے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ٹرمپ نے امریکا کے ان علاقوں سے بڑے پیمانے پر ووٹ حاصل کیے ہیں جنھیں ‘رسٹ بیلٹ’ یا ‘زنگ آلود پٹی’ کہا جاتا ہے۔یہ وہ علاقہ ہے جہاں کئی عشرے قبل بھاری انڈسٹری قائم تھی لیکن امریکی معیشت کی سست رفتاری کی وجہ سے کارخانے رفتہ رفتہ دوسرے ملکوں میں منتقل ہو گئے ، اس عمل کا نتیجہ لاکھوں لوگوں کی بیروزگاری کی شکل میں نکلا۔اس پٹی میں مشی گن، اوہایو، وسکانسن اور پینسلوینیا جیسی ریاستیں شامل ہیں۔منظور اعجاز کہتے ہیں کہ ان علاقوں میں رہنے والے سفید فام قطار اندر قطار ٹرمپ کے پیچھے کھڑے ہو گئے کیوں کہ انھیں توقع ہے کہ چونکہ ٹرمپ خود ارب پتی بزنس مین ہیں اس لیے وہ اپنی کاروباری سوجھ بوجھ سے کام لے کر اس علاقے کی کاروباری سرگرمیاں بحال کر سکتے ہیں۔
اس کے مقابلے پر ہلیری کلنٹن کو دو چیزوں نے سخت نقصان پہنچایا۔ ایک تو یہ کہ ان کی اپنی ہی جماعت کی جانب سے امیدواری کے متمنی برنی سینڈرز کے ساتھ انھیں طویل اور تند و تلخ جنگ لڑنا پڑی جس کے دوران برنی سینڈرز نے خاصی کامیابی سے کلنٹن کو ‘بدعنوان نظام’ کا حصہ ظاہر کر دیا۔سینڈرز نے لوگوں کو باور کروا دیا کہ ہلیری کلنٹن چونکہ اسی نظام کی پیداوار اور اس کی تقویت کی ذمہ دار ہیں، اس لیے ان سے یہ توقع عبث ہے کہ وہ ملک میں کوئی حقیقی تبدیلی لا سکتی ہیں۔دوسری جانب ایف بی آئی کی جانب سے ہلیری کلنٹن کے خلاف ای میلز معاملے کی تحقیقات عین وقت پر کھولنے سے بھی ہلیری کو زک پہنچی، اور لوگوں کا یہ تاثر مزید گہرا ہو گیا کہ سیاست دانوں پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔
واشنگٹن میں مقیم ایک تبصرہ نگار کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان انتخابات میں ایک چیز یہ بھی کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ امریکا اکیسویں صدی میں بھی کسی عورت کو صدر بنانے کے لیے تیار نہیں ۔جب کہ ایک اورچیز جو پہلے ہی واضح تھی اور ان انتخابات میں مزید کھل کر سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ امریکا سیاسی، معاشی اور سماجی طور پر مزید منقسم ہو گیا ہے۔
ان میں سے ایک تقسیم شہری اور دیہی کی ہے، شہری علاقے بڑی حد تک ڈیموکریٹ پارٹی کی حمایت کرتے ہیں لیکن دیہی حصوں کی بھاری اکثریت رپبلکن پارٹی کی حامی ہے۔
اس کے علاوہ ایک اور خلیج سفید فام امریکیوں اور بقیہ تمام امریکیوں کے درمیان پائی جاتی ہے۔ سفید فاموں کی غالب اکثریت رپبلکن پارٹی کی حامی ہے، جب کہ سیاہ فام، لاطینی امریکی اور دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے مہاجرین بڑی حد تک ڈیموکریٹ پارٹی کی حمایت کرتے ہیں۔ایک اور تقسیم زیادہ تعلیم یافتہ اور کم تعلیم یافتہ ووٹروں کے درمیان پائی جاتی ہے۔ کم پڑھے لکھوں کی بڑی تعداد رپبلکن ہے، جب کہ کالج کے سندیافتہ ووٹر زیادہ تر ڈیموکریٹ امیدواروں کو ووٹ دیتے ہیں۔
