شرمناک شرمناکیاں
هفته 29 اکتوبر 2016
بے شرمی کی کوئی حد ہوتی ہے؟ شاید نہیں ہوتی، ہوسکتا ہے کہ دنیا کے کسی کونے میں ہوتی ہو؟ لیکن ہماری سیاست میں تو اب بالکل بھی نہیں ہوتی، اور اب تو بے شرمی کی حدود حماقت کی حدوں سے بھی آگے نکل گئی ہیں۔ سیاسی قیادت خواہ مارشل لائی گملوں میں پنیریوں کی طرح اگائی گئی ہو یا پھر کسی ’پاشائی‘ حادثے اور ضد کی پیداوار ہو ،ہٹ دھرمی کی صفت پر ڈٹے ہوئے ہیں، لیکن ظاہر ہے اقتدار کی غلام گردشوں کے پچھلے دروازوں سے اقتدار میں گھسنے کے خواہش مند وہی کچھ واپس لوٹا رہے ہیں جو کچھ ان کو اس معاشرے نے تربیت کے طور پردیا تھا۔ موقع پرستی، ہر قدم پر سمجھوتا، زبردست کے سامنے سجدہ ریزی اوکمزور کا استیصال ۔
اپنی سیاسی بقاء کے لیے اپنے ہی اداروں کے خلاف برسرپیکار۔ لیکن وہ بھی کیا کریں، ان اداروں نے بھی تواس ملک کی عمر کے آدھے حصے براہِ راست حکمرانی کی اور جب سیاستدانوں کو باری دی بھی تو اپنا ٹھینگا ان کے سر پر رکھا اور ساتھ میں غداری کے سرٹیفیکیٹ چھاپنے والی مشین بھی اپنے پاس ہی رکھی۔ اب نتیجہ سامنے ہے کہ جیسے ہی ہمارے دشمن سرحدوں کے باہر سے دباؤڈالتے ہیں تو ایک سیاسی گروہ فوراً دوسرے پر حملہ آور ہوجاتا ہے کہ اس کا مخالف دشمن کے ساتھ ملا ہوا ہے، کسی دور میں ایسے واقعات قوم کو متحد کرنے کا باعث ہوا کرتے تھے لیکن اب چلن بدل گیا ہے۔ جیسے جیسے سرحدوں سے عوام الناس اور سرحدی محافظوں کی شہادت کی خبروں کا تواتر بڑھتا جا رہا ہے ویسے ویسے ایک دوسرے پر الزامات کا سیلاب بڑھتا جا رہا ہے۔
یادش بخیر ! ہماری ملکی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ ہمارے ان قومی اداروں نے محاذ جنگ پر اپنی ہر شکست کا انتقام اس پسماندہ اور غریب قوم کو ہی فتح کر کے لیا اور اپنا اگلے دس سال تک قوم پر مسلط ہو کرنکالا۔ بالکل ویسے ہی جیسے فٹ بال کے ایک کھلاڑی کے اپنے ہی گول میں گیند ڈالنے پر سائیڈ لائن پر کھڑے کوچ نے ڈانٹا تو وہ بولا کہ مخالف ٹیم والے گول کرنے نہیں دیتے۔ اسلامی تاریخ کی سب سے بڑی شکست کے مجرم جنرل آغا یحییٰ خان کو قومی پرچم میں لپیٹ کر دفن کیا اور دس سال تک آئین کا مذاق اڑانے والے بہادر کمانڈو جنرل پرویز مشرف کو پورے گارڈ آف آنر کی سلامی کے بعد ملک سے رخصت کیا۔ یہاں تک بس نہیں، جب وہ اپنی خود اختیار کردہ حماقت کے باعث پھنس گیا تو تمام ریاستی اداروں اور عدلیہ کا منہ چڑاتے ہوئے ڈنکے کی چوٹ پر اس کو ایک مرتبہ پھر ملک کے باہر بھجوایا، جس کا ڈنکا وہ ملکوں ملکوں بجاتا پھرتا ہے کہ اسے کس نے پاکستان سے باہر نکلنے میں مدد دی تھی۔
ادارے کے سربراہ کو جب مارشل لاء لگانے کا موقع نظر نہ آیا تو ’ملک کو باہرسے نہیں اندر سے خطرہ ہے‘کا نعرہ مستانہ لگا کر پورے ملک پر یلغار کردی۔ اور نتیجہ یہ ہے کہ ہر گلی محلے میں رونق لگ گئی۔ بقول حبیب جالب
اس ملک وچ موجاں ای موجاں
جدھر ویکھو فوجاں ای فوجاں
اور آج کل زور صرف ایک بات پر ہے کہ پنجاب میں رینجرز یا ایف سی کی آمد کو کیسے ممکن بنایا جا سکے؟
یہ باہمی سر پھٹول سے ہماری کمزوری کا پوری دنیا میں ڈھنڈورا ہورہا ہے، جس کے نتیجے میں ایک شکست خوردگی ہے جو بحیثیت قوم ہم پر مسلط ہے۔ اس شکست خوردگی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اب ازلی دشمن بھارت کے خلاف کسی بھی سطح پر مزاحمت نہیں ہو پاتی اور قومی مفادات کو طاقِ نسیاں میں رکھ دیا گیا۔
