... loading ...
ہم ریاض ایئرپورٹ سے باہر آچکے تھے، جہاز میں اور ایئرپورٹ کے اندر ایئرکنڈشننگ کی وجہ سے موسم سردی مائل خوشگوار تھا لیکن ایئرپورٹ سے باہر آتے ہی گرم ہوا نے استقبال کیا۔ یہاں مقامی وقت کے مطابق دوپہر دو بجے کا وقت تھا،مارچ کا مہینہ ہونے کے باوجود گرمی شباب پر تھی۔ ایک دم گرمی کا شدید حملہ ہم میں سے اکثر برداشت نہ کرسکے۔ پسینہ تھا کہ رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ ہمارا گروپ حیران پریشان کھڑا تھا۔ لوگوں کی آوا جائی لگی ہوئی تھی، سامنے کچھ لوگ کاغذ یا گتے کا بورڈ پکڑے کھڑے تھے جن پر انگریزی یا عربی میں افراد یا کمپنیوں کے نام لکھے تھے، متعلقہ لوگ ان کارڈز کو پکڑے افراد تک پہنچ رہے تھے جو انہیں اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھا کر لے جا رہے تھے۔ ہم نے تما م انگریزی کارڈز پڑھ لیے کسی پر ہماری کمپنی کا نام نہ تھا۔ عربی زبان میں لکھے بورڈز ہم پڑھ تو سکتے تھے لیکن سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ اسی شش و پنج میں کافی دیر گزری تو ایک دبلا پتلا عرب لڑکا جو کافی دیر سے ایک عربی تحریر تھامے کھڑا تھا ہمارے گروپ کے قریب آیا اور عربی میں کچھ بولا، ہم نے انگریزی میں اس کا مدعا پوچھا تو ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں ہماری کمپنی کا نام لیا، پہلے تو ہم کچھ نہ سمجھے لیکن پھر اس نے ہم سب سے پاسپورٹ طلب کیے اور ویزا پر لکھا کمپنی کا نام پڑھ کر سر ہلانے لگا۔ پھر عربی میں کہا ،اہلاً فی ریاد۔( ریاض، ریاد ہو چکا تھا)۔ تلفظ کے حوالے سے یہ پہلا جھٹکا تھا جو ہم کو لگا ، اس کے بعد تو تلفظ کے کئی جھٹکے لگے لیکن اس وقت تک ہم عادی ہو چکے تھے۔ ہمارے پاسپورٹ اس عربی نوجوان نے اپنے پاس رکھ لیے اور ہمیں اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔ایک وین کے پاس پہنچ کر اس نے ہمیں اس میں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ ہم نے سامان وین میں رکھا اور پھر خود بھی بیٹھ گئے۔عربی نوجوان خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔ گاڑی چلی اور ہم نے بڑے اشتیاق سے کھڑکی سے باہر دیکھنا شروع کردیا۔ سیاہ تارکول کی چوڑی سڑکیں، سڑکوں پر بڑی بڑی کاریں، ٹرک اور دیگر گاڑیاں، خوبصورت، جدید عمارتیں اور کھجور کے درخت۔ سڑکیں تبدیل ہو رہی تھیں لیکن مناظر تقریبا ایک جیسے ہی تھے،عام پیدل چلتے لوگ نظر نہیں آ رہے تھے، ہماری وین کا اے سی چلنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا، گرمی نے پریشان کیا تو عرب نوجوان سے کھڑکی کھولنے کی اجازت طلب کی لیکن جواب ملا ’’ لا، لا’’ اس لا لاکا مطلب تھا ،’’ بالکل نہیں‘‘۔ یہاں ریاض یا ریاد کے بارے میں کچھ معلومات بھی دیتے چلیں، ریاض مملکت سعودی عرب کا دار الحکومت اور سب سے بڑا شہر ہے جو علاقہ نجد کے صوبہ الریاض میں واقع ہے۔ کسی دور کا ایک چھوٹا قصبہ اب دنیا کے بڑے شہروں میں شامل ہو چکا ہے۔
ریاض کی آبادی میں پہلا بڑا اضافہ 1950ء میں تیل کی دولت کے استعمال کی شروعات سے ہوا جب قدیم حصوں کو گرا کر جدید تعمیرات کا آغاز کیا گیا۔ آج ریاض دنیا کے تیزی سے بڑھتے شہروں میں سے ایک ہے۔ اٹھارہویں صدی