مقامی صحافی رانا آصف سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ جس شخص کا مضحکہ اْڑایا جائے، جسے سنکی، مسخرہ اور احمق تصور کیا جاتا ہو وہ سیاست کے میدان میں کام یاب ہواہو؟ ابھی کل کی بات ہے مودی جیسا ’’لوکل‘‘ سیاست داں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت سے کام یابی کا تمغہ سینے پر سجائے دنیا بھر میں سیلیفیاں لے رہا ہے۔ کیا ہم بھول گئے ، پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی لیڈر نے جس شخص کے بارے میں کہا تھا کہ ہم نے ایک ایسے آدمی کو وزیر اعظم بنایا ہے جس کے سر کی جگہ تربوز ہے، کاغذ کا شیر ہے۔ سیاست کے جنگل کا وہ شیر آج تیسری مرتبہ ایوان وزیر اعظم میں ہے۔ سرد جنگ کے فیصلہ کن موڑ پر ایک ایسا ہی آدمی کیا ریاست ہائے متحدہ کا صدر نہیں تھا جس کے دور سیاست کی سب سے بڑی یاد گار اس کے چٹکلے تھے۔ ریگن کا ایسا ہی ایک چٹکلا ہے کہ ’’پیشہ ور سیاست دانوں کا پسندیدہ مشغلہ حکومت کرنے کے لیے تجربے کی اہمیت پر بات کرنا ہے۔ بکواس! سیاست سے آپ واحد تجربہ یہ حاصل کرتے ہیں کہ سیاسی کیسے ہوا جائے‘‘ اور سیاسی آدمی اپنی ’’پبلک‘‘ کو خوش کرنے کا گْر جانتا ہے۔ چاہے ایسا کرتے ہوئے وہ دنیا کی نظر میں مذاق ہی کیوں نہ بن کر رہ جائے، میرے جیسے مڈل کلاس نیم خواندہ اس پر تاڑیاں مار کر ہنستے رہیں، پھبتیاں کستے رہیں لیکن اسے معلوم ہوتا ہے کہ سیاست کے کھیل میں وہی ایشو دراصل ایشو ہوتا ہے جو عوام کی سمجھ میں آجائے۔ ٹرمپ کی فتح پر لطائف کا سلسلہ تو جاری رہے گا، لیکن اس کی فتح نے ہمیں بتا دیا کہ آج امریکا کن مسائل کا شکار ہے؟ اگر آپ اپنے لوگوں کے مسائل حل کرنے کی بات کریں گے، انھیں خواب بیچنے میں کام یاب ہوجائیں گے، تو چاہے وہ خواب دوسروں کے لیے ڈراؤنے کیوں نہ ہوں، چاہے آپ کے پیش کردہ حل دوسروں کے لیے بحران کیوں نہ ثابت ہوں، میڈیا آپ پر قہقہہ بار ہو اور عالمی رائے عامہ آپ کو نفرت اور تضحیک کی نظر سے دیکھتی ہو، پھر بھی میدان آپ ہی کا ہوگا۔ یہی سیاست ہے اور یہی امریکی انتخاب کی اس ’’ٹریجڈی‘‘ کا سبق کہ اب ہمیں بھی اب اپنی سیاست میں اپنا اپنا ’’ٹرمپ‘‘ تلاش کرنا ہوگا۔
بہر حال جو بھی ہو ،نتیجہ یہ نکلا کہ آخر کار ٹرمپ کی سیاسی ناتجربہ کاری، لاپروایانہ انداز اور کھری کھری سنا دینے جیسی ‘خامیاں’ ہی ان کی خوبیاں قرار پائیں اور ہلیری کلنٹن کو منجھا ہوا سیاست دان ہونے، طویل انتظامی تجربہ، نظام کی سمجھ بوجھ جیسے میدانوں میں جو برتری حاصل تھی، وہی بالاًخر ان کے گلے کا ہار بن گئی۔


