جیالوں کا المیہ
اتوار 06 نومبر 2016
پاکستان کی عدالتِ عظمی ٰ میں پانامالیکس کے معاملے پر پیش رفت کے بعد عمران خان نے دو نومبر کادھرنا موخر کرنے کا اعلان کیا کیا کہ’’ اسٹیٹس کو ‘‘ کی حامی قوتوں کی توپوں کا رُخ اُن کی طرف مڑ گیا ۔وہ تمام جو عمران خان کے دو نومبر کے احتجاج کو ان کا ذاتی فیصلہ قرار دے رہے تھے عمران خان کے تازہ ترین ذاتی فیصلے پر سیخ پا نظر آتے ہیں ۔ شیخ رشید احمد ، طاہر القادری سمیت پاکستان کی پوری سیاسی برادری کی خواہش یہ ہے کہ عمران خان ان کے مشورے پر چلیں ۔ سینیٹ میں قائد حزبِ اختلاف اعتزاز احسن اپنی جماعت میں تو اپنا موقف منوا نہیں سکتے لیکن عمران خان کو مشورہ دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔۔۔ موجودہ حالات میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ سب سے زیادہ ’’ ستم ظریفی ‘‘ کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔ اپنے تازہ ترین بیان میں انہوں نے عمران خان پر میاں نواز شریف کو مضبوط کرنے کا الزام عائد کیا ہے ۔ شاہ صاحب کو کون سمجھائے کہ پاکستانی قوم کا حافظہ اتنا بھی کمزور نہیں ہے کہ انہیں 2014 ء کے دھرنے کے موقع پر پارلمنٹ کے طویل ترین بے مقصد اجلاس میں حکومت کا ساتھ دینے کی تمام کہانی بھول جائے ۔۔ قوم دوپہر کے اُس کھانے کو بھی نہیں بھول پائی جو رائے ونڈ کے ’’ جاتی عمراء ‘‘ محل میں آصف علی زرداری کے اعزاز میں میاں صاحبان نے پکایا تھا ۔۔۔ اس لنچ کی 80 ڈشیں شاید آصف علی زرداری کو ہضم ہو گئی ہوں لیکن قوم کو نہیں ۔
موجودہ پیپلز پارٹی کو کئی قسم کے المیوں کا سامنا ہے۔ جن میں پیپلز پارٹی سندھ اور پنجاب کی قیادت کے خیالات کا تضاد ،آصف علی زرداری کی پارٹی پر مضبوط گرفت اور بلاول بھٹو زرداری میں سیاسی پختگی کا فقدان سرِ فہرست ہے ۔ پیپلز پارٹی کا 46 سالہ سفر اب ’’ سیاسی بڑھاپے ‘‘ میں ڈھل رہا ہے ۔ پارٹی کا یہ بڑھاپا خورشید شاہ سے برداشت نہیں ہو پاتا شاید یہ سب اس لیے ہے کہ وہ خود عمرکے اس حصے میں ہیں جہاں عمرِ رفتہ کی یادیں روگ بن جاتی ہیں ۔اور پھر مستقبل بلاول بھٹو جیسی قیادت سے جُڑا ہو تو پریشانی خورشید شاہ جیسی ہی ہو جاتی ہے ۔۔۔۔
بے نظیر بھٹو کا بیٹا ہونے کے باجود بلاول’’ بھٹو‘‘ نہیں بن سکا ۔۔۔۔۔۔ یہ سب تین سال پہلے مزارِ قائد کے سامنے پیپلز پارٹی کے ایک بڑے جلسے میں یہ خود بلاول نے ثابت کیا تھا جب عوام کے ایک جمِ غفیر میں بلاول کی عملی سیاسی مہم میں انٹری کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔تین سال بعد بھی آج اگر بلاول بھٹو کی گزشتہ ایک ماہ کی تقاریر اور بیانات کا جائزہ لیں تو بلاول یہ تأثر قائم کرنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتے ہیں کہ پاکستان کے موجودہ ’’ باغِ سیاست ‘‘ کے ماحول کا انہیں کچھ اندازہ ہے۔ ۔۔ گلستانِ سیاست کی پہلی ’‘ بہار ‘‘ کے نووارد کے طور پر بلاول زرداری سیاست کے’’ صوفیوں‘‘ کے سبق سے محروم نظر آئے تھے اور ابھی تک ان کی محرومی بر قرار ہے ۔ پہلی سیاسی تقریر میں انہیں دوران تقریر شیری رحمن کی ٹیوٹر شپ تو حاصل رہی لیکن سکوتِ لالہ و گُل سے کلام پیدا کرنے والے دلِ فطرت شناس کی آگاہی سے ان کی محرومی واضح طور پر محسوس ہوتی رہی۔
