... loading ...
شائد بہت ہی کم لوگوں کو علم ہے کہ دھیمے مزاج اور بظاہر نرم خو جناب پرویز رشید کی ن لیگ میں کیا حیثیت ہے؟ان کی میاں محمد نواز شریف کے دوسرے دورِ وزارت عظمیٰ سے شروع ہونے والی ذہنی ہم آہنگی اور قربت اب قربت کے مرحلے سے بہت ہی آگے تک پہنچ چکی ہے۔ انہوں نے میاں محمد نواز شریف کا اعتماد بہت حد تک تب بھی جیت لیاتھا جب وہ مشرف کی مارشل لاء کے ابتدائی دنوں میں لاہور ہائی کورٹ میں گھسیٹے اور اٹھا کر پولیس وین میں پٹخے گئے جب میاں نواز شریف کا اپنا سایہ بھی ان کے ساتھ کھڑا ہونے کو تیار نہیں تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اس عرصے میں ہر دوسرے دن حسین نواز صاحب کی (پہلی اور اُس وقت تک واحد) بیگم صاحبہ ہمارے اُس وقت کے دفتر کے براہِ راست لینڈ لائن نمبر پرفون کرکے اپنی اور اپنے (اُس وقت کے) شیرخوار بچے کی بپتا سنایا کرتی تھیں اور ملتمس ہوتیں کہ ان کی داستان اخبار کی زینت بن جائے لیکن ہماری تمام تر ذاتی کوشش کے باوجود یہ خبر خال ہی اس اخبار کے کسی کونے کھدرے میں جگہ لے پاتی تھی حالاں کہ وہ اخبار اُس وقت بھی ان کا ’اپنا اخبار‘ سمجھا جاتا تھا، اور شائد اسی اپنا ہونے کے ناطے آج بھی سب سے زیادہ سرکاری اشتہارات کا حق دار گردانا جاتا ہے۔
جناب پرویز رشید صاحب کی مشرف آمریت کے خلاف جدوجہد اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ان کی حالت زار انہیں میاں نواز شریف کے اس قدرقریب لے گئی کہ وہ میاں صاحب کی آنکھیں ، کان اور دماغ ہو گئے۔ اس قربت کا قدرتی نتیجہ یہ نکلا کہ راجہ ظفرالحق ، مخدوم جاوید ہاشمی اور بہت سے وہ لوگ ن لیگ کے ہاں نامعتبر ٹھہرے جو میاں صاحب کی غیر موجودگی میں مشرفی آمریت کے خلاف مزاحمت کرتے اور اس مزاحمت کی قیمت ادا کرتے رہے۔اور تو اور کلثوم آپی کے ہمقدم باہر نکلنے اور فوجی آمریت کو للکارنے والے ، جنہوں نے اُس وقت کی پنجاب پولیس کے ہاتھوں ’گدڑ کُٹ‘ کھائی تھی، لیکن ان کی گاڑی کے اسٹیرنگ سے دستبرادر ہونے سے انکاری ہو گئے تھے، آپ کو آج ن لیگ کی صفوں میں نظر نہیں آتے۔
پرویز رشید صاحب کو اس اعلیٰ اور ارفع مقام تک پہنچانے میں ان کے اُن ’’ہم پیالہ‘‘ صحافیوں کا بھی بہت عمل دخل ہے جنہوں نے پرویزی تشدد کے نتیجے میں امریکا میں پرویز رشید کے ہونے والے نفسیاتی علاج کے دوران میاں صاحب کو پرویز رشید پر ہونے والے مظالم کو کئی کروڑ سے ضرب دے کر سنایااور میاں صاحب ’’پرویزی قربانیوں ‘‘کے اس طرح قائل ہوئے کہ ان کے لیے اپنے گھر کے علاوہ دل کے دروازے بھی کھول دیے۔