متعلقہ خبریں


طالبان نے 5لاکھ امریکی ہتھیار دہشت گردوں کو بیچ دیے ،برطانوی میڈیا کا دعویٰ وجود - هفته 19 اپریل 2025

  ہتھیار طالبان کے 2021میں افغانستان پر قبضے کے بعد غائب ہوئے، طالبان نے اپنے مقامی کمانڈرز کو امریکی ہتھیاروں کا 20فیصد رکھنے کی اجازت دی، جس سے بلیک مارکیٹ میں اسلحے کی فروخت کو فروغ ملا امریکی اسلحہ اب افغانستان میں القاعدہ سے منسلک تنظیموں کے پاس بھی پہنچ چکا ہے ، ...

طالبان نے 5لاکھ امریکی ہتھیار دہشت گردوں کو بیچ دیے ،برطانوی میڈیا کا دعویٰ

وزیر خارجہ کادورہ ٔ کابل ،افغانستان سے سیکورٹی مسائل پر گفتگو، اسحق ڈار کی اہم ملاقاتیںطے وجود - هفته 19 اپریل 2025

  اسحاق ڈار افغان وزیر اعظم ملا محمد حسن اخوند ، نائب وزیر اعظم برائے اقتصادی امور ملا عبدالغنی برادر سے علیحدہ، علیحدہ ملاقاتیں کریں گے افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کے ساتھ وفود کی سطح پر مذاکرات بھی کریں گے ہمیں سیکیورٹی صورتحال پر تشویش ہے ، افغانستان میں سیکیورٹی...

وزیر خارجہ کادورہ ٔ کابل ،افغانستان سے سیکورٹی مسائل پر گفتگو، اسحق ڈار کی اہم ملاقاتیںطے

بلاول کی کینالز پر شہباز حکومت کا ساتھ چھوڑنے کی دھمکی وجود - هفته 19 اپریل 2025

  ہم نے شہباز کو دو بار وزیراعظم بنوایا، منصوبہ واپس نہ لیا تو پی پی حکومت کے ساتھ نہیں چلے گی سندھ کے عوام نے منصوبہ مسترد کردیا، اسلام آباد والے اندھے اور بہرے ہیں، بلاول زرداری پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پانی کی تقسیم کا مسئلہ وفاق کو خطرے...

بلاول کی کینالز پر شہباز حکومت کا ساتھ چھوڑنے کی دھمکی

کھربوں روپے کے زیر التوا ٹیکس کیسز کے فوری فیصلے ناگزیر ہیں،وزیراعظم وجود - هفته 19 اپریل 2025

قرضوں سے جان چھڑانی ہے تو آمدن میں اضافہ کرنا ہوگا ورنہ قرضوں کے پہاڑ آئندہ بھی بڑھتے جائیں گے ایف بی آر کی ڈیجیٹائزیشن کا سفر شروع ہوچکا، یہ طویل سفر ہے ، رکاوٹیں دور کرناہونگیں، شہبازشریف کا خطاب وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کھربوں روپے کے زیر التوا ٹیکس کیسز کے فوری فی...

کھربوں روپے کے زیر التوا ٹیکس کیسز کے فوری فیصلے ناگزیر ہیں،وزیراعظم

سندھ میں مقررہ ہدف سے 49فیصد کم ٹیکس وصولی کا انکشاف وجود - جمعه 18 اپریل 2025

  8ماہ میں ٹیکس وصولی کا ہدف 6کھرب 14ارب 55کروڑ روپے تھا جبکہ صرف 3کھرب 11ارب 4کروڑ ہی وصول کیے جاسکے ، بورڈ آف ریونیو نے 71فیصد، ایکسائز نے 39فیصد ،سندھ ریونیو نے 51فیصد کم ٹیکس وصول کیا بورڈ آف ریونیو کا ہدف 60ارب 70 کروڑ روپے تھا مگر17ارب 43کروڑ روپے وصول کیے ، ای...

سندھ میں مقررہ ہدف سے 49فیصد کم ٹیکس وصولی کا انکشاف

عمران خان کی زیر حراست تینوں بہنوں سمیت دیگر گرفتار رہنما رہا وجود - جمعه 18 اپریل 2025

  عمران خان کی تینوں بہنیں، علیمہ خانم، عظمی خان، نورین خان سمیت اپوزیشن لیڈر عمر ایوب، پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان بھچر،صاحبزادہ حامد رضا اورقاسم نیازی کو حراست میں لیا گیا تھا پولیس ریاست کے اہلکار کیسے اپوزیشن لیڈر کو روک سکتے ہیں، عدلیہ کو اپنی رٹ قائ...

عمران خان کی زیر حراست تینوں بہنوں سمیت دیگر گرفتار رہنما رہا

روس نے طالبان کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نکال دیا وجود - جمعه 18 اپریل 2025

روس نے 2003میں افغان طالبان کو دہشت گردقرار دے کر متعدد پابندیاں عائد کی تھیں 2021میں طالبان کے اقتدار کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آنا شروع ہوئی روس کی سپریم کورٹ نے طالبان پر عائد پابندی معطل کرکے دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نام نکال دیا۔عالمی خبر رساں ادارے کے ...