اس جلسے میں بلاول زرداری کی تقریر کے دوران شیری رحمن ان کے ساتھ نہ صرف موجود رہیں بلکہ ان کی رہنمائی بھی کرتی ر ہیں ،ان کے برقت لقموں کے باوجود بلاول کی تقریر میں قائدانہ خطاب کی جھلک کہیں نظر نہیں آئی تھی ۔ اب بھی بلاول بھٹو کی تقاریر کو کوئی بھی نام دیا جا سکتا ہے۔ لیکن ان کی بے ہنگم ، بے ترتیب، بے آہنگ گفتگو کو کسی طور پر بھی ’’بھٹو‘‘ کے وارث یا کسی بڑی پارٹی کے مرکزی لیڈر کا ’’ اظہاریہ ‘‘ قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ بھٹو خاندان کی تاریخ ہے کہ انہیں جواں سالی میں ہی میدانِ سیاست کا بارِ گراں اُٹھانا پڑا ۔ اس حوالے سے مسائل کے انبار کے باوجود بھٹوز کے لیے میدان بہت ہموار اور ماحول ساز گار رہا ۔ پاکستان کی قومی سیاست میں قوم نے بھٹوز کو امر ہوتے اور حیاتِ جاودانی پاتے ہوئے دیکھا ہے۔ لیکن بلاول کے لیے بہت سی مشکلات ہیں ۔سب سے بڑی مشکل یہ کہ انہیں اپنے والد کی عوامی شہرت کو ساتھ لے کر چلنا ہے جو کسی بھی صورت میں مثبت نہیں ہے۔آصف علی زرداری کی مفاہمت کی سیاست نے ثابت کردیا ہے کہ وہ میاں نوازشریف سمیت کسی سے بھی ٹکر نہیں لینا چاہتے ۔ یا پھر آصف علی زرداری کو یقین ہوگیا ہے کہ 37 سال سے بھٹو کے نام پر قربان ہونے والا ’’ جیالا ‘‘ اب یکطرفہ محبت میں زیادہ پُر جوش نہیں ہے ۔
2013 ء کے عام انتخابات سے پہلے عمران خان کو فیورٹ قرار دینے والوں کا خیال تھا کہ اگر عمران خان حکومت نہ بنا پائے تو وہ ایک انتہائی خطرناک اپوزیشن لیڈر ثابت ہوں گے یہ تجزیہ شاید درست ثابت نہ ہوتا اگر میاں نواز شریف حالات کا ادراک کر لیتے لیکن چار حلقوں میں ہونے والی دھاندلی کو تحفظ دینے کے لیے انہوں نے جس ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا وہ نہ صرف ان کے گلے کی ہڈی بن گئی بلکہ اس نے روایتی سیاست کے علمبرداروں کے لیے بھی مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ اسلام آباد کے شاہراہ دستور پر دیے گئے دھرنوں نے لوگوں کی سوچ بہت حد تک بدل دی ہے۔
خورشید شاہ اور سعید غنی کی پارٹی اور قیادت کا المیہ یہ ہے کہ یہ ایک ایسے وقت بہت کمزور وکٹ پر ماضی کی کرکٹ کے آل راؤنڈر او ر ورلڈ کپ کے فاتح کو للکار رہے ہیں جب ان کی اپنی اننگز بارہویں کھلاڑی کا کریکٹر معلوم ہو رہی تھی۔ یہ اب جنرل پرویز مشرف اور جنرل ضیاء الحق کی باقیات کا شور بھی مچا سکتے ہیں کہ ماضی کے اِن تلخ حقائق نے اِن کے لہجے کی گھن گھرج کو کھسیانہ بنا دیا کہ ان کی والد ہ نے جنرل پرویز مشرف کے ساتھ این آر او سائن کیا تھا اور بینظیر بھٹو نے جن پر اپنے قتل کی سازش کا الزام لگایا تھا اور جو چوہدری برادران جنرل ضیاء الحق کی خالص باقیات کا حصہ کہلاتے ہیں وہ پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں نائب وزراعظم کا منصب تخلیق کرکے حکومت کا حصہ بنائے گئے ۔ جسے بے نظیر کا قاتل قرار دے کر کراچی میں اس کی موجودگی کا حوالہ دیا جا رہا تھا اس پرویز مشرف کو ان کے اپنے دورِ حکومت میں گارڈ آف آنرز پیش کیا گیا تھا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دیگر جماعتوں کو آمریت سے یارانوں کا طعنہ دینے والے بلاول زردار ی بھول جاتے ہیں کہ ان کے ’’نانا ‘‘ ذوالفقار علی بھٹو یحیےٰ خان کی نیم مارشلائی حکومت کی پیداوار ہیں ۔ اور جمہوریت کے اسی چیمپین نے پاکستان کے فوجی ڈکٹیٹر فیلڈ مارشل ایوب خان کی حکومت میں شمولیت اختیار کیے رکھی اور بھٹو ازم کے فلسفہ کے بانی ایوب خان کے لیے ’’ ڈیڈی ‘‘ کے الفاظ استعمال کیا کرتے تھے۔
پیپلز پارٹی کی قیادت باقی جماعتوں کے قائدین کو بھٹو ازم کے فلسفے میں فلاح کی راہ دکھانے کی کوشش میں مگن دکھائی دیتی ہے ۔ جیے بھٹو کے نعرے لگائے جاتے ہیں مگر خود ان کی پارٹی کی 37 سالہ تاریخ بھٹو ازم کے فلسفے سے بے وفائی اور کج ادائی کی تاریخ دکھائی دیتی ہے ۔ اِ س کے مقابلے میں جس عمران خان کے لیے کٹھ پتلی کا نام استعمال کرتے ہوئے بلاول خود’’ جو کر‘‘ دکھائی دیتے ہیں وہ قوم کو اُس ترجمانِ حقیقت کا پیغام دیتا نظر آتا ہے جو نوجوانوں کو ’’ رہ نوردِ شوق‘‘ قرار دے کر مسلسل جستجو اور جد وجہد کا پیغام دیتے ہیں ۔ ایسا رہ نوردِ شوق جس کی نظر میں بے شمار لیلائیں اور بے شمار محمل ہوتے ہیں ۔
بلاول بھٹوزرداری اپنے والد کے خیالات کے برعکس وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ان کے بھائی میاں شہباز شریف پر تنقید تو کرتے ہیں لیکن ان کے خلاف اپنے لائحہ عمل کا اعلان نہیں کرتے ۔ بلاول زرداری نوجوان ہیں ، پرعزم ہیں ، اپنی والدہ کے جانشین بننا چاہتے ہیں۔ سیاسی زندگی کو تیز ہواؤں اور آرزؤں میں اُڑانا چاہتے ہیں لیکن ان کا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنی عمر کے لوگوں کو بھی متأثر نہیں کر سکے ۔۔۔ سیاست میں جسمانی بلوغت کے ساتھ ساتھ ذہنی بلوغت بھی ضروری ہے ۔ جس سے خورشید شاہ کی پارٹی کے چیئر مین ابھی بہت دور نظر آتے ہیں۔ مایوسی کے اس ماحول میں پیپلز پارٹی کا ورکر مرتضیٰ بھٹو کے بیٹے ذوالفقار جونےئر اور فاطمہ بھٹو کی جانب رجوع کر سکتا ہے ۔۔۔۔ اس حوالے سے کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا۔
متعلقہ خبریں
پی پی میں شمولیت سے انکار ارباب خاندان میں دراڑڈالنے کی سازش
الیاس احمد
-
هفته 17 جون 2017
پاکستان پیپلز پارٹی نے 2008 کے بعد اپنی پالیسی تبدیل کی ہے اور نظریاتی سیاست کو عملی طور پر دفن کردیا ہے ۔ یہ کوشش کی گئی کہ ہر سیاسی شخصیت اور ہر سیاسی خاندان کو پی پی میں شامل کیا جائے چاہے اس کے لیے کچھ بھی قربانی دینا پڑے۔ جام مدد علی ،امتیاز شیخ، اسماعیل راہو، جاموٹ خاندان ک...