عیسوی تک ریاض، سعودی ریاست کا حصہ تھا جس کا دار الحکومت درعیہ تھا۔ 1818ء میں ترکوں کے ہاتھوں درعیہ کی تباہی کے بعد ریاض کو دار الحکومت بنایا گیا۔ 1902ء سے شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن السعود نے تعمیر نو شروع کی اور ریاض کو دار الحکومت بنانے کے ساتھ 1932ء میں جدید سعودی عرب کی بنیاد ڈالی۔ سفارتی دارالخلافہ 1982ء تک جدہ ہی رہا۔ 1960ء میں ریاض شہر کی آبادی پچاس ہزار نفوس پر مشتمل تھی اب بڑھ کر ستر لاکھ افرادسے تجاوز کر چکی ہے، جس کی وجہ سے شہر کو کئی تکنیکی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، کیونکہ شہر کی منصوبہ بندی آبادی بڑھنے کی اتنی تیز رفتاری کو مدنظر رکھ کر نہیں کی گئی تھی۔ خیر ہماری وین ریاض کی سڑکوں پر گھوم رہی تھی اور ہمارا ڈرائیور مختلف علاقوں میں کئی رہائشی عمارتوں تک ہم کو لے کر گیا لیکن شائد وہاں جگہ نہیں تھی ، ہمیں بعد میں معلوم ہوا کہ یہ عمارتیں اس کمپنی کے ملازمین کی رہائش گاہیں تھیں۔ کئی گھنٹے گھومنے کے دوران گرمی اور بھوک سے ہمارا برا حال ہو چکا تھا۔عربی نوجوان کو بھی شائد ہماری حالت پر رحم آگیا اور اس نے ایک دوکان سے ہم سب کو جوس اور سینڈوچ خرید کر دیے۔ بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ یہ عربی نوجوان جس کا نام احمد تھاہماری کمپنی کا رابطہ افسر ہے۔ دوپہر تین بجے کے قریب احمد ہم کو لے کر ایک ہوٹل اپارٹمنٹ پہنچا۔ وہاں ہم سب کو ایک فرنشڈ اپارٹمنٹ میں ٹھہرا دیا گیا، احمد اگلے دن آنے کا کہہ کر رخصت ہوگیا۔ ہم نے سکون کا لمبا سانس کھینچا کیونکہ یہاں اے سی چل رہا تھا، ورنہ باہر تو گرمی نے برا حال کیا ہوا تھا ۔ہم نہا دھو کر کپڑے بدل کر بستر پر گرے اور بھوک کے باوجود نیند کی گہری وادی میں اتر گئے۔۔۔ جاری ہے
[caption id="attachment_44110" align="aligncenter" width="784"] تیل کی عالمی قیمتوںاور کھپت میں کمی پر قابو پانے کے لیے حکام کی تنخواہوں مراعات میں کٹوتی،زرمبادلہ کی آمدنی کے متبادل ذرائع کی تلاش اور سیاحت کی پالیسیوں میں نرمی کی جارہی ہے سیاسی طور پر اندرونی و بیرونی چیلنجز نے ...
دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف کو سعودی قیادت میں قائم دہشت گردی کے خلاف مشترکہ فوج کے سربراہ کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے حوالے سے حکومت پاکستان کی جانب سے دی گئی اجازت کے حوالے سے ملک کے اندر بعض حلقوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے اعتراضات...
سیمی کے جانے کے بعد ہمارا کام کافی بڑھ گیا تھا، اب ہمیں اپنے کام کے ساتھ سیمی کا کام بھی دیکھنا پڑ رہا تھا لیکن ہم یہ سوچ کر چپ چاپ لگے ہوئے تھے کہ چلو ایک ماہ کی بات ہے سیمی واپس آجائے گا تو ہمارا کام ہلکا ہو جائے گا۔ ایک ماہ ہوتا ہی کتنا ہے تیس دنوں میں گزر گیا، لیکن سیمی واپس ...
مکہ المکرمہ سے مدینہ شریف کا فاصلہ تقریبا ساڑھے چار سو کلومیٹر ہے، راستے بھر مشہور نعت مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ ذہن میں گونجتی رہی، ہماری آنکھیں سارے راستے پُر نم رہیں۔ مدینے کا راستہ محبت کی معراج کا وہ راستہ ہے جس پر بڑے بڑے صحابہ ، علما، صوفیہ اور بزرگان دین نے...