روس نے طالبان کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نکال دیا

حکومت کا ملکی معیشت کو مکمل طور پر ڈیجیٹائز کرنے کا فیصلہ وجود - جمعه 18 اپریل 2025

وزیراعظم نے معیشت کی ڈیجیٹل نظام پر منتقلی کے لیے وزارتوں ، اداروں کو ٹاسک سونپ دیئے ملکی معیشت کی ڈیجیٹائزیشن کیلئے فی الفور ایک متحرک ورکنگ گروپ قائم کرنے کی بھی ہدایت حکومت نے ملکی معیشت کو مکمل طور پر ڈیجیٹائز کرنے کا فیصلہ کر لیا، اس حوالے سے وزیراعظم نے متعلقہ وزارتوں ا...

حکومت کا ملکی معیشت کو مکمل طور پر ڈیجیٹائز کرنے کا فیصلہ

وفاق صوبے کے وسائل پر قبضے کی کوشش کررہا ہے، مولانا فضل الرحمان وجود - جمعرات 17 اپریل 2025

  فاٹا انضمام کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ تھی اور اس کے پیچھے بیرونی قوتیں،مائنز اینڈ منرلز کا حساس ترین معاملہ ہے ، معدنیات کے لیے وفاقی حکومت نے اتھارٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے ، 18ویں ترمیم پر قدغن قبول نہیں لفظ اسٹریٹیجک آنے سے سوچ لیں مالک کون ہوگا، نہریں نکالنے اور مائنز ا...

وفاق صوبے کے وسائل پر قبضے کی کوشش کررہا ہے، مولانا فضل الرحمان

بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کے لیے بڑے ریلیف کی تیاریاں وجود - جمعرات 17 اپریل 2025

  قابل ٹیکس آمدن کی حد 6لاکھ روپے سالانہ سے بڑھانے کاامکان ہے، ٹیکس سلیبز بھی تبدیل کیے جانے کی توقع ہے ،تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دینے کے لیے تجاویز کی منظوری آئی ایم ایف سے مشروط ہوگی انکم ٹیکس ریٹرن فارم سادہ و آسان بنایا جائے گا ، ٹیکس سلیبز میں تبدیلی کی جائے گی، ب...

بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کے لیے بڑے ریلیف کی تیاریاں

جیل عملہ غیر متعلقہ افراد کو بھیج کر عدالتی حکم پورا کرتا ہے ،سلمان اکرم راجہ وجود - جمعرات 17 اپریل 2025

  بانی پی ٹی آئی کی بہن علیمہ خان اور سلمان اکرم راجہ نے کہا ہے کہ عمران خان کو فیملی اور وکلا سے نہیں ملنے دیا جا رہا، جیل عملہ غیر متعلقہ افراد کو بانی سے ملاقات کیلئے بھیج کر عدالتی حکم پورا کرتا ہے ۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کی بہن...

جیل عملہ غیر متعلقہ افراد کو بھیج کر عدالتی حکم پورا کرتا ہے ،سلمان اکرم راجہ

ٹی پی لنک کینال کو بند کیا جائے ،وزیر آبپاشی کا وفاق کو احتجاجی مراسلہ وجود - جمعرات 17 اپریل 2025

  پنجاب، جہلم چناب زون کو اپنا پانی دینے کے بجائے دریا سندھ کا پانی دے رہا ہے ٹی پی لنک کینال کو بند کیا جائے ، سندھ میں پانی کی شدید کمی ہے ، وزیر آبپاشی جام خان شورو سندھ حکومت کے اعتراضات کے باوجود ٹی پی لنک کینال سے پانی اٹھانے کا سلسلہ بڑھا دیا گیا، اس سلسلے میں ...

ٹی پی لنک کینال کو بند کیا جائے ،وزیر آبپاشی کا وفاق کو احتجاجی مراسلہ

مضامین
مقصد ہم خود ڈھونڈتے ہیں! وجود هفته 19 اپریل 2025
مقصد ہم خود ڈھونڈتے ہیں!

وقف ترمیمی بل کے تحت مدرسہ منہدم وجود هفته 19 اپریل 2025
وقف ترمیمی بل کے تحت مدرسہ منہدم

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ جاری وجود جمعه 18 اپریل 2025
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ جاری

عالمی معاشی جنگ کا آغاز! وجود جمعه 18 اپریل 2025
عالمی معاشی جنگ کا آغاز!

منی پور فسادات بے قابو وجود جمعرات 17 اپریل 2025
منی پور فسادات بے قابو

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر