... loading ...
جتنی آنکھیں اچھی ہوں گی میری آنکھیں ہوں گی، جتنے چہرے اچھے ہوں گے میرے چہرے ہوں گے ،اتنی آنکھیں اتنے چہرے کیسے یاد رکھو گے۔ہم روز درجنوں چہرے دیکھتے ہیں ، راستے میں ،بازار میں ،ٹی وی پر روز کتنے ہی نئے چہرے ہمارے سامنے آتے ہیں اور ہم انہیں بھلا دیتے ہیں۔دنیا میں کروڑوں لوگ ہیں ،کروڑوں چہرے ہیں لیکن سب چہرے بھلا کہاں یاد رکھے جا سکتے ہیں۔ لیکن کچھ چہرے ایسے ضرور ہوتے ہیں جو ذہن میں چپک جاتے ہیں ، یاد میں نتھی ہو جاتے ہیں ، خیال میں بس جاتے ہیں۔یہ ہمارے پیاروں کے چہرے ہوتے ہیں، ان لوگوں کے چہرے جن سے ہم بے غرض پیار کرتے یا جو ہم کو بلا کسی سود و زیاں کے چاہتے ہیں۔ایسے چہرے ہی تو یاد رہ جاتے ہیں۔لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی اجنبی چہرہ ہماری توجہ اپنی جانب کھینچ لیتا ہے ،اس چہرے میں کوئی ایسی خاص بات ضرور ہوتی ہے جو ہمیں یاد رہ جاتی ہے۔اور کوئی کوئی چہرہ تو دنیا بھر کی توجہ اپنی جانب کر لیتا ہے،کسی چہرے کو دیکھ کردنیا حیرت کی تصویر بن جاتی ہے۔شربت گل کا چہرہ بھی ایک ایسا ہی منفرد اور جادو اثر چہرہ تھا جس نے دنیا بھر کی توجہ حاصل کرلی تھی۔نیشنل جیو گرافک میگزین کے سرورق پر اس افغان لڑکی کی تصویر1984 میں شائع ہوئی تھی ،فوٹو گرافر میک کری کی کھینچی گئی اس تصویر نے دنیا بھر میں شہرت حاصل کر لی تھی، جنگ زدہ ملک ویسے بھی دنیا بھر کے میڈیا کی خبروں میں تھا ایسے میں شربت گل کی سبز آنکھوں نے دھوم مچا دی تھی۔وہ آنکھیں ایسی ہی تھیں جن میں خوبصورتی ،یاسیت ،فریاد اور امنگ بیک وقت موجود تھی۔نیشنل جیو گرافک میگزین میں شربت گل کی تصویر چھپنے کے بعد دنیا بھر میں اس کی خوبصورت سبز آنکھوں کو سراہا گیا اور کچھ لوگوں نے اس کو افغان مونا لیزا کا خطاب بھی دے ڈالا۔شربت گل کو دوسری بار شہرت اس وقت ملی جب 2002میں فوٹو گرافر میک کری شربت گل کی تلاش میں پشاور پہنچا۔شربت گل 1984 میں کابل سے پشاور کے ایک افغان کیمپ میں ہجرت کرکے پہنچی تھیں۔میک کری نے سبز آنکھوں والی اس لڑکی کی پہلی تصویر بھی پشاور کے مہاجر کیمپ میں لی تھی اور پھر اس فوٹوگرافر نے تقریبا اٹھارہ سال بعد شربت گل کو تلاش کر ہی لیا۔ اس بار بھی شربت گل کی تصویر نے شہرت حاصل کی لیکن اس بار اس تصویر میں بے وطنی، غربت اور بے سروسامانی صاف چغلی کھا رہی تھی۔شربت گل افغانستان سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والے لاکھوں پناہ گزینوں میں سے ایک ہے۔ جو آج پینتیس سال بعد بھی اپنے وطن کے بجائے پاکستان میں مقیم ہیں۔
بدقسمتی سے وطن عزیز افغان مہاجرین کے حوالے سے موثرپالیسی بنانے میں ناکام رہا ہے ،یہاں کسی کو پتا ہی نہیں کتنے افغان مہاجرین پاکستان میں مقیم ہیں ،اور وہ کیمپوں کے علا وہ کہاں کہاں بستے ہیں۔انہوں نے اپنے کاغذات بنائے اور پاکستانی قومیت کے دستاویز حاصل کیے ،اور پھر نہ صرف جائیدادیں خرید یں بلکہ وسیع وعریض کاروبار کے مالک بھی بن گئے۔ لیکن شربت گل تو کوئی کاروبار نہیں کررہی ، نہ ہی اس کی کوئی ملازمت ہے ، گردش افلاک کی ماری سبز آنکھوں میں مستقبل کے خدشات بستے ہیں یا صبح کو شام کرنے کی فکر رہتی ہے۔ شربت گل کی ایک اور تصویر آج کل میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہے ، لیکن یہ تصویر میک کری نے نہیں بلکہ کسی پاکستانی رپورٹر نے پشاور کے کسی تھانے میں کھینچی ہے جہاں شربت گل بند ہے۔ شربت گل کو پاکستانی شناختی کارڈ بنوانے کے جرم میں گرفتار کرلیا گیا ہے۔ اس کا اور اس کے دو بیٹوں کا پاکستانی شناختی کارڈ 17اپریل2014کو ایک ہی روز جاری کیا گیا۔شاید مشہور ہونا ہی شربت گل کا قصور تھا ، ورنہ ایک محتاط اندازے کے مطابق اٹھارہ سے بیس لاکھ افغان مہاجرین پاکستان میں مقیم ہیں ۔ذرائع کہتے ہیں اکثرافغان مہاجرین کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ موجود ہے اور وہ پاکستان میں کاروبار اور ملازمتیں کر رہے ہیں۔ لیکن شربت گل کی سبز آنکھوں کی وحشت یا شائد نحوست نے اب تک اس کا پیچھا نہیں چھوڑا۔۔