اور پھر یہ ہوا کہ اندرونِ ملک تو قوم کو مکے دکھائے گئے لیکن بھارت کی طرف سے اقوام متحدہ کی قرادادوں کی روح کے خلاف، خطِ متارکۂ جنگ پر خاردار تار لگانے پر بھی کوئی مزاحمت نہیں کی گئی تا کہ بہادر کمانڈو جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کے سُروں میں کوئی خلل نہ پڑے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پاکستان کی طرف دیکھتے ہوئے کشمیری بھی مایوس ہو کر لاتعلق ہو کر بیٹھ رہے ۔ لیکن جب سیاسی حکومت کے آنے پر کشمیریوں کی جدوجہد آزادی میں دوبارہ ایک نئی روح پھونکی جاتی ہے تو صدا کی ڈسی ہوئی (بوزنا ) سیاسی قیادت اسے اپنے خلاف ایک سازش سمجھ کر اچھل کود شروع کر دیتی ہے۔ ظاہر ہے دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے، اور راستے میں پڑی ہوئی رسی کو بھی سانپ ہی سمجھ لیتا ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ مارشل لاء کے دور میں بھارت میں کوئی مجاہدانہ کارروائی نہیں ہوتی لیکن جیسے ہی سیاسی حکومت برسرِ اقتدار آتی ہے تو جہاد ی کارروائیوں کا آغاز ہو جاتا ہے؟ آپ اسے سیاسی قیادت کی کم عقلی، کوڑھ مغزی کہہ کر اس کے سر پر جوتے برسائیے اور گاہے گنتی بھی بھولتے رہیے لیکن یہاں پر تو عقل وشرم سے عاری سیاسی قیادت ہے، وہ سیدھے سبھاو ایک دوسرے کو مودی کا ساتھی، ایجنٹ اور سکیورٹی رسک قرار دے ڈالتی ہے اور اتنے بڑے الزام پر نہ آسمان ٹوٹتا ہے نہ زمین پھٹتی ہے۔
نتیجہ یہ نکلا ہے کہ الزاموں کی اس مقامی تجارت میں مودی کا کام آسان ہو گیاہے۔ پہلے زمانوں میں جب بھارت ہم سے سرحدی چھیڑ چھاڑ کرتا تو پوری قوم یکجان ہو جایا کرتی اور ساری زبانی توپوں کا رُخ بھارت کی طرف ہو جایا کرتا تھا ، لیکن اب ذہنی شکست خوردگی کا شکار، بھارتی فلموں کی لوری سن کر جوان ہوئی ایک پوری نسل، اس طرح کے مواقع پر بھارت کو کوسنے کی بجائے ایک دوسرے پر بڑھ چڑھ کر الزام تراشی شروع کر دیتی ہے کہ یہ سب کچھ تمہاری وجہ سے ہو رہا ہے۔ کیوں کہ تمہارے بھارت میں کاروبار ہیں اس لیے تم کچھ نہیں کرتے۔ یہ وہ کہلوا رہے ہوتے ہیں جنہوں نے خود کچھ کرنا ہوتا ہے لیکن نہیں کرتے یا کر پاتے۔ اور ٹی وی بیٹھ کر بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ’سرجیکل سٹرائیک‘ تو وہ تھی جو امریکا نے ایبٹ آباد میں کی تھی، یہ جو بھارت نے کی ہے وہ سرجیکل اسٹرائیک نہیں تھی۔ یعنی فرق صرف اتنا ہے کہ جو حق ہم نے امریکا کو دے رکھا ہے وہ بھارت کو دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ امریکا کو کیوں اور بھارت کو کیوں نہیں؟ ظاہر ہے امریکی ڈالر دیتے تھے، ارے بھیا تو وہ ڈالر تو اب ملنا بند بھی ہو گئے ہیں، اب تو صرف اس بات پر کام کیا جا رہا ہے کہ اگر ہم نے ان کا کام نہ کیا تو ہم سے اچھا بچہ ہونے کا سرٹیفکیٹ واپس ہو جائے گا ۔ بس صرف اتنی سی قیمت کے عوض ہم نے اپنے گھرکے صحن کو میدانِ جنگ بنا رکھا ہے اور روزانہ اپنے بچوں کے لاشے اٹھاتے ہیں اور دن رات کہتے ہیں کہ ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری جنگ ہے‘‘۔