وکی لیکس کی ایک بار پھر ٹوئٹ امریکا اور برطانیہ نے نادرا کاریکارڈچرالیا
ایچ اے نقوی
-
جمعه 09 جون 2017
وکی لیکس کی ایک ٹوئٹ ریمائنڈر میں ایک دفعہ پھر یہ دعویٰ کیاگیاہے کہ امریکا اور برطانیہ نے نادرا کاریکارڈچرالیاہے،مقامی انگریزی اخبار میں شائع ہونے ایک خبر کے مطا بق وکی لیکس نے نیشنل سیکورٹی ایجنسی کے حوالے سے انکشافات کے سلسلے میں ایک دفعہ پھر یاد دہانی کرائی ہے کہ امریکا او...
عمران خان کی نتھیا گلی میں مصروفیات‘ پنجاب کی سیاست میں زبردست ارتعاش
انوار حسین حقی
-
هفته 03 جون 2017
پاکستان کو فطرت نے بے پناہ حسن اور رعنائی عطا کی ہے ۔ملک کے شمالی علاقے خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہیں ۔ گلیات میں جھینگا گلی اور نتھیا گلی کے علاقے آب و ہوا اور ماحول کی خوبصورتی کے حوالے سے خصوصی شہرت رکھتے ہیں ۔ موسم گرما خصوصاً رمضان المبارک میں خیبر پختونخوا اور ملک کے دوسر...
بات کرنے سے قبیلے کا پتا چلتا ہے
انوار حسین حقی
-
هفته 03 جون 2017
اُس کی 20 سالہ سیاسی جدو جہد نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ وہم و گمان کا غلام نہیں یقین اور ایقان کا حامل ہے ۔ نااہلی کے خدشات کے شور شرابے میں بھی نتھیا گلی کے ٹھنڈے ماحول میں مطمن اور شاد نظر آ رہا تھا ۔ ہر ملنے والے کا یہی کہنا تھا کہ بے یقینی اور خدشات کے ماحول میں جب ’’ مائنس ون ...
وزیراعلیٰ سندھ نے قانون کی دھجیاں اڑادیں، قائم علی شاہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا
الیاس احمد
-
پیر 29 مئی 2017
2008 ءسے 2016 ءتک جب قائم علی شاہ نے آٹھ سال یکمشت اور مجموعی طو رپر دس سال تک وزارت اعلیٰ کے منصب پر برقرار رہنے کا اعزاز حاصل کیا تو اس وقت دنیا نے ان کی حکمرانی کے بارے میں کوئی اچھی رائے قائم نہیں کی، بس وہ پہلے دور میں 1988ءمیں امن امان قائم نہ کرسکے اور 2008 ءمیں بھی کرپشن ...
کھیل کا آخری راؤنڈ شروع‘پی پی کے کرم فرماؤں کا وزیراعلیٰ سندھ پرعدم اعتماد
الیاس احمد
-
جمعرات 25 مئی 2017
پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت 27دسمبر 2007ءکوکیا بدلی سارے اصول، ساری پالیسیاں ،ساری حکمت عملی ،سارے حالات ہی تبدیل ہوگئے۔ جو اصول ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے طے کیے گئے تھے اور محترمہ بینظیر بھٹو نے بھی ان کو برقراررکھا مگرآصف علی زرداری نے ان سب کوملیا میٹ کردیا اورتمام ضابطے اص...