یہی وجہ ہے کہ میاں نواز شریف نے اقتدار میں واپس آتے ہی انہیں اپنی حکومت کا ترجمان قرار دے ڈالا۔ مارشل لاء لگتے وقت پرویز رشید صاحب بڑی مشکل سے چیئرمین پی ٹی وی ہی بن پائے تھے لیکن اب کی بار پوری وزارتِ اطلاعات و نشریات کا ہما ان کے سرپر بیٹھا کہ بہت سے دیگر وزارتوں میں ان کا عمل دخل ان وزارتوں کے انچارج وزرا سے بھی زیادہ تھا۔ انہوں نے اپنے مظالم کی داستانیں بیان کرنے والے ان ’’’پھپھے کٹنی ‘‘ٹائپ صحافیوں کے ’منہ موتیوں‘ سے بھردیے اور یہ تو آپ کے علم میں ہو گا کہ اس وقت پی ٹی وی کے پے رول پر 132 ایسے اینکرز نما صحافی بھی ہیں جن میں سے غالب اکثریت پی ٹی وی پر توکوئی پروگرام نہیں کرتی ، لیکن مبینہ طور پر تین سے دس لاکھ روپے تک تنخواہ ان کو ہر ماہ باقاعدگی سے قومی خزانے سے ادا کردی جاتی ہے۔
یہی بات ہم نے جب ایک لیگی دوست کو بتائی اور عرض کیا کہ مشرف آمریت کے خلاف اگر لاہور میں پرویز رشید نکلا تھا تو کراچی میں مشاہداللہ خان نکلا تھا، دونوں کا کیا حشر ہوا؟ کیا جی او آر میں اُس واقعے میں جس میں کلثوم آپا نے خود کو گاڑی میں بند کیا تھا، اُس وقت گاڑی کا ڈرائیور جو ’سمندری ‘سے ایم این اے بھی تھا، وہ کہاں ہوتا ہے آج کل؟ یہ بات تو میاں نواز شریف کی شدید قسم کی طوطا چشمی کی نشاندہی کرتا ہے تو وہ پہلے تو اپنا ہم سے بھی بڑا پیٹ پکڑ کر زور زور سے ہنستے رہے پھر بولے آپ نے خواتین کی مخصوص نشستوں پر جیتنے والوں کی فہرست ملاحظہ کی ہے ؟ ان میں ان سب قربانی دینے والوں کی بہو بیٹیاں ہی شامل ہیں۔ پرویز رشید کے بعد وزارتِ اطلاعات کس کی بیٹی اور بہو کے ہاں گئی ہے؟ ذرا چیک تو کرو؟ عرض کیا تو پھر ان کی قربانی کیوں مانگی گئی؟ تو فرمانے لگے قربانی تو سب سے عزیز چیز کی ہی مانگی جاتی ہے ناں؟ اور ہم اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔
پہلے پارلیمنٹ جناب پرویز رشید صاحب کی مدافعت میں سامنے آ گئی ہے اور پیپلز ارٹی کے سینیٹ چیئرمین جناب رضا ربانی نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ جس طرح فوجی کا احتساب فوجی قانون کے تحت اور جج کا احتساب عدلیہ کے قوانین کے تحت کیا جاتا ہے تو پھرہم بھی اپنے معزز ممبر پر لگنے والے الزام کا جائزہ اور سزا خود ہی تجویز کریں گے۔ اس کے بعد جناب نثار علی خان رو بہ عمل آئے اور جنابِ پرویز کو معصوم قرار دے ڈالااور کہا کہ ان سے کسی پوچھ گچھ اور تحقیق کی کیا ضرورت؟
