... loading ...
کراچی کا صدر، لاہور کی انارکلی یا مزنگ اور پنڈی کا راجا بازار، تینوں کو ایک جگہ ملا لیں اور اس میں ڈھیر سارے بنگالی، فلپائنی اور کیرالہ والے جمع کریں تو جو کچھ آپ کے سامنے آئے گا وہ ریاض کا بطحہ بازار ہوگا۔ بس ہمارے بازاروں میں خواتین خریداروں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جبکہ بطحہ میں خال خال ہی خواتین نظر آتی ہیں اوروہ بھی کسی مرد کے ساتھ اور مکمل سیاہ برقعے میں ملبوس۔ گرم مصالحوں سے لیکر چائنا میڈ الیکٹرانک اشیا ء تک بطحہ کے بازا رمیں ہر چیز ملتی ہے۔ وہ چیزیں جو آپ کو اور کہیں دستیاب نہ ہوں وہ بھی یہاں مل جاتی ہیں، علاقے کے پرانے باسی بتاتے ہیں کہ یہاں پان بھی بکتا ہے اور نسوار بھی مل جاتی ہے بس آپ کو کسی جاننے والے کے ساتھ جانا پڑے گا کیونکہ اس قسم کی اشیاء کی فروخت چوری چھپے ہوتی ہے۔ یہ انتہائی مصروف اور گہما گہمی سے بھرپور علاقہ ہے جہاں پرانے بازار کے ساتھ ساتھ جدید اور بڑی عمارتوں اور شاپنگ سینٹروں کا جنگل اگا ہوا ہے۔ لگے ہاتھوں بطحہ کے معنی بھی بتاتے چلیں،عربی میں بطحہ کے معنی خاک کے ہیں، قرائن سے پتہ چلتا ہے کسی زمانے میں یہاں خاک اڑتی ہوگی اسی لیے اس علاقے کا نام بطحہ پڑگیا۔ پچاس کی دہائی تک اس مضافاتی علاقے میں چند دکانیں ہوا کرتی تھیں پھر مملکت اور دارالحکومت ریاض کی تیز رفتار ترقی کے ساتھ بطحہ کا بازار بھی وسیع و عریض ہوتا گیا۔ بطحہ میں اصلی میلہ جمعے کو لگتا ہے۔ جمعے کی نماز کے بعد شہر بھر اور مضافات سے مختلف کمپنیوں کی بسیں اپنے کارکنان کو بھر کے بطحہ چھوڑ دیتی ہیں۔ ان بسوں کی تعداد سیکڑوں میں ہوتی ہے، اس طرح لوگ کتنے ہوتے ہوں گے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ پھر مختلف علاقوں کے رہنے والے بھی جمعے کو بطحہ میں اپنے مخصوص مقامات پر جمع ہوتے ہیں جہاں گپ شپ ہوتی ہے اور چائے بھی پی لی جاتی ہے۔ بہت سارے لوگوں کو صرف جمعے کا دن ملتا ہے جس میں وہ اپنے کیمپ سے نکل پاتے ہیں ایسے میں بطحہ کا چکر ان کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا۔ سردی ہو یا گرمی جمعے کو بطحہ میں اس قدر لوگ ہوتے ہیں کہ حقیقت میں کھوے سے کھوا چھِلتا ہے۔ ایک اور خاص بات یہ کہ بطحہ بازار میں مکھیوں کی بھنبھناہٹ جیسی تیز آواز ہر جگہ سنائی دیتی ہے، یہ آواز ہزاروں لوگوں کے بولنے سے پیدا ہوتی ہے۔ ہم نے پاکستان کے کسی بازار کسی علاقے میں اس قسم کی آواز کا مشاہدہ نہیں کیا۔ یہ آواز صرف بطحہ کے علاوہ اگر کہیں سنائی دی تو وہ شارجہ کا علاقہ رولا تھا۔ رولا میں بھی جمعے کو ہزاروں لوگ جمع ہوتے ہیں اور ان کے بولنے سے مکھیوں کی بھنبھناہٹ جیسی تیز آواز پیدا ہوتی ہے۔ شروع شروع میں اس تیز آواز کے رہتے نئے بندے کے لیے بات کرنا مشکل ہوتا ہے لیکن آہستہ آہستہ لوگ اس بھنبھناہٹ کی آواز کے عاد ی ہو جاتے ہیں۔