نواز شریف کو انتخابی مہم میں کڑے سوالوں کاسامنا کرناہوگا
ایچ اے نقوی
-
منگل 23 مئی 2017
وزیراعظم محمد نواز شریف کی زیر صدارت گزشتہ روز قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں سالانہ منصوبے پی ایس ڈی پی اور آئندہ بجٹ کے اہداف کی منظوری دی گئی۔ اجلاس میں وزیراعظم آزاد کشمیر ، گورنر کے پی کے، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، وزیراعلیٰ گلگت و بلتستان اور دیگر ممبران نے شرکت کی۔ ق...
پیپلز پارٹی کواندرونی خلفشار کاسامنا کئی اہم خاندان الوداع کرنے کے لیے تیار
الیاس احمد
-
جمعه 12 مئی 2017
[caption id="attachment_44498" align="aligncenter" width="784"] گھوٹکی اور سکھر سے تعلق رکھنے والا مہر گروپ اس وقت ناراض ہے کیونکہ ان کے سیاسی مخالفین خالد لوند اور دیگر کو پارٹی میں شامل کرلیا گیا ہے،ن لیگ اور پی ٹی آئی سے خفیہ رابطے ،خورشید شاہ بھی ناراض ، لاڑکانہ میں سہیل انو...
تحریک انصاف کی طرف سے سندھ میں مزید جلسے کرنے کی حکمت عملی ، پیپلز پارٹی سے دور رہنے کا فیصلہ
باسط علی
-
پیر 24 اپریل 2017
[caption id="attachment_44254" align="aligncenter" width="784"] عمران خان نے سندھ کے ویتنام دادو میں کامیاب جلسہ کرکے پیپلز پارٹی کے اندرونی حلقوں میں خطرے کی گھنٹی بجادی[/caption]
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے دادو میں ایک کامیاب جلسہ کرکے ہی سب کو نہیں...
پاناما فیصلہ :وزیر اعظم کو کلین چٹ نہیں مل سکی
ابو محمد نعیم
-
جمعه 21 اپریل 2017
[caption id="attachment_44201" align="aligncenter" width="784"] جسٹس اعجاز افضل ، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن نے وزیراعظم کے خاندان کی لندن میں جائیداد، دبئی میں گلف اسٹیل مل اور سعودی عرب اور قطر بھیجے گئے سرمائے سے متعلق تحقیقات کرنے کا حکم دے دیا جے آئی ٹی کے قیام...
’یہ بھی خوش وہ بھی خوش‘ کیا میاں صاحب کے لیے آنے والا وقت اچھا ہے؟
وجود
-
جمعه 21 اپریل 2017
تحریک انصاف نواز شریف کو ان کے عہدے سے ہٹا دیے جانے کی توقع کر رہی تھی، ایسا نہیں ہوا، مسلم لیگ ن کا دعویٰ تھا کہ وزیر اعظم کے خلاف الزامات مسترد کر دیے جائیں گے، وہ بھی نہ ہوا،فیصلہ بیک وقت فریقوں کی جیت بھی ہے اور ناکامی بھیپاناما کیس کے فیصلے پر ہر کوئی اپنی اپنی کامیابی کا دع...
پاناماکیس:پاکستان میں کرپٹ سیاستدانوں کے مقدرکا فیصلہ !!
ابو محمد نعیم
-
جمعرات 20 اپریل 2017
[caption id="attachment_44181" align="aligncenter" width="784"] پاکستان کے سیاسی ماحول پر چھائے بے یقینی کے سائے چھٹنے کا امکان،اہم قومی معاملے پر دوماہ تک فیصلہ محفوظ رکھے جانے پر عوام کی جانب سے شدید تنقید،آج2بجے فیصلہ سنایا جائے گا پاناما پیپرزمیں 4اپریل 2016کو وزیر اعظم پاکس...