ہمیں پرویز رشید کے نظریات سے شدید اختلاف تھا اور رہے گا لیکن جس جوانمردی سے انہوں نے مشرف کے مظالم کا سامنا کیا ، اُس کا اعتراف نہ کرنا زیادتی ہے۔ وہ اس کے نتیجے میں جس قدر ذہنی کوفت اور اذیت سے گزرے، اس کو سوچ کر ہی بندہ کانپ جاتا ہے۔ ہم ان کی جوانمردی کے عینی شاہد رہے ہیں اس لیے تما م تر اختلافات کے باوجود ان کے احترام کا ایک سمندر ہے جو دل میں موجزن ہے۔وہ جس بہادری اور دیدہ دلیری سے تمام سیاسی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کرآل پاکستان موسیقی کانفرنس میں غزل سرا اپنی بیٹی کی پرفارمنس پر داد دینے پہنچے اور اپنے موبائل سے اس کی ریکارڈنگ کرتے رہے، یہ ان ہی کا حوصلہ تھا ۔ وہ ہمارے لیے اس حوالے سے بھی قیمتی ہیں کہ وہ اپنے نظریات پر جم کر کھڑے ہیں اور انہوں نے اپنے بعض ماتحتوں کی طرح اپنے نظریات سے رجوع نہیں کیا ، اور اسلام کے پھٹے پر دہریت کا سودا بیچنا شروع نہیں کیا۔ کیوں کہ ان کے بعض ماتحتوں نے یہ تک کہہ ڈالا ہے کہ ’’ابا جی کے ماڈل ٹاون کی ایک مسجد میں خطبہ جمعہ دینے والی بات تو بس برسبیلِ تذکرہ ہو گئی تھی ورنہ ایسی ویسی کوئی بات نہیں تھی اور میں اپنے ایسے کسی ابّے کو نہیں جانتا‘‘۔
ان سے تمام تر اختلاف کے باوجود ہم خود کو ان کے ساتھ دلیل والوں کے مورچے میں ہی ڈٹا ہوا پاتے ہیں اور شائد یہی ہمارے معاشرے کا حسن بھی ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ان کی اقتدار کے ایوانوں میں واپسی ’شرطیہ نئے پرنٹوں ‘‘ کے ساتھ ہو گی اور وہ نئے جذبے کے ساتھ رو بہ عمل ہوں گے۔ جب کہ ہمارا یہ گمان ہے کہ ان کی واپسی ایک بہت ہی موثر کردار میں ہو بھی چکی ہے۔
ہماری ذاتی اطلاع کے مطابق بول ٹی وی کا ہواؤں کے دوش پر بکھر جانا بھی ان کی ایک ناکامی اور وزارت کے معاملات پر ان کی ڈھیلی پڑتی گرفت کو سمجھا جب کہ میاں صاحب کافی عرصے سے مشاہد حسین سید کو ان کی جگہ لانے کے لیے ذہن بنا چکے تھے۔ وہ تو بعض لیگی حضرات آڑے آ گئے اور شاہ صاحب کی ن لیگ میں آمد مؤخر ٹھہری۔ کیوں کہ جس دن سندھ ہائی کورٹ سے بول ٹی وی کا لائسنس بحال ہوا تو اس فیصلے کی خبر سننے کے بعد وہ فون پر کسی کو (خلافِ طبیعت ) باقاعدہ ڈانٹ رہے تھے کہ کیا ہائی کورٹ کے بعد کوئی عدالت نہیں ہوتی؟ اس فیصلے کے خلاف اپیل میں کس نے جانا تھا؟ دوسری طرف سے جب کوئی جواز پیش کیا گیا تو انہوں نے مزید غصے سے کہا کہ آپ کو معلوم ہے ناں کہ اس کا فیصلہ کہاں پر ہوا تھاتو پھر ایسی سُستی کی وجہ کی سمجھ نہیں آتی۔ اپنی وزارت کے آخری دنوں میں وہ اس بات کو یقینی بنانے میں سرگرم تھے کہ کسی طرح بول ٹی وی کو پھر سے بولنے سے محروم کر دیا جائے، کہ وزارت سے محروم کر دیے گئے۔
تا ہم جو کچھ بھی ہے ان کی وزارت سے اس انداز میں رخصتی سے دل دکھا کہ ایک نظریاتی سیاسی کارکن کے ساتھ ایسا ہونا نہیں چاہیے تھا۔ ویسے بھی اس ملک میں بین الاقوامی امداد پر پلنے والی این جی اوز کے آ جانے کے بعد ان کے نظریاتی قبیلے میں لوگ ہی کتنے رہ گئے ہیں جو پاکستانی اداروں سے تنخواہ لیتے ہیں؟