بطحہ کے بازار میں چوری چھپے اور بھی بہت کچھ بکتا تھا اور اس بلیک مارکیٹنگ میں بنگالی باشندے چھائے ہوئے تھے، ایک وقت تھا کہ پولیس کو بھی اس علاقے میں داخل ہونے میں دشواری پیش آتی تھی۔ عرصہ دراز سے ریاض میں رہنے والوں کے مطابق ایک وقت تھا کہ بطحہ میں بنگالی جرائم پیشہ افراد خوف و دہشت کی علامت سمجھے جاتے تھے، شریف تو دور کی بات عام بدمعاش بھی وہاں نہ جاتا تھا حتیٰ کہ ’’شُرطے ‘‘یعنی پولیس والے بھی وہاں جانے سے کتراتے تھے، چنانچہ پولیس کی جانب سے ایک بڑا آپریشن کیا گیا ، علاقے کو سیل کرکے بکتر بند گاڑیاں اندر گئیں اور پھر جو آپریشن ہوا۔الاماں الحفیظ۔ پھر تو یوں ہوا کہ جس پر شبہ ہوتاکہ بنگالی ہے اسکو گاڑی میں ڈالا جاتا ، اقامہ دیکھا جاتا ، کئی کئی ہزار بنگالیوں کو ڈیپورٹ کیا گیا ، ویزابند کردیا گیا، آخر کار بنگلا دیشی وزیراعظم کو درخواست کرنا پڑی جس پر صرف اتنی چھوٹ ملی کہ بنگالیو ں کی ڈی پورٹیشن روک دی گئی لیکن ویزے پھر بھی بند ہی رہے۔ یہ واقعہ بہت مشہور ہے، جو ریاض میں رہتا ہے یا رہا ہے اس نے ضرور سنا ہوگا، بہرکیف ہم نے ایسا ہی سنا ہے۔ لیں جی بطحہ کا تعارف تو کافی طویل ہو گیا، ہمارے گروپ نے کئی گھنٹے بطحہ کے بازار میں گزارے ، گرمی کے باوجود نئی اور دلچسپ جگہ ہونے کی وجہ سے ہم لوگ بور نہیں ہوئے، بطحہ کے ایک پاکستانی ہوٹل میں رات کا کھانا کھایا اور اپنے ہوٹل اپارٹمنٹ میں واپس آگئے، یہاں دو نئے مہمان بھی موجود تھے، دونوں کا تعلق مصر سے تھا اور وہ بھی ہماری ہی کمپنی کے ملازم تھے۔۔۔ جاری ہے
[caption id="attachment_44110" align="aligncenter" width="784"] تیل کی عالمی قیمتوںاور کھپت میں کمی پر قابو پانے کے لیے حکام کی تنخواہوں مراعات میں کٹوتی،زرمبادلہ کی آمدنی کے متبادل ذرائع کی تلاش اور سیاحت کی پالیسیوں میں نرمی کی جارہی ہے سیاسی طور پر اندرونی و بیرونی چیلنجز نے ...
دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف کو سعودی قیادت میں قائم دہشت گردی کے خلاف مشترکہ فوج کے سربراہ کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے حوالے سے حکومت پاکستان کی جانب سے دی گئی اجازت کے حوالے سے ملک کے اندر بعض حلقوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے اعتراضات...
سیمی خوش مزاج آدمی تھا اس کے ساتھ کام کرنا اچھا تجربہ ثابت ہوا تھا اس کے مقابلے میں یہ نیا انچارج شنکر کمار بہت بد دماغ اور بداخلاق واقع ہوا تھا۔ ہماری پہلے ہی دن سے اس سے ٹھن گئی ، مشکل یہ تھی کہ وہ نیا تھا اور ابھی اسے کام سمجھنا تھا اس لئے وہ ہم سے زیادہ بدتمیزی نہیں کرسکتا تھ...
سیمی کو گئے کئی مہینے ہو گئے تھے اس کی واپسی کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا، اس کا کام بھی ہمارے زمے ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے کام کی تھکن بڑھتی جا رہی تھی۔ کئی بار کام کی زیادتی کی وجہ سے ہمیں دیر تک رکنا پڑتا تھا۔ ہمیں سیمی کا بھی کام کرنے کی وجہ سے کوئی مالی فائدہ بھی نہیں مل رہا تھا...
سیمی کے جانے کے بعد ہمارا کام کافی بڑھ گیا تھا، اب ہمیں اپنے کام کے ساتھ سیمی کا کام بھی دیکھنا پڑ رہا تھا لیکن ہم یہ سوچ کر چپ چاپ لگے ہوئے تھے کہ چلو ایک ماہ کی بات ہے سیمی واپس آجائے گا تو ہمارا کام ہلکا ہو جائے گا۔ ایک ماہ ہوتا ہی کتنا ہے تیس دنوں میں گزر گیا، لیکن سیمی واپس ...
اگلے روز یعنی جمعے کو ہم عزیزیہ کے ایک پاکستانی ہوٹل میں ناشتہ کرنے کے بعد مکہ شریف کے لیے روانہ ہوئے، جدہ حدود حرم سے باہرحِل کی حدود میں ہے۔ حرم شریف اور میقات کے درمیان کے علاقے کو حِل کہا جاتا ہے اس علاقے میں خود سے اگے درخت کو کاٹنا اور جانور کا شکار کرنا حلال ہے جبکہ اس علا...
ہمارے دوست اظہار عالم کافی عرصے سے جدہ میں مقیم تھے ہم نے عمرہ پر روانگی سے پہلے انہیں فون کرکے اپنی ا?مد کی اطلاع دیدی تھی، طے ہوا تھا کہ وہ جمعرات کو صبح دس بجے باب فہد کے سامنے ایک بینک کے پاس پہچیں گے۔ ہم ساڑھے نو بجے جا کر اس بینک کے سامنے جا کر کھڑے ہوگئے۔ وہاں کافی لوگ موج...
مکہ المکرمہ سے مدینہ شریف کا فاصلہ تقریبا ساڑھے چار سو کلومیٹر ہے، راستے بھر مشہور نعت مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ ذہن میں گونجتی رہی، ہماری آنکھیں سارے راستے پُر نم رہیں۔ مدینے کا راستہ محبت کی معراج کا وہ راستہ ہے جس پر بڑے بڑے صحابہ ، علما، صوفیہ اور بزرگان دین نے...
صبح فجر سے پہلے ہماری بس مکہ مکرمہ کے ہوٹل پہنچ گئی، دل میں عجب سی ہلچل مچی ہوئی تھی، کعبہ شریف کے اس قدر قریب ہونیکا احساس جیسے دل کو الٹ پلٹ کر رہا تھا ، کوشش تھی کہ فوری طور پر حرم شریف پہنچیں اور اللہ کے گھر کا دیدار کریں۔ اللہ کا گھردنیا میں وہ پہلی عبادت گاہ ہے جو انسانوں ک...
نسیم ولا اور کالج میں شب و روز اپنی مخصوص چال سے گزر رہے تھے۔ روز صبح کو شام کرنا اور شام کو صبح کا قالب بدلتے دیکھنا اور اس کے ساتھ لگی بندھی روٹین کو فالو کرنا یہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت بن چکی تھی۔ ایک بے قراری تھی، ایک بے کلٰی تھی جو دل میں بسنے لگی تھی۔ ہم لوگ روٹین کے ایس...
نسیم ولا میں دن اچھے گزر رہے تھے۔ ایک دن باتوں کے دوران ہم نے کہا لگتا ہے ریاض میں کوئی گھومنے کی جگہ نہیں ہے ،ہوتی تو ہم لوگ وہاں کا چکر لگا آتے، نسیم کے علاقے میں جہاں ہمارا ولا تھا وہاں ہمیں نہ تو کوئی پارک نظر آیا تھا نہ کوئی اور ایسی جگہ جہاں آپ تفریح کے لیے جا سکیں۔ سنیم...
رات کے نو بج رہے تھے ہمیں پی ٹی وی سے خبر نامے کا انتظار تھا لیکن خبریں شروع نہیں ہوئیں، ہم نے علی سے کہا نو بج گئے خبرنامہ شروع نہیں ہو رہا پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے، علی بولا نو ہماری گھڑی میں بجے ہیں وہاں پاکستان میں رات کے گیارہ بج رہے ہیں ہمیں احساس ہوا کہ سعودی عرب میں ہم پاکست...