ہم کھانے کے لیے بیٹھ چکے تھے، صورتحال یہ تھی کہ سب کے حصے میں ایک ایک روٹی اور ایک ایک کباب آیا تھا، ہمارے حصے میں صرف ایک روٹی آئی تھی پھر منیب کو شائد ہماری حالت پر رحم آگیا اور اس نے ہمیں کچن میں جا کر مزید ایک کباب تلنے کی اجازت دیدی۔ ہم جلدی جلدی میں کباب تل کر واپس لوٹے تو ...
علی اور منیب سوتے سے اٹھے تھے اس لیے انہیں چائے کی طلب ہو رہی تھی، ہم نے کہا چلو باہر چلتے ہیں نزدیک کوئی کیفے ٹیریا ہوگا، وہاں سے چائے پی لیں گے۔ علی نے بتایا کہ گزشتہ روز وہ اور منیب شام میں کچھ دیر کے لیے باہر نکلے تھے لیکن قریب میں کوئی کیفے ٹیریا نظر نہیں آیا۔ ہم نے کہا چل ...
دوسری بار کھٹ کھٹانے پر دروازہ کھلا، سامنے ایک درمیانے قد، گہرے سانولے رنگ کے موٹے سے صاحب کھڑے آنکھیں مل رہے تھے، گویا ابھی سو کر اٹھے تھے، حلیے سے مدراسی یا کیرالہ کے باشندے لگ رہے تھے۔ ہم سوچ میں پڑ گئے ہمیں تو یہاں پاکستانی بھائی ملنا تھے، یہ بھارتیوں جیسے صاحب کون ہیں ،ابھی ...
کراچی کا صدر، لاہور کی انارکلی یا مزنگ اور پنڈی کا راجا بازار، تینوں کو ایک جگہ ملا لیں اور اس میں ڈھیر سارے بنگالی، فلپائنی اور کیرالہ والے جمع کریں تو جو کچھ آپ کے سامنے آئے گا وہ ریاض کا بطحہ بازار ہوگا۔ بس ہمارے بازاروں میں خواتین خریداروں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جبکہ بطحہ میں...
رات کودیر سے سوئے تھے اس لیے صبح آنکھ بھی دیر سے کھلی۔ جب سب لوگ جاگ گئے تو فیصلہ کیا گیا کہ ناشتہ باہر کسی ہوٹل میں کیا جائے۔ لیکن ایک صاحب نے یہ کہہ کر کہ ہمارے پاس نہ پاسپورٹ ہے نہ اقامہ اس لیے ہمیں باہر نہیں نکلنا چاہیے، ہم سب کو مشکل میں ڈال دیا۔ سعودی عرب میں کفیل سسٹم ہے، ...
آنکھ ٹھنڈ کی وجہ سے کھلی، اے سی چل رہا تھا اور ہم بغیر کمبل کے سو گئے تھے، بھوک بھی لگ رہی تھی، کلائی کی گھڑی میں وقت دیکھا نو بج رہے تھے۔ ہم نے ابھی تک گھڑی میں وقت تبدیل نہیں کیا تھا۔ سعودی عرب اور پاکستان کے وقت میں دو گھنٹے کا فرق ہے۔ اس حساب سے ریاض میں شام کے سات بج چکے تھے...
فضا میں بلند ہونے سے پہلے ہوائی جہاز ائیرپورٹ کے رن وے پرآہستہ آہستہ چلنا شروع ہوا۔ ہماری سیٹ کھڑکی کے ساتھ تھی اس لیے باہر کے مناظر دیکھنے کا موقع مل رہا تھا ۔یہ بہت دلچسپ منظر تھاایئرپورٹ پر مختلف سائز کے کھڑے جہازاور ٹرمینل کی عمارت بھی نظر آرہی تھی، ایئرپورٹ پر مختلف قسم کی گ...
تیسرے ہزاریے کا پہلا سال تھا، سرکاری نوکری چل رہی تھی،کام کاج کا تردد بھی نہ تھا یعنی سرکاری اہلکاروں کی مانند ہڈحرامی کا دور دورہ تھالیکن دل کو چین نہیں تھا، اطمینان قلبی کی تلاش بھی تھی اور کچھ کرنے کی امنگ بھی ،ابھی دل زنگ آلود نہیں ہواتھا۔ دوسری بات جیب کی تنگی تھی ،سرکار تنخ...