لیکن جن کو بھارت کے ان حملوں کا جواب دینا ہے وہ ٹویٹر پر بیانات جاری کر کے ’’دشمن کی توپیں چپ کراتے رہتے ہیں‘‘ اور ’’دشمن کی کمر توڑ دیتے ہیں ‘‘ لیکن وہ کیا ہے دشمن ٹوٹی کمر کے ساتھ اگلے دن پھر اپنی توپوں سے بارود اگلنا شروع کر دیتا ہے جو پھر ہمارے لوگوں کی زندگیوں کو چاٹ جاتی ہے۔ ہمارے مقتدر اداروں کو سال 1965اور 1971 کی جنگوں میں ہارے گئے علاقوں کو واپس لینے کا خیال کسی مارشل لائی دور میں نہیں آتا لیکن جیسے ہی سیاسی حکومت ہو تو پھر کارگل ہوجاتا ہے؟ یہ خیال اور اس کی منصوبہ بندی ہمیشہ جمہوری دور میں ہی کیوں یاد آتی ہے؟ یہ کہہ کر سیاسی قیادت ان مقامی عناصر سے الجھ پڑتی ہے اور جب سیاسی قیادت میں خواجہ آصف جیسے نابغے موجود ہوں تو دشمن کو کچھ کرنے کیا ضرورت ہے۔ بے شرمی کی کوئی حد نہیں ہوتی ، بے حیائی کا کوئی مقام نہیں ہوتا، گریس کی کوئی سطح نہیں ہوتی۔
متعلقہ خبریں
نواز شریف اوراسحاق ڈار کو بچانے کی کوششیں
ایچ اے نقوی
-
جمعه 01 ستمبر 2017
سپریم کورٹ سے نواز شریف کی نااہلی اورمریم نواز ،کیپٹن صفدر ،حسن اور حسین نواز کے خلاف ریفرنس عدالت میں جمع کرانے کے حوالے سے نیب کو واضح ہدایات کے باوجود ان محکموں میں موجود نواز شریف کے بعض نمک خوار افسران مبینہ طورپر عدالت کے حکم کی سرتابی کرتے ہوئے اب بھی ان کو سزا سے بچانے کے...
نوازشریف محاذ آرائی کے راستے پر
وجود
-
هفته 12 اگست 2017
سابق وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف وزارت عظمیٰ سے نااہلی کے بعد اسلام آباد سے لاہور کی جانب گامزن ہیں ، جمہوریت ریلی کی قیادت کرتے ہوئے وہ آج گوجرانوالہ سے لاہور روانہ ہوں گے ۔سابق وزیر اعظم نواز شریف گزشتہ روز مقررہ وقت 10بجے سے حسب معمول ڈیڑھ گھنٹہ کی تاخیر سے جہلم کے...
معزز ججوں نے نواز شریف کو گھر بھجوادیا، کیا آپ کو منظورہے؟نوازشریف کا ریلی میں سوال!!!
رانا خالد محمود
-
جمعه 11 اگست 2017
میاں محمد نواز شریف سپریم کورٹ کی جانب سے نا اہلی کے خلاف ریلی لے کر دو روز سے سڑکوں پر ہیں ۔ ان کا قافلہ راولپنڈی سے لاہور کی جانب گامزن ہے، نوازشریف ریلی کے دوسرے روز 12 بجے کے قریب راولپنڈی سے جی ٹی روڈ کے ذریعے لاہور کی جانب روانہ ہوئے، روانگی سے قبل راولپنڈی پنجاب ہائوس میں ...
6 الزامات نواز شریف کا پیچھا کرتے رہیں گے!!!!
شہلا حیات نقوی
-
منگل 08 اگست 2017
نواز شریف سپریم کورٹ سے نااہل قرار دیے جانے کے بعد مسلسل یہ بات دہرارہے ہیں کہ انھیں فخر ہے کہ ان کو کرپشن کے الزام میں نااہل قرار نہیں دیاگیا بلکہ ان کی معمولی سی بے ضرر سی غلطی ان کی نااہلی کاسبب بنی ۔ اس طرح کی باتیں کرکے دراصل نواز شریف اپنے ماتھے پر لگے سیاہی کے داغ کو چھپان...
نواز شریف کے بعد آصف زرداری کی باری !!!
الیاس احمد
-
هفته 05 اگست 2017
ملک میں ایک بھونچال آگیا ہے وزیراعظم کو تاحیات نااہل قرار دے کر گھر بھیج دیا گیا ہے اورعبوری وزیراعظم شاہ خاقان عباسی بنائے گئے ہیں ان کی کابینہ نے حلف بھی اٹھالیا ہے ۔ اب یہ بات بھی واضح ہو چکی ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف وزیراعظم کی دوڑ سے دور رہیں گے اور شاید شاہد خاقان ...
وزیراعظم عہدے سے سبکدوش ، وفاقی کابینہ تحلیل ۔قائم مقام وزیراعظم کا نام طے کر لیا گیا!
وجود
-
جمعه 28 جولائی 2017
عدالت عظمیٰ کی جانب سے نااہل قرار دیے جانے کے بعد وزیراعظم نوازشریف اپنے عہدے سے سبکدوش ہو گئے ہیں جبکہ اس کے ساتھ ہی کابینہ بھی تحلیل ہو گئی ہے۔
مسلم لیگ نون کے ترجمان کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو تحفظات کے باوجود تسلیم کرنے کا عندیہ دیا گیا۔ ترج...
نوازشریف کی سیاسی زندگی کا باب ختم ۔شریف خاندان بتدریج سیاسی کھیل سے باہر ہوجائے گا!
نجم انوار
-
جمعه 28 جولائی 2017
وزیراعظم نوازشریف کو عدالت عظمیٰ کی طرف سے تا حیات نااہل قرار دیے جانے کے بعد اب اُن کی سیاسی زندگی کی کتاب بھی مستقل بند ہو نا شروع ہو جائے گی۔ وہ پاناما پیپرز کے انکشافات کے بعد مسلسل اپنے سیاسی فیصلوں میں ناکام ہوتے چلے گئے اور نوشتہ دیوار پڑھنے میں مسلسل ناکام رہے۔ اُن کے پاس...
پاناما فیصلے پر وزیراعظم کی قریبی رفقاء کے ساتھ مشاورت
وجود
-
جمعه 28 جولائی 2017
پاناما پیپرز کیس کے حوالے سے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا وقت بالکل قریب آپہنچا ہے۔ اور اس حوالے سے وزیراعظم نوازشریف نے اپنے قریبی ساتھیوں اور وزراء سے مشاورت شروع کردی ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف 27 جولائی (جمعرات) کی شام 4 بجے مالدیپ کا دورہ مکمل کرکے نور خان ائیر بیس پہنچے تھے جہاں ...
جے آئی ٹی کے سامنے وزیرا عظم کی پیشی،بیان بازی کابازار گرم
شہلا حیات نقوی
-
هفته 17 جون 2017
وزیراعظم نواز شریف جمعرات کو پاناما پیپرز کے دعوؤں کے مطابق اپنے خاندان کے اثاثوں کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے حکم پر بنائی جانے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سامنے پیش ہوگئے۔وزیراعظم نواز شریف کی فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی آمد کے موقع پر سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات...
وکی لیکس کی ایک بار پھر ٹوئٹ امریکا اور برطانیہ نے نادرا کاریکارڈچرالیا
ایچ اے نقوی
-
جمعه 09 جون 2017
وکی لیکس کی ایک ٹوئٹ ریمائنڈر میں ایک دفعہ پھر یہ دعویٰ کیاگیاہے کہ امریکا اور برطانیہ نے نادرا کاریکارڈچرالیاہے،مقامی انگریزی اخبار میں شائع ہونے ایک خبر کے مطا بق وکی لیکس نے نیشنل سیکورٹی ایجنسی کے حوالے سے انکشافات کے سلسلے میں ایک دفعہ پھر یاد دہانی کرائی ہے کہ امریکا او...
عمران خان کی نتھیا گلی میں مصروفیات‘ پنجاب کی سیاست میں زبردست ارتعاش
انوار حسین حقی
-
هفته 03 جون 2017
پاکستان کو فطرت نے بے پناہ حسن اور رعنائی عطا کی ہے ۔ملک کے شمالی علاقے خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہیں ۔ گلیات میں جھینگا گلی اور نتھیا گلی کے علاقے آب و ہوا اور ماحول کی خوبصورتی کے حوالے سے خصوصی شہرت رکھتے ہیں ۔ موسم گرما خصوصاً رمضان المبارک میں خیبر پختونخوا اور ملک کے دوسر...
بات کرنے سے قبیلے کا پتا چلتا ہے
انوار حسین حقی
-
هفته 03 جون 2017
اُس کی 20 سالہ سیاسی جدو جہد نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ وہم و گمان کا غلام نہیں یقین اور ایقان کا حامل ہے ۔ نااہلی کے خدشات کے شور شرابے میں بھی نتھیا گلی کے ٹھنڈے ماحول میں مطمن اور شاد نظر آ رہا تھا ۔ ہر ملنے والے کا یہی کہنا تھا کہ بے یقینی اور خدشات کے ماحول میں جب ’’ مائنس ون ...